• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا حکم بن ابی العاصؓ کی جلا وطنی کی کہانی اور انجینئر محمد علی مرزا صاحب کی گوہر افشانیاں

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
سیدنا حکم بن ابی العاصؓ کی جلا وطنی کی کہانی اور انجینئر محمد علی مرزا صاحب کی گوہر افشانیاں
تحریر: محمد فھد حارث

چند دنوں قبل انجینئر محمد علی مرزا صاحب کا ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کو ملا جس میں موصوف نے سیدنا مروانؓ کو مطعون کرنے کے لیے ان کے والد اور سیدنا عثمانؓ کے سگے چچا سیدنا حکمؓ بن ابی العاص کی جلا وطنی کے واقعہ کا ذکر کیا اور ساتھ ہی بہت زور دے کر فرمایا کہ علامہ ابن عبدالبر سے لے کر علامہ ابن حجر عسقلانی تک سب نے اس واقعہ کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور اہلسنت کے تمام علماء اس واقعہ کی صحت پر متفق ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں ہم کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ "صحیح الاسناد" کی رٹ لگانے والے انجینئر محمد علی مرزا صاحب کو اس واقعہ کی صحت کی بابت اتنا زور دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ وہ صرف اتنا کرتے کہ حدیث کی کسی بھی کتاب سے اس روایت کو مع "صحیح الاسناد" سند کے بیان کردیتے اور قصہ ختم ہوجانا تھا۔ لیکن موصوف چونکہ خود بھی اپنے استدلال کی کمزوری سے واقف تھے اور یہ جانتے تھے کہ یہ قصہ صحاح ستہ کے کسی مؤلف نے صحیح و متصل سند سے نقل نہیں کیا سو عافیت اسی میں ہے کہ علامہ ابن عبدالبر اور ابن حجر عسقلانی کا نام لے کر اہلسنت علماء کے اتفاق کا راگ الاپ اس روایت کو لوگوں کے گلے سے اتروادیا جائے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حکمؓ بن العاص کی جلاوطنی سے متعلق یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں صحیح و متصل سند سے موجود نہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اول ہم جید حنفی عالم مولانا محمد نافع مرحوم کی تحقیق پیش کیے دیتے ہیں جو کہ ان کی کتاب "رحماء بینھم جلد چہارم صفحہ ۲۷۴ " سے ماخوذ ہے۔ مولانا محمد نافع مرحوم لکھتے ہیں:

"گذارش ہے کہ طرد اور نفی (یعنی جلا وطنی) کا یہ واقعہ احادیث صحیحہ میں مفقود ہے اور جن روایات میں اس قصہ کو راویوں نے نقل کیا ہے وہ باعتبارِ سند درجۂ صحت کو نہیں پہنچتیں۔ ان رواۃ میں واقدی جیسے غیر معتبر اور ہشام کلبی جیسے سخت مجروح قسم کے لوگ موجود ہیں اور کئی مصنفین نے طرد کے قصہ کو نقل کردیا ہے لیکن سند ذکر نہیں کی جس سے واقعہ کی صحت اور سقم کو معلوم کیا جا سکے۔ علامہ ابن تیمیہؒ اور حافظ ذہبیؒ جیسے مشہور علماء نے اس جلا وطنی کے قصّہ پر خوب تنقید کردی ہے اور عدمِ صحت کا حکم لگادیا ہے۔

"وقصۃ نفی الحکم لیست فی الصحاح ولا لھا استناد یعرف بہ امرھا"

۱۔ منہاج السنۃ لابن تیمیہ جلد ثالث ص ۱۶۶ بحث طرد الحکم بن ابی العاص
۲۔ المنتقیٰ للذہبی ص ۳۶۵ الفصل الثالث تحت بحث نفی الحکم بن ابی العاص

الحکم کی جلا وطنی کی عدمِ صحت کی تائید طبقات ابن سعد کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے چنانچہ ابن سعد نے الحکم بن ابی العاص کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ الحکم بن ابی العاص فتح مکہ کے روز اسلام لائے اور خلافتِ عثمانی تک وہیں رہے۔ پھر وہ حضرت عثمانؓ کی اجازت سے مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے اور خلافتِ عثمانی میں مدینہ طیبہ میں وفات پائی۔ (طبقات ابن سعد جلد ۵ ص ۳۳۱ تحت الحکم بن ابی العاص)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ الحکم بن ابی العاص اسلام لانے کے بعد مکہ شریف میں مقیم رہے اور انہوں نے حضرت عثمانؓ کے دور میں انتقالِ مکانی کرکے مدینہ میں سکونت اختیار کی(اس دوران جلاطنی کا واقعہ نہیں پیش آیا)۔ اللہ اعلم بالصواب۔ (رحماء بینھم جلد چہارم از مولانا محمد نافع صفحہ ۲۷۴ ۔ ۲۷۵)

مزید توضیح کے لیے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ذہبی کے حوالے سے مولانا محمد نافع نے جو بات مجمل بیان کی ہے اس کو تفصیل سے بیان کردیا جائے۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب منہاج السنۃ میں کئی مقامات پر سیدنا حکمؓ بن ابی العاص سے متعلق اس واقعہ کی نفی کی ہے۔ جیسا کہ منہاج السنۃ الجزء الثالث صفحہ ۱۸۹ پر علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

"اور لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے ان (مروانؓ) کے والد کو طائف کی طرف جلا وطن کردیا تھا۔ اکثر اہل علم نے اس قصے کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے اختیار اور مرضی سے طائف گئے تھے۔ نیز اس قصے کی کوئی سند بھی نہیں ہے : لیس لہ اسناد"۔

اسی طرح تقریباً ۷،۸ صفحات آگے جاکر علامہ ابن تیمیہ دوبارہ لکھتے ہیں:

" اکثر اہل علم نے سیدنا حکمؓ کی جلا وطنی کے بارے میں نفی کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود اپنے طور پر طائف گئے تھے ( ان کو جلاوطن نہیں کیا گیا تھا)۔ پھر یہ قصہ نہ صحاح میں مذکور ہے اور نہ ہی اس کی کوئی سند ہے جس کے ذریعے اس کی حقیقت معلوم کی جاسکے : لیست فی الصحاح ولا لھا اسناد یعرف بہ امرھا۔۔۔

سیدنا حکمؓ کی جلا وطنی کے قصے کو جس نے بھی ذکر کیا ہے اس نے بطریق مرسل ذکر کیا ہے۔ اس کے ناقل بھی وہ مؤرخین ہیں جن کے ہاں جھوٹ کی کثرت ہے : الذین یکثر الکذب اور جن کی نقل کردہ روایات کمی بیشی سے کم ہی محفوظ رہتی ہیں۔ بنابریں اس واقعہ کی کوئی ایسی صحیح نقل نہیں ہے جس کی بناء پر کسی کی قدح کی جاسکے: فلم یکن ھنالک نقل ثابت یوجب القدح۔۔۔

جب اس کی سند اور حقیقت ہی کا علم نہیں تو پھر ایک امرِ مشتبہ کی بناء پر سیدنا عثمانؓ کو کیوں کر قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ ایسا تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو محکم کے مقابلے میں متشابہہ پر مدارِ استدلال رکھتے ہیں اور ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں کجی ہے اور جو فتنوں کے متلاشی و طلبگار ہیں: الذین یعارضون المحکم بالمتشابہ و ھذا من فعل الذین فی قلوبھم زیغ الذین یبتغون الفتنۃ ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رافضی ان شریر گمراہوں میں سے ہیں جو فتنے کھڑے کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی مذمت اللہ اور اس کے رسولﷺ نے کی ہے۔" (صفحہ ۱۹۶۔ ۱۹۷)

