کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
السلام علیکم
شدت پسندی کا غیر اسلامی سفر، خوارج سے داعش تکسید عاصم محمود
ہفتہ 20 دسمبر 2014
عالم اسلام کے ان گروہوں کا تاریخی قصّہ جنھوں نے بتدریج انتہا پسندی کو اپنا لیا۔
14 دسمبر کے ایکسپریس سنڈے میگزین میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل کا ایک فکر انگیز اور معلومات سے بھر پور انٹرویو شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ داعش (اماراتِ شام و عراق) کی فکری بنیادیں ’’الاخوان‘‘ کے نظریات پر استوار ہیں اور یہ کہ تنظیم کا حقیقی ٹارگٹ سعودی عرب میں حکومت قائم کرنا ہے۔
الاخوان جدید عرب مملکت سعودیہ کے بانی، شاہ عبدالعزیز (1953-1876ء) کی بنائی ہوئی مذہبی فوج تھی جس نے سعودیہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ فوج پھر شدت پسندی کے باعث اعتدال کی راہ سے ہٹ گئی۔ الاخوان کے متعلق مزید جاننے سے قبل ذرا اسلام میں شدت پسندی کی تاریخ کا مختصر جائزہ لے لیجیے۔
اللہ تعالی قران پاک میں فرماتے ہیں:
’’ہم نے تم (مسلمانوں) کو امت ِمعتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پہ گواہ بنو اور پیغمبر ( ﷺ) تم پہ گواہ بنیں۔‘‘
(البقرہ۔ 143)
درج بالا آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین نے مسلمانوں کو ’’اُمتِ وسط‘‘ لکھا ہے… یعنی اعتدال کا راستہ اختیار کرنے والی اُمت! آیت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عبداللہ یوسف علی لکھتے ہیں: ’’اسلام کا جوہر یہ ہے کہ وہ افراط وتفریط کا قائل نہیں اور اعتدال کی راہ اپناتا ہے۔ وہ فہمیدہ و متین اور عملی مذہب ہے۔‘‘
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی زندگی کا احاطہ کرنے والے تمام چار بڑے شعبوں… اخلاق، عقائد، عبادات اور شریعت (قوانین) میں اسلام ’’وسطا‘‘ کی تلقین کرتا ہے۔ جو مسلمان یہ معتدل راستہ اختیار نہ کرے، وہ نہ صرف صراط مسقتیم سے بھٹکتا بلکہ تباہ و برباد ہو کے رہتا ہے۔ یہ پیشن گوئی نبی کریمﷺ ہی نے فرما دی تھی۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’دین (پہ عمل کرنا) آسان ہے۔ جس کسی نے بھی اسے پیچیدہ و سخت بنایا، وہ ہلاک ہو کر رہا۔ لہذا سیدھے رہو، اعتدال کی راہ پہ چلو اور (دوسروں کو) خیر کی باتیں بتاؤ۔‘‘
(البخاری)
تاریخ ِاسلام افشا کرتی ہے کہ جن مسلمانوں نے قران وسنّت کو جھٹلاتے ہوئے شدت پسندی اپنائی، وہ تباہ ہو کر رہے۔ ایسا پہلا گروہ خوارج کا تھا جس نے طویل عرصہ عالم اسلام میں قتل وغارت گری پھیلائے رکھی۔ اس کے بعد چھوٹے موٹے بھٹکے ہوئے گروہ آتے رہے یہاں تک کہ بیسویں صدی میں الاخوان سامنے آئے۔
آل سعود یا خاندانِ سعود کا مرکز ریاض تھا جس پر 1890ء میں مخالف قبیلے، آل رشید نے قبضہ کر لیا۔ چناںچہ شاہ عبدالعزیز المعروف ابن سعود والدین کے ہمراہ کویت چلے گئے۔ ابن سعود ایک دلیر اور زیرک انسان تھے۔
1901ء کے موسم بہار میں انہوں نے آل رشید سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ساتھ محض 200 سپاہی تھے۔
