باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
سچی اسلامی اخوت کے احیاء کے لیے پیہم کوشش کی سخت ضرورت ہے تاکہ امت کی سبھی جماعتیں اور طبقے
پر ہر چیز سے بلند ہو کر ایک ہو جائیں۔
- اللہ کے دین کی اعانت و محبت ،
- اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دوستی
علماء و مبلغین کا فرض ہے کہ اپنی دعوت و تبلیغ کی قدر و قیمت کا اندازہ کریں کیونکہ
مجتہدین کی تو یہ شان ہی ہے کہ ان میں اختلاف ہو۔ ان کا یہ اختلاف تعصب اور جانبداری کے بغیر بہرحال قابل قبول ہے۔ اس اختلاف کے سبب نفاق اور عداوت کے بیج نہیں بوئے جانے چاہئے۔ تنقید کا حق یہ ہے کہ ناقد حق کو اپنے اندر محدود نہ سمجھے۔
- حقانیت کسی ایک مسلک میں محدود نہیں ہے اور
- اختلافِ رائے کو لڑائی اور غصے کا باعث نہیں ہونا چاہئے
صحیح راہ اور بالغ نظری کے لیے واجب ہے کہ علماء و مبلغین "اہم اور افضل" کی ترتیب کے لیے اولویات کے بارے میں اپنے اپنے طریقوں پر نظرثانی کریں ، کیونکہ سنت ، واجب کے ماسوا ہے اور مکروہ حرام سے کمتر ہے۔
لوگوں میں کچھ محدود فکر ، تنگ ادراک ، نادان اور کم علم لوگ بھی ہیں جن کے میزانِ عقل میں خلل کے باعث ان کے نزدیک یہ "اولویات" مشتبہ ہو جاتی ہیں اور بسا اوقات ایسے لوگ کسی عالم یا کسی جماعت کی رائے کی حمایت میں بدترین جانبداری اور دشمنانہ تعصب پر اتر آتے ہیں۔
اس کے برخلاف ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو
یہاں تک کہ وہ نصیحت ، حسن ظن اور لوگوں کی قدر شناسی کے فرض کو سمجھے بغیر غیبت ، تنقیص اور عیب جوئی میں پڑ جاتے ہیں۔
- تنقید میں غلو سے کام لیتے ہیں اور
- بحث و مناظرہ میں شیطنیت پر اتر آتے ہیں
ہمارا خطاب صاحبِ علم و فکر علماء و طلباء سے یہ ہے کہ
کسی مجتہد پر بےوجہ اعتراض کرنا یا اس کی تنقیص کرنا علم کے باب میں ناپسندیدہ ہے۔
- قضیئے اور مسائل مثبت بحث کی بساط پر رکھے جائیں اور
- ہر مجتہد کی رائے کا (خواہ مخطی ہو یا مصیب) احترام کیا جائے
- کسی مجتہد کی چوک اس کی آبروریزی کا جواز پیدا نہیں کرتی ،
- نہ ہی کسی بےعیب یا برے شخص کی عیب جوئی مناسب بات ہے اور
- نہ لوگوں کو متہم اور بدنام کرنے کی نفسیات پسندیدہ ہے۔
بالا اقتباسات ایک مختصر کتابچہ "ادبُ الخلاف" (اردو ترجمہ : "سلیقۂ اختلاف") سے لیے گئے ہیں۔ سابق امام و خطیب مسجد الحرام ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید کی یہ تالیف دراصل ان کا ایک خطاب ہے جو 28-ربیع الثانی-1410ھ (نومبر-1989ء) کو جامع ام القریٰ (مکہ مکرمہ) میں دیا گیا تھا۔ یہ اتنا مفید و موثر خطاب تھا کہ دنیا بھر کے مختلف مقامات سے اس کے متعدد عربی ایڈیشن شائع ہوئے۔یہ افسوس ناک امر ہے کہ نقطۂ نظر کا اختلاف شخصی عناد اور تباہ کن نفسانیت میں تبدیل ہو جائے۔ اور رونا تو اس بات کا ہے کہ ایک چھوٹے سے مسئلے کا اختلاف ، اصول اسلام اور دینی قواعد میں الزام تراشی تک جا پہنچے۔
بحث و مناظرے میں بےادبی یہ ہے کہ مسلمانوں بالخصوص علماء و مبلغین کی عزت و آبرو پر دست درازی کو جائز بنا لیا جائے۔ پھر عیب جوئی اور نکتہ چینی کی روش کو اپنا کر معمولی سی درست خیالی کے سبب کثرتِ ظن کی پیروی کی جانے لگے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر عالم کی رائے اخذ و مواخذہ کے قابل ہے۔
لیکن ۔۔۔
درج ذیل دو صورتوں میں بہت بڑا فرق ہے :
- کسی ایسے مسلمان عالم پر تنقید جسے علم اور دعوت و تبلیغ میں دسترس حاصل ہو اور امت پر اس کا اچھا اثر ہو
- کسی ملحد ، خودغرض کافر یا حاسد مستشرق کی تردید
ادارہ ھما للثقافۃ والاعلام (مئو ناتھ بھنجن ، اترپردیش ، انڈیا) کی جانب سے اس کا اردو ترجمہ سن 1992ء میں شائع کیا گیا ہے۔
- اختلاف اور اس کی صورتیں
- لوگوں کی زندگی میں اختلاف کے وقوع پذیر ہونے کا ذکر
- باب اختلاف کے کچھ آداب و قواعد
- صحابہ و سلف الصالحین کے آدابِ اختلاف کے کچھ نمونے
***
کتاب کا نام : سلیقۂ اختلاف
مولف : ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید
اردو ترجمہ : ادارہ ھما للثقافۃ والاعلام (مئو ناتھ بھنجن ، اترپردیش ، انڈیا)
پی۔ڈی۔ایف فائل صفحات : 61
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم : قریباً 1.5 میگا بائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک : The Etiquettes of Difference of Opinion