• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلمان تاثیر قتل کیس، واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ توہین رسالت کا مقدمہ ہے، سپریم کورٹ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سلمان تاثیر قتل کیس، واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ توہین رسالت کا مقدمہ ہے، سپریم کورٹ
06 اکتوبر 2015

بادی النظر میں ممکن ہے کہ سلمان تاثیر نے قانون کے بارے میں تحفظات بیان کیے ہوں، گستاخی نہ کی ہو، جسٹس آصف سعید سلمان تاثیرکو سزا یافتہ آسیہ بی بی کا دفاع کرنے، ناموس تحفظ رسالت قانون کے بارے ناخوشگوار جملے کہنے پر قتل کیا گیا، وکیل ممتاز قادری


اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت آج منگل کو بھی جاری رہے گی جبکہ ممتاز قادری کے وکیل میاں نذیر اختر نے دلائل میں موقف اختیار کیا ہے کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا اور سزا یافتہ آسیہ بی بی کا دفاع کرنے اور اس پس منظر میں ناموس تحفظ رسالت قانون کے بارے ناخوشگوار جملے کہنے پر قتل کیا گیا وہاں موقع پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں نے ممتاز قادری کے اس اقدام کو درست خیال کرتے ہوئے اس کے خلاف کوئی کارروائی تک نہیں کی دہشت گردی کی دفعہ نہیں لگتی ہے۔

3 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ بادی النظر میں ممکن ہے کہ سلمان تاثیر نے قانون کے بارے میں تحفظات بیان کیے ہوں اور گستاخی نہ کی ہو پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ توہین رسالت کا مقدمہ ہے اس کے بعد باقی دلائل کا جائزہ لیں گے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت بعض لوگوں نے اس کو دیگر عدالتوں کے متوازی قرار دے کر اس کا قیام چیلنج کیا تھا کیا اس قانون کے خلاف بات کرنے والے ججز کے خلاف عذرداری کا مقدمہ درج ہو سکتا ہے قانون پر بات کرنا جمہوری ہے مگر یہاں بات ناموس رسالت کی ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملزم خود کہہ رہا ہے کہ ایک مجلس میں خطاب سے اثر لے کر اس کا ذہن بن چکا تھا کہ وہ یہ اقدام کرے گا۔

وکیل نے کہا کہ وقاص اچھا گواہ تھا 29 گواہ پیش ہی نہیں ہوئے۔
تفتیش میں 11 گواہوں کی بات کی گئی تھی ہمارے پاس اس وقت کا گواہ نہیں تھا۔
وکیل نے ممتاز قادری کا تمام تر بیان پڑھکر سنایا۔
لگتا تھا کہ پراسیکیوشن کو گواہوں نے دباﺅ پر ان کی مرضی کا بیان دیا۔
ممتاز قادری پر جرح کے لئے انہیں طلب نہیں کیا گیا۔

جسٹس آصف نے کہا کہ ایک شخص 28 گولیاں چلاتا ہے باقی لوگ بھی اس کو تحفظ فراہم کرتے ہیں گولیاں چلا کر کام ختم کرتا ہے اسلحہ زمین پر رکھتا ہے اور لیٹ جاتا ہے شک تو پڑتا ہے کہ سب ملے ہوئے تھے

وکیل نے کہا کہ سارے مطمئن تھے مگر ڈر کے مارے بات نہیں کر رہے تھے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ قتل کرنے کا معاملہ تو سب کے سامنے ہوا۔ اس کے پس پردہ کیا محرکات تھے۔

وکیل نے کہا کہ ملزم تو سب کچھ مان چکا ہے

جسٹس آصف نے کہا کہ کون مرا؟ جس نے ایسا کیا ہے اس کی اصل قانونی اور اخلاقی بنیاد کیا تھی کیونکہ ملزم کے بھی حقوق تھے۔ گواہوں نے اپنی حد تک بات کی عینی گواہوں کی گواہی صرف فائرنگ کی حد تک تھی۔

وکیل نے کہا کہ بعض مقدمات میں اچانک کا معاملہ نہیں بھی ہے تب بھی فائدہ دیا گیا ہے۔ ہم نے تو عدالت کو کہا ہے کہ اچانک کا معاملہ ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سزائے موت کا مقدمہ نہیں ہے۔ سوال پھر یہی آ جاتا ہے حقائق اور قانونی وضاحت کیا ہو سکتی ہے شواہد دیکھنا ہوں گے۔ پریس کانفرنس کی اس کا قانونی جائزہ لینا ہو گا۔ ان دو پہلو کے گرد سارا مقدمہ گھوم رہا ہے ان کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ آپ تاریخ بیان کریں گے مگر اس سے قبل حقائق دیکھنا ہوں گے اس کے بعد ہی مذہبی اور دیگر حوالوں سے بات کی جا سکتی ہے۔ اخبارات کی حد تک یہ الفاظ نہیں تھے جس کی وجہ سے مارا گیا۔ اگر ناموس رسالت کی وجہ سے مارا ہے یہ ثابت ہونے کے بعد ہی اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے پہلے تو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ یہ ناموس رسالت کا مقدمہ ہے۔ گواہ نمبر گیارہ نے کہا کہ ملزم اور مقتول فیس ٹو فیس تھے۔ مگر دوسری طرف وہ کہہ رہا ہے کہ ان کے آپس میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی بعد ازاں ملزم خود کو ناموس رسالت کی طرف لے گیا۔

