• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرائط خلافت

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
شرائط ِخلافت

اللہ نے دین اسلام اس لیئے نازل کیا تاکہ اس کو پوری دنیا کے باطل ادیان پر غالب کیا جائے، اللہ کے نبی محمدﷺ نے ، اُن کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، ان کے بعد تابعین نے، ان کے بعد اتباع تابعین نے اور ان کے بعد امت کے سلف صالحین نے اپنی طاقت سے بڑ کر اس مقصد کے لیئے کوششیں کی اور اسلام کو باطل ادیان پر غالب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر موجودہ دور میں مسلمان شدید مغلوب ہوچکے ہیں، کلمہ پڑھنے والے اسلام کی تعلیمات سے بےبہرہ ہیں جس کی وجہ سے جہالت عام ہوچکی ہے اور مسلمان مغلوبیت کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور جو دین اور نظامِ زندگی اللہ نے مسلمانوں کو دیا تھا یعنی خلافت کا نظام اس کو غالب کرنے کی بجائے اس کو سرے چھوڑ ہی چکے ہیں اور اس کے مقابلے پر کافروں کے نظامِ زندگی اپنائے ہوئے ہیں، ایک بات یاد رکھیں اسلام صرف نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کا ہی نام نہیں ہے بلکہ اصل اسلام کی روح اسلام کے نظامِ حیات میں ہے اگر وہ نظام ہمارے پاس نہیں تو سمجھ لیں کچھ بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔
آج کا مضمون خلافت کا اہم حصہ خلیفہ کی شرائط جو قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں پر پیش کر رہا ہوں۔ ایک فرمان رسولﷺ پیش کرکے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں ان شاءاللہ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امام ڈھال ہے اس کے پیچھے سے لڑا جاتا ہے۔ ::بخاری و مسلم::یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج ہمارے پاس وہ امام یعنی خلیفہ موجود ہے؟؟؟ اگر نہیں ہے تو اس کو قائم کرنے کے لیئے ہم کیا اقدامات اور تدبیر اختیار کر رہے ہیں؟؟؟؟

خلیفہ کے مقتدرہونے کی بناء : مومنین کی نصرت

نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ
مَا بَالُ رِجَالٍ یَشْتَرِطُوْنَ شُرُوْ طًا لَیْسَتْ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ مَا کَانَ مِنْ شَرْطٍ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ فَھُوَ بَاطِلٌ وَ اِنْ کَانَ مِائَۃَ شَرْطٍ قَضَاءُ اللّٰہِ اَحَقُّ وَ شَرْطُ اللّٰہ اَوْثَقُ
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا اللہ کی کتاب میں پتہ نہیں۔ جو شرط اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرطیں بھی ہوں ۔ اللہ ہی کا حکم حق ہے اور اللہ ہی کی شرط پکی ہے ۔ ( بخاری ،کتاب البیوع۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا)
نبی ﷺ کے اس ارشاد کی بناء پر ہر معاملے میں صرف وہی شرط اختیار کی جا سکتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی طرف سے پیش کی گئی ہو، اس بنا پر کسی شخص کے خلیفہ قرار پانے کی بناء بھی اللہ کی مقرر کردہ شرائط ہوں گی نہ کہ انسانوں کی پیش کردہ شرائط۔
کسی شخص کے خلیفہ قرار پانے کے لئے کتاب وسنت سے درج ذیل شرائط ہمارے سامنے آتی ہیں۔
۱۔ اہل ِ ایمان میں سے ہو
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ !
یٰٓاَ یُّھَاا لَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی ا لْاَ مْرِ مِنْکُمْ
اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور صاحبانِ امر کی جو تم (اہل ایمان) میں سے ہوں۔
(۴:النساء ۔ ۵۹)

۲۔ مرد ہو
نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ!
لَنْ یُّفْلِحَ قَومٌ وَلَّوْا اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً
وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو عورت کو اپنا حاکم بنائے۔
(بخاری ،کتاب المغازی ۔ابو بکرہ رضی اللہ عنہ)
۳۔ قریشی ہو
نبیﷺ کے ارشادات ہیں کہ!
اَلاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ
امامت قریش میں رہے گی۔ (احمد: باقی مسند المکثرین۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ)
لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْش ٍمَا بَقِیَ مِنْھُمُ اثْنَان ِ
یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی بے شک ان (قریش ) میں سے دو ہی آدمی باقی رہ جائیں۔
(بخاری ،کتاب الاحکام ۔عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ)
لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ قُرَیْش ٍمَا بَقِیَ مِنَ النَّاسِ اثْنَانِ
یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی بے شک انسانوں میں سے دو ہی آدمی باقی رہ جائیں۔
(مسلم:کتاب الامارۃ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ)
اِنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ فِیْ قُرَیْشٍ لَا یُعَادِیْھِمْ اَحَدَ اِلَّا کَبَّہُ اللّٰہُ عَلَی وَجْھِہٖ مَٓا اَ قَامُوْا الدِّیْنَ
یہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے اور جو کوئی ان سے دشمنی کرے گا اللہ اس کو اوندھے منہ جہنم میں گرائے گا۔ ( بخاری: کتاب الاحکام۔امیر معاویہ رضی اللہ عنہ)
حدیث بالا سے عام طور پر لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جب قریش دین کو قائم نہ رکھیں گے تو خلافت ان سے چھن کر غیر قریشیوں کے سپرد ہو جائیگی لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات واضح ہیں کہ ’’یہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی‘‘ اس بنا پر آپ کے اس ارشاد کہ ’’ یہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے‘‘ کا صاف مطلب یہ سامنے آتا ہے کہ جب قریش دین کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو خلافت سرے ہی سے ختم ہو جائیگی نہ کہ غیر قریش کو منتقل ہو جائیگی درج بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غیر قریشی کی خلافت غیر شرعی ہو گی۔
حبشی غلام کی خلافت کا مسئلہ
نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ!
اِسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌ کَانَ رَأَسُہ‘ زَبِیْبَۃٌ
حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو بے شک تم پر ایک حبشی غلام مقرر کیا جائے جس کا سر منقے کی طرح ہو۔
(بخاری:کتاب الاحکام۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ)
اِنْ اُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ مُجَدَّعٌحَسِبْتُھَا قَالَتْ اَسْوَدُ یَقُوْدُکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَاَطِیْعُوْا۔
اگر تمہارے اوپر ہاتھ پاؤں کٹا کالا غلام بھی امیر بنایا جائے اور وہ تمہیں کتاب اللہ کے ساتھ چلائے تو اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ ( مسلم: کتاب الامارۃ ۔جدت یحیٰ بن حصین رضی اللہ عنہا)
بعض لوگ نبیﷺ کے درج بالا ارشاد ات کی بنا پرغیر قریشی کے علاوہ کسی غلام کو بھی خلیفہ بنانا جائز سمجھتے ہیں ۔جبکہ آپﷺ کے ارشادات کو غور سے پڑھنے سے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے اسْتَعْمِلَ(استعمال کیا جائے) اور اُمِّرَ( امیرمقرر کیا جائے ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔جو اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اس استعمال کیے جانے والے یا مقرر کیے جانے والے امیرکے پس منظر میں اس سے بھی بڑی کوئی ایسی اتھارٹی موجود ہے جو اس کو استعمال کر رہی ہے یا امیرمقرر کر رہی ہے اور یہ بات طے ہے کہ کتاب و سنت میں امت کے اندر اللہ کے بعد سب سے بڑی اتھارٹی نبی کی ہوتی ہے اور اُس کے بعد خلیفہ کی جو امیر مقرر کرتی ہے جیسا کہ ذیل کی حدیث سے واضح ہوتا ہے ۔
بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ سَرِیَّۃً وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ رَجُلًا مِّنَ الْاَنْصَارِ وَاَمَرَ ھُمْ اَنْ یَّسْمَعُوْا لَہٗ وَ یُطِیْعُوْ ہُ
رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک انصاری کو امیر مقررکیا اور لوگوں کو اس کا حکم سننے اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ۔ (مسلم :کتاب الامارۃ۔علی رضی اللہ عنہ)
درج بالا احادیث سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مقرر کیا جانے والا امیرخلیفہ نہیں بلکہ خلیفہ کی طرف سے مقرر کیا جانے والا کوئی ذیلی حاکم (سپہ سالار یا کسی صوبے یا محکمے کا امیر) ہے جو غیر قریشی بھی ہو سکتا ہے اور غلام بھی لیکن وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا ۔
۴۔ عاقل و بالغ ہو
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ !
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ﴿﴾ وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰٓی اِذَا بَلَغُوْا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْآ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ
اور نہ دو کم عقلوں کو اپنے مال جس کو بنایا اللہ نے تمہارے لیے ذریعہ گزران اور کھلاؤ انہیں اس میں سے اور پہناؤ بھی اور سمجھاؤ انہیں اچھی بات۔ اور جانتے پرکھتے رہو یتیموں کو یہاں تک کہ جب پہنچ جائیں نکاح کی عمر کو ، پھر اگر تم پاؤ ان میں عقل کی پختگی تو دے دو ان کو مال ان کے۔ (۴:النساء۔۵،۶)
درج بالا آیات میں یتیموں کوان کے مال صرف اس وقت حوالے کرنے کا حکم نکلتا ہے جب وہ عاقل و بالغ ہو جائیں۔ جب کسی کو اس کا مال اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ عاقل و بالغ نہ ہو جائے تو اہل ِ ایمان کی سیاست کی ذمہ داری کسی ایسے فردکو کیونکر دی جا سکتی ہے جو عاقل و بالغ نہ ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خلیفہ صرف اسی کو بنایا جائے گا جو عاقل و بالغ ہو ۔
۵۔ خلافت کی خواہش سے بے نیاز ہو
جیسا کہ نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ!
