• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیاچن کیلئے سازش اور جنرل کیانی

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
میرے خیال میں تو صدر زرداری کا دورہ بھارت بھی ایک سازش ہے۔ صدر زرداری نے یہ دورہ خود نہیں کیا۔ کرایا گیا ہے ورنہ وہ خواجہ غریب نوازؒ کے پاس اس طرح حاضر نہ ہوتے اور اس سے پہلے من موہن سنگھ سے نہ ملتے۔ اسے منت ڈپلومیسی کہا جا رہا ہے میں نے اسے منت سماجت ڈپلومیسی کہا ہے۔ اس دورے سے پہلے حافظ سعید کے لئے امریکہ سے اعلان کرایا گیا۔ گمشدگی کے لئے اعلان ایسے آدمی کے لئے تو نہیں کیا جاتا جو بالکل سامنے ہو۔ اتنے برسوں کے بعد اب کیا یاد آئی ہے؟ حافظ صاحب دفاع پاکستان کونسل کے مرکزی آدمی ہیں۔ حافظ سعید نے کہا کہ ”یہ بڑا انعام مجھے دے دو میں رسید بھی دے دوں گا۔ یہ بچگانہ مگر گہری حرکت امریکہ بھارت کے کہنے پر کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور برصغیر میں بھارت اب امریکہ کے آقا و مولا ہیں اور ہمارا آقا و مولا امریکہ ہے۔ ہمارے حکمران، سیاستدان، اپوزیشن لیڈران، جرنیل صاحبان اور سارے بزدل انسان اور میڈیا کے پردھان امریکہ کی مرضی سے کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں اور اگر کچھ نہیں کرتے تو وہ بھی امریکہ کے حکم پر کرتے ہیں۔ صدر زرداری پاکستان میں اپنے حریفوں اور حلیفوں سے جو سیاست کر رہے ہیں۔ اس میں وہ کامیاب ہیں۔ سب نے ان کی صلاحیتوں کا لوہا مان لیا ہے۔ لفظ لوہا پر غور کریں۔ بھارت کا دورہ بھی کچھ ایسا ہے۔ صدر زرداری بھارت کے اور امریکہ کے لئے بھی کچھ کمال دکھائیں۔ ان کے دورے سے پہلے حافظ صاحب کے لئے شور شرابہ اسی طرح سمجھ میں نہیں آیا جیسے ان کی سیاست سیاستدانوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اب تو اپنے بھی ان کی سیاست کی زد میں ہیں۔ اعتزاز احسن بھی ایک دن روئے گا۔
سیاچن میں سانحہ بھی ایسا ہی ہے جیسے پچھلے سے پچھلے برس سیلاب آیا تھا کبھی سیلاب افغانستان کی طرف سے آیا ہے؟ اس میں امریکہ بھارت کی کوئی پلاننگ تھی۔ پاکستان میں اس طرح کے اقدامات کے لئے امریکہ کامیاب ہوتا ہے کہ بھارت اس کے ساتھ ہے جو پاکستان کا کھُلا دشمن ہے اور امریکہ پاکستان کے اندر تک گھسا ہوا ہے۔ اب بھارت بھی آگے تک کھُلا ہوا ہے۔ امریکہ اور بھارت نے برف کے تودہ گرنے کے لئے فوراً امداد کی پیشکش کی جبکہ یہ مسئلہ ہی ان کا پیدا کردہ ہے۔ سیاچن پر حملہ بھارت نے کیا تھا۔ اور یہ شرارت بھی بھارت نے امریکہ کے ساتھ مل کر کی تھی۔ سقوط مشرقی پاکستان کے لئے بھی امریکہ اور بھارت ایک ساتھ تھے۔ اتنا بڑا گلیشیئر یونہی تو نہیں گر پڑا۔ اسے گرانے کے لئے کوئی کوشش ہوئی ہے جو سازش کی طرح ہے۔ امریکی ٹیم امدادی ٹیم کے روپ بلکہ بہروپ میں وہاں پہنچ گئی ہے۔ تودہ گرانے کے بعد اپنے مقاصد کی تکمیل اسی طرح ہو گی۔ امریکہ وہی کرے گا جو اس کے مقاصد اور بھارت کے مفادات کے مطابق ہو گا۔ سیاچن دنیا کا سب سے اونچا محاذ ہے جہاں برف ہی برف ہے۔ نہ انسان نہ حیوان، نہ چرند نہ پرند، یہاں بھارت نے امریکہ کے کہنے پر حملہ کیا تھا کہ اس میں بھی کوئی منفی اور مخفی مقصد چھپا ہوا ہو گا۔ یہ بے مصرف لڑائی ہے۔ جہاں موسموں کے خلاف بھی جنگ کرنا پڑتی ہے۔ ہم تو صرف دفاع کر رہے ہیں۔ وہ بھی ہمارے بہادر فوجی جوان اور فوجی افسران کر رہے ہیں۔ سیاستدان اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ کوئی سیاستدان وہاں نہیں پہنچا۔ یہ بہت بڑی دہشت گردی ہے۔ یہ گلیشیئر اس طرح دھماکے سے ڈھایا گیا جیسے ستم ڈھایا جاتا ہے یا جیسے قیامت ڈھائی جاتی ہے کسی بم دھماکے میں اتنے آدمی نہیں مرتے اس دہشت گردی میں فوجی افسران اور جوان تو شہید ہوئے عام انسان بھی ہوئے۔ رحمٰن ملک وہاں فوراً سے پیشتر پہنچ جاتے ہیں جہاں دہشت گردی ہوتی ہے۔ نیول بیس کراچی پر حملے کے لئے رحمن ملک نے کہا تھا کہ یہ پاکستان پر حملہ ہے۔ سیاچن سے ذرا نیچے گیاری کے مقام پر یہ واقعی پاکستان پر حملہ ہے۔ رحمن ملک یہاں کیوں نہیں پہنچا۔ اُسے پاک فوج والے قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ وزیراعظم گیلانی انرجی کانفرنس میں اپنی باقی ماندہ انرجیاں ضائع کر رہے ہیں۔ الیکشن سے پہلے تو انہوں نے لوڈشیڈنگ ختم کرنا ہے۔ صدر زرداری بھی کہہ چکے ہیں۔ شہباز شریف نے اس کانفرنس میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی۔ عمران خان سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں دعا ہی کر سکتا ہوں۔ اس کا انقلاب بھی اس کی دعا کا منتظر ہے۔
جنرل کیانی پہنچے۔ ایک سپہ سالار کو اپنے فوجیوں کی فکر ہونا چاہئے۔ مگر وہ بھی اس سازش کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جو ہر ایسے المیے کے پیچھے صاف نظر آ رہی ہوتی ہے۔ نوائے وقت کی ایک ادیب کالم نگار شاعرہ رابعہ رحمان نے اسے سانحہ کہا ہے۔ رابعہ نے پنڈی کی ایک مسجد میں بم دھماکے سے شہید ہونے والے جانبازوں کے لئے کتاب لکھی ہے۔ اس کالم میں بھی وہی دردمندی جھلک رہی ہے۔ برادرم فضل اعوان نے بھی کالم لکھا ہے۔ اس واقعے میں چھپی ہوئی سیاست پر خوب تبصرہ کیا ہے۔ میرا موقف واضح طور پر یہ ہے کہ ایک خطرناک منصوبہ بندی کے تحت سازش کی گئی ہے۔ جنرل کیانی کے لئے میرے دل میں نرم گوشہ ہے مگر وہ چیزوں کی تہ میں لرزتی ہوئی کہانی کو جانتے ہوئے بھی خاموش رہتے ہیں۔ حکمرانوں کے ساتھ ان کی ملاقات سے بھی لوگ عجیب مخمصے اور وسوسے میں پڑے رہتے ہیں۔ ان کے سامنے فوجی معاملات میں بھی خوفناک مداخلت ہو رہی ہے وہ جرنیلوں جیسا رویہ تو دل میں رکھتے ہیں مگر سیاستدانوں کی طرح معاملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اس حوالے سے اتنے محتاط ہیں کہ جہاں ردعمل ضروری ہوتا ہے وہاں بھی مصلحت کوشی اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے جرنیل بننے کی کوشش کی کہ انہیں ڈکٹیٹر بننے کا شوق ہے۔ ہمارے جرنیلوں نے سیاستدان بننے کی کوشش کی کہ انہیں ”جمہوری“ بننے کا شوق تھا۔ دونوں ناکام ہوئے اور بدنام ہوئے۔ یہ احساس کمتری اُن میں امریکہ نے ڈالا ہے۔ جنرل کیانی سیاست میں آئے ہی نہیں تو پھر سیاستدان بننے کی کیا ضرورت ہے۔ وطن کا دفاع اور حفاظت ان کی ذمہ داری ہے۔ وہ خود اپنے دل میں سوچیں کہ پاکستان خطرات میں پھنستا جا رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔ عجیب بدقسمتی ہے کہ دیر سے پہلے پاکستان میں اندھیر ہو گیا ہے۔ اندھیرا شاید اندھیر سے پہلے ضروری ہوتا ہے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج۔
برفانی تودہ گرنے کی خبر پہلے فیس بُک پر آئی۔ اس کے بعد میڈیا پر اور اس کے بعد آئی ایس پی آر نے ”پھُرتی“ دکھائی۔ کیا کسی کو تودہ گرنے سے پہلے ہی خبر تھی۔ کشمیر کے زلزلے کے لئے آج بھی کئی ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ مصنوعی تھا۔ ہم پر عذاب بھی مصنوعی آتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ عذاب ہی تو ہے اور یہ بھی مصنوعی ہے۔ جس انقلاب کی بات ہو رہی ہے وہ بھی مصنوعی ہے۔ انتخاب کے ذریعے انقلاب نہیں آتے ہمارے ہاں عذاب ہی آتے ہیں۔ آمریت کا عذاب بھی بُرا ہے۔ جمہوریت کا عذاب تو اُس سے بھی بُرا ہے۔ سیاچن خطرناک محاذ ہے۔ یہاں جو فوجی نقل و حرکات ہو رہی ہیں اوپر سے امریکہ کی مداخلت!.... اگر کبھی یہ گلیشیئر پگھلائے گئے تو کراچی اور بمبئی تک سب کچھ غرق ہو جائے گا۔ سیلاب ہی عذاب ہے اور یہ سب انسانی ہے۔ فطری یا قدرتی نہیں۔ آمریت اور جمہوریت رل مل گئے ہیں۔ پارلیمانی اور صدارتی نظام گڈمڈ ہو گیا ہے۔ ہمیں تو ”جمہوریتوں“ نے مارا ہے۔ امریکی، بھارتی، یورپی اور اسرائیلی جمہوریتیں انسانیت کی دشمن ہیں۔ آج ہی خبر ہے کہ سیاچن پر پاکستان اور بھارت بات کریں امریکہ مدد کرے گا۔ اس بیان کی روشنی میں اس سانحے کو دیکھا جائے تو بہت کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ کہتے ہیں لاشوں پر سیاست ہوتی ہے۔ امریکہ اسی طرح لاشوں پر سیاست کرتا ہے۔ امریکہ کے نزدیک پاکستانیوں اور تیسری دنیا کے انسانوں کی حیثیت کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ نہیں۔ میں کسی اور سے اپیل نہیں کروں گا کہ مجھے ان کا پتہ ہے۔ جنرل کیانی سے اپیل ہے مگر ان کا بھی پورا پتہ ابھی نہیں لگ رہا!
ڈاکٹر اجمل نیازی۔ نوائے وقت
 
Top