وکیل نے کہا کہ مقتول کے سامنے کے حصے پر زیادہ تر زخم ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں آمنے سامنے تھے۔

شیخ وقاص گواہ کو اس سلسلے میں سرے سے پیش ہی نہیں کیا گیا۔ بعد میں کچھ گولیاں کمر پر بھی ماری گئی تھیں۔ ساری فورس ہے کسی نے کوئی حرکت نہیں کی سب کے پاس اسلحہ ہے کسی نے کوئی مداخلت تک نہ کی تھی 8، 13‘ 15 اور 30 فٹ پر گواہ شیخ وقاص تھا۔ ملزم چاہتا تھا کہ اس کی فائرنگ سے کوئی اور ہلاک نہ ہو صرف سلمان تاثیر ہی نشانہ تھے باقیوں سے اس نے کہا کہ آپ فائر نہ کریں آپ سے ان کی کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اگر کوئی کوشش کرتا تو سلمان تاثیر بچ سکتا تھا جسٹس آصف نے کہا کہ ان گواہوں پر بھی شک تھا کہ وہ ملزم کو بچا سکتے تھے۔

وکیل نے کہا کہ گواہوں نے اچانک فائرنگ کی بات کی ہے اسے دیکھنے کی بات نہیں کی ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ کیا وہ اب بھی نوکری پر ہیں۔

وکیل نے کہا کہ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

جسٹس دوست نے کہا کہ ایک شخص نے 12 گھنٹے اسلام آباد پولیس کو نچائے رکھا۔

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ وہ اب بھی سروس میں ہیں۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

جسٹس دوست نے کہا کہ جہاں تک مارنے کی بات ہے وہ واضح ہے۔ کیون مارا وہ بھی بتلا دیا گیا۔ کیا مقتول نے واقعی بیان دیا تھا کہ جس سے ناموس رسالت کا معاملہ نکلتا ہو۔ کیا قانون کی موجودگی میں کسی بھی شخص کو ناموس رسالت کی وجہ سے مارنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں۔ جسٹس آصف نے کہا کہ گرفتاری کے فوری بعد کوئی ملزم کا بیان ریکارڈ کیا گیا تھا

وکیل نے کہا کہ ٹرائل کے دوران وکیل کو ساری حقیقت بتائی تھی پولیس نے تفتیش میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ مقدمے میں کچھ جھول بھی آ گیا ہے تحریری بیان میں مجلس کی بات کی تھی کہ جوشیلی تقریر سن کر ہی اس نے ذہن بنا لیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ اس واقعے سے کہا گیا کہ خوف پھیلا اور اس کی بنیاد پر دہشت گردی کی شق لگائی تھی

جسٹس آصف نے کہا کہ خوف تو ہر واقعے سے پھیلتا ہے۔ ہر جرم سے خوف ضرور پیدا ہوتا ہے اگر کوئی ریپ ہو جائے‘ کوئی بہیمانہ قتل ہو جائے تب بھی خوف کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ گارڈز کی کمی کی وجہ سے اس کی ڈیوٹی لگائی یہ غلط ہے کہ ڈیوٹی اس کی مرضی پر لگائی گئی۔ ملزم نے جو کچھ کہا باقی لوگ اس سے مطمئن تھے کہ جیسے اس نے یہ سب درست کہا ہے۔ 3 ماہ سے گورنر باتیں کر رہے تھے آخری خطاب کے وقت بھی ایک آیت پڑھی گئی تھی جس پر عدالت نے کہا کہ آپ ریکارڈ کے مطابق بات کریں۔ جب آپ یہ کہہ دیں کہ یہ قانون ہی غلط ہے تو اس بارے معاملات مختلف ہو جاتے ہیں آپ نے اپنی زندگی میں بھی فیصلے کئے ہوئے ہیں عدالت نے کہا کہ اس بارے بھی ضرور سنیں گے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ دہشت گردی کا دور ہے اس حوالے سے بھی ضرور تفتیش کی گئی ہو گی۔ گورنر کو کوئی دہشت گرد بھی تو نشانہ بنا سکتا تھا مگر گواہ کہہ رہا ہے کہ ان کی تسلی ہے کہ یہ اس کا ذاتی فعل تھا۔

وکیل نے کہا کہ مارکیٹ میں کافی رش ہوتا ہے کسی سے بات نہیں کی گئی ہے۔

عدالت نے کہا کہ سب لوگ دیکھ رہے تھے واضح تر معاملات تھے۔

وکیل نے کہا کہ آسیہ بی بی کو سزا سنانے کے بعد یہ سارا معاملہ ہوا تھا۔ ہائی کورٹ میں بہت کچھ کہا گیا تھا اس کی شکل تک بگاڑ دی گئی تھی اپیل کو مناسب طریقے سے فیصلے نہیں دیا گیا۔ شہادت کو چھوڑ دیا گیا اور ہماری باتوں کو بگاڑا گیا۔ شیخ وقاص کو پیش کر دیا جاتا تو معاملات واضح ہو جاتے۔

وکیل نے کہا ناموس رسالت کے قانون کے خلاف بات کرنے پر ہی سلمان تاثیر کو مارا گیا۔ گواہ کہہ رہا ہے کہ گورنر نے یہ کہا تھا۔ عدالت نے کہا کہ پہلے اخباری بیان کے تراشے دیکھ لیتے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبون میں خبر آن لائن نیوز نے جاری کی تھی۔ کیا رپورٹر پر جرح کی گئی تھی

تو بتایا گیا کہ ان پر جرح نہیں کی گئی۔ یہ رپورٹ تو بعد کی ہے جب سلمان تاثیر مارے جا چکے تھے۔ خبر میں ان کے دیگر تقاریر کا حوالہ دے کر کہا گیا تھا کہ وہ پہلے بھی ناموس رسالت قانون بارے بات کرتے رہے تھے۔

خواجہ شریف نے کہا کہ بیان پہلے دیا گیا تھا جس کے بعد سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ حسن چوہدری نے کراچی میں اپنی خبر میں کہا ہے کہ یہ سب وہ پہلے بھی کہتے رہے ہیں۔ 5 جنوری 2011ءکو چھپنے والی خبر نہیں تھی نہ ہی رپورٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ وہاں موقع پر موجود تھے اور انہوں نے یہ الفاط خود سنے تھے۔

23 نومبر 2010ء کو شائع ہونے والی خبر کا بھی جائزہ لیا گیا وکیل نے کہا کہ ایک قانون جو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنایا گیا تھا۔ چاہے وہ آمر ہی کیوں نہ جاری کرے اس کے خلاف بات نہیں کہی جا سکتی۔

جسٹس دوست نے کہا کہ اصل میں شاید سلمان تاثیر قانون کے غلط استعمال کی بات کر رہے تھے وکیل نے کہا کہ آسیہ بی بی نے توہین کی تھی جس کو دی گئی سزا پر تنقید کی تھی اور اس بارے الفاظ کہے تھے یہ بات بذات خود ناموس رسالت کے خلاف جاتی ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ جو قانون حق بنایا جاتا ہے عوامی نمائندے بناتے ہیں عوام الناس کو بھی موقع ملنا چاہئے کہ وہ ان کے پہلوﺅں پر بات کی جائے فوجی عدالتوں کو بھی چیلنج کیا گیا جس نے بھی اس کو چیلنج کیا وہ غدار نہیں کہلایا جا سکتا سب ججوں پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی کسی قانون کو غلط کہنا جمہوری حق ہے۔ یہاں تحفظات کی بات کی گئی ہے حدود آرڈیننس کا کتنا غلط استعمال ہوا۔ 2005ء میں ایک حد یہ بھی آ گئی کہ معاشرے نے اس کو مسترد کر دیا بعد ازاں اس میں ترمیم کر دی گئی اس میں سیف گارڈز دے دیئے گئے جس قانون کو غلط کہا جا رہا ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ ناموس رسالت کے خلاف نہیں۔ لوگوں نے کہا تھا کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتیں ہیں مگر کچھ ججز نے یہ مانا اکثریت نے نہیں مانا۔ 1984ء میں ناموس رسالت قانون 295 سی بنایا گیا تھا اس سے تو لگتا ہے کہ پہلے قانون نہیں تھا اب ہے پہلے گستاخی ہوتی تھی اب نہیں ہو سکتی۔ جائیداد کی خرید و فروخت میں بھی لوگ ایسا کر رہے ہیں پولیس کی مدد سے دو گواہ بنا لیتے ہیں کہ اس نے ناموس رسالت کے خلاف بات کی ہے۔ اس کو کون بچائے گا۔

وکیل نے کہا کہ اس قانون میں 1996ء میں ترمیم آئی تھی۔ بعد ازاں وکیل نے ملزم کا 245 کا بیان پڑھا۔

