• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوشل میڈیا تحقیقی سنٹرز ۔۔۔ اہم ضرورت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سوشل میڈیا تحقیقی سنٹرز

معاشرے کے اندر افتاء کے مراکز ، تحقیقی سنٹرز کم نہ ہوں گے ، کہ جہاں کوئی بھی جاکر براہ راست اپنا مسئلہ پیش کرکے شرعی رہنمائی لے سکتا ہے ۔
آن لائن ویب سائٹس بھی بہت زیادہ ہیں ، جہاں سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں ۔
ان چیزوں کو ذہن میں رکھ کر ، اب ایک دوسرے پہلو پر توجہ دیں :
دن میں کتنے ہی پیغامات ، تحریریں ، اور و عظ و نصیحت پر مشتمل گرافکس اور پوسٹرز ہماری اور آپ کی نظروں سے گزرتے ہیں ، جن میں نہ قرآن کی آیت ، نہ احادیث کا حوالہ ، نہ مستند کتابوں کا تذکرہ .
اگر آپ اور میں انہیں تحقیق کے لیے کسی جگہ نہیں بھیجتے ، تو سمجھیں ایسی تحریریں پڑھنے والی اکثریت ہمارے جیسے ہی ہیں ، جو دھڑأ دھڑ کہہ لیں یا ٹکا ٹک انہیں آگے ارسال کرتے جاتے ہیں ، ٹکا ٹک اس لیے کہا : واٹس ایپ وغیرہ میں آپشن آگیا ہے کہ آپ کو اب الگ الگ گروپوں اور نمبروں پر کچھ ارسال کرنے کے لیے علیحدہ علیحدہ زحمت نہیں کرنی پڑتی ، بلکہ ایک ہی دفعہ سب پر ٹک کریں ، اور’ ارسال ’ یا ’ سینڈ ’ کا چابک رسید کریں ، اس کے بعد آپ کی ذمہ داری ختم تحریرخود بخود ’ ٹکا ٹک ’ گھوڑے کے ٹاپوں جیسی آواز نکالتے ہوئے ہر فرد اور مجموعے میں پہنچ جائے گا ۔
اکثریت تو ایسے ہی کرتی ہے کہ بلا تحقیق ’ فارورڈ ’ ۔
کچھ ذرا تحقیقی مزاج (!) کے لوگ ہوتے ہیں ، جو ساتھ بعض الفاظ کا اضافہ بھی کردیتے ہیں :
کیا یہ درست ہے ؟ کیا اس میں موجود تمام مسائل صحیح ہیں ؟ کیا اس میں بیان کردہ تمام احادیث صحیح ہیں ؟ کچھ زیادہ گہرے ہوتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : برائے مہربانی اس تین کلومیٹر لمبی پوسٹ میں سے صحیح اور غیر صحیح نشان زدہ کردیں ، بہت مہربانی ہوگی ۔
اور ایسا کرنے والوں میں سے تیس پینتیس فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جو خود مسئلہ دیکھ سکتے ہیں ، پاس پڑی ہوئی کتاب کھول کر پرکھ سکتے ہیں ، یا گوگل وغیرہ کے ذریعے درست معلومات جان سکتے ہیں ،،،، لیکن مصیبت یہ ہے یہ نازک مزاج اتنی زحمت اٹھانا نہیں چاہتے ، بھلا جتنی دیر کتاب کھولنے میں لگانی ہے ، یا کچھ تلاش کرنے میں لگانی ہے ، اتنی دیر میں بندہ دو چار پوسٹیں آگے بھیجے !!!
اور کئی ایسے ’ با حیا ’ ہوتے ہیں ، کھل کر کہتے ہیں یار : مسئلہ تو میں بھی دیکھ سکتا ہوں ، لیکن بس مصروفیت بہت ہے ، یا ’ مجھے علم ہے ، فلاں کتاب میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے ، لیکن سوچا زحمت نہ ہی اٹھانی پڑے ’’
خیر یہ ایک منفی رویہ الگ سے ہے ( اس پر پھر کبھی تفصیل سے )
جو لوگ تحقیق کے لیے آگے سینڈ کردیتے ہیں ، وہ بھی سینڈ کرکے بھول جاتےہیں ، اور جن کو سینڈ کیے ہوتے ہیں ، انہیں فورا علم لدنی آجائے یا گوگل ریسرچ میں کچھ پھنس جائے تو چار لفظوں کا تبصرہ اس پر کرکے ، جان چھڑاتے ہیں ، یا کم از کم سائل کو جہالت یا کم عقلی وغیرہ کا کھلے یا دبے لفظوں میں تمغہ دیکر چپ کروادیتے ہیں ، لیکن مسئلہ جوں کا توں باقی رہتا ہے ۔
کئی ایک علماء ایسے بھی ہیں ، جو ہر ہر مسئلہ کی تحقیق کرتے ہیں ، اور اس کا بہترین اور مناسب جواب بھی دیتے ہیں ( جزاہم اللہ خیرا ) ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے علماء کتنے ہیں ؟ اور جو چیزیں قابل تحقیق ہیں ، وہ کتنی ہیں ؟ اور اس طرح روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر قصے کہانیوں کا کس قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے !
چند دن پہلے ایک پوسٹ آئی تھی ، اس کے اندر کوئی 35 ، 40 باتیں بلاحوالہ اس انداز سے کی گئی تھیں کہ اگر ان کی مکمل تحقیق کی جائے تو کم از کم ایک ہفتہ ضرور لگے گا ۔
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ اس طرح کے سوالات و جوابات جن لوگوں کو ارسال کردیے جاتے ہیں ان میں 99 فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جن کی اپںی مصروفیات ، ضروریات اور حوائج ہوتی ہین ، اور اس طرح کے سوالات کے جوابات اور احادیث کی تحقیق وغیرہ انہوں نے ’ چونگے ’ میں کرنی ہوتی ہے ، مطلب اگر وقت مل گیا تو کچھ کر لیا ، نہیں تو رہ گیا ۔
ضرورت اس امر کی ہے ، کہ اب دار الافتاؤں اور تحقیقی مراکز کو ایک نئی جہت دی جائے ، اور خالصتا سوشل میڈیا پر پھیلتی ہوئے جہالت کے اندھیروں کو کم کرنے کے لیے ایسے لوگ مختص کیے جائیں ، جن کا کام صرف اور صرف سوشل میڈیا پر لوگوں کے سوالات کے جوابات ہوں ، بلکہ کوئی سوال کرے نہ کرے ، جتنی بے سرو پا باتیں گردش کرتی نظر آئیں ، انہیں اس کا فورا جواب اور تحقیق اس انداز میں پیش کرنی چاہیے کہ اگر صبح کوئی پوسٹ نظر آئی ہے تو شام تک اس کی حقیقت سوشل میڈیا پر پھیل جانی چاہیے .
ایسے لوگوں کو باقاعدہ معقول معاوضہ دینا چاہیے کہ تاکہ وہ اس کام کو ’ چونگے ’ میں کرنے کی بجائے فل ٹائم ڈیوٹی اور مکمل ذمہ داری سمجھ کر کریں ۔
باقاعدہ ایسے لوگ ہوں ، جو ہر روز سوشل میڈیا پر گردش کرتی معلومات پر نظر رکھیں ، اور ان میں سے جو کچھ بھی تحقیق کا محتاج ہو اسی دن اس کی تحقیق کرکے اسی زور شور بلکہ اس سے بھی پڑھ کر پہیلا دیا جائے ، جس طرح ایک غیر مستند بات پھیل رہی ہوتی ہے ۔
إن شاءاللہ ، بہت جلد سوشل میڈیا پر جہالت پر مبنی ، من گھڑت ، اور بے سروپا باتوں کی بجائے علم و تحقیق اور مستند معلومات کا غلبہ ہوگا .
ورنہ فی الوقت جو صورت حال ہے ، ہر آنے والے دن میں بدعات و خرافات بڑھ رہی ہیں ، جبکہ حقائق اور درست باتیں ان کے ڈھیر تلے دبتی جارہی ہیں ۔
علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اس طرف توجہ کریں ، آب کے فتوی سنٹر میں وہی آئے گا ، جسے بیوی ہاتھ جاتی نظر آرہی ہوگی ... باقی نماز کے مسائل اورغسل کے فرائض میں لوگ آپ کے پاس کیا .. آپ کی لکھی کتاب کھولنے کی بھی فرصت نہیں پاتے ، جو سوشل میڈیا میں چل رہا ہے ، وہی بہت ہے ۔ زیادہ سے زیادہ گوگل کو زحمت دے لیں گے ، لیکن گوگل کیا کرے ، اس میں اگر آپ کچھ لکھیں گے نہیں تو سرچ میں کہاں سے آجائے گا ؟
اصحاب الخیر اور پیسوں والی آسامیاں ، جو دین کے رستے میں خرچ کرنا چاہتے ہیں ، وہ بھی اس پہلو پر غور کریں ، سنٹر بنائیں ، سہولیات کا انتظام کریں ، لا کر علماء کو بٹھائیں ، اگر اخلاص ہوا تو یہ کام دین و دنیا دونوں میں کامیابی و کامرانی کا باعث بنے گا .. إن شاءاللہ .
