• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوچ جو دولت کے دروازے کھول دے

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
(قاسم علی شاہ )

’’کچھ لوگ صرف خواب دیکھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اٹھتے ہیں اور اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے محنت شروع کرلیتے ہیں۔‘‘

’’دنیا میں ہر چیز دو بار بنتی ہے ۔ایک بار کسی کے ذہن میں دوسری بار دنیا میں ۔اگر آپ کی ذہن میں آپ کی کامیابی کی تصویر نہیں تو حقیقت میں بھی آپ کامیاب نہیں ہوسکتے ۔‘‘

’’تم وہ بن جاتے ہو جو تم سوچتے ہو۔‘‘
(نپولین ہل)

1883ء میں جنوب مغربی ورجینیا کے پہاڑی علاقے میں ایک لڑکے نے ایسے حالات میں آنکھ کھولی جب اس کے والدین بڑے کسمپرسی کی زندگی گزاررہے تھے۔ معاشی کمزوری اس قدر تھی کہ پورا خاندان ایک کمرے کے کیبن میں رہ رہا تھا۔جب وہ نو سال کاہوا تو اس کی ماں وفات پاگئی ۔ والد نے دوسری شادی کی اور خوش قسمتی سے اس کی سوتیلی ماں اچھی ثابت ہوئی جس نے ہر موقع پراس کو سپورٹ کرنا شروع کیا۔اس کو لکھنے کا شوق تھا ۔13سال کی عمر میں اس نے اپنے والد کے اخبار میں لکھنا شروع کیا۔رفتہ رفتہ اس کے لکھنے میں نکھار آتا گیا اور اس کو کچھ نہ کچھ معاوضہ بھی ملتا گیا۔چونکہ خاندان معاشی کمزوری کا شکار تھا اس لیے اپنی تعلیمی اخراجات اس نے خود ہی پورے کرنے کا فیصلہ کیا۔1908ء تک وہ متواتر لکھتا رہا اور ساتھ کسی مستقل ذریعہ معاش کی تلاش میں بھی رہا۔ایک دِن اس نے اخبار میں ایک دلچسپ اشتہار دیکھا جواس وقت کے سب سے موثر اور مالدار ترین آدمی اینڈریو کارنیگی کی طرف سے تھا. اُس کو اِس اشتہار میں کچھ انوکھی بات محسوس ہوئی اور اسی وجہ سے اگلے دِن وہ اینڈریو کارنیگی کے دفتر میں اس کے سامنے موجود تھا۔اینڈریو نے اس کو ایک عجیب پیشکش کی ،وہ بولا:

’’میرے پاس ایک آفر ہے۔میں کامیابی کے موضوع پرریسرچ کرواناچاہتا ہوں ۔اس وقت کے کامیاب ترین شخصیات میں سے اکثر میرے جان پہچان والے ہیں۔تم ان کا انٹرویو کرسکتے ہو لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ اس سارے کام کا تمہیں کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔‘‘
ان کی یہ میٹنگ تین دِن تک جاری رہی. نوجوان نے سوچ و بچار شروع کیا۔اس آفر کے فوائد فی الحال واضح نہیں تھے ،لہٰذا اس نے آفر کے دوسرے پہلوؤں (نقصانات) پر سوچنا شروع کیااور بالآخر اس نے ہامی بھرلی ، کیونکہ اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔

آج کی دنیا اس نوجوان کو نپولین ہل کے نام سے جانتی ہے،جو عالمی شہرت یافتہ کتاب Think and grow richسمیت دس کتابوں کا مصنف اور ’’نپولین ہل فاؤنڈیشن‘‘ کا بانی ہے۔ایک ایسا انسان جس نے غربت میں آنکھ کھولی، جو اعلیٰ تعلیم بھی حاصل نہ کرسکا اور جس کے پاس مناسب روزگار اور نوکری بھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس نے شہرت کے جھنڈے گاڑدیے، کیونکہ اس کے کام نے دنیا کو کامیابی کا ایک نیا نظریہ دیا۔ وہ پچیس سال تک اپنی تحقیق میں لگا رہا، اس نے بیس ہزار کامیاب اور ناکام لوگوں پرریسرچ کی اوراپنے وقت کے500 مالدارترین لوگوں کے انٹرویوز کیے ، جن میں اینڈریو کارنیگی ، گراہم بیل ، برڈسٹون ، لوتھر بینک ، ایلمر گیٹس ، جارج شیفرڈ ، تھیوڈرروزویلٹ ، ڈینیل رائٹ ، فرینک رانڈرلپ، البرٹ گیری اور ہنری فورڈ شامل تھے اور ان تمام کامیاب شخصیات میں جومشترک خصوصیات تھیں انہیں جمع کرکے
’’Think & Grow Rich‘‘
کے نام سے ایک کتاب لکھ لی۔یہ کتاب اب تک کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے جس کی دو کروڑ سے زیادہ اوریجنل کاپیاں بک چکی ہیں۔اس کتاب میں نپولین ہل نے بتایا کہ کامیابی اور ناکامی کیا ہوتی ہے،یہ کن لوگوں کو ملتی ہے اور دنیا کے کامیاب ترین افراد کن عادات اور صفات سے متصف ہوتے ہیں۔
آج کی نشست میں ہم ان نکات کو آسان انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

(1)کامیابی کے بارے میں سوچنا

تمام کامیاب لوگ اپنی کامیابی کے بارے میں سوچتے ہیں ۔یہ دنیا کے تمام نظام اور ساری صورتِ حال کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ میں کیوں کامیاب نہیں ہورہا؟وہ سوچتے ہیں کہ میں جہاں سے چلاتھا آج بھی وہیں پہ ہوں ،کیوں؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس انسان کی زندگی میں نئے حالات ،واقعات اورلوگ نہیں آرہے تو وہ ترقی نہیں کرسکتا۔سقراط کا قول ہے کہ ’’ میں پڑھاتا نہیں ہوں ، میں سکھاتا نہیں ہوں میں صرف سوچنے پر مجبور کرتا ہوں ۔‘‘

(2)جذبہ و جنون
کامیاب لوگو ں میں جنون کی عادت تھی ،جس کو ہم عشق ، پاگل پن اور خبط بھی کہہ سکتے ہیں ۔وہ جس چیزکے پیچھے پڑجاتے اسے کرکے رہتے ، چاہے اس کے لیے انہیں کتنی ہی صبر آزما انتظار اور سخت مشقتیں کیوں نہ برداشت کرنا پڑتیں۔

(3)یقین
کامیاب لوگوں میں تیسری خصوصیت یقین کی تھی ۔ان سب کو یقین تھا کہ ہم کچھ کر جائیں گے ۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو طالب علم قابل ہوتا ہے اس کو یقین ہوتا ہے کہ میری محنت رنگ لائے گی اور اسی وجہ سے وہ محنت کرتا ہے جبکہ نالائق طلبہ میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے وہ یہ کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ محنت کا کوئی فائدہ نہیں اور اسی وجہ سے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں ۔اگر انسان کو اپنے آنے والے دنوں کی خیر پر یقین نہیں ہے تو وہ کوشش نہیں کرسکتا۔

(4)خود کلامی
جتنے بھی کامیاب لوگ تھے ان میں ایک چیز مشترک تھی کہ وہ Auto suggessionیعنی خود کلامی کرتے تھے۔انسان جس طرح کی خود کلامی اپنے ساتھ کرتا ہے ویسے ہی اس کے خیالات بنتے ہیں اور ان ہی خیالات سے اس کے حالات بنتے ہیں۔یہ تمام کامیاب لو گ خود کلامی کے ذریعے خود کو یقین دلاتے رہتے کہ ہاں میں کرسکتا ہوںاور اسی یقین کی بدولت وہ کامیابی پالیتے۔

( 5)مخصوص فیلڈ
ان تمام کامیاب لوگوں نے ایک مخصوص فیلڈ کو پکڑ کر اس میں کامیابی حاصل کی تھی ۔جیسے ایڈیسن نے بلب کو لیا تھا ، برج اسٹون نے گاڑیوں کی صنعت کو اختیار کیااور اینڈریو کارنیگی نے اسٹیل انڈسٹری پکڑلی ۔ایک کام کو اختیار کرلینے کے بعد انہوں نے اس میں اپنی پوری توانائیاں جھونک دیں اور نتیجتاً وہ کامیابی کے حق دار ٹھہرے.

(6)تخلیقیت
یہ تمام کامیاب لوگ تخیل نگاری اور امیجی نیشن کے گرو تھے ، یہ خواب دیکھتے تھے اور اس کی تعبیر کے لیے جدوجہد شروع کردیتے تھے اور پھر ۔۔کامیاب ہوجاتے۔اللہ ہر انسان کو موقع دیتا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ موقع صرف قسمت والے کو ملتا ہے ، حالانکہ یہ غلط سوچ ہے ۔موقعے کی تیاری کا نام قسمت ہے.

(7)پلاننگ
کامیاب لوگوں میں ساتویں بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ لوگ انتہائی منظم انداز میں وقت گزارتے تھے ۔ یہ بات یاد رکھیں کہ پلاننگ بڑے کاموں کی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے کاموں کی ہوتی ہے ۔پلاننگ کو اگر ہم ایک جملے میں سمونا چاہیں تو کچھ یوں ہوگا کہ ’’وسائل اور ذرائع کوبہترین انداز میں استعمال کرنا۔‘‘
اب جو اِن وسائل کو جیسے استعمال کرے گا وہ اتنا ہی کامیاب ہوگا۔

(8)خود پر کنٹرول
کامیاب لوگوں میں ایک خوبی یہ تھی کہ یہ سب لوگ خود پر کنٹرول کرناجانتے تھے۔ان لوگوں نے خود کو اپنے موڈ کے تابع نہیں کیا تھا بلکہ موڈ کو اپنے تابع کیا تھا۔ہر وہ انسان جو اپنے موڈ کے ساتھ لڑنا جانتا ہواوراس کو کنٹرول کرسکتا ہو تو وہ مختصر وقت میں شاندار نتائج حاصل کرسکتا ہے۔

(9)استقامت
ایک اور خوبی ان میں استقامت کی تھی ۔یہ لوگ اپنے ارادوں پرڈٹے رہتے اور کیسے بھی مشکل حالات ان پر آتے وہ اپنے عزائم سے پیچھے نہ ہٹتے۔دانا کہتے ہیں:’’ استقامت میں ہی کرامت ہے۔‘‘استقامت والے انسان کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے اور یہی مدد اس کو کسی بڑے نتیجے تک پہنچا دیتی ہے۔

(10)Power of master mind

کامیاب لوگوں کی ایک خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی ذہانت ، تجربے اور تحقیق سے بھی بھرپور مدد لی اور اس کے ساتھ جتنے بھی بڑے دماغ کے لوگ تھے انہیں اپنے ایڈوائزری بورڈ میں شامل کیا اور ان کی خدمات سے پوری طرح مستفید ہوئے۔ان کے نزدیک ایک او ر ایک ’’دو‘‘ نہیں بلکہ’’ گیارہ‘‘ ہوتے ہیں ۔اعلیٰ دماغوں کی مدد سے انہوں نے عظیم الشان کامیاباں حاصل کیں۔

(11)ایموشنل مینجمنٹ
نپولین اپنی اس کتاب میں کہتا ہے :’’ میں نے دو ہزار سالہ انسانی تاریخ کی بڑی شخصیات کی سوانح حیات کو پڑھا او ر ایک چیزسب میں مشترک دیکھی کہ جو بھی بڑاانسان بنا ہے اس کے پیچھے کوئی اہم واقعہ تھا ۔‘‘اس واقعہ کی وجہ سے اس کا دل ٹوٹا، اس نے اپنے جذبات کو دوسرا رخ دیا اور وہ بڑا انسان بن گیا ۔ انسان کے دو جذبات ایسے ہیں جن میں تباہ کرنے اور بنانے کی مکمل صلاحیت موجودہے۔ ایک غصہ اور دوسری محبت،واصف علی واصف کا جملہ ہے کہ ’’چھوٹے انسان کا غم اسے کھاجاتا ہے اوربڑے انسان کا غم اسے بناجاتا ہے ۔‘‘

(12)خوف کے بھوت پر کنٹرول
جو انسان اپنے خوف کو لگام ڈال دیتا ہے وہ کامیاب ہوجاتاہے۔نپولین نے ان سب لوگوں میں یہ چیز مشتر ک پائی کہ وہ اپنے خوفوں کو کنٹرول کرتے تھے۔ان کو یہ ڈر نہیں ہوتا کہ میں ناکام ہوگیا تو لوگ کیا کہیں گے ۔کامیاب ہونے کے لیے انسان کو لاخوف ہونا پڑتا ہے ۔آپ کامیاب ہیں یا ناکام ،لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ، البتہ آپ کو ضرورفرق پڑتاہے۔

Think & grow rich
کتاب نے لوگوں کی زندگیاں کیسے بدلیں؟

1-باربرا این کورکورنا
ایک مشہور امریکی بزنس خاتون، مقررہ ،مصنفہ اور کارکورن گروپ کی فاونڈر ، اس کتاب کے بارے میں بتاتی ہیں:

’’اس کتاب میں موجود ہنری فورڈ کی کہانی نے مجھے پیسوں کے بارے میں بہترین آئیڈیا دیا۔میرے اندر بہت ساری خوبیاں تھیں لیکن پیسوں کے معاملات کو کیسے دیکھنا ہے، اس کی مجھے کچھ زیادہ سمجھ نہیں تھی۔میں نے فوری طورپر ایک خاتون کو ہائر کیاتا کہ وہ میرے مالی معاملا ت اور دیگر چیزوں کو اچھے انداز میں منظم کریں ۔اس کتاب سے میں نے یہ سیکھا کہ تمہارے اندرجو خوبیاں موجود نہیں ان کے لیے دوسرے ماہر افراد رکھا جاسکتا ہے۔میں نے اس نکتے پر عمل کیا اورشاندار کامیابیاں حاصل کیں۔

2- سینڈے گلاگر
’’پروکٹرگلاگر انسٹیوٹ ‘‘ کی سی ای او ،اور ایک مشہور ٹرینر ہیں۔انہوں نے عالمی شہرت یافتہ ٹرینر باب پروکٹر کے ساتھ کئی ٹریننگ پروگرامزبھی کیے ہیں ، وہ اس کتاب کے بارے میں بتاتی ہیں:

’’اس کتاب نے میری زندگی بدل دی۔جب میں وکالت کی پریکٹس کررہی تھی تو میری سہیلی نے مجھے ایک سمینار میں مدعو کیا ۔جب میں ہال میں پہنچی تواسٹیج پر ایک مقرر بڑے بہترین انداز میں بات کررہے تھے ۔وہ معروف ٹرینر باب پروکٹر تھے ، ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جس کا نام تھا,
Think and grow rich،
وہ بتارہے تھے :
’’ میں 45سال سے اس کتاب کو پڑھ رہا ہوں۔ہم میں سے ہر ایک اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ ایک پرسکون زندگی گزارے جب تک کہ وہ مرنہیں جاتا۔‘‘

ان کی باتوں نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کردیااور جب میں سیمینار ختم ہونے کے بعد ہال سے باہر جارہی تھی تو میں نے اپنے آپ سے ایک عہد کیا کہ میں نے اپنی زندگی ویسی ہی نہیں گزارنی بلکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہے اور پھر اسی سوچ نے مجھے زندگی میں بہت آگے بڑھایا۔

3. جم اسٹوول
بیسٹ سیلنگ ناول
’’The Ultimate Gift‘‘
سمیت 13کتابوں کے مصنف ،مقرراور معروف ٹی وی اینکر جم اسٹوول اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں:
’’میرا ایک بہت بڑا خواب تھا کہ میں امریکی فٹ بال ٹیم کا حصہ بن جاوں۔ایک دِن میں ٹریننگ میں مصروف تھا کہ میری آنکھوں میں کچھ ہوا ، چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ میری بینائی آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے۔دس سال بعد میں مکمل طورپر نابینا ہوچکا تھا ۔اس کے بعد مجھے لگا کہ میری زندگی ہی ختم ہوگئی ۔مجھے ایک سفید چھڑی تھمادی گئی اور کہا گیا کہ باقی کی زندگی تمہیں محتاجی کی گزارنے پڑے گی۔میرے کمرے میں ایک ریڈیو ، ٹیپ ریکارڈر اور ٹیلی فون پڑا ہوتا، مجھے کسی نے Think and grow richکی آڈیو کتاب دی تھی ۔میں نے سننا شروع کی ،جیسے جیسے میں سنتا گیا میری سوچ کو نئے زاویے ملتے گئے ۔میں نے اسی کے مطابق سوچنا شروع کیا اور میری زندگی بدلنا شروع ہوگئی۔وہ ایک آواز تھی جو مجھے خالص اور مثبت طاقت دے رہی تھی اور بتارہی تھی کہ زندگی میں کچھ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔میں نے اپنی بینائی کو شکست دے دی اور ایک کامیاب زندگی گزارکر ثابت کیا کہ اگر انسان میں سچی لگن ہو تو وہ کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے۔‘‘
 
Top