ابن سعود نے عرب علاقے، نجد پہنچ کر آل رشید کے حلیف قبائل پر حملے کیے تاہم انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ موسم خزاں ہونے تک بیشتر سعودی سپاہی واپس کویت چلے گئے مگر ابن سعود نے ہمت نہ ہاری۔
15 جنوری 1902ء کو انہوں نے محض چالیس سپاہیوں کے ساتھ ریاض پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا۔ رشیدی والی، عجلان اپنے قلعے کے سامنے مارا گیا۔ ریاض فتح ہوا، تو آل سعود کے سابقہ حلیف قبائل ابن سعود سے آملے۔ یوں ان کی قوت بڑھتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ 1912ء تک نجد سمیت بیشتر وسطی عرب ان کے قبضے میں آگیا۔
نجد اور پڑوسی علاقے، الحصا میں میں ہزارہا عرب بدو مقیم تھے۔ ابن سعود عرب مصلح، محمد عبدالوہاب کے پیروکار تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ بدو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے۔ چناں چہ ابن سعود نے مختلف علاقوں میں ’’حجرہ‘‘ نامی بستیاں بسا دیں جن کی تعداد 1929ء تک ’’سوا سو‘‘ تک پہنچ گئی تھی۔
ان بستیوں میں ہزارہا بدو بسائے گئے۔ انہیں محمد عبدالوہاب کے نظریات پر مبنی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنا سکھایا گیا۔ نیز بتایا گیا کہ کھیتی باڑی کیونکر کی جاتی ہے، نیز مختلف ہنر بھی سکھائے گئے۔ جب ان بستیوں میں کئی ہزار نوجوان بدو مذہبی تعلیم و تربیت پا چکے، تو ان پر مشتمل ایک خصوصی فوج ’’الاخوان‘‘ تشکیل دی گئی۔ یہ 1914ء کی بات ہے۔ الاخوان نے پھر عرب علاقوں کی فتوحات میں آل سعود کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ 1925ء تک موجودہ سعودی مملکت میں شامل سبھی علاقے فتح ہو گئے۔ تاہم اسی دوران ابن سعود اور الاخوانی رہنماؤں کے مابین اختلافات نے بھی جنم لیا۔
الاخوان فوج تقریباً پچاس ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ ہوا یہ کہ وہ اپنے نظریات کے سلسلے میں بہت کٹر ہو گئے۔ وہ ہر قسم کی اچھی بری تبدیلی کے خلاف تھے اور اسے بدعت سمجھتے۔ مثلاً اہل مغرب سے وابستہ ہر شے کا استعمال ان میں ممنوع تھا۔ چناں چہ وہ گاڑی میں نہ بیٹھتے اور اونٹوں پر سفر کرتے۔ صرف مسلمان ہنرمندوں کی بنائی ہوئی قدیم طرز کی بندوقیں استعمال کرتے۔ مزید برآں اپنے نظریات دوسروں پر نافذ کرتے ہوئے انہوں نے شدت پسندی اختیار کرلی۔ اگر مفتوحہ علاقے کے عرب مرد، خواتین، حتیٰ کہ بچے بھی ان کی تعلیمات پر عمل نہ کرتے، تو انہیں قتل کر دیا جاتا۔
الاخوانیوں کے مقابلے میں ابن سعود اور ان کے حامی علما زیادہ روادار تھے۔ وہ جو علاقہ فتح کرتے، وہاں کے معززین کو یقین دلاتے کہ مقامی طرز زندگی، روایات اور رسوم کو بدلا نہیں جائے گا۔ مگر طاقتور الاخوانی رہنما ان کی ایک نہ سنتے اور اپنی مرضی کرتے۔ یہ الاخوانی ہی ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور دیگر عرب مقامات میں واقع صحابہ کرام، اولیائے کرام وغیرہ کے مزار شہید کر ڈالے۔
ابن سعود اور الاخوانیوں کے مابین پہلا سنجیدہ اختلاف 1925ء میں پیدا ہوا۔ ابن سعود عرب میں حکومت تشکیل دے کر عراق، شام اور اردن پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے جہاں یورپی طاقتیں ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھیں۔ جبکہ الاخوانی رہنماؤں کا اصرار تھا کہ پڑوسی ممالک پر بھی دھاوا بولا جائے تاکہ وہ بھی سعودی سلطنت میں شامل ہو سکیں۔
جب ابن سعود نے الاخوانی رہنماؤں کی درخواست رد کی، تو 1927ء میں ان کے ایک گروہ نے بغاوت کر دی۔ ان الاخوانی رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ ابن سعود حقیقی نظریات پر عمل پیرا نہیں رہے، چنانچہ مرتد ہو چکے اور اب ان کا قتل جائز ہے۔
ان باغی رہنماؤں میں سلطان بن بجاد العتیبی (قبیلہ عتیبہ)، فصیل الدویش (مطیر)، ضیدان بن حثلین (عجمان)، ندا بن نھیر (شمر) اور مناحی بن حفیظ (الدواسر) شامل تھے۔
عتیبہ، مطیر اور عجمان بڑے عرب قبائل میں شمار ہوتے تھے لہٰذا ان کی بغاوت پورے نجد اور حجاز میں پھیل گئی۔ وہ پھر ابن سعود کے حلیف قبائل کو نشانہ بنانے لگے۔ ان کی فوج تیس ہزار سپاہ پر مشتمل تھی۔ آنے والے برسوں میں ابن سعود کی فوج اور الاخوانیوں میں کئی لڑائیاں ہوئیں۔ چونکہ الاخوانی کا بنیادی ہتھیار تلواریں اور نیزے تھے، لہٰذا وہ مشین گنوں اور توپوں کے سامنے نہ ٹھہر پاتے۔ اس کے باوجود مذہبی جوش انہیں معرکہ آرائی پر ابھارتا رہتا۔
بہرحال مقابلوں میں یکے بعد دیگرے الاخوانی رہنما مارے گئے یا گرفتار ہو کر قید ہوئے۔ چناںچہ بغاوت سرد پڑتی گئی۔ آخر 1930ء تک باغی الاخوانی قبائل دوبارہ ابن سعود کے مطیع ہو گئے۔ تاہم جن لوگوں کے باپ، بھائی اور بیٹے خانہ جنگی میں مارے گئے، ان میں نفرت اور بدلے کی آگ بھڑکتی رہی۔
یہ آگ 20 نومبر 1979ء کو دوبارہ بھڑکی جب جھیمان بن محمد کی قیادت میں چار سو افراد نے خانہ کعبہ پر قبضہ کرلیا۔ جھیمان کا تعلق قبیلہ عتیبہ سے تھا اور اس کے باپ دادا ابن سعود کی فوج سے لڑتے مارے گئے تھے۔ چنانچہ وہ بغاوت اور آل سعود کے (بظاہر) غیر شرعی اقدامات کی داستانیں سنتا نوجوان ہوا۔
جھیمان یہ دیکھ کر پیچ و تاب کھاتا کہ سعودیہ میں یورپی رسوم و رواج در آئے ہیں۔ خواتین کام کرنے لگیں۔ گھروں میں ٹی وی دیکھا جانے لگا۔ کرنسی نوٹ پر بادشاہ کی تصویر چھپنے لگی۔ کھلاڑی بازو و ٹانگیں برہنہ کر کے فٹ بال کھیلنے لگے۔ اس نے یہ بھی قرار دیا کہ علماء (محمد عبدالوہاب کے فکری وارث) حکمرانوں کے زرخرید غلام بن چکے۔ وہ دولت اور اعزاز و اکرام لے کر حکومتی احکامات درست قرار دیتے ہیں۔ چناںچہ چودہویں صدی ہجری کے پہلے دن اس نے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا۔ اللہ کے گھر کو شدت پسندوں سے خالی کرانے کے مشن میں شنید ہے کہ پاکستانی کمانڈوز نے بھی حصہ لیا۔
جنرل (ر) حمید گل سمجھتے ہیں کہ خوارج اور الاخوانیوں کے انتہا پسندانہ مذہبی نظریات دور حاضر میں داعش سمیت وہ بعض گروہ اپنا چکے جو عالم اسلام میں اپنے ہی بھائی بندوں سے برسرپیکار ہیں۔ ان میں اعتدال، رواداری، صبر وبرداشت اور نرمی کی اعلیٰ صفات تقریباً عنقا ہیں۔انہی میں پاکستان کے طالبانی گروہ بھی شامل ہیں جنھوں نے حال ہی میں اسکول کے طلبہ کو بے رحمی سے نشانہ بنا کر اپنی انتہا پسندی کا ثبوت دیا۔
صفت ِاعتدال کے علاوہ رواداری بھی دین اسلام کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔ زور زبردستی سے اپنے نظریات منوانا، کسی انسان کو مسلمان بنانا اور قیدیوں سے ظالمانہ سلوک کرنا اللہ تعالیٰ اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی تعلیمات سے کُھلی روگردانی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جبر و طاقت نہیں نرمی و رواداری سے ہی عرب میں اسلام پھیلایا۔ اللہ تعالیٰ بھی سورہ سجدہ میں مسلمانوں پہ عیاں کرتے ہیں:
(مفہوم)’’ہم نے ہر قوم کے لیے ایک شریعت مقرر کر دی ہے جس پر وہ عمل کرتے ہیں۔ اے مسلمانو! تم انہیں اسلام کی طرف بلاؤ، مگر ان سے جھگڑا نہیں کرو۔ جن باتوں میں اختلاف ہے، خدا روز قیامت خود ان کا فیصلہ کرے گا۔ ‘‘
(آیت 67 تا 69)
لیکن دنیائے اسلام میں داعش اور ان جیسے بعض دوسرے بظاہر اسلامی گروہ غیر مسلموں حتیٰ کہ مسلمانوں کے خلاف جو بھیانک قتل و غارت کرنے میں مصروف ہیں، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کے اختیار بھی اپنے ہاتھوں میں لے چکے۔ سوال یہ ہے، کیا یہ گروہ صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں؟ اور دیکھنا چاہیے کہ عالم اسلام میں ان کی وجہ سے جو فساد و افتراق پھیل چکا ، اس سے فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟
ح
شدت پسندی کا غیر اسلامی سفر، خوارج سے داعش تک
ہفتہ 20 دسمبر 2014
عالم اسلام کے ان گروہوں کا تاریخی قصّہ جنھوں نے بتدریج انتہا پسندی کو اپنا لیا۔
14 دسمبر کے ایکسپریس سنڈے میگزین میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل کا ایک فکر انگیز اور معلومات سے بھر پور انٹرویو شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ داعش (اماراتِ شام و عراق) کی فکری بنیادیں ’’الاخوان‘‘ کے نظریات پر استوار ہیں اور یہ کہ تنظیم کا حقیقی ٹارگٹ سعودی عرب میں حکومت قائم کرنا ہے۔
الاخوان جدید عرب مملکت سعودیہ کے بانی، شاہ عبدالعزیز (1953-1876ء) کی بنائی ہوئی مذہبی فوج تھی جس نے سعودیہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ فوج پھر شدت پسندی کے باعث اعتدال کی راہ سے ہٹ گئی۔ الاخوان کے متعلق مزید جاننے سے قبل ذرا اسلام میں شدت پسندی کی تاریخ کا مختصر جائزہ لے لیجیے۔
اللہ تعالی قران پاک میں فرماتے ہیں:
’’ہم نے تم (مسلمانوں) کو امت ِمعتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پہ گواہ بنو اور پیغمبر ( ﷺ) تم پہ گواہ بنیں۔‘‘
(البقرہ۔ 143)
درج بالا آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین نے مسلمانوں کو ’’اُمتِ وسط‘‘ لکھا ہے… یعنی اعتدال کا راستہ اختیار کرنے والی اُمت! آیت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عبداللہ یوسف علی لکھتے ہیں: ’’اسلام کا جوہر یہ ہے کہ وہ افراط وتفریط کا قائل نہیں اور اعتدال کی راہ اپناتا ہے۔ وہ فہمیدہ و متین اور عملی مذہب ہے۔‘‘
