کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
شام میں کیا ہوا، پاکستان میں کیا ہو گا؟
اتوار 6 دسمبر 2015مکالم: اسد اللہ غالب
سوال بڑا دلچسپ اور آسان ہے، شام میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو اس سے پہلے افغانستان اور عراق میں ہوا، تو کیا اگلے سوال کا جواب بھی وہی ہے کہ پاکستان میں بھی وہی کچھ ہو گا جو عراق، افغانستان اور شام میں ہوا اور کسی حد تک لیبیا میں ہوا۔
ایک جواب یہ ہے کہ پاکستان میں تو یہ سب کچھ تیرہ برس سے ہو رہا ہے، بس اس کی شکل مختلف ہے،
اب سوال یہ ہے کہ شکل مختلف کیوں ہے،
جواب یہ ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اس لئے اس کے لئے نیا نسخہ آزمایا گیا۔
یہ شروع تو لال مسجد سے ہوا، پھر اس نے سوات میں پھن لہرایا اور فاٹا سے ہوتا ہوا سارے ملک پر محیط ہو گیا،
اس عرصے میں ساٹھ ہزار شہری شہید ہو گئے، جو اپاہج اور معذور ہوئے، ان کی تعداد کسی ادارے نے نہیں بتائی، البتہ فوج کا کہنا ہے کہ اس کے پانچ سے چھ ہزار افسر اور جوان شہید ہوئے اور بعض کو تو حراست میں لے کر ایک ساتھ گولیوں سے بھونا گیا اور پھر ان کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلا گیا۔ پتہ نہیں یہ کھیل کہاں ایجاد ہوا اور اس کے مقابلے عالمی سطح فیفا کے تحت کیوں منعقد نہیں ہوتے، بوکو حرام والے بھی لوگوں کو حرام موت مارتے ہیں۔ دنیا اس وقت ہتھ چھٹ واقع ہوئی ہے، جس کا دل چاہتا ہے، وہ کسی نہ کسی ملک کو نشانہ بنا دیتا ہے، امریکی جہازوں نے تو چین سے پنگے لینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ، یہ تو گراں خواب چینی ہیں کہ مست الست ہیں۔
شام میں کھیل بڑا دلچسپ ہے، یہاں بشار الاسد کی قانونی حکومت قائم تھی، راوی ہر سو چین لکھ رہا تھا کہ اچانک مجاہدین کے لشکر داخل ہو گئے، انہیں سعودی عرب کی حمائت حاصل تھی، امریکہ نے ان مجاہدین کو بھر پور مالی مدد دی اور اسلحے کے ڈھیروں سے لاد دیا، حتی کہ ٹینک اور توپیں بھی فراہم کر دیں، بمبار جہاز نہیں دے سکتے تھے، وہ امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور ترکی نے اپنے اپنے استعمال کئے۔ شام کے لوگ جانے کس ہڈی کے بنے ہوئے تھے کہ ہر طرف سے مار کھاتے رہے۔ مگر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ شام کے لوگوں پر شام کی سرزمین تنگ ہو گئی، ان پناہ گزینوں نے دنیا بھر کا رخ کر لیا، اول اول تو ان کی آﺅ بھگت کی گئی مگر جب قافلے بڑھنے لگے تو پیرس حملوں کی آڑ میں ان کو ہر ملک نے قبول کرنے سے انکار کر دیا، کہتے ہیں کہ ایک اقوام متحدہ بھی ہے جس کا چارٹر ہر ملک کو پابند کرتا ہے کہ وہ مجبور پناہ گزینوں کو سینے سے لگائیں مگر اس ادار ے کی کون سنتا ہے۔ انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم بردار ملک امریکہ نے بھی ان پر پابندیاں عائد کر دیں، صدر اوبامہ نے کہا تو یہ تھا کہ وہ ان پابندیوں کے قانون کو ویٹو کر دیں گے مگر ابھی تک ایسی کوئی خبر نہیں آئی۔
دنیا پیرس کے نوحے پڑھ رہی تھی کہ امریکہ میں قتل عام ہو گیا، ابتدائی رپورٹوں میں تو یہی کہا گیا کہ ان حملوں میں تمام امریکی ملوث ہیں مگر اب تین دن سے یہ خبر اڑ رہی ہے کہ ایک حملہ آور کا تعلق پاکستان سے ہے، کسی کا کہنا ہے کہ لال مسجد سے ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کی فوجیں تیرہ برس میں لال مسجد کا کوئی توڑ تلاش نہیں کر سکیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف سے نئے متعین ہونے والے سفیر نے ملاقاتیں کی ہیں، رسم اور دستور کے مطابق یہ ملاقات محض چہرہ نمائی کے لئے ہونا چاہئے تھے مگر خبر نگار کہہ رہے ہیں کہ امریکی سفیر نے اس حملہ آور کے بارے میں بات کی ہے جس نے سان فرانسسکو میں خونریزی میں حصہ لیا۔ امریکی سفیر نے قدم رنجہ فرماتے ہی جو کھڑاک کیا، دیکھئے یہ کیا رنگ دکھاتا ہے، کیا پاکستان خود لال مسجد والوں سے نبٹتا ہے یا امریکہ، روس، برطانیہ، ترکی اور شاید بھارت کے بمبار طیارے وہی کچھ کرتے ہیں جو شام، افغانستان، عراق اور لیبیا کے ساتھ کیا گیا۔ ہمارے بچاﺅ کا ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے ایٹمی اسلحہ۔ جو ہاٹ اسٹارٹ اور کولڈ اسٹارٹ دونوں صورتوں میں قابل استعمال ہے مگر کیا یہ اس قدر دور مار ہے اور کیا ہم ساری دنیا کے بھڑوں کے چھتے سے ٹکرا نے کی حماقت کر بھی سکتے ہیں۔
میراخیال ہے شاید یہ نوبت تو نہیں آئے گی، پاکستان سے ایک ایٹمی طاقت کے طور پر ہی ڈیلنگ ہو گی اور اس کی شکل وہی رہے گی جو تیرہ برس سے گلے پڑی ہوئی ہے، اس کا آغاز پہلے بھی لال مسجد سے ہوا تھا اوراب پھر ہمیں اسی کو بھگتنا ہے۔ اس راستے میں ایک مشکل ہمارا میڈیا ہے جو پہلے تو یہ دہائی دیتا ہے کہ عین آب پارہ کے اندر اس قدر متشدد گروہ کیسے وجود میں آ گیا اور جب آب پارہ والوں کا پارہ چڑھتا ہے تو یہی میڈیا بے گناہ طالب علموں اور معصوم بچوں کے نوحے پڑھنے لگ جاتا ہے۔ ایک مصیبت وہ عناصر بھی ہیں جو کھل کر انتہا پسندوں کے ساتھ ہیں، انہوں نے پہلے بھی فتوی دیا کہ امریکی ڈرون سے کتا بھی مارا گیا تو شہید تصور کیا جائے گا، اور یہ بھی کہا گیا کہ امریکی افواج کے حلیف کے طور پر پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کی جان چلی جائے تو انہیں شہید نہیں مانتے۔ ایک طبقہ وہ بھی ہے جو دہشت گردی کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالنا چاہتا ہے۔
کوئی ایک طوفان ہو تو اس کا مقابلہ بھی کیا جائے، ہماری سرحدوں کے دونوں طرف حریف افواج بیٹھی ہوئی ہیں۔ امریکہ نے ایک سال قبل انخلا کا اعلان کیا تھا مگر اب وہ غیر معینہ عرصے کے لئے ڈیرے ڈالنے کا اعلان کر چکے ہیں، ان کے ساتھ نیٹو کی افواج بھی ہیں جن میں ہمارا برادر ملک ترکی بھی شامل ہے جو اپنے ایک ہمسائے شام میں مداخلت پہ مداخلت فرما رہا ہے، پتہ نہیں اسے کیا مزہ آتا ہے غیروں کے معاملات میں دخل اندازی کا، جب صدام حسین نے طاقت کے بل پر کویت کی حکومت کا تختہ الٹا تو دنیا کے کسی ملک نے اس کی جارحیت کی تائید نہیں کی بلکہ امریکی افواج نے بزور طاقت کویت کو عراق سے آزاد کروایا، اب یہی دنیا دن کی روشنی میں شام پر ہلے پر ہلہ بول رہی ہے، شام نے کیا گناہ کیا ہے، پیرس حملوں سے پہلے تو کوئی ایک گناہ بھی نہیں گنوایا جا سکتا تھا مگر غیر ملکی بمباری نے شام کا بھرکس نکال دیا ہے اور اب ایک ہی اصرار ہے کہ حافظ الاسد اقتدار چھوڑے اور جمہوری طور پر منتخب حکومت وہاں اقتدار سنبھالے۔
یقین مانیے کہ شام یا بشار الاسد کا کوئی گناہ نہیں ہے جس کی انہیں سزا دی جا رہی ہے۔ مگر پاکستان کو امریکی سفیر نے ہمارا گناہ بتا دیا ہے، اب ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، یہ تو وہی معاملہ ہے کہ جنگل میں شیر سے سامنا ہو جائے تو جو کچھ کرنا ہے، شیر نے کرنا ہے۔
ح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(کالم نگار کے نقطہ نظر سے متفق ہونا ضروری نہیں)