ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 600
- ری ایکشن اسکور
- 189
- پوائنٹ
- 77
شرک اکبر کے مرتکب کو مشرک کہنے اور اسے عذر نہ دینے کے حوالے سے ایک مفید وضاحت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الأستاذ المشارك بقسم العقيدة والمذاهب المعاصرة بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية فضيلة الشیخ الدكتور أيمن بن سعود العنقري حفظہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
ذكر الشيخ إسحاق بن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوهاب رحمهم الله تقريرا مفيدا في تسمية فاعل الشرك الأكبر مشركا وعدم عذره فقال :
شیخ اسحاق بن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوہاب رحمہم اللہ نے شرک اکبر کے مرتکب کو مشرک کہنے اور اسے عذر نہ دینے کے حوالے سے ایک مفید وضاحت بیان کی ہے۔ انہوں نے فرمایا:
(عبادة الله وحده لاشريك له والبرآءة من عبادة ماسواه وأن من عبد مع الله غيره فقد أشرك الشرك الأكبر الذي ينقل عن الملة - هي أصل الأصول - ، وبها أرسل الله الرسل ، وأنزل الكتب وقامت على الناس الحجة بالرسول والقرآن ) ٠
اللہ کی عبادت خالص اسی کے لیے ہو، کوئی اس کا شریک نہ بنایا جائے، اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت سے براءت اختیار کی جائے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کرے، وہ شرک اکبر کا مرتکب ہے، جو انسان کو ملت اسلامیہ سے نکال دیتا ہے۔ یہ سب سے بنیادی اصول ہے، اسی کے لیے اللہ نے انبیاء کو مبعوث فرمایا، کتابیں نازل کیں، اور لوگوں پر رسول اور قرآن کے ذریعے حجت قائم کی۔
ثم بين أن التعريف إنما يذكر في المسائل الخفية التي قد يخفى دليلها على بعض المسلمين،
پھر انہوں نے واضح کیا کہ تعریف صرف ان مسائل میں ذکر کی جاتی ہے جو مخفی ہوں جن کی دلیل بعض مسلمانوں پر مخفی ہو۔
فقال (وكيف يعرفون عباد القبور وهم ليسوا بمسلمين ولايدخلون في مسمى الإسلام وهل يبقى مع الشرك عمل ) ٠
انہوں نے فرمایا کہ قبروں کے عبادت گزاروں کو مسلمان کیسے سمجھا جا سکتا ہے جبکہ وہ مسلمان نہیں ہیں اور اسلام کی تعریف میں داخل نہیں ہیں، کیا شرک کے ہوتے ہوئے کوئی عمل باقی رہ سکتا ہے؟
ثم أشار للمعتقد القبيح لمن يعذر فاعل الشرك الأكبر ويسميه مسلما ،
پھر انہوں نے اس قبیح عقیدے کی طرف اشارہ کیا جس میں شرک اکبر کے مرتکب کو عذر دیکر اسے مسلمان سمجھا جاتا ہے،
فقال :(ولكن هذا المعتقد يلزم منه معتقد قبيح وهو أن الحجة لم تقم على هذه الأمة بالرسول والقرآن
انہوں نے فرمایا : لیکن اس عقیدے کا لازمی نتیجہ ایک قبیح عقیدہ ہے، اور وہ یہ کہ رسول اور قرآن کے ذریعے اس امت پر حجت قائم نہیں ہوئی۔
-نعوذبالله من سوء الفهم الذي أوجب لهم نسيان الكتاب والرسول ،
ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ایسی سوء فہم سے، جو کتاب اللہ اور رسول کو فراموش کرنے کا سبب بنے۔
بل أهل الفترة الذين لم تبلغهم الرسالة والقرآن وماتوا على الجاهلية لايسمون مسلمين بالإجماع ، ولايستغفر لهم ، وإنما اختلف أهل العلم في تعذيبهم في الآخرة )
بلکہ اہلِ فترہ، جن تک نہ کوئی رسول پہنچا اور نہ قرآن، اور وہ جاہلیت کی حالت میں مر گئے، انہیں بھی اجماع امت کے مطابق مسلمان نہیں کہا جا سکتا، نہ ہی ان کے لیے استغفار کیا جا سکتا ہے۔ علماء کا اختلاف صرف انہیں آخرت میں عذاب دئے جانے کے متعلق ہے۔
المرجع / مجموع رسائل وفتاوى الشيخ إسحاق بن عبدالرحمن ال الشيخ. (ص١٧٨-١٧٩) ٠
Last edited: