• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور وکالت کا لائسنس

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
1952 کے آخر میں تحریک تحفظ ختم نبوت شروع ہوئی جس میں تمام دینی جماعتوں
کے علماء اور زعماء نے حصہ لیا۔ ان جماعتوں کے متحدہ محاذ نے تحریک کی رفتار کو تیز
کرنےکے لیے مجلس عمل قائم کی تھی، جس کا ناظم اعلٰی مولانا داؤد غزنوی کو
بنایا گیا تھا۔جب حکومت نے اس کے رہنماؤں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کر دیا تو
تحقیقات کے لیے ایک عدالت مقرر ہوئی جو جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل تھی۔
سب جماعتوں کے الگ الگ وکیل مقرر تھے جو تحقیقاتی عدالت کے سامنے
اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرتے تھے۔
مولانا غزنوی رحمہ اللہ نے مجلس عمل کے ناظم اعلٰٰی کی حیثیت سے
جناب حسین شہید سہروردی کو وکیل مقرر کیا۔
مولانا ان کو مسئلے کے ضروری نکات سمجھاتے اور تیاری کراتے تھےلیکن مسئلہ زیر بحث میں جگہ جگہ کچھ ایسی فنی پیچیدگیاں تھیں اور اس کی نوعیت وضاحت میں ایسے علمی و اصطلاحی الجھاؤ تھے کہ سہر وردی صاحب وکالت سے معذرت چاہنے پر مجبور ہو گئےاور وکالت اور نمائندگی کا سارا بوجھ مولانا غزنوی پر آن پڑا ۔
ایک دن مولانا عدالتی کمیشن میں بیان دے رہے تھےاور ہال بھرا ہوا تھا۔
بہت سے وکلاء موجود تھے۔
جسٹس منیر نے سوال کیا: ،، کیا آپ کے دادا سید عبد اللہ
غزنوی مرحوم کو والئی افغانستان نے اس لیے ملک بدر کر دیا تھا کہ وہ اھل حدیث تھے
اور احناف انہیں برداشت نہیں کرتے تھے؟،،
مولانا جواب دیا :
،، نہیں ایسی بات نہیں ہے ، ان کو اس لیے ملک سے نکالا گیا کہ وہ اپنے دور کے بہت بڑے ولی اللہ تھے اور اُن کا حلقہ ارادت اس قدر وسعت اختیار کر گیا کہ حکومت کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ وہ حکومت پر قابض ہو جائیں گے ،،
منیر صاحب نے یہ سوال اس لیے کیا تھا کہ وہ لوگوں پر ظاہر کریں کی احناف اور اھل حدیث کے درمیان فقہی اختلافات کی ایک وسیع خلیج حائل ہے، لیکن مولانا اُن کے دام میں نہیں آئے اب منیر صاحب نے پینترا بدلا اور انہیں ایک اور سوال کے جال میں پھنسانا
چاہا۔
کیا آپ '' یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئاً للہ '' کہنے والے کو مشرک قرار دیتے ہیں؟،،

فرمایا : اس کا انحصار کہنے والے کی نیت پر ہےہر اس شخص کو جو یہ الفاظ زبان سے نکالتا ہے،مشرک قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
ابھی آپ نے بھی یہ الفاظ زبان سے نکالے ہیں، مگر آپ کو مشرک قرار نہیں دیا جائے گا۔،،
مولانا اس دام سے بھی بچ نکل گئے تو جسٹس منیر نے ایک اور سوال کیا۔
،، آپ عبد الوہاب کو اپنا مذہبی رہنما مانتے ہیں؟،،
جواب دیا ،، عبد الوہاب نام کا کوئی شخص ہمارا مذہبی رہنما نہیں ہے،،
منیر صاحب نے کہا،،عبد الوہاب آپ کا مذہبی رہنما ہے ۔،،
فرمایا ،،قطعاً نہیں۔،،
منیر صاحب نے اپنی بات پر زیادہ اصرار کیا تو مولانا نے سختی سے انکار کیا کہ نہیں
ہے۔
جب دو تین دفعہ دونوں کے درمیان ،، ہے اور نہیں ،، کی تکرار ہوئی تو منیر صاحب نے
بوکھلا گئے اور میز پر ادھر اُدھر ہاتھ مار کر وہ کاغذات تلاش کرنے لگے جن پر انہوں نے سوالات درج کیے تھےاُن کی گھبراہٹ زیادہ ہوئی تو مولانا نے نے کہا:
،، غالباً آپ کی مراد محمد بن عبد الوہاب ہے۔،،
بولے جی ہاں میری مراد یہی ہے ،،
مولانا بولے :
،، وہ عبد الوہاب نہیں محمد بن عبد الویاب ہیں ،،
منیر صاحب نے کہا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ ،،
فرمایا ،، واہ باپ اور بیٹے کا فرق آپ کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے۔،،
اُس کے بعد منیر صاحب کو تو اُن سے سوال کرنے کہ ہمت نہیں ہوئی۔
لیکن جسٹس کیانی جو اب تک خاموش بیٹھے سب کچھ سن رہے تھے،مخاطب ہوئے
اور کہا ،، مولانا اگر میرے بس میں ہوتا تو میں آپ کو وکالت کا لائسنس دے دیتا۔
میں آپ کی بحث اور دلائل سے بہت متاثر اور مستفید ہوتا ہوں۔،،
(مؤرخ اھل حدیث ،مشہور صحافی ،معروف مصنف اور ممتاز خاکہ نویس جناب
محمد اسحاق بھٹی کی کتاب نقوش عظمت رفتہ سے لیا گیا اقتباس)

اللہ مالک الملک مولانا کی قبر کو جنت کا باغ بنائے آمین
۔۔۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
سید داود غزنوی ؒ کی زندگی پر جو کتابہیں لکھی گئی ہیں انکے متعلق کوئی معلومات ہو تو دیجئے
 
Top