• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شام میں غیر ملکی جہادیوں کا ایجنڈا

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
شام میں غیر ملکی جہادیوں کا ایجنڈا

شام میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں مغربی ممالک کی سب سے بڑی تشویش عرب ممالک، مغربی یورپ اور دیگر ممالک سے سنی جنگجوؤں کا شام میں آنا ہے۔

واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے تازہ ترین اندازے کے مطابق شام میں اس وقت گیارہ ہزار جنگجو موجود ہیں جو دیگر ممالک سے آئے ہوئے ہیں۔

ان جنگجوؤں کی آمد سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنگجو کس گروہ میں شریک ہوتے ہیں اور مختلف گروہوں کے درمیان کیا روابط ہیں۔

شام میں دو گروہ بہت سرگرم ہیں جن کا تعلق القاعدہ کے ساتھ ہے۔ ایک ہے النصرہ فرنٹ اور دوسرا ہے الدولۃ الاسلامي في العراق والشام یعنی آئی ایس آئی ایس۔ النصرہ فرنٹ شام میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم ہے۔

عراق میں القاعدہ کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے یک طرفہ طور پر اپنی تنظیم کو النصرہ فرنٹ میں ضم کیا اور اس طرح آئی ایس آئی ایس قیام میں آئی۔ تاہم النصرہ فرنٹ کے سربراہ ابو محمد الجلانی اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے اس عمل کو رد کر دیا۔ تاہم البغدادی نے آئی ایس آئی ایس کو ختم کرنے سے انکار کر دیا اور اس طرح یہ تنظیم ابھی بھی اسی نام سے سرگرم ہے۔


نیٹ ورک

ان دونوں تنظیموں میں سے آئی ایس آئی ایس غیر ملکی جنگجوؤں کے لیے زیادہ پرکشش ہے۔ اسی وجہ سے اس تنظیم میں زیادہ تر جنگجو غیر ملکی ہیں۔

لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ شام میں آئی ایس آئی ایس غیر ملکی جنگجوؤں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس تنظیم میں ساٹھ سے ستر فیصد شامی جنگجو ہیں۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کہ آئی ایس آئی ایس کے پاس فنڈز کی کمی نہیں ہے اور اس کا نیٹ ورک بہت وسیع ہے۔

آئی ایس آئی ایس اہم عسکری کارروائیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ شامی جنگجو کو شامل کر رہا ہے۔ اور مستقبل میں شام میں اپنی موجودگی کا جواز پیش کرنے کے لیے یہ نئی نسل کو شامل کر رہی ہے۔ اور اسی لیے یہ تنظیم بچوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔


سعودی عرب اور مراکش

النصرہ اور آئی ایس آئی ایس کے علاوہ بہت سے اور گروہ شام میں موجود ہیں جن میں غیر ملکی جنگجو شامل ہیں۔ یہ گروہ زیادہ تر اذقیہ کے علاقے میں کاروائیوں میں مصروف ہیں۔

ان گروہوں نے النصرہ اور آئی ایس آئی ایس کے ہمراہ علوی علاقوں پر حملوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ان گروہوں میں سے چند گروہ النصرہ اور آئی ایس آئی ایس سے نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود ان سے منسلک نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اذقیہ میں سقور العذ اور حرکت شام الاسلام نامی دو گروہ ہیں۔ سقور العز سعودی عرب سے آئے جنگجوؤں نے اور حرکت شام الاسلام مراکش سے آئے جنگجوؤں نے قائم کی۔

ان دونوں تنظیموں میں شامی سمیت کئی غیر ملکی جنگجو شامل ہیں۔


نظریاتی ہم آہنگی

اذقیہ کے باہر سب سے اہم آزاد گروہ گرین بٹالین اور جماعت جندالشام ہیں۔

غیر ملکی عورتیں بھی جہاد کے لیے شام کا رخ کر رہی ہیں
گرین بٹالین کو سعودی عرب سے آئے جنگجوؤں نے قائم کیا اور ان کے نظریات آئی ایس آئی ایس اور النصرہ کے نظریات ہی ہیں لیکن یہ گروہ آزاد اس لیے ہے کہ اس تنظیم کے جنگجوؤں کا آئی ایس آئی ایس اور النصرہ سے ذاتی اختلاف ہے۔

تاہم دمشق کے مضافات میں شامی سکیورٹی فورسز اور شیعہ ملیشیا کے ساتھ لڑائی میں گرین بٹالین نے آئی ایس آئی ایس اور النصرہ کے ہمراہ لڑائی لڑی۔

جماعت جندالشام کو لبنان سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے حمس میں بنایا لیکن اس میں بڑی تعداد شامی جنگجوؤں کی ہے۔

نظریاتی طور پر یہ تنظیم آئی ایس آئی ایس اور النصرہ کے قریب ہے اور ان میں کسی قسم کا ذاتی اختلاف بھی نہیں ہے۔

شام میں دیگر گروہ آئی ایس آئی ایس کے ہی دوسرے نام ہیں۔ ان گروہوں میں سب سے نمایاں جیش المہاجرین ولانصار ہے جو حلب، اذقیہ اور ادلب میں موجود ہے۔ مئی میں اس کے سربراہ عمر الشیشانی کو آئی ایس آئی ایس کے سربراہ نے تنظیم کا شمالی کمانڈر نامزد کیا۔ اس کے بعد سے نومبر تک جیش المہاجرین آئی ایس آئی ایس کا دوسرا نام بن کر رہ گئی۔ تاہم نومبر میں یہ تنظیم دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک گروپ عمر الشیشانی کا ہے جو اپنے آپ کو آئی ایس آئی ایس سے منسلک کرتی ہے جبکہ دوسرا گروپ صالح الدین الشیشانی کی قیادت میں اپنے آپ کو آزاد گروپ کے طور پر سامنے لا رہا ہے۔


دنیا پر غلبہ

کئی حکومتوں کو ایک مخمسے کا سامنا ہے کہ یہ جنگجو دنیا کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہیں۔

شام میں موجود تمام تنظیموں میں سے صرف آئی ایس آئی ایس کھلم کھلا دنیا پر راج کرنے کے عزم رکھتی ہے اور کھل کر اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔

گیارہ ہزار غیر ملکی جہادی اس وقت شام میں موجود ہیں

شاید اسی لیے آئی ایس آئی ایس کی طرف سب سے زیادہ غیر ملکی جنگجو مائل ہوتے ہیں جو عالمی جہادی نظریاتی سے تعلق رکھتے ہیں۔
آئی ایس آئی ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے مجھے صاف الفاظ میں بتایا کہ عراق اور شام میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد وہ دیگر مسلم ممالک میں بھی اسلامی ریاست قائم کر کے خلافت قائم کریں گے۔

دوسری جانب اذقیہ جانے والے ایک جنگجو نے بتایا کہ حرکت شام الاسلام شام میں جاری مسلح تصادم کو تربیت کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور یہ جنگجو واپس مراکش جا کر اپنی حکومت کے خلاف لڑیں گے۔


ترکی

شام میں جاری مسلح تصادم اگلے دس پندرہ سال تک ختم نہیں ہونے والا اور اس کے باعث غیر ملکی جنگجو کا شام آنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اس وقت ترکی پر صرف دباؤ ڈالا جاسکتا ہے کہ وہ غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد و رفت کے حوالے سے سخت اقدام کرے اور اپنے ہوائی اڈوں پر زیادہ سختی کرے۔

ترکی ہمیشہ اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ وہ غیر ملکی جنگجوؤں کی آمدورفت میں کسی قسم کی مدد کرتا ہے۔ لیکن جنگجوؤں اور ان کو شام لانے والے افراد کا کہنا ہے کہ ترکی کے حکام اس معاملے میں نرمی برتتے ہیں۔

جنگجوؤں کی آمد و رفت میں لبنان اور عراق بھی شامل ہیں اور ان جنگجوؤں میں صرف سنی نہیں شیعہ جنگجو بھی شامل ہیں۔