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی زندگی کا احاطہ کرنے والے تمام چار بڑے شعبوں… اخلاق، عقائد، عبادات اور شریعت (قوانین) میں اسلام ’’وسطا‘‘ کی تلقین کرتا ہے۔ جو مسلمان یہ معتدل راستہ اختیار نہ کرے، وہ نہ صرف صراط مسقتیم سے بھٹکتا بلکہ تباہ و برباد ہو کے رہتا ہے۔ یہ پیشن گوئی نبی کریمﷺ ہی نے فرما دی تھی۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’دین (پہ عمل کرنا) آسان ہے۔ جس کسی نے بھی اسے پیچیدہ و سخت بنایا، وہ ہلاک ہو کر رہا۔ لہذا سیدھے رہو، اعتدال کی راہ پہ چلو اور (دوسروں کو) خیر کی باتیں بتاؤ۔‘‘
(البخاری)
تاریخ ِاسلام افشا کرتی ہے کہ جن مسلمانوں نے قران وسنّت کو جھٹلاتے ہوئے شدت پسندی اپنائی، وہ تباہ ہو کر رہے۔ ایسا پہلا گروہ خوارج کا تھا جس نے طویل عرصہ عالم اسلام میں قتل وغارت گری پھیلائے رکھی۔ اس کے بعد چھوٹے موٹے بھٹکے ہوئے گروہ آتے رہے یہاں تک کہ بیسویں صدی میں الاخوان سامنے آئے۔
آل سعود یا خاندانِ سعود کا مرکز ریاض تھا جس پر 1890ء میں مخالف قبیلے، آل رشید نے قبضہ کر لیا۔ چناںچہ شاہ عبدالعزیز المعروف ابن سعود والدین کے ہمراہ کویت چلے گئے۔ ابن سعود ایک دلیر اور زیرک انسان تھے۔
1901ء کے موسم بہار میں انہوں نے آل رشید سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ساتھ محض 200 سپاہی تھے۔
ابن سعود نے عرب علاقے، نجد پہنچ کر آل رشید کے حلیف قبائل پر حملے کیے تاہم انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ موسم خزاں ہونے تک بیشتر سعودی سپاہی واپس کویت چلے گئے مگر ابن سعود نے ہمت نہ ہاری۔
15 جنوری 1902ء کو انہوں نے محض چالیس سپاہیوں کے ساتھ ریاض پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا۔ رشیدی والی، عجلان اپنے قلعے کے سامنے مارا گیا۔ ریاض فتح ہوا، تو آل سعود کے سابقہ حلیف قبائل ابن سعود سے آملے۔ یوں ان کی قوت بڑھتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ 1912ء تک نجد سمیت بیشتر وسطی عرب ان کے قبضے میں آگیا۔
نجد اور پڑوسی علاقے، الحصا میں میں ہزارہا عرب بدو مقیم تھے۔ ابن سعود عرب مصلح، محمد عبدالوہاب کے پیروکار تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ بدو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے۔ چناں چہ ابن سعود نے مختلف علاقوں میں ’’حجرہ‘‘ نامی بستیاں بسا دیں جن کی تعداد 1929ء تک ’’سوا سو‘‘ تک پہنچ گئی تھی۔
ان بستیوں میں ہزارہا بدو بسائے گئے۔ انہیں محمد عبدالوہاب کے نظریات پر مبنی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنا سکھایا گیا۔ نیز بتایا گیا کہ کھیتی باڑی کیونکر کی جاتی ہے، نیز مختلف ہنر بھی سکھائے گئے۔ جب ان بستیوں میں کئی ہزار نوجوان بدو مذہبی تعلیم و تربیت پا چکے، تو ان پر مشتمل ایک خصوصی فوج ’’الاخوان‘‘ تشکیل دی گئی۔ یہ 1914ء کی بات ہے۔ الاخوان نے پھر عرب علاقوں کی فتوحات میں آل سعود کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ 1925ء تک موجودہ سعودی مملکت میں شامل سبھی علاقے فتح ہو گئے۔ تاہم اسی دوران ابن سعود اور الاخوانی رہنماؤں کے مابین اختلافات نے بھی جنم لیا۔