علامہ ابن تیمیہؒ کی تائید میں حافظ ذہبیؒ نے بھی اپنی کتاب المنتقیٰ میں سیدنا مروانؓ بن الحکمؓ کے والد سیدنا حکم بن ابی العاصؓ کی جلا وطنی کے قصے کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وقصۃ نفی الحکم لیست فی الصحاح ولا لھا اسناد یعرف بہ امرھا یعنی حکم بن ابی العاصؓ کی جلا وطنی کا قصہ صحاح میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اسناد ہیں جن کے ذریعے اس قصے کے بارے میں حقیقتِ حال معلوم ہوسکے۔ (الفصل الثالث صفحہ ۳۹۵ تحت التحقیق فی نفی الحکم و اطلاقہ)

غرض بلا سند ہونے کے سبب یہ روایت غیر ثابت و سخت ضعیف ہے جس سے سیدنا عثمانؓ کے سگے چچا سیدنا حکم بن ابی العاصؓ پر کسی قسم کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو تھی اس روایت پر علم الروایۃ کی روشنی میں بحث جبکہ حقیقت یہ ہے کہ درایتاً بھی یہ روایت ثابت نہیں ہوتی۔ سیدنا حکم بن العاصؓ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے اور فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والوں کے لیے نبیﷺ نے فرما دیا تھا کہ لا ھجرۃ بعد الفتح یعنی فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں۔ اسی سبب جب سیدنا صفوان بن امیہؓ جو کہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے تھے، بعد میں ہجرت کرکے مدینہ جاتے ہیں تو آپﷺ ان کو لا ھجرۃ بعد الفتح کہہ کر واپس مکہ لوٹا دیتے ہیں۔ سو جب فتح مکہ کے بعد کوئی مکی شخص ہجرت کرکے مدینہ جا ہی نہیں سکتا تھا تو پھر سیدنا حکمؓ کیسے مدینہ پہنچ کر وہاں مقیم ہوگئے کہ نبیﷺ کو کسی "فرضی جرم" کی پاداش میں ان کو طائف جلا وطن کرنا پڑگیا۔ سو سب سے پہلے تو یہ ثابت کیا جانا چاہیئے کہ سیدنا حکم بن ابی العاصؓ فتح مکہ کے بعد مدینہ جاکر بسے تھے اور ان کو اس کی اجازت مل گئی تھی۔ جب فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والے کسی صحابی کو ایسی تخصیص میسر نہ ہوسکی تو سیدنا حکم بن ابی العاصؓ کو یہ تخصیص و اعزاز کیونکر نصیب ہوسکا کہ لا ھجرۃ بعد الفتح کے کلیے سے آزاد ہو کر مدینہ جا کر مقیم ہوگئے۔ سو صرف یہی ایک استدلال اس بلا سند روایت کے ابطال کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔

اور پھر طائف کی طرف جلا وطنی کی بات بھی خوب ہے۔ نبیﷺ کو اگر سیدنا حکمؓ کو کسی "فرضی جرم" کی تعزیر میں جلا وطن کرنا تھا بھی تو مکہ یا کسی دور افتادہ و مشکل مقام کی طرف آپ کو جلا وطن کرتے چہ جائیکہ طائف کی طرف جو کہ اپنی سرسبز و شادابی اور اچھی آب و ہوا کے لیے مشہور تھا اور جہاں سیدنا حکم بن العاصؓ اور دوسرے رؤسائے مکہ اپنے ذاتی مکان، جن کو "ریسٹ ہاؤس" کہا جائے تو زیادہ بہت مناسب ہوگا ،رکھتے تھے اور اکثر و بیشتر سخت گرمی کے موسم میں وہاں جاکر گرمیاں گزارا کرتے تھے۔ گویا نبیﷺ نے سیدنا حکمؓ کو سزا دی بھی تو ایک پکنک اسپاٹ کی طرف بھیج دیا جہاں جاکر وہ آرام سے اپنی جائیداد پر عیش و نشاط کے ساتھ وقت گزاری کرتے۔ یہ بھلا کیسی سزا ہوتی۔