منگل 24 دسمبر 2013
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اس وقت پوری دنیا میں ہزاروں تھنک ٹینک موجود ہیں جن کام صرف پالیسی میکنگ ہے یعنی وہ صرف منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ان کی حکومت ان منصوبوں پر عمل کرتی ہے اور آج مسلمانوں میں یہ جو قتل و غارت بازار گرم ہے یہ ان لوگوں کا منصوبہ ہے جن کو مستشرقین بھی کہا جاتا ہے وہ لوگ ہماری کمزوری کو بھانپ کر ہم پر وار کرتے ہیں اور ہمیں یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور اس کا محرک کون ہے اس وقت ہمارا ٹاگٹ صرف ایک ہی ہے وہ ہے صرف امریکہ جس کو یہودی استعمال کر رہے ہیں پوری اسلامی دنیا میں جو فتنہ نظر آ رہا ہے وہ ان پالیسی میکرز کا ہے یہ لوگ ہمیشہ سے شیعہ اور بد عقیدہ مسلمانوں کو استعمال کرتے آے ہیں نہ تو ہم نے ان کی پالیسی کو سمجھا ہے اور نہ اپنے تھنک ٹینک تیار کیے ہیں ہم شیعہ کو مار یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے حالاں کہ ہم نے دشمن کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہچایا ہے
جہاد میں سب سے پہلے اھم فالاھم (جو زیادہ اہمیت والا ہو پہلے پھر اس سے کم پھر اس سے کم ) مقدم ہونا چاہیے ہمارے موجودہ زمانے میں امریکہ کفر کا سر غنہ ہے اور دیگر طواغیت اس کے حاشیہ بردار اور پر ہیں جب ہم کفر کا سرکاٹ دیں گے تو اللہ کی مشیت سے یہ حاشیہ بردار خود بخود ختم ہو جائیں گے
جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ ہرمزان فارسی جب مسلمان ہو گیا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فارس سے لڑائی کے سلسلے میں اس سے مشورہ کیا تین مقام (فارس،اصفہان ،اذربائیجان ) میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے،
اس نےکہا :
مسلمانوں کے دشمنوں کی مثال ایک پرندے کی ہے جس کا ایک سر دو پاؤں اور دوبازو ہوں اگر ایک بازو توڑ ڈالیں تو وہ پرندہ دونوں پاؤں اور ایک بازو اور سر سے حرکت کرے گا دوسرا بازو توڑیں تو بھی ایسا ہیں ہوگا البتہ اگر سر کچل دیا جائے نہ پاؤں کچھ کام کے رہیں گے نہ بازو نہ سر تو دیکھیے ان دشمنوں کاسر کسریٰ ہے (بادشاہ ایران ) اور ایک بازو قیصر ہے بادشاہ روم دوسرا بازو فارس ہے۔
[صحیح بخاری، کتاب الجہاد،باب الجزیۃ الموادعۃمع اہل الحرب ،ص:447،ج: 1]
اس طرح جب کفر کا سر (امریکہ ) کٹ جائے گا تو پروں کو کاٹنا ان شاءاللہ آسان ہو جائے گا ۔
اتنے سارے محاذ کھول دینا اصول جنگ کے خلاف ہے شام سے پہلے بہت سارے محاذ کھلے ہوے تھے چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے ان کو پایا تکمیل تک پہچایا جاتا لیکن نت نئے میدان کھول دے گئے جو سراسر نقصان دہ ہے اور اس لئے بھی کہ یہ جہاد درست نہیں ،دیار مغرب کے کفار کے اہم مقاصد میں سے یہ بات شامل ہے کہ اس حکومت جس کو اسلامی حکومت کہا جاتاہے اس کو (ان سے )ٹکرا دو تا کہ وہ حکومتیں اس جہاد ،مجاہدین ،علماء، مدارس اور داعی حضرات ختم کردیں اور ان کافروں کو ان کے ملکوں میں آزادی دی جائے ۔اور اس لئے بھی یہ جہاد درست نہیں کیونکہ ان طواغیت سے قتال اصل کافروں کےلئے بہت فائدہ مندثابت ہو گا تو کسی بھی صاحب بصیرت اور صاحب عقل وشعور رکھنے والے کےلئے جائز نہیں کہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ ان کفار کا آلہ کار بنے ۔آپ کو علم ہونا چاہیے کہ مدینہ میں اوس اور خزرج کی لرائی کا فائدہ یہود کو ہوتا تھا اور آج بھی یہود ہی کو ہو رہا ہے
 
Top