۔
سیاہ خضاب کی ممانعت کے دلائل
تحریر :
حافظ ندیم ظہیر
سیاہ خضاب کی شرعی حیثیت
الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
اسلاف کے متفقہ فہم سے کسی کو انکار نہیں کیونکہ قرآن و حدیث کا وہی مفہوم معتبر ہے جو سلف صالحین یعنی صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ دین سے لیا جائے ، لیکن ان کے فہم میں اگر اختلاف ہو جائے تو پھر درج ذیل باتیں ملحوظ رہنی چاہئیں:
➊ اختلاف کی صورت میں انھیں اسلاف کے موقف کو ترجیح ہوگی جن کے اقوال و افعال کتاب وسنت کی تفسیر و تشریح میں یا ان کے قریب تر ہوں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُم تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَ اَحْسَنُ تَأْوِيلًا)
پھر اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے ۔
(٤ / النساء : ٥٩)
➋ واضح اور صریح دلائل کے خلاف اگر سلف صالحین میں سے کسی کا قول یا فعل ہوگا تو اسے ان کی لاعلمی پر محمول کیا جائے گا کیونکہ یہ لازم نہیں کہ ہر ایک کو ہر بات کا علم ہو۔ دیکھئے التمهيد لابن عبد البر (١/ ١٥٩ ، ) وغيره
حافظ ابوبکر الحازمیؒ (متوفی ۵۵۸۴) مرد کے لیے سونے کی حرمت ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
رہا براء بن عازبؓ کا نبی ﷺ (کی وفات) کے بعد (سونے کی ) انگوٹھی استعمال کرنا اور اسے پہنا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں اس کی ممانعت کے بارے میں علم نہیں ہو سکا اور یہی عذر طلحہ، سعد اور صہیبؓ کی طرف سے ہے جو انھوں نے سونے کی انگوٹھیاں پہنیں ۔
واللہ اعلم بالصواب۔
(الاعتبار في الناسخ والمنسوخ في الحديث ٢/ ٨٠٥)
تنبیه:
ہمارے نزدیک سیدنا براءؓ کا انگوٹھی پہنا، محمد بن مالک الجوز جانی ضعیف کی وجہ سے غیر ثابت ہے۔
(مسند احمد ٢٩٤/٤)
➌ ایک دو کے مقابلے میں جمہور کے فہم کو ترجیح ہوگی۔
➍ اگر کسی مسئلے میں اسلاف کے دو طرح کے اقوال ہوں تو اپنے مقصود کو فہم سلف قرار دینا اور دوسرے کو یکسر نظر انداز کرنا یا اس کی تحقیر کرنا غیر مناسب ہے، بلکہ دونوں میں سے جو کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہو اسی کو راجح قرار دینا چاہیے۔
➎ کتاب وسنت کے صریح دلائل کے مقابلے میں سلف صالحین کے شاذ اقوال غیر مقبول ہیں، مثلاً :
رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ نہ رکھنا وغیرہ۔
حافظ عثمان بن سعید الدارمیؒ (متوفی ۲۸۰ ھ ) نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِي يُرِيْدُ الشُّدُونَ عَنِ الْحَقِّ يَتَّبِعُ الشَّاذَ مِنْ قَوْلِ الْعُلَمَاءِ وَيَتَعَلَّقُ بِزَلَّاتِهِمْ ، وَالَّذِي يَومُ الْحَقَّ فِي نَفْسِهِ يَتَّبِعُ الْمَشْهُورَ مِنْ قَوْلِ جَمَاعَتِهِمْ وَيَنْقَلِبُ مَعَ جُمْهُورِهِمْ، فَهُمَا آيَتَانِ بَيْنَتَانِ يُسْتَدَلُّ بِهِمَا عَلَى اتِّبَاعِ الرَّجُلِ وَعَلَى ابْتِدَاعِهِ
’’بلاشبہ جو شخص حق سے روگردانی کرنا چاہتا ہے وہ علماء کے اقوال میں سے شاذ قول کی پیروی کرتا ہے اور ان کی غلطی کو حجت بنالیتا ہے اور جو شخص حق کا طالب ہوتا ہے وہ علماء کے مشہور (و مقبول ) قول کی پیروی کرتا ہے اور جمہور علماء کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ دو نشانیاں بڑی واضح ہیں ان کے ذریعے سے متبع اور مبتدع شخص کو ( بآسانی ) پہچانا جاسکتا ہے۔“
(الرد على الجهمية / عقائد السلف ص ۲۳۷)
قارئین کرام ! اس تمہید کو ذہن نشین کرنے کے بعد سیاہ خضاب کی ممانعت کے دلائل، ان پر اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ کریں۔
سیاہ خضاب کی ممانعت کے دلائل
دليل ۱:
سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سید نا ابوقحافہؓ کو لایا گیا، ان کے سر اور داڑھی کے بال سفیدی ثغامہ کی طرح تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اس (سفیدی) کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔“
(صحیح مسلم : ۷۸/ ۲۱۰۲)
