- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
ایک عرصے سے مملکت خداداد پاکستان میں یہ ”پروپیگنڈہ“ زور و شور سےکیا جارہا ہے کہ ہم مسلمان ”شدت پسند“ ہوگئے۔ شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، سلفی وغیرہ وغیرہ سب ایک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ نشتر پارک میں سنیوں کے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسہ کو بم سے اڑا دیا جاتا ہے تو شیعوں کے محرم کے جلوس اور امام بارگاہوں میں بموں کے دھماکے ہوتے ہیں۔ سنی علماء، شیعہ ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے۔ ملک بھر میں آئے دن مختلف فرقوں سے وابستہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ میڈیا اور سوشیل میڈیا ان خبروں کو تواتر سے اجاگر کرتا ہے۔ ٹاک شوز میں مختلف مسالک کے افراد گرما گرم بحث کرتے رہتے ہیں۔ جنہیں دیکھ اور سُن کر ایک عام مسلمان پریشان ہوجاتا ہے کہ وہ جائے تو جائے کہاں۔ کہیں جائے پناہ نظر نہیں آتی۔ کیا ہم من حیث القوم ”دہشت گرد ،فرقہ پرست اور متشدد مسلمان بن گئے ہیں۔
میرا جواب ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میرے ذاتی دوستوں میں ہر فرقہ کے لوگ شامل ہیں۔ شیعہ بھی ہیں، سنی بھی، احمدی بھی، بریلوی بھی، تبلیغی بھی، جماعتی بھی، ۔ ہم باہم بحث مباحثہ بھی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو غلط اور اپنے آپ کو درست بھی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن آج تک نہ کسی نے مجھے تھپڑ مارا، نہ میں نے کسی کو۔ نہ میں نے اپنے ”مخالف مسلک“ کے کسی پڑوسی کو کسی طور تنگ کیا، نہ انہوں نے مجھے۔ ہمارے بچے ایک ہی اسکول، کالج اور محلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھاتے، کھیلتے اور رہتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب کبھی کسی کا کوئی ”مسلکی تہوار“ جیسے عید میلاد النبی، محرم عاشورہ، عید غدیر، وغیرہ آتا ہے تو وہ ان ایام میں ”دوسروں“ کو لفٹ نہیں کراتے، اپنے اپنے پروگراموں میں اپنے اپنے مسلکی لوگوں کے درمیان مگن رہتے ہیں۔ یہ دن گزرتے ہی وہ پھر عام لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔ کبھی کسی اسکول، کالج، یونیورسٹی یا دفتر میں مسلکی جھگڑا فساد دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتا۔
فیس بُک پر موجود اگر تمام لوگوں سے پوچھا جائے کہ کبھی ان کے گرد و پیش موجود ”مخالف مسلکی لوگوں“ نے ان کے جان و مال، عزت و آبرو کو نقصان پہنچایا ہے تو بھاری اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ قتل و غارت کون کرتا ہے۔ اس کا جواب آپ ان گرفتار قاتلوں سے پوچھئے جو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ”آرڈر“ ملنے پے اتنی سنی اور اتنے شیعہ قتل کئے، مختلف فرقوں کے اتنے دینی رہنما قتل کئے۔ ایسی خبریں میڈیا اول تو چھاپتا ہی نہیں اور جو کوئی چھاپتا ہے وہ ایسی نیوز کو اتنا غیر نمایاں کرتے ہوئے چھاپتا ہے کہ عام آدمی انہیں دیکھ ہی نہیں پاتا۔
پاکستان میں کتنے غیر ملکی ایجنٹ موجود ہیں؟ وہ کیا بھائی چارہ پھیلا رہے ہیں؟ ہزاروں ” مسنگ نیٹو کنٹینرز“ کے ذریعہ جو ملک بھر میں اسلحہ پھیلایا گا ہے، کیا وہ امن پسند شہریوں کو دیا گیا ہے کیا ملک دشمن عناصر اور زر خرید ایجنٹوں کو۔ جب کبھی غلطی سے کوئی کلر پکڑا جاتا ہے اور عدالتی نظام میں موجود خامیوں اور کرپشن کے باوجود اسے سزائے موت مل جاتی ہے تو وہ کون لوگ ہیں جو انہیں سزائے موت دلوانے کے مخالف ہیں۔ کیا یہ مسلکی گروپ کے دینی رہنما یا عوام ہیں؟ یا کوئی اور لوگ؟ خدارا اپنی اپنی عقل کو استعمال کریں اور سوچے سمجھے بغیر معاشرہ کی ہر برائی، شدت پسندی، قتل و غارت گری کو فرقوں اور مسالک پر نہ ڈالیں۔ کفار کی چالوں کو سمجھیں، اپنی ”ذاتی دانشوری“ پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو اہمیت دیں۔ قرآن و حدیث سے پوچھیں کہ کفار مسلمانوں کے دوست ہیں یا ازلی دشمن۔ ہم مسلمان کفار کے کہنے پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف تلوار کیوں اٹھا رہے ہیں۔ کیا ہمیں اس بات کا خوف نہیں کہ ہمیں قبر اور حشر میں اس کا حساب دینا ہوگا۔ کیا ہم دنیا کی طرح آخرت میں بھی کفار کے ساتھ رہنا گوارا ہے؟ ذرا سوچئے اور لکھنے اور پروپیگنڈا کرنے سے پہلے سوچئے کہ ہماری زبان کس کی حمایت میں استعمال ہورہی ہے۔ مسلمانوں کے یا کفار کے؟؟؟
