• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیاسی فرقہ پرستی

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سیاسی فرقہ پرستی

میرے چند احباب مجھ سے صرف اس بات پر دور ہو گئے کہ میں ان سے مختلف سیاسی نظریہ رکھتا ہوں۔ کسی بھی محفل، افطار پارٹی، دعوت وغیرہ میں سیاست کے سوا موضوعات ناپید ہو چکے ہیں۔ بات بحث سے شروع ہوتی ہے اور لڑائی پر ختم، مباعث میں سے کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا اور بعض دفعہ تو کوئی دلیل بھی نہیں ہوتی۔ یہ منظر اب ہوٹل، چوراہوں، گھر، محفل ہر جگہ نظر آتا ہے، دلیل پر دلیل، بات پر بات اور بے نتیجہ ! دلوں میں فاصلے کچھ بڑھ سے گئے ہیں اور لوگ سیاسی فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ یہ تقسیم آپ کو میڈیا پر بھی نظر آئے گی، اگر آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر بلیٹن سنا دی جائے تو آپ بتا دیں گے کہ کون سے نیوز چینل کی خبر ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ایک ہی جلسے یا واقعہ کی منظر کشی ہو اور آپ ریموٹ گھما کر دیکھیں تو ایسے گمان ہو گا کہ آپ دو مختلف چیزیں دیکھ رہے ہیں۔ یہ تقیسم دانشوروں میں بھی ہیں اور کالم نگاروں میں بھی، ہم اب اپنے نظریے کے دانشور کو سنتے ہیں اور دوسری طرف کی دلیل یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ صاحب یہ تو فلاں پارٹی کا ہے یا یہ تو بک چکا ہے۔ یہ تقسیم آپ کو ٹوئٹر اور فیس بک بھی نظر آتی ہے اب لوگ صرف یکطرفہ بات کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں فرقہ تبدیل کرنا بہت مشکل ہے،

  1. ایک تو ہم دوسری رائے سنتے ہی نہیں،
  2. دوسرا ہم نے لیڈز کو دیوتا کا درجہ دے رکھا ہے،
  3. اور تیسرا ہم کسی بھی واقعہ میں کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر اپنے دل کو تسلی دے دیتے ہیں۔

اس کی ایک شکل شخصیت پرستی کی ہے، ہم جس لیڈر کو پسند کرتے ہیں اس کی ہر بات کا دفاع کرتے ہیں۔ چاہے ہمارے اندر یہ احساس ہو کہ فلاں صاحب یا انکی فلاں بات غلط ہے مگر کیونکہ ہم اس کی گماں کی حد تک پرتش کرتے ہیں لہٰذا ہم اس کا اسی شدومد سے دفاع کرتے ہیں۔ اس لیڈر کی ہر بات پر پردہ ڈالتے ہیں، کہیں دور سے اپنی ذات کو تسلی دینے کو دلیل گھڑتے ہیں۔ یہی چیز متضاد بھی ہوتی ہے یعنی اگر کوئی اچھی بات، عمل یا دلیل مخالف لیڈر کا ہو ہم اس میں بےجا کیڑے نکلاتے ہیں، اس کو ردّ کرنے کی ہر ترکیب کرتے ہیں۔ اگر کوئی لیڈر یکسر غلط اور قصور وار نکل آئے یا اس کا کوئی نظریہ درست نہ نکلے تو ہم راہ راست پر آنے کے بجائے نہ صرف اس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اپنی آپ کو بھی جھوٹی تسلی دیتے ہیں۔

یہ وہ سیاسی پستی اور زوال ہے جو ہماری معاشرت، سیاسی بلوغت اور معاشرتی نشونما کو دیمک کی طرح چھاٹ رہا ہے، اس کا ادارک کیے بغیر بطور قوم کسی صورت آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ ہماری عقلیں سلب ہو چکی ہیں، دانش جواب دے چکی ہے، فکر دب چکی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے اس قوم کے لیے جو پہلے ہی لسانی، مذہبی، اور برادری کی تقسیم میں تھی۔ خدا جانے ہماری سمت کیا ہے اور ہم کب شخصیت پرستی سے نکل کر کسی دوسری کی رائے کو بھی جگہ دیں گے۔ کب ہم سکے کے دنوں رخ دیکھنے کی صلاحیت رکھیں گے؟

تحریر: حسن بھٹی

۱۵ اگست ۲۰۱۷
 
Top