پیچھے جو کچھ بیان ہوا اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب نہ اللہ کا انکار کرتے تھے، نہ وہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا انکار ان ﷺ کی ذات کی وجہ سے کرتے تھے نہ ہی وہ اعمال سے بھاگتے تھے۔ مزید یہکہ وہ صرف بے جان پتھروں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی سوچ اور فکر اس سلسلے میں یہ تھی کہ یہ بت اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور واسطہ ہیں۔ آیئے ذرا اس چیز کو مزید سمجھتے ہیں کہ بت پرستی کیا ہے؟ بت پرست کس چیز کی عبادت کرتے ہیں؟ اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو یقینا شرک کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجائے گی۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مشرکین عرب جن کو ہم بت پرست کہتے ہیں وہ درحقیقت مٹی کی مورت بنا کر اس کا ایک نام رکھ دیتے تھے اور اس کو اپنا معبود قرار دے دیتے تھے۔ اسی تراشے ہوئے پتھر کو سجدہ کرتے تھے۔اسی کے نام کا ذکر کرتے تھے۔ اس کا نام لے کر اپنی حاجتوں میں اس کو پکارتے تھے تو درحقیقت یہ انتہائی ناقص خیال ہے بلکہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے لا الہ الا اللہ کہنے والا کیونکہ بتوں کی پوجا نہیں کرتا لہذا وہ مشرک نہیں ہو سکتا چاہے اس کے عقیدے اور اعمال کیسے ہی ہوں۔ اس سوچ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں قرآن پاک کیا بتاتا ہے۔
حضرت عیسیؑ اور ان کی ماں کو معبود بنایا گیا
واذ قال الله یٰعيسى ابن مريم ء انت قلت للناس اتخذوني وامي الهين من دون الله قال سبحانك ما يكون لي ان اقول ما ليس لي بحق ان كنت قلته فقد علمته تعلم ما في نفسي ولا اعلم ما في نفسك انك انت علام الغيوب (المائدۃ: 116)
ترجمہ:اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کوالہ مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہوگا (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بے شک تو علام الغیوب ہےح ضرت عیسیؑ اور ان کی والدہ کو الہ بنایا گیا جب کہ نہ عیسیؑ اور نہ ہی مریمؑ بت تھے۔ اور عیسائی بت پرست نہیں بلکہ وہ درحقیقت حد سے بڑھی ہوئی شخصیت پرستی کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ حضرت عیسیؑ کے معجزات ہیں۔ اس بے لگام شخصیت پرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ان صفات کا حامل قرار دے دیا ہے جو ان میں نہیں تھیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ماں کی گود ہی میں اعلان کردیا تھا:
اني عبد الله (مریم:30)
ترجمہ: میں اللہ کابندہ ہوں
لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے بندے نہیں اس کے بیٹے ہیں۔ یہی بےلگام شخصیت پرستی شرک کا سبب بن جاتی ہے اور دین ناواقف اپنی طرف سے اللہ کے مقرب بندوں کو بندگی سے نکال کر الوہیت کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ٹھیک یہی کام کلمہ گو مشرک بھی کرتے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ اور برزگان دین کے ساتھ وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا انہوں خود دعوی نہیں کیا بلکہ انکار ہی کیا ہے۔
علما اور صوفیوں کو معبود بنایا گیا
اتخذوا احبارهم ورهبانهم اربابا من دون الله والمسيح ابن مريم وما امروا الا ليعبدوا الها واحدا لا اله الا هو سبحانه عما يشركون۔ (التوبہ: 31)