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
چند دن پہلے ایک پوسٹ آئی تھی ، اس کے اندر کوئی 35 ، 40 باتیں بلاحوالہ اس انداز سے کی گئی تھیں کہ اگر ان کی مکمل تحقیق کی جائے تو کم از کم ایک ہفتہ ضرور لگے گا ۔
کیا وہ پوسٹ غریبی کے تعلق سے تھی؟؟؟
جن کو سینڈ کیے ہوتے ہیں ، انہیں فورا علم لدنی آجائے یا گوگل سرچ میں کچھ پھنس جائے تو چار لفظوں کا تبصرہ اس پر کرکے ، جان چھڑاتے ہیں ، یا کم از کم سائل کو جہالت یا کم عقلی وغیرہ کا کھلے یا دبے لفظوں میں تمغہ دیکر چپ کروادیتے ہیں ، لیکن مسئلہ جوں کا توں باقی رہتا ہے ۔
محترم شیخ!
ہر ہر بات اور ہر ہر پؤانٹ کا جواب دینا ضروری ہے کیا؟؟؟
ایسے تو کافی وقت لگ جاتا ہے. میرے پاس اس طرح کی کئی پوسٹس آتی ہیں. اب کہاں تک اسکا مفصل رد لکھا جاۓ؟؟؟
اسی لۓ مختصرا اگر علم ہوتا ہے تو بتا دیتا ہوں. ورنہ کہ دیتا ہوں کہ اس پوسٹ میں حوالہ نہیں ہے اسلۓ شیئر نہ کریں. یا یہ کہ اسمیں کچھ باتیں غلط ہیں.
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے علماء کتنے ہیں ؟ اور جو چیزیں قابل تحقیق ہیں ، وہ کتنی ہیں ؟ اور اس طرح روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر قصے کہانیوں کا کس قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے !
اس طرح کے علماء نہ کے برابر ہے. جبکہ قابل تحقیق بہت ساری چیزیں ہیں.
محترم شیخ!
میں نے غور کیا ہے کہ اکثر اس طرح کی غیر مستند چیزیں شیعوں اور صوفیوں کی طرف سے آتی ہیں. اسلۓ اس کے متعلق عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے.
بلکہ کوئی سوال کرے نہ کرے ، جتنی بے سرو پا باتیں گردش کرتی نظر آئیں ، انہیں اس کا فورا جواب اور تحقیق اس انداز میں پیش کرنی چاہیے کہ اگر صبح کوئی پوسٹ نظر آئی ہے تو شام تک اس کی حقیقت سوشل میڈیا پر پھیل جانی چاہیے .
محترم شیخ!
غیر اہم باتوں کو اہمیت کیوں دی جاۓ؟؟؟ کیونکہ اور بھی فتنے ہیں جو اس سے زیادہ اہم ہیں. (اصلاح کی خاطر. نا کہ بحث)
علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اس طرف توجہ کریں ، آب کے فتوی سنٹر میں وہی آئے گا ، جسے بیوی ہاتھ سے جاتی نظر آرہی ہوگی ... باقی نماز کے مسائل اورغسل کے فرائض میں لوگ آپ کے پاس کیا .. آپ کی لکھی کتاب کھولنے کی بھی فرصت نہیں پاتے ، جو سوشل میڈیا میں چل رہا ہے ، وہی بہت ہے ۔ زیادہ سے زیادہ گوگل کو زحمت دے لیں گے ، لیکن گوگل کیا کرے ، اس میں اگر آپ کچھ لکھیں گے نہیں تو سرچ میں کہاں سے آجائے گا ؟
بہت اچھی بات کہی آپ نے. اور یہ بالکل حقیقت ہے.
اصحاب الخیر اور پیسوں والی آسامیاں ، جو دین کے رستے میں خرچ کرنا چاہتے ہیں ، وہ بھی اس پہلو پر غور کریں ، سنٹر بنائیں ، سہولیات کا انتظام کریں ، لا کر علماء کو بٹھائیں ، اگر اخلاص ہوا تو یہ کام دین و دنیا دونوں میں کامیابی و کامرانی کا باعث بنے گا .. إن شاء اللہ ۔
لوگ اسی میں تو پیچھے ہیں. کچھ لوگ ایسے ہیں جو کام کرنا چاہتے ہیں. لیکن انکے پاس وسائل نہیں ہے.