اس حدیث پر علامہ نوویؒ نے بایں الفاظ باب قائم کیا ہے:
”بَابُ اسْتِحْبَابِ خِضَابِ الشَّيْبِ بِصُفْرَةٍ وَحُمْرَةٍ وَتَحْرِيْمِهِ بِالسَّوَادِ“
سفید بالوں کو سرخ و زرد رنگ سے رنگنا مستحب ہے اور سیاہ رنگ سے رنگنا ممنوع ہے۔
امام نسائیؒ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا:
’’ النَّهْيُّ عَنِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ“
سیاہ خضاب کی ممانعت کا بیان۔
(سنن النسائي قبل حدیث: ٥٠٧٩)
امام ابوعوانہؒ نے ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ’’وَحَظْرِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ“
یعنی سیاہ خضاب سے ممانعت کا بیان ۔
(مستخرج أبي عوانه ٣٠٩/٤)
امام ابن حبانؒ نے ’’ ذِكْرُ الزَّجْرِ عَنِ اخْتِضَابِ الْمَرْءِ السَّوَادَ‘‘ آدمی کو سیاہ خضاب لگانے کی ممانعت۔
(صحیح ابن حبان ١٢/ ٢٨٥، الرسالة)
امام خطیب بغدادیؒ نے بھی اس سے ’’ كَرَاهَةُ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ“ مراد لیا ہے، یعنی سیاہ خضاب کی کراہت کا بیان۔
(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع ۱/ ۳۸۰)
درج بالا محد ثین نے اس حدیث سے سیاہ خضاب کی ممانعت پر استدلال کیا ہے،
اب اگر کوئی اس کے باوجود بھی اسے استحباب پر محمول سمجھے تو یہ فہم سلف سے اعراض نہیں تو کیا ہے؟
’’ اعتراض اس حدیث میں دو باتوں کا حکم موجود ہے، ایک بالوں کو رنگنے کا اور دوسرے سیاہ خضاب سے بچنے کا۔ جس طرح بہت سے اسلاف بالوں کو نہیں رنگتے تھے اور ان کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں، اسی طرح بہت سے اسلاف سیاہ خضاب لگاتے تھے اور اس کی اجازت بھی دیتے تھے، لہذا سلف کے فہم و عمل کی بنا پر سیاہ خضاب بھی حرام نہیں ۔“
ازالہ:
یہ کہنا درست نہیں کہ محض اسلاف کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں کیونکہ اس بارے میں علیحدہ سے مرفوع احادیث بھی موجود ہیں جن سے استدلال کی بنیاد پر بعض سلف صالحین نے بالوں کو رنگنا ترک کیا، جیسا کہ سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ دس کاموں کو نا پسند کرتے تھے.. ان میں سے ایک ’’تغییر الشَّيْبِ“ بھی ہے، یعنی سفید بالوں کو رنگنا۔
دیکھئے سنن ابی داود : ٤٢٢٢ ، سنن النسائی: ٥٠٩۱ وسنده حسن۔
اسی طرح امام ابن ماجہؒ تین مرفوع احادیث سے استدلال کرتے ہوئے درج ذیل باب قائم کرتے ہیں:
” بَابُ مَنْ تَرَكَ الْخِضَابَ“
خضاب ترک کرنے کا بیان۔
(سنن ابن ماجه قبل حديث : ٣٦٢٨)
جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بال نہ رنگنے کے علیحدہ سے دلائل موجود ہیں، جبکہ سیاہ خضاب لگانے کے بارے میں ایک بھی مرفوع حدیث نہیں، لہٰذا خلط مبحث کے ذریعے سے دو کو ایک حکم میں بدلنا مذموم عمل ہے۔ نیز ’’وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ“ سے سلف صالحین نے سیاہ خضاب کی ممانعت ہی مراد لی ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔
تنبیه:
بعض الناس نے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے کہ ”اسلاف امت اور محدثین کرام میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب کی ممانعت وحرمت کا قائل نہیں ۔“ اس دعویٰ کی حقیقت عیاں ہو چکی ہے، نیز آنے والے صفحات کا مطالعہ کیجیے۔
دليل (۲):
سید نا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يَكُونُ قَوْمٌ يَخْضِبُونَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِالسَّوَادِ، كَحَوَاصِلِ الْحَمَامِ ، لَا يَرِيْحُوْنَ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ))
”آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب سے اپنے بال رنگیں گے، جیسے کبوتروں کے سینے ہوتے ہیں۔ وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائیں گے۔“
(سنن أبي داود : ٤٢١٢ ، سنن النسائی : ٥٠٧٨ وسنده صحیح)