ترجمہ:انہوں (یہودی و نصاریٰ) نے اپنے علما اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا رب بنا لیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ایک الہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضرت عدیؓ بن حاتم، جو اسلام لانے سے پہلے عیسائی تھے، نے رسول ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم نے تو کبھی علما اور صوفیا کی عبادت نہیں کی تو قرآن پاک نے ایسا کیوں کہا؟ آپ ﷺ نے جواب دیا علما اور صوفیوں نے جو چیزیں ازخود حلال و حرام کردی تھیں (یعنی محض اپنی طرف سے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے) تم اس کو حجت نہیں مانتے تھے؟ حضرت عدیؓ نے کہا ضرور سمجھتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
فذٰلک عبادتھم ایاھم (سنن الترمذی)
ترجمہ:یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے
چونکہ حلال و حرام قرار دینا اللہ تعالیٰ کا منصب ہے اس لیے اس میں کسی غیر کو شریک ٹھہرانا اس کی عبادت کرناہے۔ اس آیت میں علما اور صوفیا کا ذکر ہے کہ لوگوں نے ان کو رب بنایا او مشرک ہوئے۔ حالانکہ علما و صوفیا بت نہیں ہوتے، اور نہ ہی حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ بت تھے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندوں کو اللہ کی کسی صفت میں شریک کرنا اس کو الہ بنانا ہے جو شرک ہے۔
نوٹ: یہاں احبار و رھبان سے مراد وہ علما و صوفیا ہیں جو محض اپنی رائے سے دین میں حلال و حرام قرار دیتے تھے۔ البتہ علمائے حق کسی مسئلے میں کوئی حکم بتاتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں اس لیے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں حکم فرماتے ہیں۔
حضرت نوحؑ کی اولاد کو معبود بنایا گیا
وقالوا لا تذرن آلهتكم ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا يغوث ويعوق ونسرا وقد اضلوا كثيرا ولا تزد الظالمين الا ضلالا(نوح: 23-24)
ترجمہ:اور وہ کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا
ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یہ ان بتوں کے نام تھے جن کی قوم نوح عبادت کرتی تھی۔ ان بتوں کی حقیقت کیا تھی اس کی خبر صحیح بخاری کی اس روایت سے ملتی ہے:
اسماء رجال صالحين من قوم نوح فلما هلكوا اوحى الشيطان الى قومهم: ان انصبوا الى مجالسهم التي كانوا يجلسون انصابا وسموها باسمائهم ففعلوا فلم تعبد حتى اذا هلك اولئك ونسخ العلم عبدت
ترجمہ:(یہ) نام قوم نوح کے نیک لوگوں کے تھے، جن کی وفات کے بعد شیطان نے (اس قوم کے) لوگوں کوپٹی پڑھائی کہ ان (بزرگوں) کے بت بنا کر ان جگہوں پر رکھ دو جہاں یہ بزرگ بیٹھا کرتے تھے اور ان بتوں کے انہی بزرگوں پر نام بھی رکھ دو (تاکہ ان کی یاد آتی رہے)، لوگوں نے اسی طرح کیا لیکن ان مجسموں کی عبادت نہیں کی یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ بت بنائے تھے مرگئے اور ان بتوں کا مقصد پس پردہ چلا گیا اور بعد میں آنے والے ان بتوں کی عبادت کرنے لگے۔
ان بتوں کی عربوں کے یہاں بھی عبادت ہوتی تھی۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی اصل میں بزرگ پرستی سے شروع ہوئی۔
نیک لوگوں کو معبود بنایا گیا
افرايتم اللات والعزى (النجم: 19)
ترجمہ:بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا
ترجمہ:لات اس بت کا نام تھا جس کی مشرکین عرب عبادت کرتے تھے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں:
كان اللات رجلا يلت سويق الحاج (صحیح البخاری)
ترجمہ:لات ایک آدمی کا نام تھا جو حاجیوں کو ستو گھول کر پلاتا تھا۔
جب اس کی وفات ہوگئی تو لوگوں نے اس کی قبر پر ڈیرہ ڈال دیا اور اس کی عبادت ہونے لگی (ابن کثیر)۔ یہاں بھی وہی بات نظر آئے گی کہ بت پرستی اصل میں قبر پرستی ہے جس کی بنیاد شخصیت پرستی ہے۔ بت تو ایک ظاہری شکل ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑی شخصیت ہوتی ہے جس کی عظمت کم عقلوں کی عقلوں کو ماؤوف کردیتی ہے اور وہ اس عظمت کو اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ اس کو اللہ کے کاموں میں دخل انداز سمجھنے لگتے ہیں۔
