• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,479
پوائنٹ
964
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ

تحریر : عبد المالک مجاہد
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ عظیم صحابی رسول اور عشرہ مبشرہ میں سے ایک تھے‘ یعنی ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جن دس خوش نصیبوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان اقدس سے جنت کی خوشخبری اس دنیا ہی میں دے دی تھی وہ ان میں سے ایک تھے۔ نیز سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت کے وقت امت کے جن چھ ممتاز افراد کا نام خلافت کے لیے تجویز کیا‘ ان میں سے ایک زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
خاندان قریش سے تعلق رکھنے والے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عوام اور دادا کا نام خویلد تھا۔ وہ ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے۔ سیدہ کے والد محترم کا نام خویلد تھا اور یہ بات معروف ہے کہ وہ بہت بڑے تاجر اور مکہ کے معزز سردار تھے۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا (بنت عبدالمطلب) تھیں اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔
گویا سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ ان کی شادی سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے ہوئی تھی جو ذات النطاقین کے نام سے مشہور تھیں۔ وہ ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جو دعوتِ اسلام کی ابتدا ہی میں اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گئے۔ اس طرح وہ السابقون الاولون میں سے تھے۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اسلام قبول کرتے وقت ان کی عمر ۸ سال تھی۔ بعض نے پندرہ سال کی عمر بھی لکھی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ حق کے آغاز میں دار ارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بھی ان خوش قسمت صحابہ میں سے تھے جو وہاں تشریف لے جاتے اور اسلام کی تعلیمات سے آگاہی حاصل کرتے تھے۔
ایک مرتبہ افواہ پھیل گئی کہ (معاذ اللہ) کسی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا ہے۔ بس پھر کیا تھا صحابہ کرام ] میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ تو آگ بگولا ہو گئے۔ انہوں نے تلوار میان سے نکالی اور مکہ کی وادیوں میں نکل گئے۔ دراصل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے بالائی علاقے میں تشریف لے گئے تھے۔ شاید واپس تشریف لانے میں تاخیر ہو گئی کہ صحابہ کرام] کو تشویش لاحق ہوئی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت بارہ سال تھی۔ انہوں نے اپنے والد کی تلوار میان سے نکالی اور اسے کندھے پر لٹکا کر چل دیئے۔ لوگوں نے انہیں اس عالم میں دیکھا تو بڑے تعجب سے کہا: ’’اس لڑکے کو دیکھو! یہ تلوار لیے پھرتا ہے۔‘‘ اتنے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ آپ نے انہیں مسلح حالت میں دیکھا تو دریافت فرمایا: ’’زبیر! تم اس طرح کیوں پھر رہے ہو؟‘‘ عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اس لیے باہر نکلا ہوں کہ جس نے آپ کو پکڑا ہے اس کی گردن اتار دوں۔‘‘ اس طرح ان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اسلامی تاریخ میں جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سب سے پہلے تلوار کھینچی وہ سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ تھے۔
وہ لمبے قد کے نہایت طاقتور انسان تھے‘ ان کی والدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے ان کی تربیت اس ڈھنگ سے کی تھی کہ وہ نہایت سخت جان بن گئے۔ مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ سیدہ نے اپنے بیٹے کو رات کے اندھیرے میں غالباً ایک جھاڑی میں گرا دیا۔ ان کی سہیلیوں نے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ جواب دیا: میں چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا اندھیرے کا عادی ہو جائے۔ اندھیرے سے خوف نہ کھائے۔ وہ اسی طرح ان کی تربیت کرتی تھیں‘ انہیں مارتی تھیں تا کہ ان کا جسم مضبوط اور قوی ہو جائے۔ ایک دن کسی نے سیدہ سے پوچھا کہ آپ اپنے بیٹے کو کیوں مارتی ہیں؟ اب ذرا سیدہ کا جواب ملاحظہ فرمائیں:
إِنَّمَا أَضْرِبُہٗ لِکَیْ یَدِبَّ
ثُمَّ یَجُرَّ الْجَیْشَ ذَا الْجَلَبْ

’’میں اسے اس لیے مارتی ہوں کہ یہ با ادب ہو جائے پھر یہ پرکشش لشکر کو چلائے۔‘‘