تَجِدُوْنَ النَّاسِ مَعَادِنَ فَخِیَارُھُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقُھُوْا وَ تَجِدُوْنَ مِنْ خَیْرِ النَّاسِ فِی ھٰذَا الْاَمْرِ اَکْرَھُھُمْ لَہ‘ قَبْلُ اَنْ یَّقَعَ فِیْہِ
تم لوگوں کو معدن (معدنی کان سے نکلی ہوئی چیز) کی مانند پاؤ گے جو جاہلیت میں اچھا ہوتا ہے وہی اسلام میں بھی اچھا ہوتا ہے جب وہ دین کی سمجھ پیدا کرلے اور تم اس امر(خلافت) کے لیے وہی آدمی زیادہ موزوں پاؤ گے جو اس کو بہت بری چیز خیال کرے تا آنکہ ایسا شخص خلیفہ بنا دیا جائے۔
(مسلم: کتاب فضائل الصحابۃؓ۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہا)
لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ فَاِنَّکَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ مَسْئَلَۃٍ وُّ کِلْتَ اَلِیْھَا وَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسّْئَلَۃٍ اُعِنْتَ عَلِیْھَا
حکومت مت مانگوکیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پرملی تو تم (بے یارومددگار) اسی کے حوالے کر دیے جاؤ گے اور اگر بغیر مانگے ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائیگی۔ (مسلم:کتاب الامارۃ۔عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ)
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ‘ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ ﷺ اَنَا وَ رَجُلَانِ مِنْ بَنِیْ عَمِّیْ فَقَالَ اَحَدُ الرَّجُلَیْنِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَمَّرَنَا عَلَی بَعْضِ مَا وَلَّاکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ وَ قَالَ الْاَخَرُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَقَالَ اِنَّا وَ اللّٰہِ لَا نُوَلِّیْ عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ اَحَدًا سَأَلَہ‘ وَلَآ اَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ
ابو موسٰی ؓ سے روایت ہے کہ میں اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ساتھ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا ان میں سے ایک بولا اے اللہ کے رسول ﷺہمیں کسی ملک کی حکومت دے دیجئے ان ملکوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیے ہیں اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ہم نہیں دیتے اس شخص کو جو اس کو مانگے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔ (مسلم،کتاب الامارۃ۔ابی موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ)
۶۔ پہلی بیعت کا حامل ہو
پہلی بیعت، عہدہِ خلافت خالی ہونے پر گواہوں کی موجودگی میں شرائط ِخلافت کے حامل کسی شخص ‘‘کے ہاتھ پرایک مومن کی طرف سے ہونے والی وہ بیعت ہے جو نیا خلیفہ بنانے کے حوالے سے امت میں سب سے پہلی بیعت ثابت ہو جائے ۔پہلی بیعت کا حامل اگردیگر شرائط خلافت پوری کرتا ہے تو اس پہلی بیعت کے منعقد ہونے کے وقت سے پوری اُمت کے لئے خلیفہ قرار پا جا تا ہے۔
٭ دیگرشرائطِ خلافت کا حامل ’’پہلی بیعت ‘‘کی فیصلہ کن شرط کا حامل ہو کر ’’سیاستِ اُمّہ کا ذمہ دار
و عہدہ دار قرارپاجاتا ہے اوراس حوالے سے نام ِ عہدہ ’’خلیفہ‘‘ کا حامل ہو کر خلیفہ کہلاتا ہے ۔
٭ دیگرشرائطِ خلافت کا حامل ’’پہلی بیعت ‘‘کا حامل ہو کر سیاستِ اُمّہ کی ذمہ داری کے حوالے
سے نبی ﷺ کانائب و جانشین قرار پا جاتا ہے اوراس حوالے سے خلیفہ کہلاتاہے ۔
٭ دیگرشرائطِ خلافت کا حامل پہلی بیعت کا حامل ہو کر تمام مسلمین کی سلطنت کا اُصولاًخلیفہ::وارث::
قرار پا جاتا ہے پھر مسلمین کی طرف سے اپنی سلطنت کے اس اصولاً خلیفہ کواپنی بیعت ،اطاعت
ونصرت کے ذریعے اپنی سلطنت سپرد کر دینے سے یہ’’عملاً خلیفہ ‘‘ بن جاتا ہے۔
خلیفہ مومنین کی نصرت میسرآنے سے سلطنت و اقتدار کا حامل ہوتا ہےجیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حامل ہوئے تھے
نبیﷺ اللہ کے مقرر کردہ نشانیوں کی بناء پر اللہ کے نبی تھے اور اس بنا پراصولاً تمام جن و انس کے حکمران اور تمام روئے زمین کے اقتدار کے حقدار تھے مگر اپنی بعثت کے ساڑھے تیرہ سال بعد تک روئے زمین کے کسی حصے پر اقتدار کے ’’عملاً حامل ‘‘ نہ ہو سکے تھے۔ آخر کار اللہ کی طرف سے آپ کو مومنین کی نصرت میسر آئی جس کے ذریعے سے شروع میں آپ مدینہ کی چھوٹی سی ریاست پرعملاًمقتدر ہوئے پھر مومنین کی نصرت ہی کی بنا پر قتال کے قابل ہوئے اور اس نصرت کے ذریعے سے اس چھوٹی سی ریاست کو وسعت دینے کے قابل ہوئے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ !
فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ط ھُوْالَّذِیْ ٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ﴿﴾
تو یقینا کافی ہے تمہارے لیے اللہ ۔ وہی تو ہے جس نے قوت بہم پہنچائی تمھیں اپنی نصرت سے اور مومنین کے ذریعہ سے۔
(۸:الانفال۔ ۶۲)
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ پہلی بیعت کا حامل ہو جانے والا ’’اس پہلی بیعت سے ‘‘ خلیفہ قرار پاجا تا ہے اور تمام اہلِ ایمان پر لازم ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ وفاداری نبھائیں اور اسے اس کے حقوق (بیعت ، اطاعت و نصرت) دیں۔ یوں وہ ’’ صرف ایک شخص‘‘یعنی پہلی بیعت کرنے والے پر مقتدر ہونے کی انتہائی کمزور حالت سے دیگر مومنین کی طرف سے بیعت کرتے چلے جانے ،ان کی طرف سے اپنے اوپراس خلیفہ کا اختیار و اقتدار تسلیم کرتے چلے جانے، اس کی اطاعت اختیار کرتے چلے جانے اور اس کی نصرت پر کاربند ہوتے چلے جانے سے یہ خلیفہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
پہلی بیعت کا حامل ہونے والا نبی ﷺ کی طرح اصولاً تو تمام اہل ِ ایمان کے لیے خلیفہ ، امیر، امام اور سلطان مقرر ہوتا ہے لیکن عملاً اس کا اقتدار وہاں تک قائم ہوتاہے جہاں تک کے لوگ اس کی بیعت و اطاعت اختیار کرتے ہیں جیسے نبیﷺ اصولاً تو تمام روئے زمین کے لیے مقتدر مقرر کیے گئے تھے لیکن عملاً آپؐ کااقتدار وہاں تک قائم ہوا تھا جہاں تک کے لوگ آپؐ پر ایمان لائے یا ایمان نہ لانے کے باوجود اہل ِ ایمان کی نصرت کے نتیجے میں آپ کے مطیع (ذمی) ہوئے۔
جوں جوں لوگ خلیفہ کی بیعت، اطاعت و نصرت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اس کی امامت ، امارت اور سلطنت و اقتدارکا دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اقتدار
تمام مومنین کی بیعت ، اطاعت و نصرت میسر
آ جانے کی بنا پر تمام بلادِ اسلامیہ پر با آسانی قائم ہو گیا
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر پہلی بیعت کے انعقاد سے پہلے اگرچہ دیگر شرائط پوری کرتے تھے لیکن آپ ابھی ’’خلیفہ ‘‘نہیں تھے ورنہ صحابہ، عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے پہلے ہی آپ ؓ پر مجتمع ہو جاتے جبکہ ایسا نہ ہو سکا مگر جونہی آپ کے ہاتھ پر عمرؓ کے بیعت کرنے سے پہلی بیعت منعقد ہو گئی ا ٓپ خلیفہ قرار پا گئے مگر بیعت ہوتے ہی سب سے پہلے آپؓ کا اقتدار اس شخص پر قائم ہوا جس نے آپؓ کی بیعت کر کے اپنے اوپر آپؓ کا اقتدار تسلیم کیا یعنی عمر رضی اللہ عنہ ،پھر آپ کا اقتدار ثقیفہ بنی ساعدہ میں موجود بقیہ، بیعت کر کے آپکا اقتدار تسلیم کرنے والوں پر قائم ہوا پھر بقیہ افرادِ امت کے بیعت کرتے چلے جانے اور آپ کی اطاعت و نصرت اختیار کرتے چلے جانے سے آپ کے اقتدار کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا مگر یہ وسیع ہوتا ہوا دائرہ وہاں رک گیا جہاں مرتدین و منکرین زکوٰۃ کی حدیں شروع ہو گئیں۔ وہاں اہل ِ ایمان کی نصرت ہی سے ان کی سرکوبی ممکن ہوئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ان تمام بلادِ اسلامیہ پر آپ کا اقتدار قائم ہو گیا جو نبیﷺ چھوڑ کر گئے تھے پھر اہل ِایمان کی نصرت ہی سے آپ کے اقتدارکا دائرہ کار پہلے سے زیرِ خلافت علاقوں سے بھی آگے بڑھنا شروع ہو گیا۔
علی رضی اللہ عنہ کا اقتدار شام کے مومنین کی بیعت ، اطاعت اور نصرت میسر نہ آ نے کی بنا پر بلاِ دِ شام پر قائم نہ ہو سکا
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد آنے والے دو خلفاء کا اقتدار بھی تمام اہلِ ایمان کی وفاداری فوراً میسر آ جانے پر پورے بلادِ اسلامیہ پر باآسانی قائم ہو گیا مگر علی رضی اللہ عنہ کو اہلِ شام کی بیعت، اطاعت و نصرت میسر نہ آ سکنے پر آپؓ کا اقتدار بلادِ شام پر قائم نہ ہو سکا۔
خلیفہ مقرر کرنے سے پہلے مجوزہ شخص پر اتفاق ِاُمت کی شرط
بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ مقرر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ساری اُمت خلیفہ کے لیے مجوزہ شخص پر متفق ہو چکی ہو۔
یہ شرط رکھنے والوں سے سوال ہے کہ اللہ کی شریعت میں اگریہ چیز شرط ہے تو لمبا عرصہ گزر چکاتھاخلافت کو ختم ہوئے آپ لوگ کسی ایک شخص پر متفق کیوں نہیں ہو گئے؟ جواب میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ہم نے تو ایک بہترین لیڈر پیش کیا تھا ( پارٹیوں والے اپنے اپنے لیڈر کا نام لیتے ہیں ) لوگ اس پر متفق نہیں ہوئے تو یہ لوگوں کا قصور ہے۔
’’ بعض لوگوں کے پسندیدہ لیڈر‘‘ پر تمام لوگ متفق نہیں ہوئے تو یہ لوگوں کا قصور نہیں بلکہ یہ فطرت کا تقاضہ ہے کیونکہ!
۱۔ اختلاف انسانوں کی فطرت میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ﴿﴾ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ ط وَ لِذٰلِکَ خَلَقَھُمْ
اگر تیرا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی جماعت بنا دیتا مگر وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے سوائے ان کے جن پر رحمت ہو تیرے رب کی اور اسی (امتحان) کے
لیے اس نے پیدا کیا ہے انہیں۔
(۱۱:ھود۔ ۱۱۸،۱۱۹)
۲۔ اہل ِ ایمان اگر کسی چیز پرمتفق رہ سکتے ہیں تو وہ صرف اللہ اور اسکے رسولﷺ کی بات ہے، اسی سے نکلنے کی بنا پر وہ تنازعے میں مبتلاء ہوتے ہیں، اور اگر وہ تنازعے میں مبتلا ہوجائیں تو جس بات پہ وہ دوبارہ متفق ہو سکتے ہیں وہ بھی صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات ہے کیونکہ اسی کا انہیں حکم دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ
وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَاتَفَرَّقُوْا
اور تم سب مل کر حبل ِاللہ(کتاب اللہ) کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں مت پڑو کرو۔
(۳۔آلِ عمران۔۱۰۳)
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوُلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا
اوراطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور تنازعہ مت کرو(۸:انفال۔۴۶)
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴿﴾
اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں تنازعہ پیدا ہو جائے تو اسے لوٹا دو فیصلے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی چیز اچھی ہے اور انجام کے اعتبار سے بہترین بھی ۔ ( ۴: النساء۔۵۹)
۳۔ اہل ِ ایمان از خود یا کسی کی دعوت دینے پر بھی کسی ایسی چیز یا شخص پرمتفق نہیں ہو سکتے جس پرمتفق ہونے کے لیے کوئی شرعی دلیل نہ ہو جبکہ اندھا دھند(اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے لڑتے ہوئے قتل ہو جانے کو جاہلیت کا قتل بھی کہا گیا ہے۔نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ
مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَاْیَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَِغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْ یَدْعُوْا اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ
جو شخص اندھا دھند(اندھی تقلید میں)کسی کے جھنڈے تلے لڑتا ہوا مارا جائے جوگروہ کے لئے غضب ناک ہو ،گروہ کی طرف دعوت دے اورگروہ کی نصرت کرے اور قتل ہوجائے تو ا س کا قتل جاہلیت کا قتل ہے۔
مسلم: باب الامارہ۔ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ
نبیﷺ کی وفات کے فوراً بعد، انبیاء کے بعد سب سے بہترین لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ازخودکسی شخص پر متفق نہیں ہو پا رہے تھے اور اس سلسلے میں ان کے تین گروہ بن گئے تھے۔ مہاجرین کی اکثریت نے ابو بکرؓ پر اتفاق کر لیا تھامگر علیؓ اور زبیرؓ اور ان کے ساتھ والوں نے اختلاف کیا تھااور انصار اپنے میں سے خلیفہ بنانا چاہتے۔
ابو بکررضی اللہ عنہ بیعت سے پہلے امت میں بہت محترم اور دیگر شرائط ِ خلافت کے حامل تو تھے مگر اطاعت کے لیے ابھی فیصلہ کن شرعی دلیل کے حامل نہ تھے اس بنا پر صحابہؓ ان کے موجود ہونے کے باوجود ان پر مجتمع نہیں ہو پا رہے تھے مگر ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر عمررضی اللہ عنہ کے بیعت کرنے کے ساتھ ہی ’’ پہلی بیعت‘‘ کی فیصلہ کن شرعی دلیل کے حامل ہو گئے اس کے ساتھ ہی اُمت کے خلیفہ و امام قرار پا گئے اب ان سے اختلاف رکھنے والوں کے لیے بھی کوئی چارہ اس کے سوا نہ رہا تھا کہ شرعی دلیل کے حامل اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کی اطاعت اختیار کر لیں۔ صحا بہ رضی اللہ عنہم اندھی تقلید میں ابو بکر ؓ جیسی عظیم المرتبت شخصیت پر بھی متفق نہ ہو سکے لیکن جونہی آپ شرعی دلیل کے حامل ہو گئے صحابہ رضی اللہ عنہم ان پر باآسانی متفق ہو گئے۔
اس ساری تفصیل سے تقررِ خلیفہ کے حوالے سے جو اصول واضح ہوتا ہے وہ ’’ تقررِخلیفہ سے پہلے اتفاقِ امت‘‘ کی بجائے شرعی دلیل کی بنا پر خلیفہ قرار پا جانے والی شخصیت پر اتفاقِ امت ہے‘‘ اور نبیﷺ بھی ہر امتی کو’’پہلی بیعت ‘‘ کے حامل سے وفاداری کرنے اور اسے اس کا حق دینے کا حکم دے رہے ہیں نہ کہ پوری اُمت کو متفق ہو کے پہلی بیعت کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ
فُوْابِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ فَالْاَ وَّلِ اَعْطُوْ ھُمْ حَقَّھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ سَآئِلُھُمْ عَنْ مَّا اسْتَرْعَا ھُمْ۔
پہلی بیعت کے (حامل کے) ساتھ وفاداری کرو پھر پہلی کے ساتھ تم انہیں ان کا حق دو، ان سے انکی رعیت کے بارے میں اللہ پوچھے گا۔ (بخاری :ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
اگر کسی کے خلیفہ قرار پانے کے لئے اتفاق ِ اُمت شرط ہوتا تو پھراُمت پر صرف بارہ خلفاء کا وجود مانا جانا چاہیے کیونکہ اُمت پر صرف بارہ خلفاء ایسے گذریں گے جن پرپوری اُمت متفق ہو سکے گی جیسا کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ
لَا یَزَالُ ھٰذَالدِّیْنُ قَائِمًا حَتّٰی یَکُوْنُ عَلَیْکُمْ اثْنَا عَشَرَ خَلِیْفَۃً کُلُّھُمْ تَجْتَمِعُ عَلَیْہِ لْاُمَّۃُ فَسَمِعْت کَلَامًا مِنَ النَّبِیِّ ﷺ لَمْ اَفْھَمْہُ قُلْتُ لِاَبِی مَا یَقُوْلُ قَالَ کُلُّھُمْ مِنْ قُرَیْشٍ
یہ دین قائم رہے گا جب تک کہ تم پر بارہ خلیفہ ایسے نہ گذر جائیں جن پر اُمت مجتمع ہوگی،(راوی کہتے ہیں) پھر میں نے نبی ﷺ سے ایسی بات سُنی جسے میں سمجھ نہ سکا، میں نے اپنے باپ سے پوچھا، اُنہوں نے کہا کہ’’ تمام قریش میں سے ہوں گے۔
ابی داود: کتاب المہدی۔ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ
خلیفہ کے لئے لوگوں کی پیش کردہ شرط’’اتفاق ِ اُمت ‘‘ کو صحیح مان لیا جائے تو پھر علی رضی اللہ عنہ اور حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نہیں مانا جانا چاہیے کیونکہ دونوں جب تک خلیفہ رہے ان پر پوری اُمت مجتمع نہیں ہوسکی تھی ۔
آخر میں اللہ سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کلمہ پڑھنے والوں کو قرآن اور نبی ﷺ کے فرمان پر مجتمع فرمادے تاکہ پھر سب مسلمان مل کر اللہ کا نازل کردہ نظامِ حکومت یعنی خلافت دینا میں قائم کرسکیں آمین ثم آمین یارب العالمین
پی۔ڈی۔ایف فائل اُتاریں
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا عاصم بھائی

بہت اچھی تحریر ہے۔ماشاءاللہ

اپنی ان تحاریر کو "یوزر ٹیگ" کیا کریں۔جس طرح میں نے اپنے دوستوں کو آپ کے تھریڈ میں یوزر ٹیگ کیا ہے۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
جزاک اللہ خیرا عاصم بھائی
بہت اچھی تحریر ہے۔ماشاءاللہ
اپنی ان تحاریر کو "یوزر ٹیگ" کیا کریں۔جس طرح میں نے اپنے دوستوں کو آپ کے تھریڈ میں یوزر ٹیگ کیا ہے۔
ارسلان بھائی مجھے یہ ٹیگ لگانا نہیں آتا، ویسے میں نے آپ کی آئی،ڈی ٹیگ میں لکھی تھی پتی نہیں کہ آپ کو نوٹفکیشن ملا کہ نہیں، آپ اس کا مختصراً طریقہ بتادیں، جزاک اللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی مجھے یہ ٹیگ لگانا نہیں آتا، ویسے میں نے آپ کی آئی،ڈی ٹیگ میں لکھی تھی پتی نہیں کہ آپ کو نوٹفکیشن ملا کہ نہیں، آپ اس کا مختصراً طریقہ بتادیں، جزاک اللہ
بھائی ٹیگ یوزر کا طریقہ میں نے مختصر کر کے اس تھریڈ میں لکھا ہے۔

آپ جب تھریڈ پوسٹ کرتے ہیں تو اوپر کی جانب ایک آپشن ہے "(ٹیگ یوزر)
اس پر کلک کریں اور جن جن اراکین کو آپ نے ٹیگ کرنا ہے ان کا نام لکھتے جائیں،ایک ممبر کا نام لکھ کر "کامہ" لگائیں پھر دوسرے کا نام لکھیں اس طرح آپ 25 اراکین کے نام لکھ سکتے ہیں۔
اور اگر آپ اپنے تمام دوست احباب کو بھیجنا چاہتے ہیں تو نیچے ایک آپشن ہو گا "تمام دوست /احباب " اس آپشن کو "چیک" کر کے "بھیجئے" بٹن پر کلک کر دیں۔
آپ نے جتنوں اراکین کے ساتھ دوستی کی ہو گی ان سب کے پاس تھریڈ کا لنک چلا جائے گا۔
آپ کی طرف سے کوئی نوٹیفیکیشن موصول نہیں ہوا،ہاں اس تھریڈ کا لنک آپ نے مجھے پبلک پروفائل میں سینڈ کیا تھا۔
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
محترم برادر عاصم صاحب
سلامت رہیں،
برادر مجھے آپکے مضمون "شرائط خلافت" پر چند تحفظات ہیں ، امید ہیں کہ آپ انکی وضاحت کریں گے

آپکا یہ استدلال کہ "جوں جوں لوگ خلیفہ کی بیعت، اطاعت و نصرت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں اس کی امامت ، امارت اور سلطنت و اقتدارکا دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔" اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اگر چند علاقوں کے لوگوں نے کسی "خلیفہ " کی اطاعت یا بعیت نہ کی تو وہ علاقہ اسلامی حکومت کی وحدت کو توڑ دے گا۔ میرا نہیں خیال اور قرآن کریم سے اسکی تائید ہوتی ہے ، کہ ایسا کچھ ہوتا ہے۔ خلیفہ ، جیسا کہ آپ نے خود فرمایا "کہ منصب رسالت " خلیفہ یعنی "رسالت کا جانشین" ہوتا ہے، لہذا اسکی اطاعت خود آقا نامدار حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت ہوگی اور اس خلیفہ کیا نافرمانی خود آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی ہو گی۔لہذا یہ قیاس تو غلط ہو جاتا ہے جہاں جہاں لوگ خلیفہ کی اطاعت کرتے جائیں گے وہاں وہاں اس خلیفہ کی عملداری رہے گی اور جہاں لوگ اس کی اطاعت سے انکار کردیں گے وہاں خلیفہ کی عملداری ختم ہو جائے گی۔ اس ضمن میں آپ نے حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کی مثالیں بھی دیں۔ لیکن میرا استدلال تو یہ کہ ہمیں تاریخ سے ہٹ کر یہ دیکھنا ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے؟ اور خلیفہ کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ لہذا ہمارا استدلال تو یہی ہے کہ اسلام میں ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ ہو سکتا ہے ، کیونکہ "خلیفہ کی اطاعت " خود نبی آخراالزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت ہے۔ اور انکی اطاعت ہم دو یا دو سے ذیادہ خلیفوں کی اطاعت کرکے نہیں کر سکتے۔لہذا ان دونوں خلیفوں میں سے کوئی ایک ہی ایک وقت میں اطاعت کے لائق ہو گا۔ اور دونوں کی اطاعت ایک ہی وقت ممکن نہیں۔یعنی "محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو آخری نبی کی حیثیت سے اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے ہیں، اور اب جہاں کہیں بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں کبھی اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اسکا ایک ہی خلیفہ ہو گا، جسکی اطاعت تمام مسلمانوں پر فرض ہے، کیونکہ قرآن کریم میں جگہ جگہ حکم ہے کہ "اطیعواللہ و اطیعوالرسول" اور رسول کی اطاعت (سیاسی تناظر میں) خلیفہ وقت کی اطاعت کرنے سے ہی ہوگی۔امید ہے کہ آپ اس مضمون پر نظر ثانی کریں گے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اسلام میں اطاعت سے انکار کرنے والوں کو باغی کہاں گیا ہے اور باغیوں کے خلاف "سورۃ توبہ " کے مطابق"آپریشن"کرنا ضروری ہے، تا کہ انکی بغاوت کچلی جائے اور ریاست میں امن و امان قائم کیا جائے۔

