• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرارت جنگ سے زیادہ خطرناک ہے+جنگ اور رعایت اخلاق- تفسیر السراج پارہ:2

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۝۰ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْہِ۝۰ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ۝۰ۭ كَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ۝۱۹۱ فَاِنِ انْتَہَوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۹۲وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ۝۰ۭ فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِمِيْنَ۝۱۹۳ اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ۝۰ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ۝۱۹۴
جہاں کہیں پاؤ ان کو قتل کرو اور وہاں سے ان کو نکالو،جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے (یعنی مکہ سے) اور دین سے بچلانا (یعنی پھرنا یا پھرانا) قتل۱؎ سے بھی زیادہ سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو، جب تک کہ اس میں وہ تم سے نہ لڑیں۔ پھر اگر وہ تم کو ماریں تو تم ان کو مارو۔ یہی کافروں کا بدلہ ہے۔(۱۹۱)پھراگر وہ باز آجائیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے ۔(۱۹۲)ان سے یہاں تک لڑو کہ فساد باقی نہ رہے اور دین خدا کا ہوجائے ۔پھراگر وہ باز آجائیں توبجز ظالموں کے کسی پر زیادتی نہیں چاہیے۔(۱۹۳)حرمت کا مہینہ حرمت کے مہینے کے مقابلہ میں ہے اور ادب رکھنے میں قصاص(برابری) ہے ۔ سو جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کرو جیسے اس نے تم پر زیادتی کی اور خدا سے ڈرو اور جانو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔۲؎ (۱۹۴)
شرارت جنگ سے زیادہ خطرناک ہے
۱؎فتنہ کے معنی ابتلا وآزمائش کے ہیں۔ کفار مکہ نے مسلمانوں پر اتنی سختیاں روا رکھیں کہ وہ سخت امتحان میں پڑگیے۔ وہ سوچنے لگے کہ کیا کریں۔ کیا وہ ان اوہام وظنون کو قبول کرکے راحت کی زندگی بسر کریں یا خدا کی راہ میں جان دے دیں اور شہادت کے درجۂ عظمیٰ کو حاصل کریں۔قرآن حکیم نے کفار مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ پوزیشن ناقابل برداشت ہے ۔ شرارت جب اس حد سے بڑھ جائے تو پھر جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے اور جنگ اس صورت میں یقینا اس مسلسل وپیہم شرارت وفتنہ انگیزی سے کہیں کم اہمیت رکھتی ہے ۔ اس لیے جب انھوں نے تمھیں گھروں سے نکال دیا اور تکلیف پر تکلیف پہنچارہے ہیں تو تم بھی مردانہ وار میدان میں نکل آؤ اور انہیں کچل دو۔ جہاں پاؤ، قتل کرو۔ ان نااہلوں کی یہی سزا ہے ۔ البتہ حرم کے قرب ونواح میں جنگ نہ ہو۔ اور اگر وہ مجبور کریں تو پھر وہاں بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ جنگ اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ اس شرارت کا کلی استیصال نہ ہوجائے اورپرامن فضا نہ پیدا نہ ہوجائے ۔ جس میں ایک خدا کی کھلے بندوں پرستش کی جائے اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم بھی رک جاؤ۔
جنگ اور رعایت اخلاق
۲؎ اسلام نے جہاں زندگی کے ہرشعبہ میں اصلاح کی ہے، وہاں شعبۂ حرب کو بھی فراموش نہیں کیا۔ اسلام سے پہلے لوگ جنگ میں کسی قسم کی رعایت کو ملحوظ رکھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اسلام نے بتایا کہ جنگ میں بھی اخلاق وتدین کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔ اس لیے کہ جنگ اخلاق مندوں سے نہیں بلکہ ایک اخلاق باختہ قوم سے ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اخلاق دین کے تحفظ کے لیے آخری قطرہ خون بھی بہا دیاجائے ۔مکہ والے ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب میں جنگ کو روک دیتے تھے اور ان چار مہینوں کو بہرحال احترام کے قابل سمجھتے تھے۔قرآن حکیم نے بھی ان کی اس حرمت کو برقرار رکھا اور فرمایا کہ اگر وہ زیادتی کریں اور ان مہینوں کی حرمت کا خیال نہ رکھیں توپھر تم بھی مجبور نہیں ہو۔ بہرحال اتقاء اتقاء وخشیت الٰہی کو ہرآن مدنظر رکھو اور جان رکھو کہ فتح ونصرت ہمیشہ اخلاق ودین داری کے ساتھ ہے ۔ وہ لوگ جو اخلاق کو کھوکر غلبہ حاصل کرتے ہیں، درحقیقت ان کی شکست ہے اور وہ بظاہر مغلوب رہتے ہیں اور کسی مرحلے پر بھی تہذیب ومتانت کو ہاتھ سے نہیں دیتے۔ وہ غالب ہیں۔ ان کی فتح ہے ، اس لیے کہ اصل فتح روح کی فتح ہے نہ کہ مادہ کی۔
 
Top