فرشتوں کو معبود بنایا گیا
ويوم يحشرهم جميعا ثم يقول للملائكة اهؤلاء اياكم كانوا يعبدون () قالوا سبحانك انت ولينا من دونهم بل كانوا يعبدون الجن اكثرهم بهم مؤمنون (سبا: 40-41)
ترجمہ:اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے فرمائے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے، وہ کہیں گے تو پاک ہے (شریکوں سے) تو ہی ہمارا دوست ہے ان کے سوا بلکہ یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے ان پر ایمان رکھتے تھے۔
مشرکین عرب نے فرشتوں کو معبود بنا لیا تھا جن کو اپنی حاجتوں کے وقت پکارا کرتے تھے۔
جنوں کو معبود بنایا گیا
عزی جس کا ذکر سورۃ نجم آیت 19 میں آیا ہے اس کے متعلق آتا ہے کہ وہ جنی تھی جس کی عبادت کی جاتی تھی۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالدؓ بن ولیدکو عزی کا معبد ختم کرنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے جب اس کے مبعد کو منہدم کیا تو اس میں سے ایک عورت برآمد ہوئی جس کو حضرت خالدؓ نے قتل کرڈالا۔
اہل عرب کے دو مشہور بت تھے اساف اور نائلہ۔ایک روایت میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو ایک ادھیڑ عمر کی ایک حبشی عورت واویلا کرتی اپنے رخسار نوچتی ہوئی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
تلک نائلۃ ایست ان تعبد ببلدکم ھذا ابدا (البدایۃ و النھایۃ)
ترجمہ:یہ نائلہ ہے یہ اس سے ناامید ہوچکی ہے کہ تمہارے اس شہر میں کسی وقت اس کی عبادت ہو۔
یہ نائلہ بھی عزی کی طرح کوئی پری یا جنی تھی جس کے بت کی مشرکین مکہ عبادت کرتے تھے۔
حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کی عبادت کی گئی
مشرکین عرب نے کعبۃ اللہ کے اندر بھی بت رکھے ہوئے تھے۔ سنن ابوداؤد کی ایک روایت میں آتا ہے کہ فتح مکہ کےبعد جب رسول اللہ ﷺ نے کعبہ اللہ میں داخل ہونے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے حکم فرمایا:
فاخرج صورة ابراهيم وإسمعيل
ترجمہ: ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ کی تصویروں کو باہر نکال دو۔
قبر کی عبادت کی گئی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں تصویریں تھیں۔ انھوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے بھی کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی تصویریں بنا دیتے پس یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔ (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ)
اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں یہ دعا فرمائی:
اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد (مؤطا امام مالک)
ترجمہ:اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے۔
قرآن پاک میں فرعون کے یہ الفاظ آئے ہیں:
وقال فرعون ياايها الملا ما علمت لكم من اله غيري (القصص: 38)
ترجمہ:اور فرعون نے کہا کہ اے اہل دربار میں تمہارا، اپنے سوا کسی کو الہ نہیں جانتا
ایک اور انداز سے اس کو سمجھیں۔ قرآن پاک میں آتا ہے:
واتخذوا من دون الله آلهة لعلهم ينصرون (یس:74)
ترجمہ:اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا (اور) الہ بنا لیے ہیں کہ شاید (وہ) ان کی مدد پہنچیں
واتخذوا من دون الله آلهة ليكونوا لهم عزا (مریم: 81)
ترجمہ:اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا اور الہ بنالئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے (موجب عزت و) مدد ہوں
