• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سید الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ‎ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے کی سزا جہنم ہے= ملک سکندر نسوآنہ

شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
54
سید الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ‎ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے کی سزا جہنم ہے


1= اللؤلؤ والمرجان فيما اتفق عليه الشيخان
صحيح حديث
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ”لَا تَکْذِبُوْا عَلَيَّ فَإِنَّهٗ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ فَلْیَلِجِ النَّارَ“۔
صحیح بخاری= 106 ، صحیح مسلم= 2۔

سیّدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جھوٹ نہ بولو، بلاشبہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا وہ جہنم میں داخل ہو گا“۔
تخریج الحدیث: « صحيح مسلم/مُقَدِّمَةٌ، 2. باب فِي التَّحْذِيرِ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (2)، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى كتاب العلم، باب: اثم من كذب على النبى صلى الله عليه وسلم برقم (106) والترمذى فى ((جامعه)) فى العلم، باب: ما جاء فى تعظيم الكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم برقم (2660) - وفى المناقب، باب: مناقب على بن ابي طالب رضى الله عنه مطولا وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب برقم (3715) وابن ماجه فى ((سننه)) فى المقدمة، باب: الـتـغــلـيـظ فى تعمد الكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم برقم (31) انظر ((تحفة الاشراف)) (10087) - وهو فى ((جامع الاصول)) برقم (8200) » ‏‏‏‏

2= اللؤلؤ والمرجان فيما اتفق عليه الشيخان
صحيح حديث
انس قال: ”إنه ليمنعنى ان احدثكم حديثا كثيرا ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: من تعمد علي كذبا فليتبوا مقعده من النار“۔
صحیح بخاری= 108، صحیح مسلم= 3۔

سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: مجھے تمہارے سامنے زیادہ احادیث بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”جس نے عمداً مجھ پر جھوٹ بولا وہ آگ میں اپنا ٹھکانا بنا لے“۔
تخریج الحدیث: « صحيح مسلم/مُقَدِّمَةٌ، 2. باب فِي التَّحْذِيرِ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (3)، صحيح البخاري كِتَاب الْعِلْمِ، 38. بَابُ إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (108)، ((التحفة)) برقم (1002) - وهو عند الترمذي فى العلم، باب: ما جاء فى تعظيم الكذب على رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (2663) بلفظ: ((من كذب على حسبت انه قال: متعمدا فليتبوا مقعده من النار)) - وهو فى جامع الأصول برقم (8205) »

3= اللؤلؤ والمرجان فيما اتفق عليه الشيخان
صحيح حديث
عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم: ”ومن كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار“۔
صحیح بخاری= 110 ، صحیح مسلم= 4۔

سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عمداً مجھ پر جھوٹ بولا وہ آگ میں اپنا ٹھکانا بنا لے“۔
تخریج الحدیث: « صحيح مسلم/مُقَدِّمَةٌ، 2. باب فِي التَّحْذِيرِ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (4)، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في العلم، باب اثم من كذب علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم برقم (110) وفي الادب، باب: من سمي باسماء الانبياء برقم (6197) انظر ((تحفة الاشراف)) (12852) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (8205) »

4= اللؤلؤ والمرجان فيما اتفق عليه الشيخان
صحيح حديث
المغيرة قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ”إن كذبا علي ليس ككذب على احد، من كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار“
صحیح بخاری= 1291 ، صحیح مسلم= 5۔

سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”مجھ پر جھوٹ بولنا اس طرح نہیں جیسے [میرے علاوہ] کسی ایک [عام آدمی] پر جھوٹ بولنا ہے، جس نے جان بوجھ کر مجھ پرجھوٹ بولا وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے“۔
تخریج الحدیث: « صحيح مسلم/مُقَدِّمَةٌ، 2. باب فِي التَّحْذِيرِ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (5)، أخرجه البخاري فى (صحيحه)) فى الجنائز، باب: ما يكره من النياحة على الميت برقم (1291) والمؤلف ((مسلم)) فى ((صحيحه)) فى الجنائز، باب: الميت يعذب ببكاء اهله عليه برقم (2154 و 2155 و 2156) والترمذي فى ((جامعه)) فى الجنائز، باب: ماجاء فى كراهية النوح برقم (1000) - انظر ((تحفة الاشراف)) (11520) وهو فى ((جامع الاصول)) برقم (8206) »