ضرورت اس امر کی ہے ، کہ اب دار الافتاؤں اور تحقیقی مراکز کو ایک نئی جہت دی جائے ، اور خالصتا سوشل میڈیا پر پھیلتی ہوئے جہالت کے اندھیروں کو کم کرنے کے لیے ایسے لوگ مختص کیے جائیں ،
کیا ایسا ممکن ہے؟؟؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ماشاء اللہ
آپ کی تجویز تو عمدہ ہے لیکن فی الوقت تحقیقی سنٹر ایک لمبا کام ہے۔پھر مسلکی اختلافات کا لیبل الگ مسئلہ ہے۔میری رائے میں تو اگر ہم میں سے کچھ علم رکھنے والے لوگ اپنے اپنے واٹس اپ میں ایک گروپ تشکیل دے دیں جہاں روز کے ایک ایسے مسج کا احاطہ کر دیا جائے تو ان شاء اللہ وہ مسج بھی لوگوں تک پہنچنے لگے گا اور حوالہ کے ساتھ کی گئی بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیا وہ پوسٹ غریبی کے تعلق سے تھی؟؟؟
نہیں ۔ اس کا عنوان تھا غالبا سب سے پہلے کیا ہوا ؟ پھر نیچے عجیب و غریب قسم کی باتیں لکھی ہوئی تھیں ۔
محترم شیخ!
ہر ہر بات اور ہر ہر پؤانٹ کا جواب دینا ضروری ہے کیا؟؟؟
ایسے تو کافی وقت لگ جاتا ہے. میرے پاس اس طرح کی کئی پوسٹس آتی ہیں. اب کہاں تک اسکا مفصل رد لکھا جاۓ؟؟؟
اسی لۓ مختصرا اگر علم ہوتا ہے تو بتا دیتا ہوں. ورنہ کہ دیتا ہوں کہ اس پوسٹ میں حوالہ نہیں ہے اسلۓ شیئر نہ کریں. یا یہ کہ اسمیں کچھ باتیں غلط ہیں.
یہ بھی صحیح ہے ، لیکن بعض دفعہ ہم فرصت کے ہونے نہ ہونے کی بنا پر اہم وغیر اہم کا فیصلہ کرلیتے ہیں ، ضروری نہیں جو چیز آپ کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی ، اس سے معاشرے کا ایک بڑا حصہ گمراہ نہ ہورہا ہو ۔
محترم شیخ!
غیر اہم باتوں کو اہمیت کیوں دی جاۓ؟؟؟ کیونکہ اور بھی فتنے ہیں جو اس سے زیادہ اہم ہیں. (اصلاح کی خاطر. نا کہ بحث)
ہر چیز کو اس کی اہمیت کے مطابق وقت دینے کی ضرورت ہے ۔
اصل میں ابھی تک ہم نے اس طرف کما حقہ توجہ نہیں کی ، جونہی اس طرح کے سنٹرز بننا شروع ہوگئے ( جو جلد یا بہ دیر بنیں گے إن شاءاللہ ) تو ہر ہر میدان میں داد تحقیق دیں گے ۔ إن شاءاللہ
کیا ایسا ممکن ہے؟؟؟
ممکن ہے ۔ بس توجہ کرنے کرانے کی ضرورت ہے ۔
ماشاء اللہ
آپ کی تجویز تو عمدہ ہے لیکن فی الوقت تحقیقی سنٹر ایک لمبا کام ہے۔پھر مسلکی اختلافات کا لیبل الگ مسئلہ ہے۔میری رائے میں تو اگر ہم میں سے کچھ علم رکھنے والے لوگ اپنے اپنے واٹس اپ میں ایک گروپ تشکیل دے دیں جہاں روز کے ایک ایسے مسج کا احاطہ کر دیا جائے تو ان شاء اللہ وہ مسج بھی لوگوں تک پہنچنے لگے گا اور حوالہ کے ساتھ کی گئی بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
اس طرح کے بیسیوں مجموعے ہیں ، سینکڑوں پیجز ہیں ، لیکن چونکہ بچے کھچے وقت میں یہ کام کرنا ہوتا ہے ، اس لیے صحیح ہو نہیں پاتا ۔
اس کے لیے باقاعدہ خاص لوگوں ، خاص سہولیات کی ضرورت ہے ، تاکہ ہم معاشرے میں پھیلتی جہالت کا کنٹرول کرسکیں ، اپنے اپنے انداز میں لگے رہیں گے ، نہ ہونے وہ بھی بہتر ہے ، لیکن بہرصورت سوشل میڈیا کی دوڑ کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے ۔
 

Muhammad Ayaz

رکن