یعنی اللہ کے علاوہ وہ جن کو بھی الہ مانتے تھے ان کو وہ اپنا مددگار سمجھتے تھے۔ پتھر کے بتوں میں ایسی کون سے قوت پوشیدہ تھی جس کی بنیاد پر مشرکین عرب ان سے مدد کی امید باندھتے تھے ان سے عزت کے طلب گار تھے؟ اس سوال کا جواب اس کے علاوہ کیا ہے کہ ان بتوں کے پیچھے شخصیات تھیں۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ان اقوال کو غور سے پڑھیں:
ظاہر و باطن دونوں طرح کے شرک کو چھوڑنے والوں میں سے ہوجا۔ بتوں کی پرستش کرنا تو ظاہری شرک ہے اور مخلوق پر بھروسہ رکھنا اور نفع نقصان میں ان پر نگاہ ڈالنا ہے یہ باطن کا شرک ہے۔ (الفتح الربانی مجلس ۳۴)
فتوح الغیب میں فرماتےہیں:صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرنا اور خدائے عز وجل کے ساتھ دنیا اور آخرت اور وہاں کی کسی چیز کو اختیار کرنا بھی شرک ہے پس جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہے وہ غیر اللہ ہے۔ بس جب تو اس کے سوا اس کے غیر کی طرف مائل ہوا تو بے شک تو نے غیر خدا کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا۔ ( فتوح الغیب وعظ ۷)
خلاصہ یہ ہے کہ بتوں کی اصل صاحب بت اور تصویروں کی اصل صاحب تصویر تھے۔ عقیدت پتھر کے بتوں یا کاغذی صنم (تصویر) سے نہیں ہوتی ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی شخصیت ہوتی ہے۔ مشرکین عرب بھی اصلا بتوں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے پیچھے شخصیات تھیں جن کی عظمت کے آگے وہ جھکتے تھے جن کے متعلق یہ عقیدہ قائم کرلیا گیا تھا کہ یہ اللہ کے اس قدر قریب ہوگئے ہیں کہ ان کے واسطے سے ہم اپنی حاجتوں میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔ یہی سب کچھ آج بھی ہوتا ہے۔ یہ بات تو ایک معمولی سمجھ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک ناتراشیدہ پتھر تو کچھ حیثیت نہ رکھے لیکن جب وہی پتھر تراش دیا جائے تو وہ معبود بن جائے جو سب کچھ کرسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ شرک کی ابتدفرد یا مکان کی عظمت سے شروع ہوتی ہے جو بے لگام ہوجائے تو عبادت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مشرکین عرب جن کو ہم بت پرست کہتے ہیں وہ درحقیقت مٹی کی مورت بنا کر اس کا ایک نام رکھ دیتے تھے اور اس کو اپنا معبود قرار دے دیتے تھے۔ اسی تراشے ہوئے پتھر کو سجدہ کرتے تھے۔اسی کے نام کا ذکر کرتے تھے۔ اس کا نام لے کر اپنی حاجتوں میں اس کو پکارتے تھے تو درحقیقت یہ انتہائی ناقص خیال ہے بلکہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے لا الہ الا اللہ کہنے والا کیونکہ بتوں کی پوجا نہیں کرتا لہذا وہ مشرک نہیں ہو سکتا چاہے اس کے عقیدے اور اعمال کیسے ہی ہوں۔ اس سوچ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں قرآن پاک کیا بتاتا ہے۔
حضرت عیسیؑ اور ان کی ماں کو معبود بنایا گیا
واذ قال الله یٰعيسى ابن مريم ء انت قلت للناس اتخذوني وامي الهين من دون الله قال سبحانك ما يكون لي ان اقول ما ليس لي بحق ان كنت قلته فقد علمته تعلم ما في نفسي ولا اعلم ما في نفسك انك انت علام الغيوب (المائدۃ: 116)
ترجمہ:اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کوالہ مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہوگا (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بے شک تو علام الغیوب ہےح ضرت عیسیؑ اور ان کی والدہ کو الہ بنایا گیا جب کہ نہ عیسیؑ اور نہ ہی مریمؑ بت تھے۔ اور عیسائی بت پرست نہیں بلکہ وہ درحقیقت حد سے بڑھی ہوئی شخصیت پرستی کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ حضرت عیسیؑ کے معجزات ہیں۔ اس بے لگام شخصیت پرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ان صفات کا حامل قرار دے دیا ہے جو ان میں نہیں تھیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ماں کی گود ہی میں اعلان کردیا تھا:
اني عبد الله (مریم:30)
ترجمہ: میں اللہ کابندہ ہوں
لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے بندے نہیں اس کے بیٹے ہیں۔ یہی بےلگام شخصیت پرستی شرک کا سبب بن جاتی ہے اور دین ناواقف اپنی طرف سے اللہ کے مقرب بندوں کو بندگی سے نکال کر الوہیت کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ٹھیک یہی کام کلمہ گو مشرک بھی کرتے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ اور برزگان دین کے ساتھ وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا انہوں خود دعوی نہیں کیا بلکہ انکار ہی کیا ہے۔
علما اور صوفیوں کو معبود بنایا گیا
اتخذوا احبارهم ورهبانهم اربابا من دون الله والمسيح ابن مريم وما امروا الا ليعبدوا الها واحدا لا اله الا هو سبحانه عما يشركون۔ (التوبہ: 31)
ترجمہ:انہوں (یہودی و نصاریٰ) نے اپنے علما اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا رب بنا لیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ایک الہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضرت عدیؓ بن حاتم، جو اسلام لانے سے پہلے عیسائی تھے، نے رسول ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم نے تو کبھی علما اور صوفیا کی عبادت نہیں کی تو قرآن پاک نے ایسا کیوں کہا؟ آپ ﷺ نے جواب دیا علما اور صوفیوں نے جو چیزیں ازخود حلال و حرام کردی تھیں (یعنی محض اپنی طرف سے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے) تم اس کو حجت نہیں مانتے تھے؟ حضرت عدیؓ نے کہا ضرور سمجھتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
فذٰلک عبادتھم ایاھم (سنن الترمذی)
ترجمہ:یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے
چونکہ حلال و حرام قرار دینا اللہ تعالیٰ کا منصب ہے اس لیے اس میں کسی غیر کو شریک ٹھہرانا اس کی عبادت کرناہے۔ اس آیت میں علما اور صوفیا کا ذکر ہے کہ لوگوں نے ان کو رب بنایا او مشرک ہوئے۔ حالانکہ علما و صوفیا بت نہیں ہوتے، اور نہ ہی حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ بت تھے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندوں کو اللہ کی کسی صفت میں شریک کرنا اس کو الہ بنانا ہے جو شرک ہے۔
نوٹ: یہاں احبار و رھبان سے مراد وہ علما و صوفیا ہیں جو محض اپنی رائے سے دین میں حلال و حرام قرار دیتے تھے۔ البتہ علمائے حق کسی مسئلے میں کوئی حکم بتاتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں اس لیے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں حکم فرماتے ہیں۔
حضرت نوحؑ کی اولاد کو معبود بنایا گیا
وقالوا لا تذرن آلهتكم ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا يغوث ويعوق ونسرا وقد اضلوا كثيرا ولا تزد الظالمين الا ضلالا(نوح: 23-24)
ترجمہ:اور وہ کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا
ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یہ ان بتوں کے نام تھے جن کی قوم نوح عبادت کرتی تھی۔ ان بتوں کی حقیقت کیا تھی اس کی خبر صحیح بخاری کی اس روایت سے ملتی ہے:
اسماء رجال صالحين من قوم نوح فلما هلكوا اوحى الشيطان الى قومهم: ان انصبوا الى مجالسهم التي كانوا يجلسون انصابا وسموها باسمائهم ففعلوا فلم تعبد حتى اذا هلك اولئك ونسخ العلم عبدت