پس حقیقت تو یہ ہے کہ نبیﷺ کی زندگی میں نہ کبھی سیدنا حکم بن ابی العاصؓ فتح مکہ کے بعد مدینہ گئے اور نہ انہوں نے کوئی ایسی نازیبا حرکات کیں کہ نبیﷺ کو ان کو مدینہ سے طائف جلا وطن کرنا پڑا۔ آپؓ اپنی پوری زندگی طائف اور مکہ میں رہے یہاں تک کہ سیدنا عثمانؓ نے اپنے دورِ خلافت میں آپؓ کو مدینہ بلا لیا۔ آپ کا مدینہ آنا وہ اصل سبب ہوا جس کے باعث دروغ گو راویوں کو یہ پوری فرضی کہانی گھڑنے کا بہانہ مل گیا وہ الگ بات ہے کہ وہ اس کہانی کو احادیث کی معتبر کتب میں داخل کرنے سے عاجز رہے البتہ غیر محتاط مورخین نے کذاب رواۃ سے یہ روایتیں لے کر اپنی تاریخ میں ان کو شامل کردیا اور پھر نقل راچہ عقل کے مصداق گزرتے زمانے کے ساتھ آنے والے تذکرہ نویس بلا تحقیق مکھی پر مکھی مارتے ہوئے اس قصے کو آگے بڑھاتے گئے یہاں تک اسحٰق جھالوی اور انجینیر محمد علی مرزا جیسے ناعاقبت اندیش حضرات نے اس روایت کو صحابہؓ پر طعن کرنے کا ذریعہ بنا ڈالا۔

آخر میں ہم یہ بات بھی بتادیں کہ علامہ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے جو انجینئر صاحب نے اس واقعہ کی نقل کرنے کی بات کی ہے تو وہ بھی افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض کا مصداق ہے کیونکہ الاصابہ کی جلد اول میں سیدنا حکم بن ابی العاصؓ کے ترجمہ میں جہاں علامہ ابن حجر نے جلا وطنی کے واقعہ سے متعلق روایات نقل کی ہیں وہی آپ نے یہ بھی صراحت کردی ہے کہ لم یثبت ذلک فی اسنادہ نظر، وفیہ ضرار بن صرد و ھو منسوب للرفض یعنی اس کی اسناد میں تامل ہے اور اس میں ضرار بن صرد ہے جو کہ رافضیت کی طرف منسوب ہے۔ اسی طرح سیدنا حکمؓ کی تنقیص سے متعلق ابن السکن کا ایک قول نقل کرکے ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ گویا خود ابن حجر عسقلانی کے نزدیک بھی اس سلسلے میں مروی تمام روایات درست نہیں جن میں سے چند ایک کو نقل کرکے انہوں نے ان کا غیر ثابت ہونا بیان کیا ہے۔

المختصر جب سیدنا حکم بن ابی العاصؓ کی جلا وطنی کا قصہ نہ روایتاً ثابت ہے اور نہ درایتاً تو اس کو بنیاد بنا کر شرفِ صحبت نبویﷺ سے متصف ایک شخص پر طعن کرنا شرف صحابیت کی تنقیص اور فرمانِ رسولﷺ لا تسبوا أصحابي کی صریح خلاف ورزی ہے۔ پس سیدنا حکم بن ابی العاصؓ بھی دوسرے ایسے تمام صحابہ کرام کی طرح ہمارے لیے لائقِ احترام اور شرفِ صحابیت سے متصف ہیں جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والے دیگر صحابہ جن میں سیدنا صفوان بن امیہؓ، سیدنا سہیل بن عمروؓ، سیدنا عکرمہ بن ابی جہلؓ وغیرہم شامل ہیں۔
 
Top