ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 620
- ری ایکشن اسکور
- 193
- پوائنٹ
- 77
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی وصیت؛ مقلدین کے لیے لمحہ فکریہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ برصغیر کی ایک عظیم علمی و دینی شخصیت کے طور پر آپ کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ دیوبندی مکتب فکر انہیں صوفی اور حنفی ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا رہا ہے، لیکن اصل حقیقت کیا ہے؟ آج ہم اسی امر کا جائزہ لیں گے کہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا آخری مذہب کیا تھا۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنے والد گرامی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے متعلق فرماتے ہیں:
"علم حدیث میرے والد ماجد صاحب مدینہ منورہ سے لائے۔ یہاں آ کر فرمایا تھا کہ جو کچھ میں نے پڑھا تھا، سب بھول گیا، صرف علم دین باقی رہ گیا ہے، اور ان شاء اللہ قبر تک بلکہ جنت میں بھی یہی ساتھ رہے گا اور نفع دیویگا۔"
[ملفوظات شاہ عبدالعزیز دہلوی، صفحہ : ۱۲۹]
اس بیان سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جب شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ مدینہ منورہ سے واپس تشریف لائے تو ان کے ساتھ علمِ حدیث تھا، جبکہ اس سے قبل ہندوستان میں جو کچھ تصوف اور فقہ حنفی کی تعلیم حاصل کی تھی، وہ سب فراموش کر چکے تھے۔
خود ان کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ اب وہی علم حدیث ان کے لیے زندگی، موت اور آخرت میں سرمایۂ نجات ہوگا۔ یہ درحقیقت اس بات کا اعلان ہے کہ مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنے سابقہ مسلک سے رجوع کرتے ہوئے اہل حدیث منہج اختیار کر لیا تھا۔
اب ہم ان کی وہ وصیت ملاحظہ کرتے ہیں، جو ان کے مذہب کے متعلق قطعی اور واضح دلیل ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"عقائد میں متقدمین اہل سنت (سلف صالحین) کا مذہب اختیار کرے، اور جن باتوں کی تفصیل اور تفتیش متقدمین نے نہیں کی ہے اس سے احتراز کرے اور شک و شبہات کی طرف توجہ نہ کرے، فروعی مسائل میں ان علماء محدثین کی پیروی کرے جو فقہ و حدیث دونوں کے جامع ہوں، اور ہمیشہ فقہی مسائل کو کتاب و سنت سے ملاتا رہے جو موافق ہوں قبول کر لے اور جو مخالف ہوں انہیں ترک کر دے، اور امت کو کسی وقت بھی قیاسیہ مسائل میں کتاب و سنت سے استغناء حاصل نہیں ہے، اور ایسے رجعت پسند فقہاء کی بات کو نہیں سننا چاہیے اور ان کی طرف توجہ نہ کرنی چاہیے جنہوں نے کسی ایک عالم کی تقلید کو اختیار کر لیا ہو اور سنت کو ترک کر دیا ہو، ان سے دور رہنے میں خدا کا قرب سمجھنا چاہیے۔"
[مجموعہ وصایا اربعۃ، صفحہ : ۷۲- ۷۳]
☜ عقائد میں سلف صالحین کی پیروی، جو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں تاویلات سے اجتناب کرتے تھے۔
☜ فروعی مسائل میں اہل حدیث علماء کی پیروی، اور ان کے اقوال کو صرف اس حد تک قبول کرنا جو کتاب و سنت کے مطابق ہوں۔
☜ کسی ایک امام کی اندھی تقلید کرنے والوں سے دور رہنا، بلکہ ان کی بات بھی نہ سننا، اور اس طرزِ عمل کو قربِ الٰہی کا ذریعہ سمجھنا۔