ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 567
- ری ایکشن اسکور
- 174
- پوائنٹ
- 77
سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا کا رجوع یا مرزا جہلمی کا فراڈ؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مرزا جہلمی بڑا دھوکے باز آدمی ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا رجوع ثابت کرنے کے لیے اپنے ریسرچ پیپر میں مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے ایک روایت درج کی جس میں تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرما رہی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مجھ سے ایک نیا کام سرزد ہو گیا۔
اسکے بعد مرزا جہلمی کہتا لو جی رجوع ثابت ہو گیا!
حالنکہ یہ روایت ضعیف تھی کیونکہ اس روایت کی سند اس وجہ سے ضعیف ہے کہ اس کے راوی اسماعیل بن ابی خالد مدلس تھے۔
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی اسماعیل بن ابی خالد کو مدلس قرار دیا۔ ( مقالات جلد 2 صفہ 547)
- اور ہماری طرف سے ایٹم بم
اسکی سند میں اسماعیل بن ابی خالد مدلس راوی یے عن سے روایت یے سماع کی صراحت نہیں لہزاہ روایت فارغ یے۔
- لیکن جب اپنا الو سیدھا کرنا تھا
جب اس سے پوچھ لو اس طرح کی ضعیف روایات کیوں درج کی ہیں اپنے ریسرچ پیپر میں تو کہہ دیتا یے اسکو کسی نہ کسی محدث نے صحیح کہا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب اصول محدثین سے ایک روایت ضعیف یے اور خود تیرے اصول و تیرے نزدیک بھی وہ روایت ضعیف یے تو اسے درج ہی کیوں کیا؟ بے شک کوئی محدث اسے صحیح کہ بھی دے مگر جب ایک روایت ہی ضعیف یے تیرے نزدیک بھی ضعیف یے تو اس ضعیف روایت کو درج کر کے اس کو اپنی دلیل بنانا اسکو اپنا دین و ایمان مان لینا اسکو سچ مان لینا اس بنیاد پہ اپنا مقدمہ قائم کر لینا یہ دھوکہ اور فراڈ نہیں تو اور کیا ہے؟
حالنکہ ہونا یہ چاہیے تھا چاہئے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے زہر پینے والا واقعہ ہو یا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا رجوع والا واقعہ جب دونوں روایات میں اسماعیل بن ابی خالد مدلس ہے، دونوں میں عن سے روایت ہے، دونوں میں سماع کی صراحت موجود نہیں تو پھر ایک واقعہ صحیح اور ایک غلط کیسے ہو گیا؟
یہ ہے مرزا ثانی فراڈی مداری دھوکے باز کے دو نمبر کام! کوڑ کباڑ ریسرچ پیپیر میں اکھٹا کر کے اوپر لکھا ہوا ہے ضعیف روایات کے فتنوں سے بچنے والوں کے لیے! ۔