• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سکون

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
ابھی میں اپنے گھر کے دروازے پر آیا ہی تھا کہ شیخوپورہ میں اپنے دوست امان اللہ عاصم کو ملنے جاﺅں۔ اتنے میںباہر سے دروازے پر دستک ہو گئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے چاچا جمیل اپنے چہرے کو ہشاش اور متبسم بنائے کھڑا تھا۔ اسے دیکھتے ہی دل سے آواز اٹھی: لو جلدی شیخوپورہ پہنچنے کے لئے بھاگ دوڑ کرنے والے، اب گھنٹہ دو گھنٹے تو گئے۔ یہ چاچا جلدی جان نہ چھوڑے گا، آیا بھی اس وقت جب تیار ہو کر گھر سے نکلنے کے لئے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ کسی گھر آئے مہمان کو ٹالا اور واپس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا میں نے مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتے ہوئے چاچا کو اپنی لائبریری میں بٹھایا اور بچے کو اس کے لئے ٹھنڈا مشروب لانے کے لئے کہا۔
اب میں منتظر تھا کہ بابا سابقہ روایات کو زندہ رکھتے ہوئے اپنی رام کہانی سنانی شروع کرے اور میں ہمہ تن گوش ہو کر سنوں۔ لیجے دیکھئے چاچا جان اپنی کہانی آج ایک بار پھر سنانے کے لئے پرتول رہے ہیں کہ لڑکا ٹھنڈا شربت لا کر پیش کر چکا ہے۔ لہٰذا بابا جان چپ ہو کر اسے نوش جان کر رہے اور ابھی پینے پلانے کے چکر سے فارغ ہو کر اپنی ہڈبیتی سنانی شروع کریں گے لیکن ان کے بولنے سے پہلے میں اپنے محترم قارئین کو چاچا جان کی سابقہ رام کہانی کی قسطوں کا خلاصہ سنا دوں۔
یہ چاچا جان میرے پاس کافی عرصہ سے آ رہے ہیں اور کہتے ہیں: طاہر بیٹا! مجھے ذہنی و جسمانی سکون نہیں مل رہا، کوئی ٹوٹکا، کوئی نسخہ، کوئی دم درود، جنتر منتر یا علاج بتاﺅ۔ میں اس کے لئے ان کو مختلف مشورے دیتا رہتا ہوں۔ چاچا جان اپنی جوانی سے کہانی شروع کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ میرے ماضی کا آسمان گناہوں کی اندھیری گھنگھور گھٹاﺅں سے اٹا پڑا ہے، کبھی اپنے گناہوں کو یاد کرتا ہوں تو دل گھبرا جاتا ہے، سانسیں رکتی اور پھنستی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، جسم سے جان نکلتی جاتی ہے۔ اللہ کے عذاب سے ڈر کر کانپنے لگتا ہوں....
کہتا دیکھو بیٹا.... اللہ کریم نے مجھے بیٹوں اور بیٹیوں کی شکل میں اولاد دی، میں نے ان کو پالا پوسا، خوراک، روپیہ پیسہ، ہر طرح کی سہولیات دیں، سب مہیا کیا، ان کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، نوکریوں پر لگوایا.... شادیاں کیں.... لیکن آج وہی بیٹے اور بیٹیاں اور بہوئیں میری کسی بات پر کان نہیں دھرتے، میری کسی بات کی پروا نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات تو حقارت سے ٹوک دیتے ہیں اور بے عزتی کر دیتے ہیں۔ مجھے بتائیں میں نے ان کے لئے کیا کیا نہیں کیا، کیا یہی صلہ اور بدلہ دینا تھا انہوں نے جوان ہو کر؟؟ میں موجودہ زندگی سے غیرمطمئن ہوں اور آخرت کے لئے پریشان.... مرنے کے بعد اللہ کریم کے سامنے جوابدہی کے احساس سے جھرجھری آ جاتی ہے اور ڈر لگتا ہے۔
یوں محرومی، گناہ کے ارتکاب کے خوف اور اپنوں کے غیرشریفانہ رویہ کی وجہ سے میرا دل ہر وقت پریشان رہتا ہے۔ دل کو سکون اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔ میرے مضطرب بے کل، حیران و پریشان اور ویران دل کو سکون کب ملے گا۔ ٹھنڈک کا احساس کب نصیب ہو گا، میری منزل ”دل کا سکون“ ہے، مجھے پہنچا دو میری منزل مقصود پر.... میں آپ کا یہ احسان کبھی نہ بھولوں گا۔
میں نے نسخہ بھی بتا دیا اور نسخہ بتانے سے پہلے چاچا جان کو ایک راز کی بات بتائی تھی آپ بھی سن لیں، میں نے کہا تھا: چاچا جان! یاد رکھیں، بیٹوں، بیٹیوں کی پرورش، تعلیم و تربیت، شادی، نوکری وغیرہ جیسے لوازمات مہیا کر کے آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں نے احسان کیا، یا بہوﺅں سے حسن سلوک کر کے یہ سمجھو کہ میں نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا، یہ تو تمہاری ذمہ داری اور فرض تھا اگر ایسا نہ کرتے تو خدا کے حضور مجرم ہوتے اور سزا کے حقدار ٹھہرتے۔ ایسا ہی آپ کے والدین نے آپ کے ساتھ کیا تھا۔ ایسا اپنی اولاد کے ساتھ کرنا آدم سے لے کر اب تک ہر باپ کا فریضہ ہے نہ کہ احسان۔
