کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
سندھ میں علمِ حدیث
قرونِ وسطیٰ کے آخر میں سندھ میں بہت سی علمی شخصیتیں اُبھریں،
شیخ عبداللہ بن سعد اللہ سندھی،
شیخ رحمت اللہ سندھی،
طاہر بن یوسف (۱۰۰۴ھ)،
مولانا عثمان سندھی، شارح صحیح البخاری (۱۰۰۸ھ)،
شیخ عیسیٰ بن قاسم سندھی (۱۰۳۱ھ) سے کون واقف نہیں؟
شیخ ابوالحسن سندھیؒ (۱۱۳۸ھ) وسیع النظر آزاد خیال عالم تھے، جن کے حاشیے صحاحِ ستہ کی تقریباً سب کتابوں پر موجود ہیں، شیخ محمد حیات سندھی آپ کے شاگرد تھے،
شیخ خیرالدین سورتیؒ (۱۲۰۶ھ) نے شیخ محمدحیات سندھی سے حدیث پڑھی اور پھر سورت میں نصف صدی تک حدیث پڑھاتے رہے، آپ کے مدرسہ کا نام "مدرسہ خیریہ" تھا۔
سندھ کے مخدوم عبدالواحد سیہوانی (۱۲۲۴ھ) بڑے عظیم المرتبت محدث تھے، آپ کی تالیفات "الازہار المتناثرہ فی الاخبار المتواترہ" اور "الاربعین فی فضل المجاہدین" معروف ہیں۔
ٹھٹھہ اور بوبک سندھ کے عظیم علمی مرکز رہے ہیں،
محدثِ سندھ مولانا محمد ظاہر برہانپوری،
مولانا محمدعثمان بوبکانی،
قاضی عبدالسلام سندھی ان علاقوں کے مشہور علماء میں سے ہیں،
شیخ رحمت اللہ سندھی کی علمی شان جاننے کے لیے یہی کافی ہے کہ حضرت ملا علی قاری جیسے محدث نے اِن کی بعض کتابوں کی شرحیں لکھی ہیں"وکفیٰ بہ فضلاً وفخراً"
پیر جھنڈا کا قدیمی کتب خانہ سندھ کے علمی مرکز کی منہ بولتی تصویر ہے؛ یہاں کچھ خاندانی اختلافات ہوئے؛ مگر معلوم نہیں انہوں نے بلاوجہ کیوں مسلکی اختلاف کی شکل اختیار کرلی؟ سندھ کی علمی مرکزیت کا یہ ایک سانحہ ہے۔
حضرت پیر راشد اللہ شاہ (صاحبِ علم اول) کے خاندان میں راشد اللہ شاہ سجادہ نشین کے دو بیٹوں ضیاء الدین شاہ اور احسان اللہ شاہ میں باپ کی جانشینی پر اختلاف چلا
اہلیت میں پیر ضیاء الدین آگے تھے؛
مگرمریدوں کے پاس آنا جانا احسان اللہ شاہ کا تھا،
فریقین میں طے پایا کہ اس اختلاف میں دیوبند کا فتویٰ حاصل کیا جائے،
دیوبند کا فیصلہ ضیاء الدین شاہ کے حق میں ہوا، جس پر حضرت مفتی عزیرالرحمن صاحب اور حضرت مولانا انور شاہ صاحبؒ کے دستخط تھے،
احسان اللہ شاہ بگڑ کر دیوبند کے خلاف ہو گیا اور اس کے دو لڑکے محب اللہ اور پیر بدیع الدین غیرمقلد ہو گئے،
گدی پر پیر وہب اللہ شاہ راشدی ہیں، یہ حضرت دیوبندی مسلک کے ہیں۔
ح
جاری ہے