ترجمہ:(یہ) نام قوم نوح کے نیک لوگوں کے تھے، جن کی وفات کے بعد شیطان نے (اس قوم کے) لوگوں کوپٹی پڑھائی کہ ان (بزرگوں) کے بت بنا کر ان جگہوں پر رکھ دو جہاں یہ بزرگ بیٹھا کرتے تھے اور ان بتوں کے انہی بزرگوں پر نام بھی رکھ دو (تاکہ ان کی یاد آتی رہے)، لوگوں نے اسی طرح کیا لیکن ان مجسموں کی عبادت نہیں کی یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ بت بنائے تھے مرگئے اور ان بتوں کا مقصد پس پردہ چلا گیا اور بعد میں آنے والے ان بتوں کی عبادت کرنے لگے۔
ان بتوں کی عربوں کے یہاں بھی عبادت ہوتی تھی۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی اصل میں بزرگ پرستی سے شروع ہوئی۔
نیک لوگوں کو معبود بنایا گیا
افرايتم اللات والعزى (النجم: 19)
ترجمہ:بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا
ترجمہ:لات اس بت کا نام تھا جس کی مشرکین عرب عبادت کرتے تھے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں:
كان اللات رجلا يلت سويق الحاج (صحیح البخاری)
ترجمہ:لات ایک آدمی کا نام تھا جو حاجیوں کو ستو گھول کر پلاتا تھا۔
جب اس کی وفات ہوگئی تو لوگوں نے اس کی قبر پر ڈیرہ ڈال دیا اور اس کی عبادت ہونے لگی (ابن کثیر)۔ یہاں بھی وہی بات نظر آئے گی کہ بت پرستی اصل میں قبر پرستی ہے جس کی بنیاد شخصیت پرستی ہے۔ بت تو ایک ظاہری شکل ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑی شخصیت ہوتی ہے جس کی عظمت کم عقلوں کی عقلوں کو ماؤوف کردیتی ہے اور وہ اس عظمت کو اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ اس کو اللہ کے کاموں میں دخل انداز سمجھنے لگتے ہیں۔
فرشتوں کو معبود بنایا گیا
ويوم يحشرهم جميعا ثم يقول للملائكة اهؤلاء اياكم كانوا يعبدون () قالوا سبحانك انت ولينا من دونهم بل كانوا يعبدون الجن اكثرهم بهم مؤمنون (سبا: 40-41)
ترجمہ:اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے فرمائے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے، وہ کہیں گے تو پاک ہے (شریکوں سے) تو ہی ہمارا دوست ہے ان کے سوا بلکہ یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے ان پر ایمان رکھتے تھے۔
مشرکین عرب نے فرشتوں کو معبود بنا لیا تھا جن کو اپنی حاجتوں کے وقت پکارا کرتے تھے۔
جنوں کو معبود بنایا گیا
عزی جس کا ذکر سورۃ نجم آیت 19 میں آیا ہے اس کے متعلق آتا ہے کہ وہ جنی تھی جس کی عبادت کی جاتی تھی۔ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالدؓ بن ولیدکو عزی کا معبد ختم کرنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے جب اس کے مبعد کو منہدم کیا تو اس میں سے ایک عورت برآمد ہوئی جس کو حضرت خالدؓ نے قتل کرڈالا۔
اہل عرب کے دو مشہور بت تھے اساف اور نائلہ۔ایک روایت میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو ایک ادھیڑ عمر کی ایک حبشی عورت واویلا کرتی اپنے رخسار نوچتی ہوئی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
تلک نائلۃ ایست ان تعبد ببلدکم ھذا ابدا (البدایۃ و النھایۃ)
ترجمہ:یہ نائلہ ہے یہ اس سے ناامید ہوچکی ہے کہ تمہارے اس شہر میں کسی وقت اس کی عبادت ہو۔
یہ نائلہ بھی عزی کی طرح کوئی پری یا جنی تھی جس کے بت کی مشرکین مکہ عبادت کرتے تھے۔
حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ کی عبادت کی گئی
مشرکین عرب نے کعبۃ اللہ کے اندر بھی بت رکھے ہوئے تھے۔ سنن ابوداؤد کی ایک روایت میں آتا ہے کہ فتح مکہ کےبعد جب رسول اللہ ﷺ نے کعبہ اللہ میں داخل ہونے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے حکم فرمایا:
