ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 577
- ری ایکشن اسکور
- 186
- پوائنٹ
- 77
شبِ برأت کی حقیقت اور شعبان کی پندرہویں رات کو قبرستان جانا
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شعبان کی پندرہویں رات کو بر صغیر ہند و پاک میں ”شبِ برأت“ کہتے ہیں اور اس رات میں بریلوی اور دیوبندی متفقہ طور پر بدعت و خرافات والے اعمال عبادت و ایصال ثواب کے نام پر انجام دیتے ہیں اور کچھ ضعیف روایات اپنی دلیل میں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلا :
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ، فَقَالَ: " أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ؟ " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا۔ تو میں (آپ کی تلاش میں) باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے“۔
[سنن ترمذي، حدیث نمبر: ۷۳۹]
یہ روایت سنن ابن ماجہ میں بھی حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ أَبُو بَكْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ کی سند سے بیان ہوئے ہے۔ [دیکھیں سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر : ۱۳۸۹]
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہیں:
حَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ، وقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ: لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ
عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کو ہم اس سند سے صرف حجاج کی روایت سے جانتے ہیں اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا ہے، نیز فرمایا: یحییٰ بن ابی کثیر کا عروہ سے اور حجاج بن ارطاۃ کا یحییٰ بن ابی کثیر سے سماع نہیں۔
[سنن ترمذی، باب مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، حدیث نمبر: ۷۳۹]
امام ترمذی رحمہ اللہ نے ہی اس حدیث کو ذکر کر بیان کر دیا ہے کہ حجاج بن ارطاۃ ضعیف راوی ہے، اور سند میں دو جگہ انقطاع ہے۔
اس روایت کی سند میں جو راوی ہے الحجاج بن أرطاة النخعي اس کے متعلق دیگر محدثین کا کلام بھی ملاحظہ فرمائیں :
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سألت أبي وأبا زرعة عنه، فقالا: الحجاج يدلس في حديث الضعفاء، ولا يحتج بحديثه [الإعلام بسنته عليه الصلاة والسلام بشرح سنن ابن ماجه الإمام (۲/ ۹۰)]
امام اہل السنہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان يدلس، كان إذا قيل له: من حدثك ؟ من أخبرك ؟ قال: لا تقولوا من أخبرك من حدثك، قولوا من ذكره. وروى عن الزهري، ولم يره. [الكامل في الضعفاء (۲/ ۵۱۸)]
حدثنا عبد الرحمن، نا صالح بن أحمد بن حنبل، قال: قال أبي: حجاج بن أرطاة لم يكن يحيى بن سعيد يرى أن يروي عنه بشيء. وقال: هو مضطرب الحديث [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (۳/ ۱۵۴)]
امام محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الغالب على حديثه الإرسال والتدليس وتغيير الألفاظ [تهذيب التهذيب (۱/ ۳۵۶)]
امام الدارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وحجاج لا يحتج به [سنن الدارقطني (۴/ ۳۷۳)]
معلوم ہوا یہ روایت ہی مردود ہے جسے دلیل بنا کر بریلوی دیوبندی مولوی شعبان کی پندرہویں رات خصوصی طور پر قبرستان جانے، قبرستان کو چراغوں اور لائٹوں سے سجا کر ساری رات وہاں جاگنے اور میلے لگانے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقتاً شعبان کی پندرہویں رات کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے۔
علامہ ابن عثیمین فرماتے ہیں:
فضل ليلة النص من شعبان وهذا أيضًا فيه أحاديث ضعيفة لا تصح عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم، وعلى هذا فليلة النصف من شعبان كليلة النصف من رجب أو من ربيع أو من جمادى أو من غيرهن من الشهور لا تمتاز هذه الليلة – أعني ليلة النصف من شعبان- بشيء؛ بل هي كغيرها من الليالي؛ لأن الأحاديث الواردة في هذا ضعيفة.
نصف شعبان کی رات کی فضیلت اس بارے میں بھی کچھ ضعیف احادیث آئی ہیں جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت نہیں۔ لہذا نصف شعبان کی یہ رات دیگر مہینوں جیسے رجب یا ربیع الاول وثانی یا جمادی الاولیٰ والثانی وغیرہ کی راتوں کی طرح عام سی رات ہے۔ اس کو کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں یعنی شعبان کی پندرہویں رات کو۔ بلکہ یہ دیگر راتوں کی طرح ایک رات ہے, کیونکہ اس بارے میں جتنی احادیث وارد ہوئی ہیں سب ضعیف ہیں۔
[ستّ نقاط مهمّة في شهر شعبان للشّيخ ابن العثيمين]
اسی طرح مُردوں کے ایصال ثواب کے لئے حلوہ پوری بنانا اور گھروں میں اس پر فاتحہ خوانی کروانا، وہ کھانا غریبوں میں یہ سمجھ کر بانٹنا کہ اس رات گھر کے جو بڑے بزرگ مر چکے ہیں ان کی روحیں گھر آئے گی اور یہ کھانا ان تک پہنچے گا۔
علامہ ابن عثیمین فرماتے ہیں:
فإن بعض الناس يصنع طعامًا في يوم النصف من شعبان يوزعه على الفقراء ويقول هذا عشاء الأم، هذا عشاء الأب أو هذا عشاء الوالدين، وهذا أيضًا بدعة؛ لأنه لم يرد عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم ولا عن الصحابة رضي الله عنهم
بعض لوگ نصف شعبان کو خاص کھانے بنا کر فقراء میں تقسیم کرتے ہيں اور کہتے ہیں یہ ماں کا کھانا ہے یا باپ کا کھانا ہے اور یہ والدین کا کھانا ہے وغیرہ۔ یہ بھی بدعت ہے، کیونکہ یہ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے نہ ہی آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے۔
[ستّ نقاط مهمّة في شهر شعبان للشّيخ ابن العثيمين]
اسی طرح شعبان کی پندرہویں رات میں مسجدوں کو بھی لائٹوں سے سجا کر وہاں اس رات کی مناسبت سے اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں، ساری رات نمازیں پڑھی جاتی ہے، تلاوت، ذکرو اذکار و دیگر مخصوص عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
علامہ ابن عثیمین فرماتے ہیں:
تخصيصها بقيام. وهذا أيضًا بدعة؛ لأنه لم يرد عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم أنه كان يخصص تلك الليلة بقيام بل هي كغيرها من الليالي إن كان الإنسان قد اعتاد أن يقوم الليل، فليقم تلك الليلة أسوة بغيرها من الليالي، وإن كان ليس من عادته أن يقوم الليل، فإنه لا يخصص ليلة النصف من شعبان بقيام؛ لأن ذلك لم يرد عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم. وأبعد من ذلك أن بعض الناس يخصصها بقيام ركعات معدودة لم ترد عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم، إذن لا نخصص ليلتها بقيام.
اس رات کو قیام کے لیے مخصوص کرنا بھی بدعت ہے، کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس رات کو قیام کے لیے مخصوص فرمایا ہو۔ بلکہ یہ دیگر راتوں کی طرح ایک رات ہے اگر انسان عادی ہے دیگر راتوں میں قیام کا تو وہ اس رات بھی قیام کرے اپنی اس اچھی عادت کو جاری وساری رکھنے کے لیے نہ کہ اس رات کی خصوصیت کی وجہ سے۔ اور اگر قیام اللیل اس کی عادات میں سے نہیں ہے تو وہ محض اس رات کو قیام کے لیے مخصوص نہ کرے، کیونکہ یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں ہے, اور اس سے بھی دور کی گمراہی یہ ہے کہ اس رات کے قیام کو مخصوص تعداد کی رکعتوں کے ساتھ خاص کرنا جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں۔ لہذا ہم اس رات کو قیام کے ساتھ خاص نہیں کریں گے۔
[ستّ نقاط مهمّة في شهر شعبان للشّيخ ابن العثيمين]
معلوم ہوا شعبان کی پندرہویں رات کو فضیلت والی رات سمجھ کر اس کی مناسبت سے شب برات منانا رات کو قبرستان جانا، مخصوص نمازیں پڑھنا، حلوہ پوری بنا کر مُردوں کے ایصال ثواب کے لئے بانٹنا یہ سب بدعت ہیں گمراہی ہیں اور جہنم میں لے جانے والے اعمال ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا , وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ
اور بدترین کام (دین میں) نئے کام ہیں، اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
[سنن نسائي، حدیث نمبر: ۱۵۷۹، قال الشيخ الألباني: صحيح]
وما علینا الا البلاغ