’’ اعتراض بعض لوگ اس حدیث پاک سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت پر دلیل لیتے ہیں، لیکن ان کا یہ استدلال کمزور ہے. اہل علم نے اس حدیث کا یہ معنی و مفہوم بیان نہیں کیا۔“
ازاله:
مطلق طور پر یہ کہنا کہ اہل علم نے اس حدیث سے سیاہ خضاب کی ممانعت مراد نہیں لی بالکل مردود ہے کیونکہ اہل علم کی ایک جماعت اسے سیاہ خضاب پر ممانعت کی دلیل سمجھتی ہے۔
امام ابن سعدؒ نے اس حدیث پر ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا:
”ذِكْرُ مَا قَالَ رَسُولُ اللهِ وَأَصْحَابُهُ فِي تَغْيِيرِ الشَّيْبِ وَكَرَاهَةِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ‘‘
(الطبقات لابن سعد ۳۷۸/۱)
یعنی ابن سعدؒ اسے ممانعت کی دلیل سمجھتے ہیں۔
امام نسائیؒ نے بایں الفاظ باب باندها: ’’النهي عَنِ الْـخِـــــابِ بِالسَّوَادِ“ سیاہ خضاب کرنے کی ممانعت۔
(سنن النسائي قبل حدیث: ٥٠٧٨)
جلیل القدر تابعی امام مجاہد بن جبرؒ نے فرمایا:
’’يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَنِ قَوْمٌ يَصْبُغُونَ بِالسَّوَادِ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ أَوْ قَالَ: لَا خَلَاقَ لَهُمْ‘‘
آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگا ئیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہیں دیکھے گا یا فرمایا:
ان کے لیے (آخرت میں کوئی ) حصہ نہیں ہے۔
(جامع معمر بن راشد ١٥٥/١١ وسنده صحيح)
امام ابن ابی خیثمہؒ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’أَنَّهُ كَره الْخِضَابَ بِالسَّوَادِ‘‘
یعنی وہ (ابن ابی رواد ) سیاہ خضاب کو نا پسند کرتے تھے۔
(التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة ١/ ٢٦٣)
امام منذریؒ نے بایں الفاظ باب قائم کیا ہے:
’’التَّرْهِيْبُ مَنْ خَضَبَ اللَّحْيَةَ بِالسَّوَادِ“
جس شخص نے داڑھی کو سیاہ خضاب کیا اس کے لیے وعید۔
(الترغيب والترهيب ٨٦/٣)
علاوہ ازیں جمہور محدثین کا اس حدیث کو ”بــاب فـي الخضاب‘‘ وغیرہ کے تحت بیان کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان سب کے نزدیک اس حدیث سے مقصود سیاہ خضاب کی ممانعت ہی ہے نہ کہ کسی قوم کی علامت بتانا۔ جیسا کہ امام ابوداودؒ نے اس حدیث پر:
’’مَا جَاءَ فِي خِضَابِ السَّوَادِ“
کے الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ہے۔
(سنن أبي داود قبل حدیث : ٤٢١٢)
تنبیه:
جن بعض علماء ومحدثین نے اس حدیث کو کتاب الفتن (السنن الواردة فـي الـفـتـن لأبي عمرو الداني: ۳۱۹) یا اشراط الساعۃ میں نقل کیا ہے، اس سے محض یہ مراد ہے کہ جوں جوں قیامت قریب آئے گی یہ معصیت عام اور زیادہ ہوتی چلی جائے گی، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”بلاشبہ یہ علامات قیامت میں سے ہے کہ علم اٹھالیا جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی (کھلم کھلا) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔“
(صحیح البخاری : ٨٠ ، صحیح مسلم : ٦٧٨٥)
معلوم شد کہ شراب پینے اور زنا کا ارتکاب ہر دور میں ہوتا آیا ہے۔
حافظ محمد بن علی بن الحسن، احکیم الترمذیؒ (متوفی ۳۲۰ھ ) نے اس حدیث کو اپنی کتاب ’’المنهیات‘‘ یعنی ممنوعات شرعیہ میں بیان کیا ہے۔ (ص۱۹۹)
اعتراض:
مشہور محدث، امام ابوبکر ابن ابی عاصمؒ فرماتے ہیں:
اس حدیث میں سیاہ خضاب کی کراہت پر کوئی دلیل نہیں۔ اس میں تو ایک قوم کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن کی نشانی یہ ہوگی۔
(فتح الباری ١٠/ ٤٣٥٤)
ازاله:
واضح نصوص اور سلف کے مفہوم کے بعد ہم یہ عرض کرنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ ہمارے جیسے ادنیٰ طالب علموں کے لیے یہ تاویل کچھ ادھوری سی ہے! وہ اس طرح کہ قوم کی نشانی تو موجود ہے لیکن اس معصیت و نافرمانی کا ذکر نہیں جس وجہ سے وہ جنت کی خوشبو سے محروم ہوں گے…؟؟