فاخرج صورة ابراهيم وإسمعيل
ترجمہ: ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ کی تصویروں کو باہر نکال دو۔
قبر کی عبادت کی گئی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں تصویریں تھیں۔ انھوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے بھی کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی تصویریں بنا دیتے پس یہ لوگ خدا کی بارگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔ (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ)
اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں یہ دعا فرمائی:
اللھم لا تجعل قبری وثنا یعبد (مؤطا امام مالک)
ترجمہ:اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے۔
قرآن پاک میں فرعون کے یہ الفاظ آئے ہیں:
وقال فرعون ياايها الملا ما علمت لكم من اله غيري (القصص: 38)
ترجمہ:اور فرعون نے کہا کہ اے اہل دربار میں تمہارا، اپنے سوا کسی کو الہ نہیں جانتا
ایک اور انداز سے اس کو سمجھیں۔ قرآن پاک میں آتا ہے:
واتخذوا من دون الله آلهة لعلهم ينصرون (یس:74)
ترجمہ:اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا (اور) الہ بنا لیے ہیں کہ شاید (وہ) ان کی مدد پہنچیں
واتخذوا من دون الله آلهة ليكونوا لهم عزا (مریم: 81)
ترجمہ:اور ان (مشرکوں) نے اللہ کے سوا اور الہ بنالئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے (موجب عزت و) مدد ہوں
یعنی اللہ کے علاوہ وہ جن کو بھی الہ مانتے تھے ان کو وہ اپنا مددگار سمجھتے تھے۔ پتھر کے بتوں میں ایسی کون سے قوت پوشیدہ تھی جس کی بنیاد پر مشرکین عرب ان سے مدد کی امید باندھتے تھے ان سے عزت کے طلب گار تھے؟ اس سوال کا جواب اس کے علاوہ کیا ہے کہ ان بتوں کے پیچھے شخصیات تھیں۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ان اقوال کو غور سے پڑھیں:
ظاہر و باطن دونوں طرح کے شرک کو چھوڑنے والوں میں سے ہوجا۔ بتوں کی پرستش کرنا تو ظاہری شرک ہے اور مخلوق پر بھروسہ رکھنا اور نفع نقصان میں ان پر نگاہ ڈالنا ہے یہ باطن کا شرک ہے۔ (الفتح الربانی مجلس ۳۴)
فتوح الغیب میں فرماتےہیں:صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرنا اور خدائے عز وجل کے ساتھ دنیا اور آخرت اور وہاں کی کسی چیز کو اختیار کرنا بھی شرک ہے پس جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہے وہ غیر اللہ ہے۔ بس جب تو اس کے سوا اس کے غیر کی طرف مائل ہوا تو بے شک تو نے غیر خدا کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا۔ ( فتوح الغیب وعظ ۷)
خلاصہ یہ ہے کہ بتوں کی اصل صاحب بت اور تصویروں کی اصل صاحب تصویر تھے۔ عقیدت پتھر کے بتوں یا کاغذی صنم (تصویر) سے نہیں ہوتی ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی شخصیت ہوتی ہے۔ مشرکین عرب بھی اصلا بتوں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے پیچھے شخصیات تھیں جن کی عظمت کے آگے وہ جھکتے تھے جن کے متعلق یہ عقیدہ قائم کرلیا گیا تھا کہ یہ اللہ کے اس قدر قریب ہوگئے ہیں کہ ان کے واسطے سے ہم اپنی حاجتوں میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔ یہی سب کچھ آج بھی ہوتا ہے۔ یہ بات تو ایک معمولی سمجھ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک ناتراشیدہ پتھر تو کچھ حیثیت نہ رکھے لیکن جب وہی پتھر تراش دیا جائے تو وہ معبود بن جائے جو سب کچھ کرسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ شرک کی ابتدفرد یا مکان کی عظمت سے شروع ہوتی ہے جو بے لگام ہوجائے تو عبادت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
(جاری ہے)