عدالت نے کہا کہ ملزم کے بیان سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ وہ باقیوں کو بھی خبردار کر رہا ہے کہ اگر وہ بھی کچھ کریں گے تو ان کا بھی یہی انجام ہوتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ وہ فطرت کی بات کر رہا تھا کہ جو بھی اللہ کے نبی کے بارے میں بات کرے گا اس کا انجام اسی طرح سے ہو گا۔

عدالت نے کہا کہ کیا یہ انفرادی اقدام تھا یا پھر اس طرح سے الفاظ بولے جاتے ہیں۔

وکیل نے کہا کہ یہ عام بات کر رہا ہے قدرت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ملزم امریکہ سے بھی ناراض لگتا ہے۔ ہم مطلب اخذ نہیں کر رہے ہیں۔

وکیل نے کہا کہ جو زیادہ بار الفاظ عدالتی فیصلوں میں کہے گئے ہیں آپ بھی اس کے مطابق اس کا جائزہ لیں گے۔ سلمان تاثیر نے 3 شادیاں کیں ایک بھارت میں بھی کی تھی اور سکھ خاتون سے خفیہ شادی کی تھی۔ اس بات کا حوالہ ایک مصنف نے اپنی کتاب میں بھی دیا ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ زنا کی بات کر کے ملزم یہ کہنا چاہتا ہے کہ سلمان تاثیر ایک برا شخص تھا زنا کرتا تھا شراب نوشی کرتا تھا اس بیان سے آپ کا مقدمہ تباہ ہو جائے گا جس سے واضح ہوتا ہے۔ ملزم نے ایک بات نہیں کی اور بھی الزامات لگائے ہیں۔ ناموس رسالت سے معاملہ آگے چلا گیا ملزم نے ساری تاریخ ہی کھول دی

جسٹس دوست نے کہا کہ میٹرک تک پڑھا ہوا سلمان تاثیر کے بیٹے کی کتاب کس طرح سے پڑھ رہا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس سے کیس میں غیر ضروری بات آئی ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اس پیراگراف سے میں ڈسٹرب ہوا ہوں مرنے والے کے خلاف بعد میں ایسی باتیں کیوں کی گئیں۔

وکیل نے کہا کہ اس وقت کے وکیل نے یہ لکھوا دیا ہو گا۔ ملزم تو اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا کتاب بھی انگریزی میں تھی۔ دونوں میں جملوں کا استعمال ہوا تب ملزم نے فائرنگ کر دی۔

عدالت نے کہا کہ جو بات وہ اپنے بیان میں کہہ رہا ہے وہ گواہوں نے نہیں کہی۔ وہاں امتی ہونے اور قانون بارے بات کی گئی ہے مگر اس بیان میں ایسی بات نہیں کی گئی اگر یہاں وہ الفاظ بول دیتا تو بات واضح ہو جاتی۔

عدالت نے کہا کہ تمام گواہ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ مارنے سے قبل سلمان تاثیر اور قادری کے درمیان کچھ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔

وکیل نے کہا کہ یہ سب اچانک ہوا۔

اس پر جسٹس دوست نے کہا کہ وہ تو اپنے بیان میں پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ کسی تقریر سے متاثر ہوا تھا

وکیل کے دلائل جاری تھے مگر عدالتی وقت ختم ہونے کی وجہ سے سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی گئی۔

ح


جاری ہے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سلمان تاثیر قتل کیس، تحفظ ناموس رسالت قانون کسی کو توہین کرنے والے شخص کو کس طرح سزا دینے کی اجازت ہے؟ سپریم کورٹ
07 اکتوبر 2015

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گستاخی کرنے والوں کے خلاف جو حکم دیا یا گستاخوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو سراہا تو آج یہ حکم دینے کا اختیار کس کو حاصل ہے ، کیا فرد واحد یہ اختیار استعمال کر سکتا ہے؛ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس اگر فرد واحد کو اس طرح کے اقدامات کی اجازت دے دی گئی تو پھر معاشرے میں بدامنی پھیل جائے گی، اس قانون کے استعمال میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، 3 رکنی بنچ کے ریمارکس گستاخان رسول کی سخت سے سخت سزا رکھی گئی ہے، ایسے لوگ فسادی ہیں، قرآن میں نبی اکرم کی آواز سے آواز بلند کرنے سے بھی روکا گیا ہے، حکومت ایکشن نہ لے تو اللہ کا اپنا نظام حرکت میں آ کر گستاخوں کو سزا دیتا ہے؛ ممتاز قادری کے وکیل کے دلائل