علماء وطلباء پر قرآن و حدیث کا اسلوب واضح ہے کہ عموماً جب کسی قوم کو جنت کی نوید یا عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے تو ساتھ ان افعال محمودہ یا مذمومہ کا ذکر بھی ہوتا ہے جس وجہ سے وہ ان کے مستحق ہوئے ، تاکہ دیگر لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں، مثلاً خارجیوں کی علامات کے ساتھ ساتھ ان کے قبیح اعمال کا تذکرہ بھی کتب احادیث میں موجود ہے، چنانچہ سابقہ صفحات پر مذکور دلائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس حدیث میں جس قوم کا ذکر ہے وہ کسی اور گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاہ خضاب کی وجہ سے ہی جنت کی خوشبو سے محروم رہے گی۔ والعیاذ بالله
اعتراض:
مذکورہ حدیث میں موجود وعید سیاہ خضاب کی وجہ سے نہیں ، ورنہ ”آخری زمانے‘‘ کی قید کا کیا معنی؟ سیاہ خضاب کا استعمال کرنے والے تو صحابہ کرام سے لے کر ہر دور میں موجود رہے ہیں۔“
ازاله:
یہ اعتراض طفل تسلی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ۔ ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ آخری زمانے میں چونکہ اس فعل کی بہتات ہوگی، اس لیے اس کی نسبت آخری زمانے یا قرب قیامت سے کی گئی ہے۔ اس کا یہ معنی قطعاً نہیں کہ پہلے ادوار میں اس فعل کا وجو دسرے سے تھا ہی نہیں۔
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”آخری زمانے میں (ایسے) دجال کذاب ہوں گے جو تمھارے پاس وہ احادیث لائیں گے جو تم نے (پہلے) سنی ہوں گی نہ تمھارے آباء نے ، لہٰذا تم ان سے دور رہنا کہیں وہ تمھیں گمراہ نہ کر دیں اور تمھیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔“
(صحیح مسلم : ٧)
معترض کا اس حدیث کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ صرف آخری زمانے کے ساتھ خاص ہے؟ ہرگز نہیں، عہد نبوت کے بعد سے لے کر اب تک ہر دور میں ایسے کذاب آتے رہے جو روایتوں کو گھڑ کر لوگوں میں عام کرتے رہے ہیں اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ، پھر سیاہ خضاب سے متعلق ’’يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ“ کی بنا پر آخری زمانے کے ساتھ خاص ہو اور صحیح مسلم کی حدیث ’’يَكُونُ فِي آخرِ الزَّمَانِ‘‘ کے باوجود عام کیوں؟ جب ان الفاظ کے باوجود یہ ہر دور کو محیط ہے تو سیاہ خضاب سے متعلق حدیث کو مقید کیوں کیا جارہا ہے؟
سلف صالحین اور سیاہ خضاب
جلیل القدر تابعی امام عطاء بن ابیؒ نے نبی کریم ﷺ کے دوسو صحابہ کرامؓ کو دیکھا ہے۔
السنن الكبرى للبيهقى ١/ ٥٩ وسنده حسن
خالد بن ابی ایوب حسن الحدیث ہیں، انھیں ابن حبان نے ثقہ کہا اور ابن خزیمہ، حاکم اور ذہبی نے ان کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
انھوں نے عہد صحابہ میں جو مشاہدہ کیا اس کی روشنی میں فرماتے ہیں:
” هُوَ مِمَّا أَحْدَثَ النَّاسُ ، قَدْ رَأَيْتُ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ مَعَ ، فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ يَخْتَضِبُ بِالْوَسْمَةِ مَا كَانُوا يَخْضِبُونَ إِلَّا بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَم وَهَذِهِ الصُّفْرَةِ‘‘
لوگوں نے یہ نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرامؓ) کی ایک جماعت دیکھی ہے ان میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب نہیں لگا تا تھا۔ وہ (صحابہ کرامؓ) تو صرف مہندی اور کتم ( کو باہم ملا کر ) اور اس زرد رنگ سے خضاب لگاتے تھے۔
(مصنف ابن ابى شيبة ٤٣٨/٨ ح ٢٥٥١٦ وسنده صحيح)
اعتراض:
امام عطاء بن ابی رباحؒ نے اپنے علم کے مطابق یہ بیان دیا ہے، جبکہ صحابہ کرام کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کا استعمال ثابت ہے۔ امام عطاءؒ نے ان صحابہ کرامؓ کو نہیں دیکھا ہوگا جو سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے۔“
ازاله:
بالکل امام عطاءؒ نے اپنے علم اور مشاہدے کے مطابق ہی بیان دیا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سیاہ خضاب کا رجحان نہیں تھا۔ حیرت ہے! تقریباً دوسو کے مقابلے میں تین کو جماعت قرار دے کر جلیل القدر تابعی کی گواہی کو کنارے لگایا جارہا ہے۔ جمہور صحابہ کرامؓ کے مقابلے میں جن بعض صحابہ نے سیاہ خضاب استعمال کیا ہے ہم اسے لاعلمی پر محمول کریں گے کہ ممکن ہے ان تک اس کی ممانعت والی حدیث پہنچی ہی نہ ہو۔ واللہ اعلم
جلیل القدر تابعی امام سعید بن جبیرؒ نے فرمایا:
’’يَكْسُو اللهُ الْعَبْدَ فِي وَجْهِهِ النُّورِ ثُمَّ يُطْفِتُهُ بِالسَّوَادِ‘‘
اللہ تعالیٰ بندے کے چہرے کو پُر نور کرتا ہے تو بندے سیاہ خضاب کے ذریعے سے اس نور کو بجھا دیتا ہے۔
(مصنف ابن ابي شيبة ٤٣٩/٨ ، ح ٢٥٥٢٢ وسنده صحيح)
اعتراض:
’’خضاب بالوں کو لگایا جاتا ہے، چہرے کو نہیں ۔ مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ بندے نے نورانی چہرے کو زرد کر لیا ؟ لہٰذا یہ قول نا قابل التفات ہے۔“
ازاله:
یہ اعتراض کسی اہل علم کو زیب نہیں دیتا کیونکہ قرآن وحدیث میں چہرے کو نمایاں حیثیت حاصل ہے اور جب نیکی بتانا مقصود ہو تو روشن چہرے سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اگر برائی سے متعلق بتانا مقصود ہو تو سیاہ چہرے یا بے نور چہرے کی مثال دی جاتی ہے، چونکہ امام سعید بن جبیرؒ کے نزدیک سیاہ خضاب سے بچنا نیکی اور اسے استعمال کرنا گناہ ہے، لہٰذا انھوں نے قرآن و حدیث والا ہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ قرآن مجید سے اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(26) ))
’’جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے اچھا بدلہ اور کچھ زیادہ ہے اور ان کے چہروں کو نہ کوئی سیاہی ڈھانچے گی اور نہ کوئی ذلت، یہی لوگ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
((وَ الَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَاۙ-وَ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌؕ مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍۚ كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًاؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(27) ))
’’اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں، کسی بھی برائی کا بدلہ اس جیسا ہوگا اور انھیں بڑی ذلت ڈھانچے گی، انھیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا ان کے چہروں پر رات کے بہت سے ٹکڑے اوڑھا دیے گئے ہیں، جبکہ وہ اندھیری (رات) ہے۔ یہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘
(١٠/ یونس : ۲۶ ، ۲۷)
اسی طرح اللہ رب العزت نے فرمایا:
(یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ۫-اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ(106))
’’جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے تو وہ لوگ جن کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا؟ الہٰذا (اب ) عذاب چکھو، اس بنا پر کہ تم کفر کیا کرتے تھے اور رہے وہ لوگ جن کے چہرے سفید ہوں گے، پس وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔‘‘
(۳/ ال عمران : ١٠٦، ١٠٧)
نیز فرمایا:
وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ(22)اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ(23) وَ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍۭ بَاسِرَةٌ(24)تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌﭤ(25)
’’اس دن کئی چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھنے والے اور کئی چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے، وہ یقین کریں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑنے والی (سختی) کی جائے گی۔“
(٧٥/ القيمة : ٢٢-٢٥)
ان آیات میں غور و فکر کرنے سے امام سعید بن جبیرؒ کے قول کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ
باقی رہا معترض کا یہ کہنا کہ ’’مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ بندے نے نورانی چہرے کو زرد کرلیا؟“
تو عرض ہے کہ قطعاً نہیں، کیونکہ معترض کو بھی تسلیم ہے کہ ’’یہ سنت سے بھی ثابت ہے‘‘ اور سنت کی پیروی تو روز قیامت چہرے روشن ہونے کا ذریعہ ہے نہ کہ زرد…. البتہ سیاہ خضاب سنت سے ثابت نہیں ، لہذا امام سعید بن جبیرؒ کا قول قابل التفات ہی ہے۔ تدبر جداً
جلیل القدر تابعی امام مجاہد بن جبرؒ نے فرمایا:
’’يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَنِ قَوْمُ يَصْبُغُونَ بِالسَّوَادِ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ أَوْ قَالَ: لَا خَلَاقَ لهُمْ‘‘
آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہیں دیکھے گا، یا فرمایا:
ان کے لیے (آخرت میں کوئی ) حصہ نہیں ہے۔
(جامع معمر بن راشد ١١/ ١٥٥ وسنده صحيح)
جلیل القدر تابعی امام مکحولؒ نے سیاہ خضاب کو مکر وہ کہا ہے۔
(مصنف ابن ابى شيبة ٤٣٨/٨ ح ٢٥٥١٩ وسنده صحيح)
امام ابوقلابہؒ کا سیاہ خضاب سے رجوع:
بعض الناس نے امام ابوقلابہؒ کو ان تابعین میں شمار کیا ہے جو سیاہ خضاب لگاتے تھے، حالانکہ امام موصوفؒ کا سیاہ خضاب ترک کر دینا ثابت ہے۔ امام خالد بن مہران الحذاء نے فرمایا:
’’كَانَ أَبُو قِلَابَةَ يَخْضِبُ بِالْوَسْمَةِ ثُمَّ تَرَكَهَا بَعْدَ ذَلِكَ‘‘
ابو قلابہؒ (پہلے) سیاہ خضاب لگاتے تھے ، پھر انھوں نے اسے استعمال کرنا چھوڑ دیا۔‘‘
(تهذيب الآثار، الجزء المفقود ص ٤٧٩ وسنده صحيح)
جلیل القدر تابعیؒ کا رجوع اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک سیاہ خضاب مسنون یا مستحب نہیں اور ممکن ہے کہ انھوں نے ممانعت والی حدیث پہنچنے کے بعد ہی اسے ترک کیا ہو۔ واللہ اعلم
امام عبد العزیز بن ابی روادؒ نے فرمایا:
’’الصُّفْرَةُ خِضَابُ الْإِيْمَانِ وَالْحُمْرَةُ خِضَابُ الْإِسْلَامِ وَالسَّوَادُ خِضَابُ الشَّيْطَان‘‘
زرد رنگ ایمان کا خضاب، سرخ رنگ اسلام کا خضاب اور سیاہ خضاب شیطان کا ہے۔
(تاريخ ابن ابي خيثمة ١/ ٢٦٢ وسنده صحيح)
اعتراض:
’’یہ شاذ قول ہے جس میں عبد العزیز کا کوئی سلف نہیں۔“
ازالہ:
یہ شاذ نہیں بلکہ واضح نصوص اور اسلاف کے مفہوم کی ترجمانی ہے کیونکہ ایمان و اسلام کی تعلیم صرف زرد و سرخ خضاب ہے اور سیاہ خضاب سے بچنے کا حکم ہے، چونکہ سیاہ خضاب استعمال کرنا معصیت و نافرمانی ہے اس لیے اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے۔
ایوب بن النجار کہتے ہیں:
میں نے یحیی بن ابی کثیرؒ کو دیکھا انھوں نے اپنی داڑھی کو پکڑ کر فرمایا:
’’مَا أُحِبُّ أَنِّي سَوَّدْتُهَا وَأَنَّ لِي بِكُلِّ شَعْرَةٍ دِينَارًا‘‘
مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اسے سیاہ خضاب لگاؤں، اگر چہ مجھے ہر بال کے بدلے میں ایک دینار ملے ۔ ایوب فرماتے ہیں:
آپ کی داڑھی سرخ تھی۔
(تهذيب الآثار، الجزء المفقود ص ٤٨٢ ، وسنده صحيح)
محمد بن احمد بن ابی موسیٰ الشریف البغدادیؒ (متوفی ۴۲۸ھ ) کے نزدیک بالوں کو سیاہ کرنا مکروہ ہے۔
(الإرشاد إلى سبيل الرشاد ص ٥٣٤)
سلف کے اقوال و افعال سے متعلق بعض غلط فہمیاں اور ان کا ازالہ
غلط فهمي:
’’ درج ذیل تابعین کرام بھی سیاہ خضاب لگاتے تھے :
ابوبکر، محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب، زہری، مدنی (م : ۱۲۵ھ )
(جامع معمر بن راشد: ١١/ ١٥٥ وسنده صحيح)
ازالہ:
اس روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے کیونکہ عبدالرزاق اسے معمر سے بیان کر رہے ہیں اور عبد الرزاق مدلس ہیں، جبکہ انھوں نے سماع کی صراحت بھی نہیں کی ، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے، اسے ”و سندہ صحیح“ کہنا اور اپنے موقف میں پیش کرنا درست نہیں۔
غلط فهمی:
’’ابوعبداللہ بکر بن عبد اللہ، مزنی بصری (م :۱۰۶ھ)
الطبقات الكبرى لابن سعد ١٥٨/٧ وسنده صحیح“
ازاله:
امام ابوبکر محمد بن واسع ( ثقه، عابد، کثیر المناقب) نے فرمایا:
’’رَأَيْتُ لحتة.‘‘
’’بكْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِى یصفر لحیتہ‘‘ نے بکر بن عبد الله المزنی کو دیکھا، انھوں نے اپنی داڑھی کو زرد خضاب کیا ہوا تھا۔
(تهذيب الآثار، الجزء المفقود ص ٤٧٤، ٤٧٥ وسنده صحيح)
اس اثر کے بعد دو باتیں واضح ہیں:
❀ امام بکر بن عبد اللہ المزنیؒ نے سیاہ خضاب سے رجوع کر لیا تھا۔
❀ سیاہ خضاب کے راوی زیاد بن ابی مسلم مختلف فیہ بھی ہیں اور اپنے سے اوثق ابوبکر محمد بن واسع کی مخالفت بھی کر رہے ہیں، لہٰذا سیاہ خضاب والی روایت شاذ ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔
غلط فهمی:
’’ قاضی، محارب بن دثار، سدوسی کوفی (م : ۱۱۶ھ )
(مسند على بن الجعد : ٧٢٥ وسنده حسن)
ازاله:
قاضی محارب بن دثارؒ بھی سیاہ خضاب لگانے سے رجوع کر چکے ہیں جس کی دو دلیلیں پیش خدمت ہیں:
مسند علی بن الجعد (٧٢٦ وسندہ حسن)
میں مذکورہ حوالے سے متصل بعد حسان بن ابراہیم ہی نے فرمایا:
میں نے (محارب بن دثارؒ) کی مانگ والی جگہ میں مہندی لگی دیکھی ہے۔
امام سفیان بن عیینہؒ نے فرمایا:
میں نے محارب بن دثار کو عمر رسیدہ حالت میں کوفہ کی مسجد کے ایک کونے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے دیکھا، آپ کی گھنی ، لمبی ( اور سفید ) داڑھی تھی ، آپ خضاب نہیں لگاتے تھے۔
(أخبار القضاة لأبي محمد بن خلف ص ٥٠٧ وسنده صحيح)
تنبیه:
سفید داڑھی کے الفاظ ابن عیینہ کی دوسری روایت سے لیے ہیں۔
دیکھئے حوالہ مذکورہ
۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قاضی محارب بن دثارؒ نے سیاہ خضاب سے رجوع کر لیا تھا۔
غلط فهمى:
’’ ابو خطاب، امام قتاده بن دعامہ بن قتادہ، سدوسی بصری (م: بعد ۱۰اھ ) نے فرمایا:
”عورتوں کے لیے بالوں کو سیاہ خضاب دینے میں رخصت ہے۔ ‘‘
(جامع معمر بن راشد: ۲۰۱۸۲ وسنده صحیح)
ازاله:
رخصت اسی وقت رخصت ہوتی ہے جب عزیمت کا حکم باقی ہو ورنہ وہ رخصت نہیں بلکہ اصل حکم کی ناسخ ہوتی ہے، لہٰذا قائلین سیاہ خضاب کو یہ چنداں مفید نہیں کیونکہ امام قتادہؒ سیاہ خضاب کی ممانعت تسلیم کر کے عورتوں کو رخصت دے رہے ہیں اور یہ رخصت بھی محل نظر ہے کیونکہ سیاہ خضاب مرد و زن دونوں کے لیے یکساں ممنوع ہے جب تک عورتوں کے لیے علیحدہ سے کوئی خاص حکم نہ ہو۔
بعض علماء نے ریشم اور سونے پر قیاس کرتے ہوئے سیاہ خضاب عورتوں کے لیے جائز قرار دیا ہے لیکن یہ اجتہادی سہو ہے اور نصوص و دلائل کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے، نیز امام اسحاق بن راہو یہؒ کی رخصت کا بھی یہی جواب ہے۔
مزید دیکھئے آنے والے صفحات۔
غلط فهمى:
’’ ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف قرشی (م : ۱۰۴/۹۴ھ )
(الطبقات الكبرى لابن سعد ٥ / ١١٩ وسنده صحيح)‘‘
ازاله:
دو علیحدہ علیحدہ گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوفؒ بھی سیاہ خضاب سے رجوع کر چکے تھے۔
محمد بن ہلال کا بیان ہے:
انھوں نے ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن کو دیکھا کہ وہ مہندی لگاتے تھے۔
محمد بن عمرو بن علقمہ وقاص اللیثی کا بیان ہے کہ ابوسلمہؒ مہندی اور کتم (ملا کر اس) سے خضاب لگاتے تھے۔
(الطبقات لابن سعد / ١٥٥ وسنده حسن)
ائمہ دین اور سیاہ خضاب
امام مالکؒ نے فرمایا:
” وَغَيْرُ ذَلِكَ مِنَ الصَّبْغِ أَحَبُّ إِلَيَّ.“
مجھے اس (سیاہ خضاب) کی بجائے دوسرے(مسنون ) رنگ پسند ہیں۔
(موطأ امام مالك ٢/ ٩٤٩)
امام احمد بن حنبلؒ نے سیاہ خضاب کے بارے میں فرمایا:
اللہ کی قسم! مکروہ ہے۔ الوقوف والترجل من مسائل الإمام احمد ص ۱۳۸ وسنده حسن، احمد بن محمد بن ابراهيم بن حازم صدوق كما قال الخطيب عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:
میرے والد محترم نے اپنے سر اور داڑھی پر مہندی لگا رکھی تھی۔
(حلية الأولياء ١٦٢/٩ وسنده صحيح)
امام احمد بن سنان الواسطیؒ نے فرمایا:
’’رَأَيْتُ الشَّافِعِيُّ أَحْمَرَ الرَّأْسِ وَاللَّحْيَةِ ‘‘
میں نے امام شافعیؒ کو سرخ داڑھی اور بالوں میں دیکھا۔ امام ابن ابی حاتم الرازیؒ نے فرمایا:
’’يَعْنِي أَنَّهُ اسْتَعْمَلَ الْخِضَابَ اتِّبَاعًا يلسنة“
یعنی بلاشبہ انھوں نے سنت کی اتباع میں ( سرخ ) خضاب استعمال کیا ہے۔
(آداب الشافعی للرازی ص ٥٩ وسنده صحیح)
نبی کریم ﷺ کا انتخاب
قارئین کرام! ہم سابقہ سطور میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ سیاہ خضاب کا استعمال جائز نہیں اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اب ہم آپ کو اختصار کے ساتھ اس خضاب سے متعلق آگاہی دیں گے جسے نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کے لیے پسند فرمایا اور صحابہ کرامؓ نے اسے اختیار کیا ۔ اللہ رب العزت ہر مسلمان کو اتباع رسول ﷺ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ أَحْسَنَ مَا غَيَّرْتُمْ بِهِ الشَّيْبَ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ))
’’بہترین چیز جس سے تم سفید بالوں کا رنگ بدلو، مہندی اور کتم کا آمیزہ ہے۔‘‘
(سنن أبی داود : ٤٢٠٥ ، سنن الترمذي :١٧٥٣ ، سنن النسائی : ٥٠٨١ وسنده صحیح)
نبی کریم ﷺ کا عمل :
عثمان بن عبد اللہ بن موہبؒ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلمہؓ نے ہمیں نبی ﷺ کے چند بال نکال کر دکھائے جن پر خضاب لگا ہوا تھا۔
(صحیح البخاری : ٥٨٩٧)
ابن موہبؒ سے مروی ہے کہ سیدہ ام سلمہؓ نے انھیں نبی ﷺ کا بال دکھایا جو سرخ تھا۔
(صحیح البخاری : ٥٨٩٨)
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا عمل :
عقبہ بن وساجؒ سے روایت ہے کہ سیدنا انس بن مالکؓ نے فرمایا:
جب رسول الله ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ کے ساتھیوں میں سے ابوبکر الصدیق بلال عمر رسیدہ تھے اور وہ مہندی اور کتم ( ملا کر ) خضاب لگاتے تھے، یہ بار بار کرتے حتی کہ اس کا رنگ خوب گہرا ہو جاتا۔ عقبہ نے کہا:
پھر میں دوسرے دن انس سے ملا اور ان سے پوچھا:
کیا آپ نے کہا تھا:
”حتی کہ وہ سیاہ ہو جاتے ؟“
تو انسؓ نے فرمایا:
میں نے سیاہ کا ذکر نہیں کیا۔
(تهذيب الآثار، الجزء المفقود ص ٤٦٣ وسنده صحيح)
سید نا عمرؓ کا عمل :
سیدنا انس بن مالکؓ نے فرمایا:
’’ وَقَدْ خَضَبَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ بِالْحِنَّاءِ والكتم‘‘
ابوبکر وعمرؓ مہندی اور کتم ( ملا کر ) خضاب لگاتے تھے۔
سیدنا انس بن مالکؓ کا عمل :
(صحیح مسلم: ٢٣٤١)
اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں:
’’رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكِ يَخْضِبُ بِالْحِنَّاءِ‘‘
میں نے انس بن مالکؓ کو دیکھا، آپ بالوں کو مہندی سے خضاب کرتے تھے۔
(اتحاف الخيرة المهرة ٥٤٣/٤ وسنده صحيح)
طوالت کے خوف سے انھیں آثار پر اکتفا کیا جاتا ہے کیونکہ جو نکتہ ہم قارئین کو سمجھانا چاہتے ہیں وہ اس سے واضح ہو جاتا ہے۔ والحمد لله
آخری گزارش:
قارئین کرام! ہم پورے شرح صدر سے لکھ رہے ہیں کہ احادیث صحیحہ اور فہم سلف صالحین سے سیاہ خضاب کی ممانعت ہی ثابت ہورہی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ یادر ہے جو لوگ خود ایسی کشمکش کا شکار ہوں کہ سیاہ خضاب کی ممانعت کبھی ان کے نزدیک استخباب پر محمول ہو تو کبھی کراہت پر … ان کے الحاصل‘ سے کچھ حاصل نہیں کیونکہ جو مستحب ہے وہ مکروہ نہیں اور جو مکروہ ہے وہ مستحب نہیں۔ ایک صاحب نے تقریباً میں صفحات اس موضوع پر لکھے ہیں، بالآخر پورے مضمون کا نچوڑ آخری سطر میں یوں واضح کرتے ہیں: "سیاہ خضاب کو زیادہ سے زیادہ مکر وہ کہا جاسکتا ہے !!! تو عرض ہے کہ ممنوعات و مکروہات اگر اس لیے بیان کیے جائیں کہ لوگ انھیں پڑھ کر ان سے اپنا دامن بچا ئیں گے تو یہ لائق تحسین ہے، لیکن اگر ان کی تبلیغ شروع کر دی جائے تو پھر ایسے حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
وما علينا الا البلاغ
۔