شمولیت
فروری 11، 2015
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
57
بہت اچھی تجویز اور محدث فورم اس معاملے میں کافی حد تک لوگوں کی مدد بھی کرتا ۔۔۔مجھے تو اکثر سوالوں کا جواب یہاں مل جاتا ۔جزاک اللہ خیرا خضر حیات بھائی۔

Sent from my SM-N910S using Tapatalk
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
معروف مفکر اور قلمکار حامد کمال الدین صاحب کی ایک تحریر سے اقتباس :
’’ ایک اور واقعہ ہمارے ایک قریبی دوست نے سنایا۔ چند برس پیشتر ایک خداشناس عالم جو کسی مدرسہ کے دارالافتاء میں تعینات تھے، آلو چپس کی ایک مشہور کمپنی نے ان سے کوئی فتویٰ مانگا، مگر وہ اس کی طلب کا فتویٰ دینے پر مطمئن نہ تھے، یہاں تک کہ مدرسہ والوں نے ان پر جب فتویٰ دینے کے لیے زور ڈالا اور وہ مسلسل انکاری رہے تو انہیں اپنی جاب سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مفتی صاحب بڑے مہینوں تک بےروزگار، آخر چولہا سرد پڑنے کو آیا۔ بھئی عالم کیوں اپنی مالی تنگی کا اظہار گوارا کرے؟ ’امت‘ بھی تو کسی دکھ کا مداوا ہو! کیا واجب نہ تھا کہ اپنی علمی صوابدید پر اصرار کرنے والے ایک عالم کو یہاں سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا؟ ہم وہ قوم جو حق گو علماء کے ’واقعات‘ میں تو رغبت خوب رکھتی ہے مگر آزمائش میں ان کے ساتھ کھڑے ہونا ذہن میں نہیں آتا!
گلہ مگر قوم سے نہیں، چارہ گروں سے ہے۔ امت نہ بخیل ہے اور نہ ایسے کسی محاذ سے رُوگرداں۔ امت سے جو مانگا گیا، آج تک اس نے وہ دیا ہے۔ بس ہم ہی بعض امور کو انجام دینے کے مناسب چینل اسے فراہم نہیں کر سکے۔ لوگ دراصل کچھ خاص روایتی مدّات میں ہی چندے دینے سے مانوس ہیں، اور وہاں بےشک کمی نہیں کرتے۔ ان نئی ضرورتوں کی جانب ان کو لے کر چلنا اور انہیں راستے بنا کر دینا البتہ خواص کا کام ہے جو ذرا ایک قوتِ اقدام مانگتا ہے اور کسی حد تک تخلیقی صلاحیتیں اور اَن چلی راہیں روند ڈالنے کا حوصلہ۔ یہ میدان توجہ دلانے والوں سے ہی آج بہت حد تک خالی ہے۔ ’کارپوریٹ دنیا‘ میں اپنے جینے survival کےلیے اب ہمیں کچھ پہلے سے مختلف چارہ جوئی کرنا ہوگی۔ معلوم ہونا چاہیے، ’فرد‘ اور چھوٹےچھوٹے غیرمنظم ادارے اور ٹھیلے اِس درندے کی من پسند غذا ہیں۔ اِس میدان میں آج ہمیں ایک بالکل نئی تیاری کے ساتھ اترنا ہوگا۔ ‘‘
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دین کا کام

الحمد للہ خوشی کی بات ہے کہ اہل دین مختلف انداز سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، جہاں جہاں کام کرنے کی ضرورت ہے، دامے درمے قدمے سخنے سلسلہ چل رہاہے۔
کوئی بھی فتنہ سامنے آئے، کوئی ہنگامی مسئلہ درپیش ہو، جس طرح دوسرے لوگوں کی آراء آتی ہیں، اہل دین بھی اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ کئی ایک اہل علم اور خطبا کی تقاریر لائیو یا ریکارڈ شدہ نشر ہوتی ہیں۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں، جو نمود و نمائش سے ایک طرف ہٹ کر دین اور اہل دین کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ۔ اللہ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