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے تین ہجرتیں کیں‘ دو حبشہ کی جانب اور تیسری مدینہ طیبہ کی طرف۔ اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ان کے چچا نے انہیں خوب مارا‘ سزائیں دیں۔ وہ ان کو چھت سے لٹکا کر کہتا کہ اسلام چھوڑ کر اپنے باپ دادا کے دین میں واپس آجاؤ مگر ان کا جواب ہوتا کہ میں ہرگز کفر کی طرف واپس نہیں آؤں گا۔ ان کا قد اتنا لمبا تھا کہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو پاؤں نیچے زمین تک پہنچ جاتے تھے۔ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد بھی تھے۔ ان کی شادی سیدہ اسماء سے ہوئی تھی۔ اُنہی سے ان کے پہلے بیٹے عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ انہی کے نام پر ان کی کنیت ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ تھی۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے جو بچہ پیدا ہوا وہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ ہی تھے‘ جن کی ولادت پر مسلمانوں نے بڑی خوشیاں منائی تھیں۔ اسی خوشی میں انہوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا کیونکہ یہود نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کر رکھا ہے جس کے زیر اثر ان میں سے کوئی اولاد نرینہ نہیں ہو گی۔ جب ان کی سیدہ اسمائ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئی تو ان کی مالی حالت خاصی کمزور تھی- گھر میں کوئی غلام یا لونڈی نہ تھی۔ ان کے پاس بس ایک گھوڑا اور ایک اونٹ تھا‘ جس کے لیے کھجوروں کی گٹھلیاں خود سیدہ اسمائ رضی اللہ عنہا مدینہ طیبہ کے اطراف میں جا کر جمع کرتیں اور اپنے سر پر رکھ کر گھر لاتیں‘ ان کو کوٹتیں اور پھر گھوڑے کو کھلاتیں۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے وہ مدینہ کے اطراف میں کھجوروں کی گٹھلیاں اٹھائے مدینہ کی طرف جا رہی تھیں۔ اُدھر سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تشریف لا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اسمائ رضی اللہ عنہا کو دیکھا۔ یہ رشتے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی تھیں۔ پھوپھی زاد کی اہلیہ تھیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ٹھہرانا چاہا تا کہ اسماء کو بھی سوار کر لیں۔ سیدہ فرماتی ہیں کہ مجھے زبیر کی غیرت یاد آگئی‘ اس لیے میں نے معذرت کر لی۔
یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے شام کے مشہور مؤلف علی طنطاوی اپنی کتاب ’’رجال من التاریخ‘‘ میں بڑا خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’کیا طاہر ومطہر معصوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹنی پر سوار اسماء کو دیکھ کر زبیر رضی اللہ عنہ ناراض ہو جاتے؟ ہرگز نہیں! بس یہ اپنے خاوند کی غایت درجہ محبت‘ عزت اور احترام تھا جس کے زیر اثر انہوں نے سوار ہونے سے گریز کیا۔ بعد ازاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک غلام عطا فرمایا جو سیدہ کی جگہ گھوڑے کی خدمت کرتا تھا۔
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت سترہ برس کی ہو گی جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کا آغاز کیا۔ وہ تقریباً ہر معرکے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ بدر کے میدان میں یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں رہے۔ اس روز ان کے سر پر زرد رنگ کا عمامہ تھا۔ سیرت نگاروں کے مطابق اس روز فرشتے بھی زرد رنگ کے عماموں میں نازل ہوئے تھے۔
سیدنا زبیر کی طاقت کا اندازہ اُحد کے دن ان کے کارناموں سے ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لشکر ترتیب دیا تو میمنہ پر منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ کو اور میسرہ پر سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور ان کا معاون مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ لڑائی کا آغاز ہوا تو اس جنگ کا پہلا لقمہ مشرکین کا علمبردار طلحہ بن ابی طلحہ عبدری بنا۔ یہ شخص قریش کا نہایت بہادر شہسوار تھا۔ اسے مسلمان کبش الکتیبہ (لشکر کا مینڈھا) کہتے تھے۔ یہ اونٹ پر سوار ہو کر نکلا اور مبارزت کی دعوت دی۔ اس کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت کے سبب عام صحابہ اس کا مقابلہ کرنے سے کترا گئے۔ مگر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بے دھڑک آگے بڑھے اور ایک لمحے کی مہلت دیے بغیر شیر کی طرح جست لگا کر اس کے اونٹ پر جا چڑھے۔ پھر وہ طلحہ عبدری کو اپنی گرفت میں لے کر زمین پر کود پڑے اور پھر اسے مینڈھے کی طرح ذبح کر دیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ولولہ انگیز منظر دیکھا تو فرطِ مسرت سے نعرۂ تکبیر بلند فرمایا۔ مسلمانوں نے بھی نعرۂ تکبیر لگایا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
[إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَحَوَارِیِّ الزُّبَیْرُ]
’’ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوۂ احزاب کے موقع پر بھی یہی تمغۂ بسالت وحسن رفاقت عطا فرمایا تھا۔
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ ان معدودے چند مجاہدین میں سے تھے جو دونوں ہاتھوں سے تلوار تھام کر لڑتے تھے۔ سبحان اللہ! ان کے اندر کس قدر قوت اور ہمت تھی‘ وہ دشمن سے مرعوب ہونا جانتے ہی نہ تھے۔ غزوۂ احد کے اختتام پر جب کفارِ قریش مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو اس بات کا بڑا خطرہ تھا مبادا وہ پلٹ آئیں‘ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے جو قریش کا پیچھا کرے اور ان کے بارے میں ہمیں مطلع کرے؟ اس کٹھن اور نازک وقت میں سیدنا زبیر اور سیدنا ابوبکر صدیقw کی زیر قیادت ستر جانبازوں کا ایک لشکر اس مشن کے لیے روانہ ہوا۔ جب مشرکین کو معلوم ہوا کہ ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے تو انہیں پلٹ کر آنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔
غزوۂ بدر میں مشرکین کی قوت کا ایک اور منظر تاریخ نے بیان کیا ہے۔ اس جنگ میں عبیدہ بن سعید بن عاص سر تا پا لوہے میں غرق ہو کر میدان میں آیا۔ اس کی صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ اس نے میدان میں نکل کر مسلمانوں کو للکارا اور کہا: ’’میں ہوں ابوذات الکرش‘‘ اس کی پکار پر سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور تاک کر اتنے زور سے اس کی آنکھ میں برچھی ماری کہ وہ اس کی آنکھ سے ہوتی ہوئی سیدھی دماغ میں جا گھسی۔ یہ ضرب کھا کر وہ مردود فوراً ٹھنڈا ہو گیا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر بڑی مشکل سے برچھی نکالی۔ برچھی اتنی سختی سے پیوست ہو گئی تھی کہ اسے نکالتے نکالتے اس کے دونوں سرے ٹیڑھے ہو گئے۔ ابوذات الکرش کے قتل سے فارغ ہو کر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ دشمن کے ہجوم میں جاگھسے اور مشرکین کے لشکر سے ایسی بے جگری سے لڑے کہ تلوار میں دندانے پڑ گئے اور وہ خود بھی زخموں سے چور ہو گئے۔ زخم بھی ایسے لگے جو تاریخی نشان بن گئے۔ انہیں ایسا ہی ایک زخم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جنگ یرموک میں بھی آیا تھا۔
فتح مکہ کے روز مہاجرین کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جتنے بھی غزوات کیے‘ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ان میں شریک رہے۔ ان کے جسم پر زخموں کے بہت سے نشان تھے۔ ان کے پوتے ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا جان کے جسم پر زخموں کے تین نشان بہت نمایاں تھے۔ ایک نشان کندھے پر تھا جو یرموک کی جنگ میں لگا اور دو زخم بدر کی لڑائی میں لگے۔ زخموں کے ان نشانات میں ان کے بیٹے عروہ اپنی انگلیاں پھیرا کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے موقع پر ان سے ارشاد فرمایا تھا: [فِدَاکَ أَبِیْ وَأُمِّیْ] یعنی اے زبیر! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔ اللہ اکبر! یہ فضیلت اور قدر ومنزلت بہت کم لوگوں کے حصے میں آئی ہو گی۔
جنگ یرموک میں ان کی بہادری کا ایک نمایاں پہلو سامنے آتا ہے۔ شام کے علاقے میں رومیوں سے لڑائی شروع ہونے والی تھی۔ ان کی ٹڈی دل فوج سامنے کھڑی تھی۔ انہوں نے اپنی فوج کے مورال کو بلند کرنے کے لیے فوج کو مخاطب کیا اور کہا: ’’یہ فوج! ارے یہ تو بہت کمزور ہے۔ ابھی دیکھو‘ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یہ کتنی حقیر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر رومی فوج میں گھس گئے اور حریف کو مارتے مارتے فوج کی دوسری طرف نکل گئے‘ پھر اسی طرح دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے واپس آگئے۔ اس طرح مسلمان سپاہیوں کی ہمت اور طاقت میں خوب اضافہ ہوا اور مسلمانوں کو فتح عظیم نصیب ہوئی۔
سن چھتیس ہجری میں ایک سفر سے واپس مدینہ جا رہے تھے کہ راستے میں بنو تمیم کے ایک شخص عمرو بن جرموزنے ان کو دھوکے سے شہید کر دیا۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ حالت نماز میں تھے کہ ان کو بزدلوں نے شہید کر ڈالا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک چھیاسٹھ سال تھی۔ وہ بہت دولت مند تھے۔ انہوں نے ترکے میں کروڑوں درہم ودینار چھوڑے جو سب حلال کمائی کے تھے۔ سیرت نگاروں کے مطابق ان کے پاس ایک ہزار غلام تھے‘ جو ان کے لیے تجارت کرتے تھے۔ وفات کے وقت چار بیویاں تھیں۔ جن میں سے ہر ایک کو ایک کروڑ درہم سے زیادہ رقم ملی۔ وہ دین کے لیے بے تحاشا پیسہ خرچ کرتے تھے۔ اللہ کی ان پر بے شمار رحمتیں ہوں۔
 
Top