حیدرآبادی
مشہور رکن
- شمولیت
- اکتوبر 27، 2012
- پیغامات
- 287
- ری ایکشن اسکور
- 500
- پوائنٹ
- 120
گذشتہ تقریباً ایک ہفتے سے ایک سوال مجھے لگاتار پریشان کر رہا ہے۔ لیکن پہلے دو واقعات کا ذکر ہو جائے۔
آرنلڈ جوزف ٹائن بی ایک معروف برطانوی تاریخ داں ہو گزرا ہے۔ تہذیبوں کے عروج و زوال پر اس کی تحقیق نے گذشتہ صدی کے نصف میں خاصی شہرت پائی تھی۔ 12 جلدوں پر مشتمل اپنی اس تصنیف میں ٹائن بی نے زمانہ قبل مسیح سے بیسویں صدی کے وسط تک کرہ ارض پر جنم لینے والی تہذیبوں اور مختلف عقائد کا بڑی مہارت سے جائزہ لیا ہے۔
سن 1958 میں اس کا ایک مقالہ بعنوان Christianity among the Religions of the World آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے لندن سے شائع کیا۔ اس میں مختلف مذاہب کا تقابلی جائزہ لیا گیا تھا۔ پھر وہی مقالہ چند تبدیلیوں کے ساتھ جب دوبارہ 1968 کے آغاز میں شائع کیا گیا تو عالم اسلام سراپا احتجاج بن گیا۔ جب عالم اسلام کی طرف سے اس تحریر کے خلاف آواز اٹھی تو لاہور میں بھی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ اسمبلی ہال کے قریب میں واقع پاکستان سنٹر میں شہر کا صائب الرائے طبقہ اکٹھا ہو گیا۔ اجتماع میں ہر طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ تھے۔ ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کی ہوا شہر کے نوجوان طلبا کو اڑائے لیے جاتی تھی۔
پروفیسر امین مغل ، منہاج الدین ، منظور احمد اور یوسف جمال انصاری بھٹو کیمپ میں تھے جبکہ بھٹو مخالف گروہ کے بھی متعدد نمائندے وہاں موجود تھے۔ پہلا گروہ ٹائن بھی کی تحریر کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو غیر منطقی قرار دے رہا تھا تو دوسرا اس اشاعت کو دین اسلام کے خلاف صریح گستاخی گردان رہا تھا۔ حاضرین میں پروفیسر ظفر اللہ قریشی بھی موجود تھے۔ انہوں نے مغربی مستشرقین کے اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں تقریباً ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل ایک کتاب رقم کر رکھی تھی۔ تاریخ مذاہب پر ان کا مطالعہ قابل رشک تھا۔ پروفیسر قریشی خاموشی سے دونوں گروہوں کی گرما گرم گفتگو سنتے رہے۔
جب بحث نے طول پکڑا تو وہ چلا اٹھے :
"جو لوگ شاہراہوں پر ہونے والے اس احتجاج کو غیرمنطقی سمجھتے ہیں کیا ان کی عقلوں پر پتھر پڑے ہیں؟ گستاخ پر تنقید نہیں کر سکتے؟ اسے اس کی کم علمی کا احساس نہیں دلا سکتے؟ اگر تمہارے سچ بولنے میں کوئی عنصر مانع ہے تو کم از کم ناموں کی ہی لاج رکھ لو۔ اس اذاں کی ہی لاج رکھ لو جو تمہاری پیدائش کے چند لمحوں بعد ہی تمہارے کانوں میں گونج اٹھی تھی۔"
ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اور جلسے کا اختتام ہو گیا۔
اگلے دنوں میں مختلف پاکستانی جرائد میں ٹائن بی کے مقالے کے جواب میں کئی مضامین شائع ہوئے۔ برطانوی تاریخ داں نے خاموشی اختیار کر لی۔
دوسرا واقعہ ریاض میں کنگ فیصل فاؤنڈیشن کے وسیع و عریض آڈیٹوریم میں پیش آیا تھا۔ سویڈن کی مالو یونیورسٹی میں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقین اسٹڈیز قائم ہے۔ اس کے سربراہ معروف یورپی مستشرق پروفیسر بینگٹ نوٹسون تھے۔ یہ 1987ء کی بات ہے۔ اس سال اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے سویڈن نے ریاض میں اپنی صنعتی اشیا کی نمائش کا اہتمام کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پروفیسر نوٹسون خصوصی طور پر سعودی دارالحکومت لائے گئے تاکہ وہ عالم اسلام اور مغرب کے درمیان قائم رشتوں اور رابطوں پر سعودی شہریوں سے خطاب کر سکیں۔
کنگ فیصل فاؤنڈیشن میں ان کا لکچر رکھا گیا اور موضوع تھا : "تبلیغ اسلام میں یورپ کا کردار"۔ پروفیسر نے بڑی تفصیل سے یورپ میں قائم اسلامی مراکز اور یورپی جامعات میں کھولے گئے شعبہ ہائے اسلامیات پر روشنی ڈالی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ براعظم یورپ میں دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے حکومتی سرپرستی میں قابل ستائش کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنی زیرنگرانی کام کرنے والے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقین اسٹڈیز میں جاری تحقیقی کام کی بھی وضاحت کی اور کہا کہ وہاں ہونے والی تحقیق باقاعدہ اشاعت پذیر ہوتی ہے اور اس کے نسخے مختلف جامعات کو ارسال کیے جاتے ہیں۔ خطاب تمام ہوا تو سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔
کنگ سعود یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایک سینئر استاذ اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے :
"پروفیسر! آپ کا بہت شکریہ کہ اتنی اہم معلومات ہم تک پہنچائیں لیکن براہ کرم ایک سوال کا جواب دیں۔ جب عالم اسلام میں کوئی تسلیمہ نسرین پیدا ہوتی ہے ، جب کوئی ملعون سلمان رشدی کے نام کا آدمی ناقابل بیان حد تک قابل نفرت تصنیف کرتا ہے تو اسے فوراً مغرب میں حفاظتی آغوش مل جاتی ہے۔ جب آپ ہمارے مجرموں کو انسانی حقوق اور آزادئ اظہار رائے کے نام پر اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں تو پھر ہم یہ کیسے تسلیم کر لیں کہ سفید فام مغرب ہمارے دین کی تبلیغ و بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے؟ جو مغرب ہمارے مجرموں کی پناہ گاہ رہا ہے ، اس کی نیک نیتی کو ہم کیسے تسلیم کر لیں؟"
پروفیسر بینگٹ نوٹسون کا سر آہستہ آہستہ جھک گیا۔ پھر ان کی ہلکی سی آواز سنائی دی : "نو کمنٹس"!
ملالہ یوسف زئی کے خطاب کا اختتام ہوا تو ہزاروں کا مجمع اٹھ کھڑا ہوا اور تالیاں بجا کر اسے داد دی۔ میرے سامنے اس کی تقریر من و عن رکھی ہے۔ مجھے یہ سوال ایک ہفتے سے پریشان کر رہا ہے کہ 16 سالہ بچی ملالہ یوسف زئی کی تقریر کس نے لکھی تھی؟!
تعمیر نیوز : سولہ سالہ بچی ملالہ کی تقریر کس نے لکھی؟
آرنلڈ جوزف ٹائن بی ایک معروف برطانوی تاریخ داں ہو گزرا ہے۔ تہذیبوں کے عروج و زوال پر اس کی تحقیق نے گذشتہ صدی کے نصف میں خاصی شہرت پائی تھی۔ 12 جلدوں پر مشتمل اپنی اس تصنیف میں ٹائن بی نے زمانہ قبل مسیح سے بیسویں صدی کے وسط تک کرہ ارض پر جنم لینے والی تہذیبوں اور مختلف عقائد کا بڑی مہارت سے جائزہ لیا ہے۔
سن 1958 میں اس کا ایک مقالہ بعنوان Christianity among the Religions of the World آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے لندن سے شائع کیا۔ اس میں مختلف مذاہب کا تقابلی جائزہ لیا گیا تھا۔ پھر وہی مقالہ چند تبدیلیوں کے ساتھ جب دوبارہ 1968 کے آغاز میں شائع کیا گیا تو عالم اسلام سراپا احتجاج بن گیا۔ جب عالم اسلام کی طرف سے اس تحریر کے خلاف آواز اٹھی تو لاہور میں بھی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ اسمبلی ہال کے قریب میں واقع پاکستان سنٹر میں شہر کا صائب الرائے طبقہ اکٹھا ہو گیا۔ اجتماع میں ہر طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ تھے۔ ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کی ہوا شہر کے نوجوان طلبا کو اڑائے لیے جاتی تھی۔
پروفیسر امین مغل ، منہاج الدین ، منظور احمد اور یوسف جمال انصاری بھٹو کیمپ میں تھے جبکہ بھٹو مخالف گروہ کے بھی متعدد نمائندے وہاں موجود تھے۔ پہلا گروہ ٹائن بھی کی تحریر کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو غیر منطقی قرار دے رہا تھا تو دوسرا اس اشاعت کو دین اسلام کے خلاف صریح گستاخی گردان رہا تھا۔ حاضرین میں پروفیسر ظفر اللہ قریشی بھی موجود تھے۔ انہوں نے مغربی مستشرقین کے اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں تقریباً ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل ایک کتاب رقم کر رکھی تھی۔ تاریخ مذاہب پر ان کا مطالعہ قابل رشک تھا۔ پروفیسر قریشی خاموشی سے دونوں گروہوں کی گرما گرم گفتگو سنتے رہے۔
جب بحث نے طول پکڑا تو وہ چلا اٹھے :
"جو لوگ شاہراہوں پر ہونے والے اس احتجاج کو غیرمنطقی سمجھتے ہیں کیا ان کی عقلوں پر پتھر پڑے ہیں؟ گستاخ پر تنقید نہیں کر سکتے؟ اسے اس کی کم علمی کا احساس نہیں دلا سکتے؟ اگر تمہارے سچ بولنے میں کوئی عنصر مانع ہے تو کم از کم ناموں کی ہی لاج رکھ لو۔ اس اذاں کی ہی لاج رکھ لو جو تمہاری پیدائش کے چند لمحوں بعد ہی تمہارے کانوں میں گونج اٹھی تھی۔"
ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اور جلسے کا اختتام ہو گیا۔
اگلے دنوں میں مختلف پاکستانی جرائد میں ٹائن بی کے مقالے کے جواب میں کئی مضامین شائع ہوئے۔ برطانوی تاریخ داں نے خاموشی اختیار کر لی۔
دوسرا واقعہ ریاض میں کنگ فیصل فاؤنڈیشن کے وسیع و عریض آڈیٹوریم میں پیش آیا تھا۔ سویڈن کی مالو یونیورسٹی میں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقین اسٹڈیز قائم ہے۔ اس کے سربراہ معروف یورپی مستشرق پروفیسر بینگٹ نوٹسون تھے۔ یہ 1987ء کی بات ہے۔ اس سال اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے سویڈن نے ریاض میں اپنی صنعتی اشیا کی نمائش کا اہتمام کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پروفیسر نوٹسون خصوصی طور پر سعودی دارالحکومت لائے گئے تاکہ وہ عالم اسلام اور مغرب کے درمیان قائم رشتوں اور رابطوں پر سعودی شہریوں سے خطاب کر سکیں۔
کنگ فیصل فاؤنڈیشن میں ان کا لکچر رکھا گیا اور موضوع تھا : "تبلیغ اسلام میں یورپ کا کردار"۔ پروفیسر نے بڑی تفصیل سے یورپ میں قائم اسلامی مراکز اور یورپی جامعات میں کھولے گئے شعبہ ہائے اسلامیات پر روشنی ڈالی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ براعظم یورپ میں دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے حکومتی سرپرستی میں قابل ستائش کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنی زیرنگرانی کام کرنے والے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقین اسٹڈیز میں جاری تحقیقی کام کی بھی وضاحت کی اور کہا کہ وہاں ہونے والی تحقیق باقاعدہ اشاعت پذیر ہوتی ہے اور اس کے نسخے مختلف جامعات کو ارسال کیے جاتے ہیں۔ خطاب تمام ہوا تو سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔
کنگ سعود یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایک سینئر استاذ اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے :
"پروفیسر! آپ کا بہت شکریہ کہ اتنی اہم معلومات ہم تک پہنچائیں لیکن براہ کرم ایک سوال کا جواب دیں۔ جب عالم اسلام میں کوئی تسلیمہ نسرین پیدا ہوتی ہے ، جب کوئی ملعون سلمان رشدی کے نام کا آدمی ناقابل بیان حد تک قابل نفرت تصنیف کرتا ہے تو اسے فوراً مغرب میں حفاظتی آغوش مل جاتی ہے۔ جب آپ ہمارے مجرموں کو انسانی حقوق اور آزادئ اظہار رائے کے نام پر اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں تو پھر ہم یہ کیسے تسلیم کر لیں کہ سفید فام مغرب ہمارے دین کی تبلیغ و بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے؟ جو مغرب ہمارے مجرموں کی پناہ گاہ رہا ہے ، اس کی نیک نیتی کو ہم کیسے تسلیم کر لیں؟"
پروفیسر بینگٹ نوٹسون کا سر آہستہ آہستہ جھک گیا۔ پھر ان کی ہلکی سی آواز سنائی دی : "نو کمنٹس"!
ملالہ یوسف زئی کے خطاب کا اختتام ہوا تو ہزاروں کا مجمع اٹھ کھڑا ہوا اور تالیاں بجا کر اسے داد دی۔ میرے سامنے اس کی تقریر من و عن رکھی ہے۔ مجھے یہ سوال ایک ہفتے سے پریشان کر رہا ہے کہ 16 سالہ بچی ملالہ یوسف زئی کی تقریر کس نے لکھی تھی؟!
تعمیر نیوز : سولہ سالہ بچی ملالہ کی تقریر کس نے لکھی؟