میرا جواب ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میرے ذاتی دوستوں میں ہر فرقہ کے لوگ شامل ہیں۔ شیعہ بھی ہیں، سنی بھی، احمدی بھی، بریلوی بھی، تبلیغی بھی، جماعتی بھی، ۔ ہم باہم بحث مباحثہ بھی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو غلط اور اپنے آپ کو درست بھی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن آج تک نہ کسی نے مجھے تھپڑ مارا، نہ میں نے کسی کو۔ نہ میں نے اپنے ”مخالف مسلک“ کے کسی پڑوسی کو کسی طور تنگ کیا، نہ انہوں نے مجھے۔ ہمارے بچے ایک ہی اسکول، کالج اور محلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھاتے، کھیلتے اور رہتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب کبھی کسی کا کوئی ”مسلکی تہوار“ جیسے عید میلاد النبی، محرم عاشورہ، عید غدیر، وغیرہ آتا ہے تو وہ ان ایام میں ”دوسروں“ کو لفٹ نہیں کراتے، اپنے اپنے پروگراموں میں اپنے اپنے مسلکی لوگوں کے درمیان مگن رہتے ہیں۔ یہ دن گزرتے ہی وہ پھر عام لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔ کبھی کسی اسکول، کالج، یونیورسٹی یا دفتر میں مسلکی جھگڑا فساد دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتا۔
فیس بُک پر موجود اگر تمام لوگوں سے پوچھا جائے کہ کبھی ان کے گرد و پیش موجود ”مخالف مسلکی لوگوں“ نے ان کے جان و مال، عزت و آبرو کو نقصان پہنچایا ہے تو بھاری اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ قتل و غارت کون کرتا ہے۔ اس کا جواب آپ ان گرفتار قاتلوں سے پوچھئے جو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ”آرڈر“ ملنے پے اتنی سنی اور اتنے شیعہ قتل کئے، مختلف فرقوں کے اتنے دینی رہنما قتل کئے۔ ایسی خبریں میڈیا اول تو چھاپتا ہی نہیں اور جو کوئی چھاپتا ہے وہ ایسی نیوز کو اتنا غیر نمایاں کرتے ہوئے چھاپتا ہے کہ عام آدمی انہیں دیکھ ہی نہیں پاتا۔
پاکستان میں کتنے غیر ملکی ایجنٹ موجود ہیں؟ وہ کیا بھائی چارہ پھیلا رہے ہیں؟ ہزاروں ” مسنگ نیٹو کنٹینرز“ کے ذریعہ جو ملک بھر میں اسلحہ پھیلایا گا ہے، کیا وہ امن پسند شہریوں کو دیا گیا ہے کیا ملک دشمن عناصر اور زر خرید ایجنٹوں کو۔ جب کبھی غلطی سے کوئی کلر پکڑا جاتا ہے اور عدالتی نظام میں موجود خامیوں اور کرپشن کے باوجود اسے سزائے موت مل جاتی ہے تو وہ کون لوگ ہیں جو انہیں سزائے موت دلوانے کے مخالف ہیں۔ کیا یہ مسلکی گروپ کے دینی رہنما یا عوام ہیں؟ یا کوئی اور لوگ؟ خدارا اپنی اپنی عقل کو استعمال کریں اور سوچے سمجھے بغیر معاشرہ کی ہر برائی، شدت پسندی، قتل و غارت گری کو فرقوں اور مسالک پر نہ ڈالیں۔ کفار کی چالوں کو سمجھیں، اپنی ”ذاتی دانشوری“ پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو اہمیت دیں۔ قرآن و حدیث سے پوچھیں کہ کفار مسلمانوں کے دوست ہیں یا ازلی دشمن۔ ہم مسلمان کفار کے کہنے پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف تلوار کیوں اٹھا رہے ہیں۔ کیا ہمیں اس بات کا خوف نہیں کہ ہمیں قبر اور حشر میں اس کا حساب دینا ہوگا۔ کیا ہم دنیا کی طرح آخرت میں بھی کفار کے ساتھ رہنا گوارا ہے؟ ذرا سوچئے اور لکھنے اور پروپیگنڈا کرنے سے پہلے سوچئے کہ ہماری زبان کس کی حمایت میں استعمال ہورہی ہے۔ مسلمانوں کے یا کفار کے؟؟؟