- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
سوشل میڈیا تحقیقی سنٹرز
معاشرے کے اندر افتاء کے مراکز ، تحقیقی سنٹرز کم نہ ہوں گے ، کہ جہاں کوئی بھی جاکر براہ راست اپنا مسئلہ پیش کرکے شرعی رہنمائی لے سکتا ہے ۔
آن لائن ویب سائٹس بھی بہت زیادہ ہیں ، جہاں سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں ۔
ان چیزوں کو ذہن میں رکھ کر ، اب ایک دوسرے پہلو پر توجہ دیں :
دن میں کتنے ہی پیغامات ، تحریریں ، اور و عظ و نصیحت پر مشتمل گرافکس اور پوسٹرز ہماری اور آپ کی نظروں سے گزرتے ہیں ، جن میں نہ قرآن کی آیت ، نہ احادیث کا حوالہ ، نہ مستند کتابوں کا تذکرہ .
اگر آپ اور میں انہیں تحقیق کے لیے کسی جگہ نہیں بھیجتے ، تو سمجھیں ایسی تحریریں پڑھنے والی اکثریت ہمارے جیسے ہی ہیں ، جو دھڑأ دھڑ کہہ لیں یا ٹکا ٹک انہیں آگے ارسال کرتے جاتے ہیں ، ٹکا ٹک اس لیے کہا : واٹس ایپ وغیرہ میں آپشن آگیا ہے کہ آپ کو اب الگ الگ گروپوں اور نمبروں پر کچھ ارسال کرنے کے لیے علیحدہ علیحدہ زحمت نہیں کرنی پڑتی ، بلکہ ایک ہی دفعہ سب پر ٹک کریں ، اور’ ارسال ’ یا ’ سینڈ ’ کا چابک رسید کریں ، اس کے بعد آپ کی ذمہ داری ختم تحریرخود بخود ’ ٹکا ٹک ’ گھوڑے کے ٹاپوں جیسی آواز نکالتے ہوئے ہر فرد اور مجموعے میں پہنچ جائے گا ۔
اکثریت تو ایسے ہی کرتی ہے کہ بلا تحقیق ’ فارورڈ ’ ۔
کچھ ذرا تحقیقی مزاج (!) کے لوگ ہوتے ہیں ، جو ساتھ بعض الفاظ کا اضافہ بھی کردیتے ہیں :
کیا یہ درست ہے ؟ کیا اس میں موجود تمام مسائل صحیح ہیں ؟ کیا اس میں بیان کردہ تمام احادیث صحیح ہیں ؟ کچھ زیادہ گہرے ہوتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : برائے مہربانی اس تین کلومیٹر لمبی پوسٹ میں سے صحیح اور غیر صحیح نشان زدہ کردیں ، بہت مہربانی ہوگی ۔
اور ایسا کرنے والوں میں سے تیس پینتیس فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جو خود مسئلہ دیکھ سکتے ہیں ، پاس پڑی ہوئی کتاب کھول کر پرکھ سکتے ہیں ، یا گوگل وغیرہ کے ذریعے درست معلومات جان سکتے ہیں ،،،، لیکن مصیبت یہ ہے یہ نازک مزاج اتنی زحمت اٹھانا نہیں چاہتے ، بھلا جتنی دیر کتاب کھولنے میں لگانی ہے ، یا کچھ تلاش کرنے میں لگانی ہے ، اتنی دیر میں بندہ دو چار پوسٹیں آگے بھیجے !!!
اور کئی ایسے ’ با حیا ’ ہوتے ہیں ، کھل کر کہتے ہیں یار : مسئلہ تو میں بھی دیکھ سکتا ہوں ، لیکن بس مصروفیت بہت ہے ، یا ’ مجھے علم ہے ، فلاں کتاب میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے ، لیکن سوچا زحمت نہ ہی اٹھانی پڑے ’’
خیر یہ ایک منفی رویہ الگ سے ہے ( اس پر پھر کبھی تفصیل سے )
جو لوگ تحقیق کے لیے آگے سینڈ کردیتے ہیں ، وہ بھی سینڈ کرکے بھول جاتےہیں ، اور جن کو سینڈ کیے ہوتے ہیں ، انہیں فورا علم لدنی آجائے یا گوگل ریسرچ میں کچھ پھنس جائے تو چار لفظوں کا تبصرہ اس پر کرکے ، جان چھڑاتے ہیں ، یا کم از کم سائل کو جہالت یا کم عقلی وغیرہ کا کھلے یا دبے لفظوں میں تمغہ دیکر چپ کروادیتے ہیں ، لیکن مسئلہ جوں کا توں باقی رہتا ہے ۔
کئی ایک علماء ایسے بھی ہیں ، جو ہر ہر مسئلہ کی تحقیق کرتے ہیں ، اور اس کا بہترین اور مناسب جواب بھی دیتے ہیں ( جزاہم اللہ خیرا ) ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے علماء کتنے ہیں ؟ اور جو چیزیں قابل تحقیق ہیں ، وہ کتنی ہیں ؟ اور اس طرح روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر قصے کہانیوں کا کس قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے !
چند دن پہلے ایک پوسٹ آئی تھی ، اس کے اندر کوئی 35 ، 40 باتیں بلاحوالہ اس انداز سے کی گئی تھیں کہ اگر ان کی مکمل تحقیق کی جائے تو کم از کم ایک ہفتہ ضرور لگے گا ۔
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ اس طرح کے سوالات و جوابات جن لوگوں کو ارسال کردیے جاتے ہیں ان میں 99 فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جن کی اپںی مصروفیات ، ضروریات اور حوائج ہوتی ہین ، اور اس طرح کے سوالات کے جوابات اور احادیث کی تحقیق وغیرہ انہوں نے ’ چونگے ’ میں کرنی ہوتی ہے ، مطلب اگر وقت مل گیا تو کچھ کر لیا ، نہیں تو رہ گیا ۔
ضرورت اس امر کی ہے ، کہ اب دار الافتاؤں اور تحقیقی مراکز کو ایک نئی جہت دی جائے ، اور خالصتا سوشل میڈیا پر پھیلتی ہوئے جہالت کے اندھیروں کو کم کرنے کے لیے ایسے لوگ مختص کیے جائیں ، جن کا کام صرف اور صرف سوشل میڈیا پر لوگوں کے سوالات کے جوابات ہوں ، بلکہ کوئی سوال کرے نہ کرے ، جتنی بے سرو پا باتیں گردش کرتی نظر آئیں ، انہیں اس کا فورا جواب اور تحقیق اس انداز میں پیش کرنی چاہیے کہ اگر صبح کوئی پوسٹ نظر آئی ہے تو شام تک اس کی حقیقت سوشل میڈیا پر پھیل جانی چاہیے .
ایسے لوگوں کو باقاعدہ معقول معاوضہ دینا چاہیے کہ تاکہ وہ اس کام کو ’ چونگے ’ میں کرنے کی بجائے فل ٹائم ڈیوٹی اور مکمل ذمہ داری سمجھ کر کریں ۔
باقاعدہ ایسے لوگ ہوں ، جو ہر روز سوشل میڈیا پر گردش کرتی معلومات پر نظر رکھیں ، اور ان میں سے جو کچھ بھی تحقیق کا محتاج ہو اسی دن اس کی تحقیق کرکے اسی زور شور بلکہ اس سے بھی پڑھ کر پہیلا دیا جائے ، جس طرح ایک غیر مستند بات پھیل رہی ہوتی ہے ۔
إن شاءاللہ ، بہت جلد سوشل میڈیا پر جہالت پر مبنی ، من گھڑت ، اور بے سروپا باتوں کی بجائے علم و تحقیق اور مستند معلومات کا غلبہ ہوگا .
ورنہ فی الوقت جو صورت حال ہے ، ہر آنے والے دن میں بدعات و خرافات بڑھ رہی ہیں ، جبکہ حقائق اور درست باتیں ان کے ڈھیر تلے دبتی جارہی ہیں ۔
علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اس طرف توجہ کریں ، آب کے فتوی سنٹر میں وہی آئے گا ، جسے بیوی ہاتھ جاتی نظر آرہی ہوگی ... باقی نماز کے مسائل اورغسل کے فرائض میں لوگ آپ کے پاس کیا .. آپ کی لکھی کتاب کھولنے کی بھی فرصت نہیں پاتے ، جو سوشل میڈیا میں چل رہا ہے ، وہی بہت ہے ۔ زیادہ سے زیادہ گوگل کو زحمت دے لیں گے ، لیکن گوگل کیا کرے ، اس میں اگر آپ کچھ لکھیں گے نہیں تو سرچ میں کہاں سے آجائے گا ؟
اصحاب الخیر اور پیسوں والی آسامیاں ، جو دین کے رستے میں خرچ کرنا چاہتے ہیں ، وہ بھی اس پہلو پر غور کریں ، سنٹر بنائیں ، سہولیات کا انتظام کریں ، لا کر علماء کو بٹھائیں ، اگر اخلاص ہوا تو یہ کام دین و دنیا دونوں میں کامیابی و کامرانی کا باعث بنے گا .. إن شاءاللہ .
Last edited: