• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شادی کے بعد لچھا پہننا اور شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا

عامر

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
151
ری ایکشن اسکور
827
پوائنٹ
86
السلام علیکم،

ان دو سوالات کے جوابات شریعت متہرہ کی روشنی میں درکار ہیں۔

ہمارے یہاں شادی کے بعد مسلمان عورت ایک قسم کا زیور پہنتی ہے جسکو لچھا کہا جا تا ہے۔ یہ عورت کے شادی شدہ ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اور اس زیور کو کالی ماتہ کابھی زیور کہا جاتا ہے بقول ایک مولوی صاحب کے۔

ایک اور زیور ہندو عورتیں بھی پہنتیں ہیں جسے منگل سوتر کہا جاتا ہے اور یہ بھی شادی شدہ ہونے کی نشانی اور شائید شوہر کے زندہ رہنے کی بھی نشانی سمجھی جاتی ہے۔

کیا مسلمان عورت کا اسطرح کا زیور استعمال کرنا جائز ہے؟

شادی کے بعد عورت کا آپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا کیا جائز ہے جیسا کہ یہ طریقہ اہل مغرب میں عام ہے۔

جزاک اللہ خیرا

عامر آف دکن حیدراباد - ھندوستان
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
یادہانی کا شکریہ!
١۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کے شعائر اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور ایسے مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے جو غیر مسلموں کے شعائر اختیار کرتے ہیں۔ صورت مسئولہ میں اگر تو واقعتا ایسا ہے کہ زیورات کی یہ دو صورتیں متعین ہیں اور ہندو مذہب میں بطور شعائر معروف ہیں تو ان سے مسلمان عورتوں کو اجتناب کرنا چاہیے۔ یہاں کسی مولوی صاحب کے کہنے کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ آپ کو خود یہ سروے کرنا ہو گا کہ زیورات کی یہ دو قسمیں ہندو مذہب میں عورتوں کا مذہبی شعار ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو ممنوع ہے اور اگر نہیں ہیں تو محض مخصوص ڈیزائن کے زیورات اگر غیر مسلم عورتیں پہنتی ہوں تو ان کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
آپ کا ارشاد ہے :
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (سنن ابی داود، کتاب اللباس، باب فی لبس الشھرۃ)
مزید تفصیل کے یہ لنک ملاحظہ فرمائیں۔
٢۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عورت اپنے شوہر کی طرف اپنے نام کی نسبت کر سکتی یا نہیں تو اس بارے شیخ صالح المنجد کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نہیں کر سکتی ہے کیونکہ باپ کے علاوہ کی طرف نسبت سے قرآن نے منع کیا ہے۔ شیخ پر یہ اعتراض ہوا کہ باپ کی علاوہ جس نسبت سے منع کیا گیا ہے وہ تو ابوت یعنی باپ ہونے کی نسبت ہے جبکہ شوہر کی طرف یہ نسبت نہیں کی جاتی لہذا آپ کی دلیل درست نہیں ہے تو شیخ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ چودہویں صدی کا رواج کہ جس میں درمیان میں سے بن یا بنت کا لفظ نکال دیا گیا ہے ورنہ تو کسی نام ساتھ لگانے سے مراد بن فلاں یا بنت فلاں ہی ہوتا ہے۔شیخ کا عربی فتوی ملاحظہ فرمائیں:

السؤال :قرأت ردك على السؤالين رقم 2537 و4362 الخاص باحتفاظ الزوجة باسم والدها بعد زواجها . وآية سورة الأحزاب التي ذكرتها تنص على أن الطفل (أو الطفلة) الذي يتبنى يجب أن يحمل اسم والده (اسم زوج الأم الأول) . لكن كيف نطبق ذلك على زوجة غيرت اسمها (بكل بساطة) بسبب الزواج ؟ هي لا تدعي أنها تنتسب إلى زوجها ، لكنها تحمل اسمه فقط . إذا كان السبب هو النسل ، فأرجو أن تذكر الدليل من القرآن والسنة.شكرا لك على مساعدتك وتوضيحك . وجزاك الله خيرا
الجواب :
الحمد لله
إن آثار مشابهة الغرب في التسمية كثيرة ، ومنها ما توارد الناس - الآن - على حذفه بين أسمائهم وأسماء آبائهم ، وهو لفظة " ابن " ، أو " ابنة"، وكان هذا سببه - أولا - تبنِّي بعض الأسر لأولاد ، أضافوا أسماءهم إلى أسمائهم ، فصار يقال لهم ( فلان فلان ) ، ويقال لأولادهم الحقيقيين ( فلان بن فلان ) ، ثم توارد الناس - في القرن الرابع عشر - على إسقاط لفظة ( ابن ) و (ابنة ) ، وهو الأمر المرفوض لغة وعادة وشرعاً . فإلى الله المشتكى.ومن الآثار - كذلك - نسبة الزوجة إلى زوجها .
والأصل : أنها تكون ( فلانة بنت فلان ) ، لا ( فلانة زوجة فلان ) ! ، والله تعالى يقول { ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله } [ الأحزاب / 5] ، وكما أن هذا الأمر يكون في الدنيا فإنه يكون كذلك في الآخرة ، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم " إن الغادر يرفع له لواء يوم القيامة ، يقال هذه غدرة فلان بن فلان " . رواه البخاري (5709) ، ومسلم (3265).
قال الشيخ بكر أبو زيد حفظه الله : وهذا من أسرار التشريع ، إذ النسبة إلى الأب أشد في التعريف ، وأبلغ في التمييز ، لأن الأب هو صاحب القوامة على ولده وأمِّه في الدار وخارجها ، ومِن أجله يظهر في المجامع والأسواق ، ويركب الأخطار في الأسفار لجلب الرزق الحلال والسعي في مصالحهم وشؤونهم ، فناسبت النسبة إليه لا إلى ربات الخدور ، ومَن أمرهن الله بقوله { وقرْن في بيوتكن } [ الأحزاب / 33 ] . أ.هـ " تسمية المولود " ( ص 30 ، 31 ) .

وعليه : فإنه ليست هناك علاقة نسب بين الزوج والزوجة فكيف تُضاف إلى نَسَبه ، ثم هي قد تُطلَّق ، أو يموت زوجها ، فتتزوج مِن آخر ، فهل تستمر نسبتها في التغير كلما اقترنت بآخر ؟ يُضاف إلى ذلك : أن لنسبتها إلى أبيها أحكاماً تتعلق بالميراث والنفقة والمحرمية ، وغيرها ، وإضافة نسبها إلى الزوج ينسف ذلك كله ثم الزّوج منتسبٌ إلى أبيه فما علاقتها بنسب أبي زوجها !! ، هذه مغالطة للعقل والواقع ، وليس في الزوج ما يفضله على زوجته حتى تنتسب هي له ، بينما هو ينتسب إلى أبيه !
لذا وجب على كل من خالفت ذلك فانتسبت لزوجها أن تعيد الأمر إلى جادته وصوابه .نسأل الله أن يصلح أحوال المسلمين .
الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد
نوٹ : راقم کے خیال میں عورت جب اپنے شوہر کا نام اپنے ساتھ لگاتی ہے تو اس سے مراد نسبت ابوت نہیں ہوتی لہذا جائز ہے اور اس نسبت کی ممانعت کے جتنے بھی دلائل بیان کیے جاتے ہیں ان میں نسبت ابوت کے لیے غیر کا نام ساتھ لگانے کی ممانعت ہے ورنہ تو سلف صالحین یا امت مسلمہ کی ١٤ سو سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ لوگوں کے عرفی نام ان کے شہروں ، علاقوں، قبیلوں، مسالک اور باپ کے علاوہ دادا یا دادی یا پردادا یا پردادی وغیرہ کی طرف بھی نسبت سے معروف ہوئے ہیں اور کسی نے ان کے استعمال پر اعتراض نہیں کیا ہےکیونکہ وہ نسبت ابوت نہیں ہے اور یہ سب کو معلوم ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عرفی نام میں باپ کی طرف نسبت کہاں موجود ہے اور نسل مرد کی ہوتی ہے نہ کہ عورت کی اور میرے علم میں تو اس پر کوئی اعتراض دیکھنے میں نہیں آیا ہے ۔ اور جہاں تک مغرب کی مشابہت کا معاملہ ہے تو تو یہ ایسی مشابہت ہی ہے جیسی میز اور کرسی کے استعمال میں مشابہت ہے یعنی جب کوئی عمل مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف عام بن جائے تو پھر اگر وہ عمل شریعت کے خلاف نہ ہو تو صرف اس بنیاد پر مرودو نہیں ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں تو آپ اپنے رجحان کے مطابق کسی پر بھی رائے پر عمل کر سکتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
راقم کے خیال میں عورت جب اپنے شوہر کا نام اپنے ساتھ لگاتی ہے تو اس سے مراد نسبت ابوت نہیں ہوتی لہذا جائز ہے اور اس نسبت کی ممانعت کے جتنے بھی دلائل بیان کیے جاتے ہیں ان میں نسبت ابوت کے لیے غیر کا نام ساتھ لگانے کی ممانعت ہے ورنہ تو سلف صالحین یا امت مسلمہ کی ١٤ سو سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ لوگوں کے عرفی نام ان کے شہروں ، علاقوں، قبیلوں، مسالک اور باپ کے علاوہ دادا یا دادی یا پردادا یا پردادی وغیرہ کی طرف بھی نسبت سے معروف ہوئے ہیں اور کسی نے ان کے استعمال پر اعتراض نہیں کیا ہےکیونکہ وہ نسبت ابوت نہیں ہے اور یہ سب کو معلوم ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عرفی نام میں باپ کی طرف نسبت کہاں موجود ہے اور نسل مرد کی ہوتی ہے نہ کہ عورت کی اور میرے علم میں تو اس پر کوئی اعتراض دیکھنے میں نہیں آیا ہے ۔ اور جہاں تک مغرب کی مشابہت کا معاملہ ہے تو تو یہ ایسی مشابہت ہی ہے جیسی میز اور کرسی کے استعمال میں مشابہت ہے یعنی جب کوئی عمل مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف عام بن جائے تو پھر اگر وہ عمل شریعت کے خلاف نہ ہو تو صرف اس بنیاد پر مرودو نہیں ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں تو آپ اپنے رجحان کے مطابق کسی پر بھی رائے پر عمل کر سکتے ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا بھائی! اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
لیکن اگر کسی عمل کی بنیاد غیر مسلموں کی مشابہت ہو اور پھر وہ عمل مسلمانوں میں عام ہوجائے تب بھی کیا وہ مردود نہیں ہوگا؟
میرا مطلب یہ ہے کہ کیا مسلمانوں میں کبھی یہ رواج رہا کہ بیوی شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لگاتی ہو، یہ تو واضح ہے کہ رواج ہمارے ہاں مغرب سے مرعوبیت کی وجہ سے دَر آیا ہے، واللہ اعلم!
 

عامر

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
151
ری ایکشن اسکور
827
پوائنٹ
86
اصل پیغام ارسال کردہ از:انس نضر
لیکن اگر کسی عمل کی بنیاد غیر مسلموں کی مشابہت ہو اور پھر وہ عمل مسلمانوں میں عام ہوجائے تب بھی کیا وہ مردود نہیں ہوگا؟ جزاک اللہ انسس بھائی!


شیخ یہ سوال کرنے کی وجہ یہی تھی کہ کہیں یہ عمل جسکو ہم نے اپنایا ہے اہل مغرب سے عموماً اور یہود و نصاری سے بالخصوص مشابہت تو نہیں؟

میرے مختصرعلم کے مطابق کسی صحابیہ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام نہیں لگایا (مجھے آپ صحیح کریں اگر میں غلط ہوں تو دلیل کے ساتھ) مگراسکے برخلاف ہمیں صحابیات کے ناموں کے ساتھ انکے والد کے ناموں کی کئی مثالیں مل جائنگیں جیسے؟ ام المومنین عائشہ صدیقہ، صفیہ بنت حئی وغیرہ وغیرہ۔

امید ہے اس سمت مدلل روشنی ڈالی جائیگی۔
 
Top