5= صحیح حدیث عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رسول اللّٰه‎ ﷺ: ”بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آیَةً، وَحَدِّثُوْا عَنْ بَنِي إِسْرَائِیْلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ“.
صحیح بخاری= 3461۔

سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں، رسول اللّٰه‎ ﷺ نے فرمایا: ”میری طرف سے پہنچا دو خواہ ایک آیت ہی ہو، بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔اور جو شخص عمداً مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے“۔
تخریح الحدیت: « البخاري في الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب ما ذکر عن بني إسرائیل، 3/1275، الرقم/3274، وأحمد بن حنبل في المسند، 7006، وابن حبان في الصحیح، 14/149، الرقم/6256 »

6= دو صحابہ کرام سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں۔
وهو الاثر المشهور عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حدث عني بحديث يرى انه كذب فهو احد الكاذبين».
صحیح مسلم= 1۔

یہ ‏‏‏‏حدیث وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ شہرت منقول ہے کہ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”جو شخص مجھ سے حدیث نقل کرے اور وہ خیال کرتا ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ خود جھوٹا ہے“۔ [یعنی حدیث وضع کرنے والا ہے]
تخریج الحدیث: « أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي فى ((جامعه)) فى العلم، باب: ماجاء فيمن روى حديثا وهو يرى انه كذب وقال: حديث حسن صحيح برقم (2662) وابن ماجه فى ((سننه)) فى المقدمة، باب: من حديثا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديث وهو يرى انه كذب -41 انظر ((تحفة الاشراف)) (11531) وهو فى ((جامع الاصول)) برقم (8206) »

7= حدیث صحیح عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَیْرِ رضی الله عنهما، قَالَ: قُلْتُ لِلزُّبَیْرِ العوام: إِنِّي لَا أَسْمَعُکَ تُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ کَمَا یُحَدِّثُ فُـلَانٌ وَفُـلَانٌ؟ قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أُفَارِقْهُ، وَلٰـکِنْ سَمِعْتُهٗ یَقُوْلُ: ”مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ“.
صحیح بخاری= 107۔

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں: میں نے [اپنے والد] زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: میں نے آپ کو رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا جیسے کہ فلاں فلاں صحابی بیان کرتا ہے۔ انہوں نے فرمایا: میں نے جب سے اسلام قبول کیا آپ ﷺ سے [ آپ کی وفات تک ] کبھی جدا نہیں ہوا [یعنی میں نے آپ ﷺ سے بہت کچھ سماعت کیا ہے] لیکن میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے [ جس کی وجہ سے روایت حدیث سے اجتناب کرتا ہوں ]: ”جس نے میری طرف جھوٹی بات منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے“۔
تخریج الحدیث: « البخاري في الصحیح، کتاب العلم، باب إثم من کذب علی النبي ﷺ، 1/52، الرقم/107، والشاشي في المسند، 1/98، والقضاعي في مسند الشہاب، 1/325 »

8= حديث صحیح عن اَبِی سَعِید الخدرِیِّ رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "حدثوا عني ولا تكذبوا علي، ومن كذب علي متعمدا فقد تبوا مقعده من النار، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج".
مسند احمد= 11424۔

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے حوالے سے تم حدیث بیان کرسکتے ہو، لیکن میری طرف جھوٹی نسبت نہ کرنا کیوں کہ جو شخص میری طرف جان بوجھ کر جھوٹی نسبت کرے، اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے اور بنی اسرائیل کے حوالے سے بھی بیان کرسکتے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں“۔
تخریج الحدیث: « مسند احمد= 11424۔ حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، صحيح مسلم كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ: 7510 »

9= صحیح الحدیث عن سلمة، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" من يقل علي ما لم اقل فليتبوا مقعده من النار".
صحيح البخاري= 109۔

سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔
تخریج حدیث: « صحيح البخاري كِتَاب الْعِلْمِ کتاب: 38. بَابُ إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حدیث نمبر: 109 ، أحمد بن حنبل في المسند، 4/50، الرقم/16572 »

10= صحیح الحدیث عن عبد الله بن مسعود ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من النار".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ گھڑا تو اس کو چاہیئے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔
سنن ابن ماجه= 30۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏ سنن ابن ماجه كتاب السنة ، 4. بَابُ : التَّغْلِيظِ فِي تَعَمُّدِ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 30، (تحفة الأشراف: 9368)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الفتن 70 (2257)، العلم 8 (2659)، مسند احمد (1/389، 393، 401، 436، 449) (وأولہ: إنکم منصورون....) (صحیح متواتر) »
‏‏قال الشيخ الألباني: صحيح ، قال الشيخ زبير على زئي: صحيح۔

11= حدیث حسن عن ابي قتادة ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على هذا المنبر:" إياكم وكثرة الحديث عني، فمن قال علي، فليقل حقا، او صدقا، ومن تقول علي ما لم اقل، فليتبوا مقعده من النار".
سنن ابن ماجه= 35۔

سیدنا ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس منبر پر فرماتے سنا: ”تم مجھ سے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے بچو، اگر کوئی میرے حوالے سے کوئی بات کہے تو وہ صحیح صحیح اور سچ سچ کہے، اور جو شخص گھڑ کر میری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے“۔
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏ سنن ابن ماجه: كتاب السنة، 4. بَابُ : التَّغْلِيظِ فِي تَعَمُّدِ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 35، (تحفة الأشراف: 12130، ومصباح الزجاجة: 15)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/297، 310)، سنن الدارمی/المقدمة 25 (243) (حسن)» : سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1753، وتحقیق عوض الشہری، مصباح الزجاجة: 15) »
قال الشيخ الألباني: حسن ، قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن۔

12= صحیح الحدیث عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: ”إنما كنا نحفظ الحديث، والحديث يحفظ عن ”رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاما إذ ركبتم كل صعب وذلول، فهيهات“۔
صحیح مسلم= 20۔
ابن طاؤس، نے اپنے والد [طاوس] سے، انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث حفظ کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے [مروی] حدیث کی حفاظت کی جاتی تھی مگر جب سے تم لوگوں نے [بغیر تمیز کے] ہر مشکل اور آسان پر سواری شروع کر دی تو یہ [معاملہ] دور ہو گیا“ [یہ بعید ہو گیا کہ ہماری طرح کے محتاط لوگ اس طرح بیان کردہ احادیث کو قبول کریں، پھر یاد رکھیں]
وضاحت: ابنِ عبّاسؓ فرماتے ہیں: ”ہم احادیث یاد کیا کرتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو یاد ہی کرنا چاہیے، چنانچہ جب تم نے ہر اناڑی اور رام (رطب و یابس) کو قبول کر لیا، تو تم راہِ راست سے دور ہٹ گئے (تمھاری احادیث پر ہمیں اعتماد نہیں رہا)“۔

تخریج الحدیث: « صحيح مسلم/المقدمة:20 ، سنن ابن ماجه/كتاب السنة کتاب: 3. بَابُ : التَّوَقِّي فِي الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:27، انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (5717) »

13= صحیح الحدیث عن ابى هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كفى بالمرء كذبا، ان يحدث بكل ما سمع".
صحيح مسلم= 7۔

سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات[بلا تحقیق] بیان کر دے“۔
تخریج الحدیث: « صحيح مسلم/مُقَدِّمَةٌ: 3. باب النَّهْىِ عَنِ الْحَدِيثِ بِكُلِّ مَا سَمِعَ:7 ، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في الادب، باب: فی التشديد فی الكذب برقم (4992) انظر ((التحفة)) برقم (12268) وهو فی ((جامع الاصول)) برقم (8189) » ‏‏‏‏

14= صحیح الحدیث اعن ابي هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يكون في آخر الزمان، دجالون كذابون، ياتونكم من الاحاديث، بما لم تسمعوا انتم، ولا آباؤكم، فإياكم وإياهم، لا يضلونكم، ولا يفتنونكم".
صحيح مسلم= 16۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخری زمانے میں [ایسے] دجال [فریب کار] کذاب ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جو تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے آباء نے۔ تم ان سے دور رہنا [کہیں] وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں“۔
تخریج الحدیث: « صحيح مسلم /مُقَدِّمَةٌ: 4. باب النَّهْىِ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنِ الضُّعَفَاءِ وَالاِحْتِيَاطِ فِي تَحَمُّلِهَا: 16، ((التحفة)) برقم (4612) انظر ((جامع الاصول)) برقم (8193) » ‏‏‏‏

اس موضوع کی احادیث مندرجہ ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں۔
1= سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ۔
2= سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ۔
3= سیدنا اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ۔
4= سیدنا ابوموسی غافقی رضی اللہ عنہ۔
5= سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ۔
6= سیدنا زاہد بن ارقم رضی اللہ عنہ۔
7= سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ۔
8= سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ۔

محدث العصر محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ اور محدث حافظ زبیرعلی زٸی رحمہ اللہ نے۔
”رسول اللہ ﷺ کی کی طرف جھوٹی حدیث منسوب کرنے والا جہنمی ہے“۔
اس موضوع کی احادیث کو متواتر صحیح قرار دیا ہے۔

حافظ زبیرعلی زٸی رحمہ اللہ مزید لکهتے ہیں کہ۔
متواتر حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولنے والا شخص جہنمی ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ دن رات اپنی تقریروں، تحریروں اور عام گفتگو میں جھوٹی، بے اصل اور مردود روایتیں کثرت سے بیان کرتے رہتے ہیں اور اس سلسلے میں آل تقلید کافی نڈر واقع ہوٸے ہیں بلکہ یوں کہا جاٸے کہ ان کی کتابيں اور تقریریں جھوٹی روایات کا پلندا ہیں۔ تو مبالغہ نہ ہوگا۔
<[ تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات1= 159 ]>
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
107
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
54
1= امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ 150 تا 204ھ فرماتے ہیں۔
”ابن سیرین ، ابراہیم نخعی ، طاؤس اور دیگر تابعین کا یہ مذہب ہے کہ حدیث صرف ثقہ سے ہی لی جائے گی اور محدثین میں سے میں نے کس کو اس مذہب کا مخالف نہیں پایا “۔
<[التمھید لا ابن عبدالبر]>

2= امام مسلم بن حجاج قشیری رحمہ اللہ 206 تا 261ھ فرماتے ہیں۔
”جو شخص ضعیف حدیث کے ضعف کو جاننے کے باوجود اس کے ضعف کو بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گناہگار ہے اور عوام الناس کو دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث کو سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض پر عمل کرے اور ممکن ہے کہ سب احادیث یا بعض احادیث اکاذیب [جھوٹ] ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ ان کے ہوئے ہوئے ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پھر بہت سے لوگ عمداً ضعیف اور مجہول اسناد والی احادیث بیان کرتے ہیں محض اس لیے کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ ”ان کے پاس بہت احادیث ہیں اور اس نے بہت کتب تالیف کردی ہیں “جو شخص علم کے معاملے میں اس روش کو اختیار کرتا ہے اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں اور اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے“۔
<[ مقدمہ صحیح مسلم1= 177/79 ]>

3= امام ابوحاتم محمد بن حبان تمیمی بُستی رحمہ اللہ 280 تا 354ھ فرماتے ہیں۔
1۔ ”جو شخص مصطفی کریم ﷺ‎ کی طرف کوئی چیز منسوب کرے اور اسےاس کی نسبت صحیح ہونے کا علم نہ ہو تو اس کے لیے جہنم میں داخل ہونے کے لازم ہونے کا تذکرہ“=حدیث 28 کےتحت صفحہ 196۔
2۔ ”نبی کریمﷺ‎ کی طرف جان بوجھ کر جھوٹی بات منسوب کرنے والے کے جہنم میں داخل ہونے کے لازم ہونے کا تذکرہ“=حدیث 31\32 کے تحت صفحہ 198۔
<[ صیح ابن حبان“ تحقیق و تخریج شعیب الارناؤوط، مترجم اردو جہانگیری= 96 تا 98 ]>

4= امام عبداللہ ابن عدی رحمہ اللہ 277 تا 365ھ مصنف الكامل فی معرفۃ الضعفاء والمتروكين من الرواة فرماتے ہیں۔
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے رسول اللہﷺ‎ سے حدیث بیان کرنے سے محض اس لیے گریز کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حدیث میں زیادتی یا کمی ہو جائے اور وہ آپ کے اس فرمان ”جو شخص مجھ پر عمداً جھوٹ بولتا ہے اس کا ٹھکانا آگ ہے“ کے مصداق قرار پائيں“۔

5= امام ابوالحسن علی دارقطنی رحمہ اللہ 306 تا 385ھ فرماتے ہیں۔
”رسول اللہﷺ‎ نے اپنی طرف سے بات پہنچا دینے کا حکم دینے کے بعد اپنی ذات پاک پر جھوٹ بولنے والے کو آگ کی وعید سنائی لہٰذا اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے ضعیف کی بجائے صحیح اور باطل کی بجائے حق کے پہنچا دینے کا حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس چیز کے پہنچا دینے کا جس کی نسبت آپ کی طرف کر دی گئی۔ ”اس لئے کہ نبی ﷺ‎ نے فرمایا: ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کردے“۔
<[ نماز نبوی: دارالسلام= 27\28 ]>

6= امام ابوزکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمہ اللہ 631 تا 676ھ فرماتے ہیں۔
”محققین محدثین اور ائمہ رحمة اللہ علیہم کا کہنا ہے کہ جب حدیث ضعیف ہو تو اس کے بارے میں یوں نہیں کہنا چاہئے کہ ”رسول اللہ ﷺ‎ نے فرمایا“ یا ”آپ نے کیا ہے“ یا ”آپ نے کرنے کا حکم دیا ہے“ یا ”منع کیا ہے“ اور یہ اس لیے کہ جزم کے صیغے روایت کی صحت کا تقاضا کرتے ہیں لہٰذا ان کا اطلاق اسی روایت پر کیا جانا چاہئے جو ثابت ہو ورنہ وہ انسان نبویﷺ‎ پر جھوٹ بولنے والے کی مانند ہوگا مگر [ افسوس کہ ] اس اصول کو جمہور فقہاء اور دیگر اہل علم نے ملحوظ نہیں رکھا، سوائے محققین محمدثین کے، اور یہ فبیح قسم کا تساہل ہے کیونکہ وہ [علماء] بہت سی صحیح روایات کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ ”یہ روایت نبیﷺ‎ سے روایت کی گئ“ اور بہت سی ضعیف روایات کے بارے میں کہتے ہیں ”آپ نے فرمایا“ ”اسے فلاں نے روایت کیا ہے“ اور یہ صحیح طریقے سے ہٹ جانا ہے“۔
<[ مقدمةالمجموع:نووی ]>

7= امام تقی الدین احمد ابن تیمیہ رحمہ اللہ661 تا 728ھ فرماتے ہیں۔
”ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے واجب یا مستحب عمل ثابت ہو سکتا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے اس نے اجماع کی مخالف کی“۔
<[التوسل والوسیلہ:ابن تیمیہ ]>

8= ماضی قریب میں محدث قاضی احمد شاکر مصری رحمہ اللہ 1882 تا 1958ء حدیث کے مشہور عالم تھے جن کی خدمات علماٸے اہلِ حدیث پر پوشیدہ نہیں۔ فرماتے ہیں۔
”میں سمجھتا ہوں کہ ضعیف حدیث کا ضعف بیان کرنا ہر حال میں واجب ہے۔ کیونکہ بیان نہ کرنے سے دوسرے آدمی کو یہ وہم ہو سکتا ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے۔ خاص طور پر جب اس کا نقل کرنے والا علماٸے اہلِ حدیث میں سے ہو جن کے اقوال کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اور یہ کہ ضعیف روایت لینے میں احکام اور فضاٸل عمال وغیرہ میں کوٸی فرق نہیں ہے۔ بلکہ رسول اللہﷺ سے ثابت شدہ صحیح یا حسن حدیث کے علاوہ کسی کے لیے کوٸی دلیل نہیں ہے“۔
<[ شرح الفیةالسیوطی= 84 ]>

9= محدث العصر علامہ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ 1914 تا 1999ء فرماتے ہیں کہ۔
”ہم دنیا کے مشرق و مغرب میں رہنے والے اپنے مسلمان بھاٸیوں کو نصیحیت کرتے ہیں کہ ضعیف احادیث پر مطلقاً عمل چھوڑ دیں اور اپنی ہمتوں کا رخ نبیﷺ سے ثابت شدہ صحیح احادیث کی طرف موڑ دیں کیونکہ اس میں ضعیف روایات سے بے نیازی ہے اور اس میں رسول اللہﷺ پر جھوٹ میں واقع ہونے سے نجات ہے“۔
<[ مقدمة صحیح جامع صغیر1= 56 ]>

10= محدث العصر زبیر علی زئی رحمہ اللہ 1957 تا 2013ء لکھتے ہیں۔
”صحیحین کے علاوہ کتب حدیث مثلاً الادب المفرد للبخاری اور مسنداحمد وغیرہما میں ضعیف حدیثیں بھی ہیں، جنھیں سند کے ساتھ روایت کرکے محدثین اکرام بری الذمہ ہو چکے ہیں۔ یہ روایات انھوں نے بطور حجت و استدلال نہیں بلکہ بطور معرفت و روایت بیان کردی تھیں لہٰذا اصول حدیث اور اسماءالرجال کو مِدنظر رکھنے کے بغیر صحیحین کے علاوہ دیگر کتب حدیث کی روایات سے استدلال یا حجت پکڑنا اور انھیں بطور جزم بیان کرنا جائز نہیں ہے“۔
<[ فتاویٰ علمیہ توضیح الاحکام2= 298 ]>

11= ضعیف حدیث مطلقاً قابل حجت نہیں، احکام میں ہو یا فضاٸل میں۔
امام ابن معین، امام بخاری، امام مسلم، امام ابن حزم، خطیب بغدادی، امام ابن تیمیہ، امام شاطبی، امام شوکانی، علامہ احمد شاکر، شیخ البانی اور اٸمہ محدثین رحمہ اللہ علیہم کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔
<[ کتاب السنة: ڈاکٹرعمران ایوپ3 = 68/69 ]>
نوٹ: اس مقالہِ کو اپلوڈ کرنے سے پہلے پرفیسر ڈاکٹر عبدالکبیر محسن حفظہ اللہ پرنسپل گورنمنٹ اصغر مال کالج راولپنڈی اور شیخ الحدیث مدرسہ صوت القرآن اسلام آباد اور شیخ محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ بانی و ڈائریکٹر جامعہ امام احمد بن حنبل قصور نے ملاحظہ کیا اور مفید پایا۔
 
Top