الاخوان فوج تقریباً پچاس ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ ہوا یہ کہ وہ اپنے نظریات کے سلسلے میں بہت کٹر ہو گئے۔ وہ ہر قسم کی اچھی بری تبدیلی کے خلاف تھے اور اسے بدعت سمجھتے۔ مثلاً اہل مغرب سے وابستہ ہر شے کا استعمال ان میں ممنوع تھا۔ چناں چہ وہ گاڑی میں نہ بیٹھتے اور اونٹوں پر سفر کرتے۔ صرف مسلمان ہنرمندوں کی بنائی ہوئی قدیم طرز کی بندوقیں استعمال کرتے۔ مزید برآں اپنے نظریات دوسروں پر نافذ کرتے ہوئے انہوں نے شدت پسندی اختیار کرلی۔ اگر مفتوحہ علاقے کے عرب مرد، خواتین، حتیٰ کہ بچے بھی ان کی تعلیمات پر عمل نہ کرتے، تو انہیں قتل کر دیا جاتا۔
الاخوانیوں کے مقابلے میں ابن سعود اور ان کے حامی علما زیادہ روادار تھے۔ وہ جو علاقہ فتح کرتے، وہاں کے معززین کو یقین دلاتے کہ مقامی طرز زندگی، روایات اور رسوم کو بدلا نہیں جائے گا۔ مگر طاقتور الاخوانی رہنما ان کی ایک نہ سنتے اور اپنی مرضی کرتے۔ یہ الاخوانی ہی ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور دیگر عرب مقامات میں واقع صحابہ کرام، اولیائے کرام وغیرہ کے مزار شہید کر ڈالے۔
ابن سعود اور الاخوانیوں کے مابین پہلا سنجیدہ اختلاف 1925ء میں پیدا ہوا۔ ابن سعود عرب میں حکومت تشکیل دے کر عراق، شام اور اردن پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے جہاں یورپی طاقتیں ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھیں۔ جبکہ الاخوانی رہنماؤں کا اصرار تھا کہ پڑوسی ممالک پر بھی دھاوا بولا جائے تاکہ وہ بھی سعودی سلطنت میں شامل ہو سکیں۔
جب ابن سعود نے الاخوانی رہنماؤں کی درخواست رد کی، تو 1927ء میں ان کے ایک گروہ نے بغاوت کر دی۔ ان الاخوانی رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ ابن سعود حقیقی نظریات پر عمل پیرا نہیں رہے، چنانچہ مرتد ہو چکے اور اب ان کا قتل جائز ہے۔
ان باغی رہنماؤں میں سلطان بن بجاد العتیبی (قبیلہ عتیبہ)، فصیل الدویش (مطیر)، ضیدان بن حثلین (عجمان)، ندا بن نھیر (شمر) اور مناحی بن حفیظ (الدواسر) شامل تھے۔
عتیبہ، مطیر اور عجمان بڑے عرب قبائل میں شمار ہوتے تھے لہٰذا ان کی بغاوت پورے نجد اور حجاز میں پھیل گئی۔ وہ پھر ابن سعود کے حلیف قبائل کو نشانہ بنانے لگے۔ ان کی فوج تیس ہزار سپاہ پر مشتمل تھی۔ آنے والے برسوں میں ابن سعود کی فوج اور الاخوانیوں میں کئی لڑائیاں ہوئیں۔ چونکہ الاخوانی کا بنیادی ہتھیار تلواریں اور نیزے تھے، لہٰذا وہ مشین گنوں اور توپوں کے سامنے نہ ٹھہر پاتے۔ اس کے باوجود مذہبی جوش انہیں معرکہ آرائی پر ابھارتا رہتا۔