٭یہ بھی یاد رکھیں کہ کسی کے ساتھ نیکی کر کے، احسان کر کے صلہ کی توقع کبھی نہ رکھو ورنہ سکون قلب کی دولت کھو دو گے، دنیا والے اس کا صلہ و بدلہ نہیں دے سکتے بلکہ وہ تو اس کے برعکس رویہ اپنائیں گے اور ان کے الٹے سیدھے رویے اور باتوں کے لئے انسان کو ہر لمحہ تیار رہنا چاہئے، صلہ و بدلہ کی توقع اسی سے رکھنی چاہئے جو حقیقی معنوں میں دینے پر قادر ہے، اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ لہٰذا نیکی کر دریا میں ڈال یعنی کسی کے ساتھ احسان کر کے اسکو یاد نہ رکھو کہ یہ مجھے اس کا صلہ دے گا بلکہ اس احسان کو ہمیشہ کیلئے بھول جاﺅ۔
٭اپنا ہر ہر لمحہ اللہ کے ذکر سے معمور کرو۔
آخری بات یہ کہ نمازیں دل لگا کر خشوع خضوع سے پڑھو۔ سونے اور جاگنے کے وقت رقت طاری کر دینے والی، فکر آخرت پیدا کرنے والی اور آخرت، قیامت، قبر میدان محشر کے مناظر کی عکاس سورتوں کا ترجمہ سمجھ کر باقاعدگی سے تلاوت کرو۔ پھر دیکھو سکون ہی سکون.... آرام ہی آرام.... راحت ہی راحت ہو گی۔
قارئین محترم! چاچا جان! حیرانی سے میری طرف دیکھ رہے ہیں ٹھنڈا مشروب پی چکے ہیں، شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں ٹھہریئے! ان کی بھی سن لیں۔ وہ آج کیا کہنے آئے ہیں، جی چاچا جی آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں،ذرا مختصر کہیں مجھے دراصل جلدی شیخوپورہ پہنچنا ہے۔ میں نے وہاں ٹائم پر پہنچنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ طاہر بیٹا آپ نے پچھلے ہفتہ جو نسخے سکون قلب کے لئے بتائے تھے میں نے ان کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ عرض کرنے کے لئے حاضر ہوا تھا.... ضرور ضرور کیوں نہیں، میں تیار ہوں سننے کے لئے، بتائیں، میں نے کہا۔ بیٹا جی!.... میں نے اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھنا شروع کر دیا۔ نمازیں باقاعدگی سے پورے خشوع سے شروع کر دیں۔ بیٹیوں، بیٹوں، بہوﺅں سے اور ہر کسی سے نیکی و احسان کے بعد صلہ و بدلہ کی توقع کو ہمیشہ کے لئے تین طلاقیں دے دی ہیں۔ صبح و شام آپ کی بتائی سورتوں کی تلاوت ترجمہ سمجھ کر جونہی شروع کی آنکھوں نے موتیوں (آنسوﺅں) کی لڑیاں پرونا شروع کر دیں۔ اللہ کا خوف اس کی ناراضگی کا ڈر اور اس کے عذاب سے بچنے کے لئے عملی تدابیر کو اختیار کرنے کی فکر ہر وقت دامن گیر رہتی ہے۔ قرآن پڑھنا.... آنسو بہانا.... دل کو جلانا.... محبوب حقیقی کو منانا.... بہت اچھا لگتا ہے۔ میں نے رات اٹھ کر تہجد میں بھی آہ زاری کی ابتدا کر دی ہے۔ اللہ کے ذکر کا مجھے ایسا چسکا پڑا ہے کہ جب بجلی بند ہو جاتی ہے تو سب لوگ اپنے کام چھوڑ دیتے ہیں اور ایک کھلی ہوا دار جگہ پر اکٹھے ہو کر گپیں لگانے لگتے ہیں۔ میں اس دوران اللہ کا ذکر کرنے لگتا ہوں۔ یوں میں لوڈشیڈنگ کے جان لیوا لمحات میں بھی اللہ کے ذکر سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ کسی پر روک ٹوک، نقص بینی، تنقید و تنقیص نوک جھونک کی بجائے اپنے ہی من میں ڈوب کر صرف ذکر پر اکتفا کرتا ہوں۔
اب میری اس تبدیلی سے گھر میں بیٹیاں اور بہوئیں بھی مثبت تبدیلی کی زد میں ہیں۔ وہ میری قدردانی اور عزت کرنے لگی ہیں بلکہ خود بھی نماز پڑھنے لگی ہیں اور نہ پڑھنے والوں کو ترغیب دیتی ہیں۔ بیٹوں میں بھی مثبت تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ وہ نماز کے لئے اٹھنے لگے ہیں اور مجھے تلاوت کرتا اور روتا دیکھ کر قرآن کھول کر خود بھی تلاوت کرنے لگے ہیں۔ امید ہے عنقریب میرے نواسے اور نواسیاں بھی اس تبدیلی کو قبول کر لیں گے اور پھر ہمارا گھر رشک چمن، بہاروں کا مسکن اور مہکتا گلشن ہو گا۔ اب میرے دل کو سکون ملنے لگا ہے، میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ میں اپنے مشاہدے کی بنا پر یہ اعلان کرتا ہوں کہ دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور اور انقلابی چیز کوئی ہے تو وہ اللہ کا ذکر ہے.... جو اجڑے، ویران، پریشان.... بنجر و سنسان.... حیران و پریشان.... دلوں کے لئے.... ٹھنڈک.... راحت.... آرام اور سکون کا باعث بنتا ہے۔ سچ ہے کہ بے شک اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان و سکون ملتا ہے۔





بشکریہ ،، ہفت روزہ جرار
والسلام ،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
Top