اسلام آباد (روزنامہ قدرت ۔۔۔۔۔۔۔ 07 اکتوبر 2015 آن لائن) سپریم کورٹ نے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل میں ملوث ممتاز قادری کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت آج (بدھ) تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کے وکیل میاں نذیر اختر کو ہدایت کی ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ تحفظ ناموس رسالت قانون ہونے کے باوجود کسی انفرادی شخص کو توہین کرنے والے شخص کو کس طرح سزا دینے کی اجازت ہے؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گستاخی کرنے والوں کے خلاف جو حکم دیا یا گستاخوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو سراہا تو آج یہ حکم دینے کا اختیار کس کو حاصل ہے ، کیا فرد واحد یہ اختیار استعمال کر سکتا ہے۔ عدالت فتویٰ نہیں دے سکتی تاہم ہائی کورٹ نے آپ کے اسوہ حسنہ کے واقعات کو سنت نہیں مانا تو اس کو فیصلے سے الگ کر سکتی ہے، شرعی فیصلے کیلئے شریعت اپیلٹ بنچ سے رجوع کرنا ہو گا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر فرد واحد کو اس طرح کے اقدامات کی اجازت دے دی گئی تو پھر معاشرے میں بدامنی پھیل جائے گی۔ اس قانون کے استعمال میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ۔

ممتاز قادری کے وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گستاخان رسول کی سخت سے سخت سزا رکھی گئی ہے۔ ایسے لوگ فسادی ہیں نبی اکرم کی آواز سے آواز بلند کرنے سے بھی روکا گیا ہے اس کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بات کرنے والوں کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں۔

جسٹس آصف نے کہا کہ آیت کریمہ اور ترجمہ کے بعد لکھے گئے الفاظ کس کے ہیں کیا یہ کسی عالم کے ہیں

اس پر وکیل نے کہا جی ہاں یہ عالم دین اور مفکر کے الفاظ ہیں۔ وکیل نے ممتاز قادری کا پورا بیان پڑھ کر سنایا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ لوگوں کی زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے راعنا کا لفظ سن کر دکھی ہو گئے اور کہا کہ جس نے یہ لفظ استعمال کیا میں اسے قتل کر دوں گا جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی اور کہہ دیا کہ راعنا نہ کہا جائے بلکہ ”انظرنا“ کہا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انظرنا کا لفظ بھی خود عطا فرما دیا۔ نیت کے ایشو پر ہائی کورٹ میں بحث ہی نہیں کی گئی 8 صفحات لکھ ڈالے یہ شریعت کورٹ کے فیصلے سے یہ الفاظ لیا گیا تھا حالانکہ شریعت کورٹ میں ایشو ہی اور تھا۔ اسلام میں عمر قید کی سزا نہیں بلکہ سزائے موت ہے یہ قانون باقی انبیاء پر بھی قرار دیا گیا ہے اس کے علاوہ کوئی اور فیصلہ نہیں دیا۔

وکیل نے ایک اور آیت کا مفہوم بیان کیا اور کہا کہ بے شک جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں ان کے لئے اللہ نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

وکیل نے کہا کہ اس سزا کا اطلاق صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا کی سزا بھی ہے۔

عدالت نے کہا کہ اس کا اطلاق تو مستقبل کے لئے ہے۔ دنیا کے حوالے سے کیسے اطلاق ہو گا۔

وکیل نے کہا کہ اس کا اطلاق وہاں کے لئے بھی ہے کیونکہ اس لغت کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ سزا سے بھی زیادہ سخت بات ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اس ایت میں اللہ کو تکلیف دینے کی بات ہے۔ بڑی اہم ہے وگرنہ انسان کس طرح سے اللہ کو تکلیف دے سکتا ہے اللہ کی تخلیق اس کو کیسے ایزاء دے سکتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ ملعون جہاں ملیں ان کو قتل کر دیا جائے۔ یہ سزا پہلی امتوں کے لئے بھی مقرر تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ کو فاروق کا لقب ایک ایسے نام نہاد مسلمان کو قتل کرنے پر دیا گیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

جسٹس آصف نے کہا کہ جتنی آیات آپ نے پیش کی ہیں وہ سب آپ کی شان اقدس کے حوالے سے ہیں مگر کسی مفسر نے ان آیات کو ناموس رسالت سے جوڑا ہے۔ یہ انسانی تشریح ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مفسر کا نتیجہ صحیح ہو ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر یہ انسانی تشریح ہے۔ مفسرین کا علم ہم سے ہزار گنا زیادہ ہے ان کی تفسیر سر آنکھوں پر ہے۔

