ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 601
- ری ایکشن اسکور
- 189
- پوائنٹ
- 77
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ علم و فضل میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے برتر تھے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ افضلیت کا معیار زیادہ علم ہے، تب بھی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس امت میں سب سے افضل ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج بیت المقدس میں انبیاء کرام کی امامت کی، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم "امام الانبیاء" قرار پائے اور دیگر انبیاء پر فضیلت حاصل کی۔ یہ واقعہ اس حقیقت کی دلیل ہے کہ نماز کا امام وہی ہوگا جو دوسروں سے افضل اور علم میں برتر ہو۔
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَؤُمُّ الْقَوْمَ، أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ، إِلَّا بِإِذْنِهِ "
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کی امامت وہ کرائے جو ان میں سے کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے والا ہو، اگر پڑھنے میں برابر ہو ں تو وہ جو ان میں سے سنت کا زیادہ عالم ہو، اگر وہ سنت (کے علم) میں بھی برابر ہوں تو وہ جس نے ان سب کی نسبت پہلے ہجرت کی ہو، اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو وہ جو اسلام قبول کرنے میں سبقت رکھتا ہو۔ کوئی انسان وہاں دوسرے انسان کی امامت نہ کرے جہاں اس (دوسرے) کا اختیار ہو اور اس کے گھر میں اس کی قابل احترام نشست پر اس کی اجازت کے بغیر کوئی نہ بیٹھے۔
[صحيح مسلم، باب مَنْ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ، حدیث : ۱۵۳۲]
اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوا کہ نماز کا امام وہ ہوگا جو قرآن کا سب سے زیادہ علم رکھتا ہو، پھر سنت کا، اور پھر ہجرت اور اسلام کے قبول کرنے میں سبقت رکھنے والا۔
اسی حوالے سے ایک اور حدیث میں بیان ہے عمرو بن سلِمہ الجرمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فَلَمَّا كَانَتْ وَقْعَةُ أَهْلِ الْفَتْحِ بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلَامِهِمْ، وَبَدَرَ أَبِي قَوْمِي بِإِسْلَامِهِمْ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: جِئْتُكُمْ وَاللَّهِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا، فَقَالَ:" صَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، وَصَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا"، فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنَ الرُّكْبَانِ، فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ
جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی۔ پھر جب (مدینہ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں اللہ کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آ رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز اس طرح فلاں وقت پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا انہیں نہیں ملا۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی۔
[صحيح البخاري، حدیث : ۴۳۰۲]
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ قرآن و سنت کا زیادہ عالم ہی نماز کی امامت کا اہل ہوتا ہے، چاہے وہ کم عمر ہی کیوں نہ ہو۔
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں ایک باب قائم کرتے ہیں:
بَابُ أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ یعنی امامت کرانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو علم اور (عملی طور پر بھی) فضیلت والا ہو۔
پھر اس باب کے تحت حدیث پیش کرتے ہیں:
عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ:" مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّهُ رَجُلٌ رَقِيقٌ، إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، قَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَعَادَتْ، فَقَالَ: مُرِي أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا بولیں کہ وہ نرم دل ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان کے لیے نماز پڑھانا مشکل ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر وہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تم لوگ صواحب یوسف کی طرح ہو۔ آخر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بلانے آیا اور آپ نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نماز پڑھائی۔
[صحيح البخاري، بَابُ أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ، حدیث: ۶۷۸]
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اپنے اصحاب و اہلِ بیت میں سب سے زیادہ قرآن و سنت کا علم رکھنے والے اور سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔
کیونکہ مذکورہ نصوص سے یہ ثابت ہو چکا کہ نماز کا امام وہی ہوگا جو علم اور فضیلت میں سب سے برتر ہو۔ لہٰذا یہ کہنا ممکن نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسے کو امام بنایا جو علم یا فضیلت میں کم تر ہو۔
اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ قرآن و سنت کے علم میں سب سے زیادہ ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے مصلے پر کھڑا کرتے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب عطا کرکے واضح کر دیا کہ افضلیت میں وہی سب سے آگے ہیں۔
یہ حقیقت ان لوگوں کے لیے قیامت تک ایک دلیل ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتے ہیں۔
علماء اہلِ سنت کے نزدیک جو شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دے، وہ بھی شیعہ کہلاتا ہے، چہ جائیکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل کہے۔
حافظ ابن حجر العسقلاني رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان... وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض
ابتدائی دور کے علماء اہلِ سنت کے نزدیک شیعت یہ ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ سیدنا علی سیدنا عثمان سے افضل ہیں... تاہم بعد کے علماء کے نزدیک شیعت نری رافضیت ہے۔
[تهذيب التهذيب، ج: ١، ص: ٩٤]
پس، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل سمجھنے والا بھی شیعہ کہلاتا ہے، تو جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دے، اس کی گمراہی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