والسّلام
عمران علی۔کراچی
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
علی عمران بھائی آپ اس بات سے جو مراد لے رہے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ میں یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی خلیفہ ہوسکتا ہے اگر دوسرا خلافت کا اعلان کرئے تو اس کو سمجھایا جائے گا اگر نہ سمجھے تو اُس کو قتل کردیا جاے گا اسی بات کا حکم نبی علیہ السلام نے دیا ہے،
بلکہ اسی مسئلے پر میں نے دوسرے مضمون میں مکمل تفصیل سے بات کی ہے۔دین صرف قرآن اور صحیح حدیث: کیا بیعت پیری مریدی والی بیعت ہے؟
اسلام میں ایک وقت میں صرف ایک خلیفہ ، امام ، امیرالمومین ہوتا ہے اگر کوئی دوسرا پہلے کے ہوتے بیعت لے تو اس کو قتل کرنے کا حکم نبی علیہ السلام نے دیا ہے، اسلام امت میں وحدت و اتحاد کا داعی ہے نہ کہ افتراق و انتشار کا، اسی لیے آپ علیہ السلام نے اتنا سخت حکم فرمایا ہے کہ دوسرے کو قتل کردیا جائے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےارشاد ات مبارکہ ہیں کہ
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو خلفاء کی بیعت کی جائے تو ان دونوں میں سے دوسرے کو قتل کردو۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
اس سے مراد یہ ہے کہ جس کسی نے پہلے خلیفہ کے ہوتے دوسری بیعت لی ہے اور اس کو علم ہو کہ پہلے ایک خلیفہ موجود ہے تو اس کو قتل کیا جائے گا کیونکہ اس نے امت میں تفرق پیدا کرنا چاہا ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے میں ان کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا تو عبد اللہ نے کہا ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ رکے ہم میں سے بعض نے اپنا خیمہ لگانا شروع کردیا اور بعض تیراندازی کرنے لگے اور بعض وہ تھے جو جانوروں میں ٹھہرے رہے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز دی الصلوة جامعة یعنی نماز کا وقت ہوگیا ہے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے ذمے اپنے علم کے مطابق اپنی امت کی بھلائی کی طرف راہنمائی لازم نہ ہو اور برائی سے اپنے علم کے مطابق انہیں ڈرانا لازم نہ ہو اور بے شک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں متبلا ہوگا جسے تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا یہ میری ہلاکت ہے پھر وہ ختم ہو جائے گا اور دوسرا ظاہر ہوگا تو مومن کہے گا یہی میری ہلاکت کا ذریعہ ہوگا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے جس کے دیئے جانے کو اپنے لئے پسند کرے اور جس نے خلیفہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دل کے اخلاص سے بیعت کی تو چاہیے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے:::یعنی وہ بھی بیعت لینا شروع کر دے::: تو دوسرے کی گردن مار دو راوی کہتا ہے پھر میں عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے قریب ہوگیا اور ان سے کہا میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو عبد اللہ نے اپنے کانوں اور دل کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا میرے کانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا۔۔۔۔۔۔۔الخ
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
ایک بات کی وضاحت کردوں کہ خلیفہ کی اعطاعت بےشک نبی کی اعطاعت ہے مگر یہاں صرف ایک اصول مدِنظر رکھا جائے گا کہ خلیفہ کی اعطاعت قرآن و حدیث کے ساتھ مشروط ہے اگر خلیفہ کوئی ایسا حکم دے جو خلافِ شرح ہو تو نہ اس کا حکم سننا ہے اور نہ ہی اطاعت کرنی ہے۔
 
Top