• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سید نا عمر رضی اللہ عنہ : واللہ مجھے یہ زیادہ محبوب ہوتا

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150


سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مجھے ایسے درخت کی خبر دو جو مشابہ ہوتا ہے یا فرمایا مسلمان مرد کے مشابہ ہوتا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے ابراہیم نے کہا شاید کہ وہ مسلمان ہو امام مسلم نے کہا انہوں نے شاید یہ کہا وہ پھل دیتا ہے اور اسی طرح میں نے اپنے سے علاوہ کی روایات میں یہ پایا ہے کہ وہ ہر وقت پھل نہیں دیتا ۔سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا پس میرے دل میں یہ بات واقع ہوگئی کہ وہ کھجور کا درخت ہوگا اور میں نے ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دیکھا کہ وہ نہیں بول رہے تو میں نے اس بارے میں کوئی بات کرنا پسند نہ کیا تو سید ناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر تم بتا دیتے تو یہ فلاں فلاں چیز سے زیادہ پسندیدہ ہوتا۔(یعنی مجھے بہت خوشی ہوتی)
صحیح بخاری کتاب التفسیر۔صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین



سید نا عباس رضی اللہ عنہ سید ناابو سفیان رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا واقعی بیان کرتے ہیں (فتح مکہ کے موقعہ پر) کہتے ہیں کہ میں ابو سفیان کو لے کر چلا۔ جب کسی الاؤ کے پاس سے گزرتا تو لوگ کہتے کہ کون ہے؟ مگر جب دیکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاخچر ہے اور میں اس پر سوار ہوں تو کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خچر پر ہیں۔ یہاں تک کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے الاؤ کے پاس سے گزرا۔ انہوں نے کہا، کون ہے؟ اور اُٹھ کر میری طرف آئے۔ جب پیچھے ابو سفیان کو دیکھا تو کہنے لگے، ابو سفیان؟ اللہ کا دشمن؟ اللہ کی حمد ہے کہ اس نے بغیر عہد و پیمان کے تجھے (ہمارے) قابو میں کر دیا۔ اس کے بعد وہ نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف دوڑے اور میں نے بھی خچر کو ایڑ لگائی۔ میں آگے بڑھ گیا اور خچر سے کود کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جا گھسا۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب بھی گھس آئے اور بولے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! میں نے اسے پناہ دے دی ہے۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بیٹھ کر آپ کا سر پکڑ لیا اور کہا ، اللہ کی قسم آج رات میرے سوا کوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سرگوشی نہ کرے گا۔ جب ابو سفیان کے بارے میں سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے بار بار کہا تو میں نے کہا عمر! ٹھہر جاؤ۔ اللہ کی قسم اگر یہ بنی عدی بن کعب کا آدمی ہوتا تو تم ایسی بات نہ کہتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا عباس! ٹھہر جاؤ۔ اللہ کی قسم تمہارا اسلام لانا میرے نزدیک خَطَّاب کے اسلام لانے سے اگر وہ اسلام لاتے، زیادہ پسندیدہ ہے اور اس کی وجہ میرے لیے صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک تمہارا اسلام لانا خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔



سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا اے میرے چھوٹے بھائی اپنی دعا میں مجھے نہ بھولنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس محبت و شفقت بھرے قول سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جاتی تب بھی اتنی خوشی نہ ہوتی شعبہ کہتے ہیں کہ عاصم بن عبیداللہ سے یہ حدیث سننے کے بعد میری مدینہ میں دوبارہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے یہی حدیث بیان کی اور (بجائے اے میرے بھائی مجھے اپنی دعا میں نہ بھولنا، کے) کہا اے میرے بھائی مجھے اپنی دعا میں شریک رکھنا۔
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1494




سید نا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے سخت بھوک لگی، میں سید نا عمر بن خطاب کے پاس گیا اور قرآن کی آیتیں سنانے کی خواہش ظاہر کی، وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے اور میرے لئے دروازہ کھولا، میں تھوڑی دور چلا تھا کہ اپنے منہ کے بل بھوک کی وجہ سے گر پڑا، دیکھا تو میرے سر کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ! میں نے کہا لبیک وسعدیک یا رسول اللہ! آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کھڑا کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری حالت پہچان لی، چنانچہ مجھے اپنے گھر لے گئے، اور مجھے ایک پیالہ دودھ پینے کا حکم دیا، میں نے اس میں سے پی لیا، پھر فرمایا اور پیو اے ابوہریرہ! میں نے دوبارہ پیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھر فرمایا اور پی لو، چنانچہ میں نے پی لیا، یہاں تک کہ میرا پیٹ پیالہ کی طرح ہوگیا، پھر میں سید ناعمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اپنی حالت بیان کی اور میں نے کہا اے عمر اللہ نے اس کام کا اسے مالک بنا دیا جو اس کا زیادہ مستحق تھا، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بھوک کی تکلیف دور کی، بخدا میں نے تم سے آیت پڑھنے کو کہا تھا، حالانکہ میں تم سے زیادہ ان آیتوں کا پڑھنے والا تھا، سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں (سمجھا نہیں تھا ورنہ) بخدا تمہیں اپنے گھر میں داخل کرنا (مہمان بنانا) مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میرے پاس سرخ اونٹ ہوں۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 346 کتاب الاطعمہ
اے اللہ اے ہمارے مالک اِن پاکباز ہستیوں کی محبت کو ہمارے سینوں میں بھر دے اور ہمارا حشر بھی مالک اِن کے ساتھ کر نا اللھم آمین
 
Top