وکیل نے کہا کہ آیت میں کہا گیا ہے جو اللہ کے رسول سے نعوذ باللہ مذاق کرتے ہیں وہ مسلمان ہونے کے باوجود کافر ہو چکے ہیں۔ اللہ اور رسول کی مخالفت کرنے والوں کے لئے سخت عذاب ہے۔ مخالفت کرنے والوں کو قتل کرنے کا حکم ہے۔
حضرت علیؓ نے روایت کی ہے اللہ کے نبی نے فرمایا جس نے انبیاء میں سے کسی کو گالی دی اس کو قتل کر دو صحابی کو گالی دی اس کو کوڑے مارے جائیں۔ قاضی ایاز اندلس کے چیف جسٹس تھے انہوں نے الشفا کتاب لکھی۔

جسٹس آصف سعید نے کہا کہ اللہ نے اپنے نبی کو فیصلے کا اختیار دیا تو انہوں نے قتل کرنے کا حکم دیا یہ اختیار اللہ کے نبی کے پاس تھا موجودہ سوال یہی ہے کہ قانون موجود ہے اپنے ہاتھ میں فیصلہ لے لینا یہ اختیار کہاں سے آتا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے کیا ہر شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو قتل کر دے

وکیل نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے اپنے طور پر ایکشن لیا تھا اگر اللہ کے نبی روکنا چاہتے تو روک دیتے مگر اللہ نے آیت اتار دی اور آپ نے عمر کو فاروق کا لقب عطا فرما دیا۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اس اختیار کی وضاحت تو ہونی چاہئے اگر اس طرح کی اجازت دے دی جائے تو کیا معاشرے میں ہر شخص اپنا فیصلہ اور عمل درآمد شروع کر دے تو معاشرہ خراب ہو جائے گا۔

وکیل نے کہا کہ یہ ایک مفروضہ ہے ہر الگ الگ حالت کے لئے قانون نہیں ہوتا 14 صدیاں گزر گئیں 80 کے قریب ریاست نے سزا دی 40 افراد کو از خود مارا گیا۔ امت کا رویہ یہ ہے عملاً رب کریم خود کنٹرول فرماتا ہے ہر بندے کو اس کی اجازت بھی نہیں دی۔ اہانت کرنے والے کو قتل کرنا مذہبی فریضہ ہے۔ ریاست فوری طور پر کارروائی کرے تو بہتر وگرنہ اللہ نے اپنا ایک نظام رکھا ہے ایک سبب بنا اور ممتاز قادری نے یہ قتل کر دیا۔

عدالت نے کہا تھا کہ اگر آپ کو اجازت دیں تو قیاس ہو گا۔ حالانکہ اس کی اجازت 14 صدیاں قبل دے دی تھی۔ کئی لوگوں کو انفرادی طور پر مارا گیا تھا۔

جسٹس دوست نے کہا کہ کیا یہ سب آیات مدنی ہیں اگر یہ مدنی ہیں تو اس وقت منافقین کی تعداد زیادہ تھی۔ 4 بڑی ایک چھوٹی جنگ بھی لڑی گئی اس کے بعد میثاق ہو گیا صلح حدیبیہ ہو گیا۔ قانونی اہمیت بھی دیکھنی ہو گی۔ مفتی اور مفسر نے جتنی باتیں کہیں ملزم کو خود معلوم نہ تھیں یہ باتین ان کو لکھ کر دی گئیں۔ کیا ملزم کو یہ علم حاصل تھا کہ جس کی بناء پر اس نے کارروائی کی۔

جسٹس دوست نے کہا کہ یہ تو قدرتی ہے ہم رسول اللہ کی شان کے خلاف کس طرح کوئی بات برداشت کر سکتے ہیں قرآن مجید میں آپ کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ وقوعے کے وقت ملزم کے پاس یہ علم نہیں تھا۔

وکیل نے کہا کہ بنیادی علم تو حاصل تھا۔ دعوت اسلامی کے درس سنتے تھے جس کو بعد میں دعوت اسلامی نے تسلیم نہیں کیا۔ بحرین میں ایک چرچ تھا اس کے قریب بچے ہاکی کھیل رہے تھے گیند پادری کو لگ گئی وہ غصے ہو گئے انہوں نے گیند دینے سے انکار کر دیا۔ بچوں نے آپ کا واسطہ دیا مگر پادری نے گستاخی شروع کر دی جس پر بچوں نے ان کو لکڑیوں سے مار دیا۔ حضرت عمرؓ کے روبرو قصاص دیت کا مطالبہ کیا تو آپ نے مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ بچوں کے اقدام سے بہت خوش ہیں اتنی جنگ کی فتح سے خوش نہیں ہوئے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ جو جرم امریکہ میں کر رہا ہے یہاں تو لوگوں کو سزا نہ دی جائے۔ لوگ اس طرح کے معاملات میں جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔

جسٹس آصف نے کہاکہ آپ کی نظر میں بہت سے واقعات گزرے ہوں گے کہ فلاں شخص نے توہین کر دی لوگ اکٹھے ہو گئے گھر جلا دیتے ہیں بوٹیاں نوچ لیتے ہیں کیا ہر ایک کو لائسنس حاصل ہے کہ وہ جو مرضی آئے کرتا پھرے۔ اللہ نے بلا تحقیق کے بات آگے پھیلانے سے روکا ہے۔ ممتاز قادری کے پاس کیا اطلاع تھی کہ سابق گورنر نے گستاخی کی تھی سب چیزیں دیکھی تھیں۔ اگر اس کے پاس ٹھوس معلومات نہیں تھیں کیا ہر شخص کے پاس لائسنس ہے کہ بات درست پہنچے یا غلط کیا اس کو قتل کرنے کا اختیار ہے۔

وکیل نے کہا کہ اگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے تو شاید اس کی ضرورت نہ تھی

عدالت نے کہا کہ کیا کسی نے ریاست سے رجوع کیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ پہلی ریاست کی ذمہ داری ہے اگر وہ نہیں کرتی تو کوئی اور اقدام کرتا ہے تو اس کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی اس کو رہا بھی کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ ریاست کے اہم تین ستون ہیں انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ ہیں۔ کیا کسی عدالت سے رجوع کیا گیا۔

وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ عدالت نے کہا تھا گورنر کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہو سکتا تھا اس کے خلاف نظرثانی درخواست دائر نہیں کی گئی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ ایک سیکیورٹی ادارے کا ملازم کو تو قانون بھی پتہ ہے وہ بھی رجوع کر سکتا تھا۔

جسٹس دوست نے کہا کہ گورنر اگر جیل گیا تھا اس وقت تو چند لوگ ساتھ ہوں گے۔ آمر نے قانون شہادت نافذ کیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ پریس کانفرنس کی گئی تھی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اس کو سماعت میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اینٹوں کے بھٹے میں شادی شدہ جوڑے کو جلا دیا تھا آپ نے کہا کہ چند مقدمات ہیں 40 مقدمات سے زائد ہیں کئی مقدمات تو رپورٹ نہیں ہوئے۔ کئی مقدمات کو ہم نے خود ڈیل کیا ہوا ہے جائیداد کے تنازعے پر بھی توہین کا الزام لگوا کر ایک شخص کو سزائے موت دلوائی گئی بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک صوبے کا گورنر ہے۔ قانون کے غلط استعمال بارے وہ اپنے تحفظات بیان کر سکتے تھے۔

وکیل نے کہا کہ انہوں نے الفاظ بولتے ہوئے احتیاط نہیں کی بہت آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے ان الفاظ کی تردید تک نہیں کی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ ہم نے ہر ایک چیز کا جائزہ لینا ہے کہ اگر کیس کا یہ فیصلہ کیا تو اس کے یہ نتائج ہوں گے اور اگر یہ کیا تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ آپ نے جتنے واقعات بیان کئے ان میں گواہ موجود تھے۔ موجودہ واقعہ کو اس کے ساتھ کیسے نسبت دی جا سکتی ہے اللہ کے رسول کا اللہ سے براہ راست تعلق تھا۔ ہم تو گناہگار ہیں لیڈی ڈاکٹر نے نرس کے کاروبار سے تنگ آ کر اس کو بھی اس طرح کے مقدمے میں پھنسایا۔ بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

وکیل نے کہا کہ اللہ نے اپنی اطاعت بھی رسول اللہ کی اطاعت سے مشروط کی ہے۔ بعض مقدمات میں آپ نے معاف بھی فرمایا مگر ان کے وصال کے بعد کس طرح معافی دی جا سکتی ہے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ ریاست کی عملداری چھوڑ کر ہر شخص کو اجازت دے دیں تو فساد پھیل جائے۔ ہمارے ہاں بھی فرقہ بندی ہے اسی طرح سے معاشرے میں بھی تفریق آ چکی ہے اب قائد اعظم کا پاکستان نہیں رہا۔ جب ملک بنا تھا سب ان کے پرچم تلے جمع تھے۔ اب ایسا نہیں ہے غیر مسلم کو پھنسانے کے لئے اس کا غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ قانون کے غلط استعمال کا معاملہ الگ ہے۔ تاہم قانون و سنت سے بنائے گئے قانون کے بارے کوئی کس طرح سے یہ الفاظ بول سکتا ہے۔ تمام مسالک نے اس کو غلط قرار دیا۔ سیکیورٹی گارڈ کو آخر کیسے یہ جرات ہوئی، سیکیورٹی گارڈ نے آخر کیوں اس کو مارا، کسی نے اس وقت ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

جسٹس دوست نے کہا کہ وقوعے کے وقت باقیوں کا خاموش رہنا اس کے حق میں رہنا ہے یہ ہم نے نوٹ کیا ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ اللہ کے نبی تو حاکم بھی ہیں ان کی مثالوں کو کیسے اپنایا جائے۔ آج کون حکم کرے گا؟