زیر نظر تحریر میں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چأہتاہوں،اس سے پہلے تین مثالیں ذکر کرتاہوں، اور پھر اپنا مدعا عرض کروں گا۔
اردو زبان میں ایک بہت بڑی اسلامی ویب سائٹ ہے، جس سے ساری دنیا فائدہ اٹھاتی ہے، بہت سارے لوگ اس کی تعریفیں کرتے ہیں۔
لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ ایک عرصے سے اس ویب سائٹ کی تکنیکی ضروریات صحیح طرح سے پوری نہیں ہو پارہی۔
ایک اور عالم دیں ہیں، عصر حاضر کے بعض فتنوں کا انہوں نے بہترین انداز سے تعاقب شروع کیا ہواہے، لوگ ان کی تحریرون اور ویڈیوز کے حوالے دیتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان عالم دین کی ویڈیوز ریکارڈ کرنے، ایڈٹ کرنے، اور اسے سوشل میڈیا وغیرہ پر لانے کے لیے کوئی پروفیشنل بندہ دستیاب نہیں۔
ایک اور تیسرے صاحب ہیں، جو کہ عالم دیں بھی ہیں، اور وکیل بھی ہیں۔
ان کا ہدف یہ ہے کہ دین کی ترویج اور بے دینی کے سامنے بند باندھنے کے لیے علمی تگ و دو کے ساتھ ساتھ عدالت کے دروازے بھی کھٹکھٹانے چاہییں۔
ان کی اس تجویز کو سب نے بہت سراہا، لیکن عملی طور پر یہ کام کرنے کے لیے افرادی اور مالی ہر دو قسم کی قوت درکار ہے، جس کی طرف کماحقہ توجہ نہیں کی جارہی۔
ان تینوں جگہ پر آپ دیکھیں تو علمی ضروریات پوری ہورہی ہیں، لیکن تکنیکی فنی اور مالی مسائل کا سامنا ہے۔
ان ضروریات کو کس نے پورا کرناہے؟
دو طریقے ہیں:
1۔ کوئی ویب ڈویلپر ، ویڈیو ایڈیٹر یا وکیل آگے بڑھ کر کہے کہ اس کے لیے رضاکارانہ طورپر میں یہ کام سرانجام دیتاہوں۔
2۔ دوسرا حل یہ ہے کہ اتنا فنڈ اور پیسے ہونے چاہییں کہ اس کے لیے مطلوبہ ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔
امر واقع یہ ہے کہ دونوں طرح سے لوگ خدمت دین سر انجام دے رہے ہیں، لیکن جس طرح کام کرنےکی ضرورت ہے، اسے دیکھا جائے تو دونوں طرف کوتاہی ہے۔
دنیاوی علم پڑھا ہوا یہ تو کہے گا کہ مولوی نے کیا کیا؟ لیکن خود اسے بھی تو سوچنا چاہیے، اس نے اپنے علم، فن اور پیشے کو دین کے لیے کتنا استعمال کیا؟
دوسری طرف مسجد و مدرسہ کی خوبصورت تعمیر کے لیے چندے کی بھرمار ہوجاتی ہے، بلکہ کانفرنسز ، تقریبات میں ایک ایک رات اور گھنٹوں میں لاکھوں کروڑں روپے اسی صدقہ و خیرات کی مد سے خرچ کیے جاتے ہیں، جس سے ایک ویب ڈویلپر، وکیل یا ویڈیو ایڈیٹر کا بندوبست کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔
خرابی اور سستی کہاں ہے، دینداروں میں یا دنیا والوں میں؟ کسی ایک کے گلے ڈال کر خود کو صاف بچانا ہو، تو دونوں طرف حجت بازی اور دلائل کا بازار گرم کیا جاسکتاہے۔
لیکن اگر اس مسئلے کو واقعتا حل کرناہے، تو ہر دو طبقوں کو اپنے اپنے رویوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک مسئلہ اور بھی ہے، کام علمی ہو یا تکنیکی، ہم میں سے بعض لوگوں کا یہ رویہ بھی ہے، خود چار سطریں لکھ لیں، یا دو بول بول لیں، تو جی چاہے گا کہ ساری دنیا اس طرف متوجہ ہوجائے، لیکن دوسری طرف جتنی مرضی محنت ہو، چونکہ وہ ہم نے نہیں کی ہوتی، اس لیے اسے ہم ایک نظر دیکھنا بھی اپنے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔
فیس بک پیجز، واٹس ایپ گروپس وغیرہ کی داغ بیل ڈالنے میں بھی یہ عنصر کافی حد تک نظر آتاہے۔
بلکہ ’میری تیری‘ کی یہ تفریق مسجدیں اور مدرسے بنانے میں بھی نظر آتی ہے، بہت سارے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی کی مسجد اور کسی کے مدرسے کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے خود اپنی مسجد و مدرسہ اور ادارہ بنائیں، اور پھر اس کے لیے محنت کریں۔ مسجدیں مدرسے بنانا ایک اچھا کام ہے، لیکن پیش نظر دین کا کام ہو ، تو شاید ہر دفعہ الگ سے مسجد یا مدرسہ بنانا ہی ضروری نہیں ہوتا، پہلے سے بنے ہوئے پلیٹ فارم سے بھی دین کا کام بہتر طریقے سے ہوسکتاہے۔
ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ بعض دفعہ بہت محنت کی جارہی ہوتی ہے، لیکن اجتماعیت کی بجائے دھڑے بازی اور ’میں‘ کی وجہ سے خاطر خواہ کامیابی کسی کو بھی نہیں ملتی۔
مولوی کا جی چاہتاہے کہ کسی کا محتاج ہوئے بغیر تحقیق بھی خود کروں، اور اسے گرافکس اور ویڈیو میں بھی خود ہی ڈھال لوں، دوسری طرف ڈیزائننگ وغیرہ جاننے والا بھی چاہتاہے، کہ فنی کام بھی خود کروں، اور علمی تحقیق بھی ادھر ادھر سے خود ہی کرلوں، نتیجتا ، دونوں جگہ پر جو کام نکلتاہے، اس میں نقص ہوتاہے، ایک طرف علمی ، دوسری طرف تکنیکی۔
آپ ذرا سوشل میڈیا اور یوٹیوب کا چکر لگائیں، آپ کو بہت سارے لوگ ایسے مل جائیں گے، جن کے پاس پیشکش کا فن ہے، لیکن پیش کرنے کے لیے کوئی کام کی چیز نہیں، دوسری طرف اعلی افکار و نظریات اور تحقیقات ملیں گی، لیکن انہیں کوئی ڈھنگ سے پیش کرنے والا میسر نہ ہوگا۔
حالانکہ یہ مختلف قسم کی صلاحتیں مل جائیں، اور اپنے اپنے ذوق کے مطابق کام کرکے کوئی چیز تیار کریں، تو اس میں نہ علمی خامی ہوگی ، نہ پیشکش میں کوئی کمی۔
دوسری طرف دیکھیں، ایک ٹاک شو، گانا یا فلم تیار ہونی ہو، تو اس میں کتنے وسائل اور افراد شامل ہوتے ہیں؟ چار منٹ کے گانے، گھنٹے کے ٹاک شو یا تین گھنٹے کی فلم میں ایک پورا جہاں کام کرنے والا ہوتاہے۔
بلکہ دینی مسائل میں کلام کرنےوالے ان لوگوں کی طرف دیکھ لیں، جنہیں ہم عصر حاضر کا فتنہ سمجھتے ہیں، یہ جاہل عوام کے لیے فتنے کا باعث کیوں بن جاتے ہیں؟ مثلا غامدی یا مرزا جہلمی جنہیں کوئی اپنی مسجد میں امام تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں، وہ اس وقت ایک کثیر تعداد کے لیے فتنہ کا ذریعہ کیوں بن گئے ہیں؟
دیکھیے الیکٹرانک میڈیا والی دوڑ تو بالکل غلط رویہ ہے ، دینی بیانیہ اور اس کو پیش کرنے والے کبھی ان تقاضوں کو پورا کر ہی نہیں سکتے، لیکن پھر بھی ہمیں اپنے اندر خامیوں اور کمزوریوں کو تلاش کرنا چاہیے، اور اس کے مطابق جد و جہد اور کوشش کرلینی چاہیے۔
اللہم انصر من نصر دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم واجعلنا منہم.