بہرحال مقابلوں میں یکے بعد دیگرے الاخوانی رہنما مارے گئے یا گرفتار ہو کر قید ہوئے۔ چناںچہ بغاوت سرد پڑتی گئی۔ آخر 1930ء تک باغی الاخوانی قبائل دوبارہ ابن سعود کے مطیع ہو گئے۔ تاہم جن لوگوں کے باپ، بھائی اور بیٹے خانہ جنگی میں مارے گئے، ان میں نفرت اور بدلے کی آگ بھڑکتی رہی۔
یہ آگ 20 نومبر 1979ء کو دوبارہ بھڑکی جب جھیمان بن محمد کی قیادت میں چار سو افراد نے خانہ کعبہ پر قبضہ کرلیا۔ جھیمان کا تعلق قبیلہ عتیبہ سے تھا اور اس کے باپ دادا ابن سعود کی فوج سے لڑتے مارے گئے تھے۔ چنانچہ وہ بغاوت اور آل سعود کے (بظاہر) غیر شرعی اقدامات کی داستانیں سنتا نوجوان ہوا۔
جھیمان یہ دیکھ کر پیچ و تاب کھاتا کہ سعودیہ میں یورپی رسوم و رواج در آئے ہیں۔ خواتین کام کرنے لگیں۔ گھروں میں ٹی وی دیکھا جانے لگا۔ کرنسی نوٹ پر بادشاہ کی تصویر چھپنے لگی۔ کھلاڑی بازو و ٹانگیں برہنہ کر کے فٹ بال کھیلنے لگے۔ اس نے یہ بھی قرار دیا کہ علماء (محمد عبدالوہاب کے فکری وارث) حکمرانوں کے زرخرید غلام بن چکے۔ وہ دولت اور اعزاز و اکرام لے کر حکومتی احکامات درست قرار دیتے ہیں۔ چناںچہ چودہویں صدی ہجری کے پہلے دن اس نے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا۔ اللہ کے گھر کو شدت پسندوں سے خالی کرانے کے مشن میں شنید ہے کہ پاکستانی کمانڈوز نے بھی حصہ لیا۔
جنرل (ر) حمید گل سمجھتے ہیں کہ خوارج اور الاخوانیوں کے انتہا پسندانہ مذہبی نظریات دور حاضر میں داعش سمیت وہ بعض گروہ اپنا چکے جو عالم اسلام میں اپنے ہی بھائی بندوں سے برسرپیکار ہیں۔ ان میں اعتدال، رواداری، صبر وبرداشت اور نرمی کی اعلیٰ صفات تقریباً عنقا ہیں۔انہی میں پاکستان کے طالبانی گروہ بھی شامل ہیں جنھوں نے حال ہی میں اسکول کے طلبہ کو بے رحمی سے نشانہ بنا کر اپنی انتہا پسندی کا ثبوت دیا۔
صفت ِاعتدال کے علاوہ رواداری بھی دین اسلام کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔ زور زبردستی سے اپنے نظریات منوانا، کسی انسان کو مسلمان بنانا اور قیدیوں سے ظالمانہ سلوک کرنا اللہ تعالیٰ اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی تعلیمات سے کُھلی روگردانی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جبر و طاقت نہیں نرمی و رواداری سے ہی عرب میں اسلام پھیلایا۔ اللہ تعالیٰ بھی سورہ سجدہ میں مسلمانوں پہ عیاں کرتے ہیں:
(مفہوم)’’ہم نے ہر قوم کے لیے ایک شریعت مقرر کر دی ہے جس پر وہ عمل کرتے ہیں۔ اے مسلمانو! تم انہیں اسلام کی طرف بلاؤ، مگر ان سے جھگڑا نہیں کرو۔ جن باتوں میں اختلاف ہے، خدا روز قیامت خود ان کا فیصلہ کرے گا۔ ‘‘
(آیت 67 تا 69)
لیکن دنیائے اسلام میں داعش اور ان جیسے بعض دوسرے بظاہر اسلامی گروہ غیر مسلموں حتیٰ کہ مسلمانوں کے خلاف جو بھیانک قتل و غارت کرنے میں مصروف ہیں، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کے اختیار بھی اپنے ہاتھوں میں لے چکے۔ سوال یہ ہے، کیا یہ گروہ صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں؟ اور دیکھنا چاہیے کہ عالم اسلام میں ان کی وجہ سے جو فساد و افتراق پھیل چکا ، اس سے فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟
ح