وکیل نے کہا کہ پہلی ذمہ داری ریاست کی ہے۔

جسٹس دوست نے کہا کہ حکومت کا مفتی اعظم مقرر ہونا چاہئے اس فتوے پر عمل ہونا چاہئے وہ نہ ہو تو پھر قاضی کے سامنے پیش کر کے اس کو سزا دی جاتی۔ اگر ریاست کچھ نہیں کرتی تو پھر کیا ہو گا؟

جسٹس آصف نے کہا کہ آپ کے قول و فعل سے معاملات سامنے آ چکے ان کو ہم حق اور سچ سمجھتے ہیں۔

جسٹس دوست نے کہا کہ آپ ایک الگ سے اسلامی بورڈ بنانے کے لئے ریاست سے رجوع کیا جائے جو حکومت کے اثرات سے باہر ہو وہی اس طرح کے معاملات کا فیصلہ کرے۔ اس حوالے سے قانون میں ترمیم کی جاتی۔

وکیل نے کہا کہ ہم نے جو سرکار کی جو مثالیں دی ہیں ان کو ہائی کورٹ نے اسوہ حسنہ اور سنت نہیں مانا

عدالت نے کہا کہ ہائی کورٹ کو اس کا اختیار نہیں تھا اور یہ اختیار صرف وفاقی شرعی عدالت کو ہے آرٹیکل 203 (G-G) کے تحت ہائی کورٹ اس بارے فیصلہ نہیں دے سکتی تھی۔

جسٹس آصف نے کہا کہ شریعت بارے تو کچھ نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی میرا یہ دائرہ کار ہے فوجداری مقدمے کی حد تک فیصلہ کرنا ہمارا فریضہ ہے ہم صحیح سے صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے شریعت کے فتوے نہیں دے سکیں گے۔ ملزم نے ایک مجلس میں شرکت کی تھی اس کا بھی حوالہ دیا تھا۔ ملزم کے جذبات کو دیکھتے ہوئے آج کے معاشرے کی سکیم میں کہاں فٹ کر سکتے ہیں ہم نتیجہ پر جانا چاہتے ہیں فتویٰ اگر مانگیں گے تو یہ غیر موثر ہو گا۔ اسلامی پوزیشن پر تعلیم نہیں دے پائیں گے اس کے لئے آپ کو شریعت اپیلٹ بنچ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ آپ اپنے دلائل بھی مکمل کریں۔

ح


جاری ہے

 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سپریم کورٹ نے سلمان تاثیر قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ سنا دیا
28 اکتوبر 2015

اسلام آباد (روزنامہ قدرت ۔۔۔۔۔۔ 28 اکتوبر 2015) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ توہینِ رسالت کے قانون میں بہتری یا اصلاح کا مطالبہ کرنا قابل اعتراض نہیں ہے اور اس کا مقصد جھوٹے الزامات کے حوالے سے اس قانون کے غلط استعمال سے حفاظت کرنا ہے۔


سابق وزیراعلیٰ پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس پر تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ توہین رسالت کے قانون (پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی) میں اصلاح کا مطالبہ کرنا کوئی غلطی نہیں ہے اور اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اس کا مقصد نامزد فرد کے خلاف اس قانون کے غلط استعمال سے روکنا ہے۔

خیال رہے کہ رواں ماہ 7 اکتوبر کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ایلیٹ فورس سے تعلق رکھنے والے ملک محمد ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے یکم اکتوبر 2011 کو سنائی جانے والی سزائے موت کو بحال رکھا تھا۔

ممتاز قادری نے 4 جون 2011 کو اسلام آباد میں مبینہ طور پر توہین رسالت کے مرتکب سلمان تاثیر کو فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔ سپریم کورٹ میں وفاق کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی تھی جبکہ ممتاز قادری کی جانب سے ان کے وکیل میاں نظیر اختر نے بھی ایک اپیل دائر کر رکھی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے تحریر کروائے جانے والے 39 صفات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ توہین رسالت کا ارتکاب غیر اخلاقی اور قابل نفرت ہے، تاہم جھوٹا الزام لگانا بھی برابر کا جرم ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اگر اسلام توہینِ رسالت کرنے والوں کے حوالے سے بہت سخت ہے تو ساتھ ہی ساتھ جھوٹے الزامات لگانے والوں کو بھی مجرم قرار دیتا ہے۔ اس میں ریاست کو اس بات کو یقینی بنانے کا بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی بے قصور فرد توہینِ رسالت کے حوالے سے جھوٹے مقدمے اور تفتیش کا سامنا نہ کرے۔

ح
 
Top