واخذل من خذل دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منہم.​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دین کی حمایت میں جو کرسکتے ہیں کرنا چاہیے۔
پوسٹ شیئر کردیں۔
لائک کردیں۔
ساتھ بیٹھے کسی شخص کو کسی اچھا لکھنے والے کا تعارف کروادیں۔
میڈیا میں کوئی اوریا مقبول جان جیسی اسلام پسند شخصیت ہے، بعض دفعہ ہمارے مستند علماء بھی بلا لیے جاتے ہیں، چلتے پھرتے ، کہیں ان کی ویڈیو آجائے، نیچے کمنٹس میں دیکھیں گے، تو اسلام پسندوں اور لبرلز کی جنگ ہورہی ہوگی، وہاں اس شخصیت کے حق میں دو جملے کہہ دیں کہ شکریہ آپ ہماری آواز بنے وغیرہ۔
ٹاک شو سن رہے ہیں، نمبر آرہا ہوگا، لائیو کال کریں، اگر بیلنس اجازت دے، تو ٹرائی کرکے دیکھ لیں، کوئی اسلام پسند ہے تو اس کو دعائیں دے دیں، یا کوئی اچھا سوال کرلیں۔ کوئی فضولیات بک رہا ہے، تو اس کی حوصلہ شکنی کی کوشش کرلیں۔
آپ ارد گرد دیکھیں گے، کئی لوگ علمی مسائل پر بڑی محنت و تحقیق کے ساتھ لکھتے ہیں، لیکن ان کی پوسٹیں لوگ کم پڑھتے ہیں، ویڈیوز کم دیکھتے ہیں، ایسے لوگوں کی آئی ڈیز یوٹیوب چینل وغیرہ کی تشہیر میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کردیں۔
فارغ بیٹھے ہیں، گوگل یوٹیوب وغیرہ پر اپنی پسندیدہ شخصیات اور موضوعات کو لکھ کر سرچ کرنا شروع کردیں۔ اس طرح ان کی جو تحریریں اور ویڈیوز نکلیں گی، سرچ انجن ان کی یہ خصوصیت محفوظ کرلے گا کہ لوگ فلان فلاں شخص یا موضوعات کو سرچ کرتے ہیں۔ لہذا اسے توجہ سے دکھائے گا۔
بس ایک خیال رکھیں، ان چیزوں کے لیے باقاعدہ کوئی اہم کام چھوڑ کر وقت نہ نکالیں، بلکہ جو وقت ادھر ادھر کاموں میں ضائع ہورہا ہو، اسے ان کاموں میں لگائیں۔
میں آپ کو بطور مثال تین چار چینلز کا لنک دیتاہوں:
انہیں جاکر دیکھیے، وہ موضوعات کتنے اہم ہیں، لیکن انہیں دیکھنے والے کتنے لوگ ہیں؟ اور ممکن ہے آپ سرچ کریں تو وہ سرچ انجن میں بھی نہ آئیں۔
اس کے اسباب بہت سارے ہیں ، لیکن ایک وجہ ٹریفک کا نہ ہونا ہے۔
ہم نہ یہ علمی لیکچر دیے سکتے ہیں، نہ اسے ریکارڈ کرسکتے ہیں، نہ اسے اپلوڈ کرسکتے ہیں، لیکن کم از کم اسے دیکھ تو سکتے ہیں، شیئر تو کرسکتے ہیں، جو لوگ ان لیکچرز کے بارے ڈھونڈ رہے ہیں، انہیں بتاسکتے ہیں۔
کئی ایک میسنجرز پر اسٹیٹس یا سٹوری اپلوڈ کرنے کا آپشن ہوتاہے۔
اگر آپ کے موبائل میں imo انسٹال ہے، تو کسی بھی اچھی ویڈیو کی تشہیر کے لیے یہ بہترین آپشن ہے۔ یوٹیوپ سے اس ویڈیو کے نیچے شیئر کے بٹن کے ذریعے اسے بطور ایمو سٹوری شیئر کردیں۔ بہت تھوڑے عرصے میں بہت زیادہ لوگوں تک یہ چیز پہنچ جاتی ہے۔
خیر لنکس کی طرف آئیے۔
پہلا لنک، محدث میڈیا​
https://www.youtube.com/channel/UCuw461rShxTNEqGto5IGWrg/videos
اس پر ترجمہ قرآن، تفسیر ، اصول حدیث وغیرہ سے متعلق سو سے زائد لیکچرز موجود ہیں۔
دوسرا لنک: اصلاح میڈیا ( یہ ابو یحیی نور پوری صاحب کا چینل ہے)​
https://www.youtube.com/channel/UCVcU0ZJMdZoq2JMw6Fy0yXQ/videos
تیسرا لنک: قرآن وسنت اسلامک سنٹر( یہ شیخ ہشام صاحب کا چینل ہے)​
https://www.youtube.com/channel/UCrLRsv4PuyZHxw6b0rmmf_Q/videos
چوتھا لنک: کلیۃ الحدیث جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا چینل​
https://www.youtube.com/channel/UCUv579Akt1bnUCD6H0IrCow/videos
ان چینلز کا آپ چکر لگائیں، ان میں عموما وہی ویڈیوز نظر آئیں گی، جو ہمارے جیسے لوگ تلاش کر رہے ہوتے ہیں، لیکن چونکہ عام طور پر ہم لوگ ایسی چیزوں کی تشہیر کی زحمت نہیں کرتے۔ اس لیے لوگوں کی نظرون سے اوجھل رہتی ہیں۔
بہت ساری مستند اسلامی چیزیں ریکنگ میں کیوں نہیں آتیں، اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ انہیں ذکر کرنا، یہ ایک الگ موضوع ہے، جو لوگ ایسی معلومات رکھتے ہیں، انہیں وقتا فوقتا زیر بحث لاتے رہنا چاہیے۔​
 
Top