ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 185
- پوائنٹ
- 77
شریعت اسلامیہ کی حکمرانی کو تسلیم کرنا اور معاملات کا حل نکالنے کیلئے اسی سے رجوع کرنا اصل توحید ہے
تحریر : محمد شاکر الشریف
عنوانِ بالا کو ذہن نشین کرنے کیلئے سعودی حکومت کے معروف مفتی محترم شیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ محمد بن صالح العثیمین نے قرآنی آیات کے متعدد حوالے پیش کئے ہیں۔ سورئہ نساء آیت نمبر 65 میں اللہ رب العزت اپنے آخری پیغمبر محمد رسول ال ﷺ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے:
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
سو قسم ہے تیرے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ (ﷺ) کو حاکم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلے آپ (ﷺ) ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی یا ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔
سورۂ انعام آیت نمبر 57 میں فرمایا ہے:
«إنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ»
کہ (زندگی کے تمام معاملات میں) اللہ ہی کی حکمرانی مسلم ہے
سورۂ غافر (المؤمن) آیت نمبر 12 میں دوبارہ اسی مضمون کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
فَالْحُکْمُ لِلَّہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ
(انسانی معاشرے کے ہر پہلو میں) اللہ عالیٰ صفات ہی کی حکمرانی ہے۔
سورۂ مائدہ آیات نمبر 44، 45، 47 میں اسی مضمون کو مزید وضاحت سے بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے (احکامات) کے مطابق حکم نہ کریں، وہی لوگ کافر ہیں۔
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ
اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے (احکامات) کے مطابق حکم نہ کریں، وہی لوگ ظالم ہیں۔
اور وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ
اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے (احکامات) کے مطابق حکم نہ کریں وہی لوگ فاسق ہیں۔
سورۂ الانعام آیت نمبر114 میں بھی اسی مضمون کی نشاندہی کی گئی ہے، اللہ رب العالمین اپنے نبی ﷺ کے ذریعے کہلوا رہا ہے:
اَفَغَیْرَ اللہِ اَبْتَغَیْ حَکَمًا وَّ ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلاً
اے محمد (ﷺ) آپ اپنی اُمت کے لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اے لوگو! کیا میں تمہارے لئے اللہ کے علاوہ کسی اور کو حاکم بنالوں کہ جس کے احکامات نافذ العمل ہوں جبکہ اللہ ہی نے تمہاری جانب کتابِ ہدایت کو تفصیل سے قوانین حکومت کے طور پر اتارا ہے۔
سورۂ المائدہ آیت نمبر 50میں اسی مضمون کو سخت لب و لہجے میں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ ومَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ
کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں، یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔
’’سمجھدار اور حقائق تسلیم کرنے والوں کی نظر میں اللہ اور اس کے قوانین عدل و انصاف سے بڑھ کر کون منصف اور عادل حاکم ہو سکتا ہے؟ تو کیا یہ لوگ اللہ کی حکمرانی کو چھوڑ کر اسلام سے دور لے جانے والے جاہلی نظام کی تلاش میں ہیں‘‘؟
سورۂ شوریٰ آیت نمبر10 میں مزید اسی عنوان کو کھول کر بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗ اِلَی اللہِ ذَالِکُمْ اللہُ رَبِّیْ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ
اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے، یہی اللہ میرا رب ہے جس پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور جس کی طرف میں جھکتا ہوں۔
سورۂ مائدہ آیت نمبر 3میں پچھلی تمام آیات کا نچوڑ اور دین اسلام کا ایک مستقل نظام عدل اور ضابطہء زندگی ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورئہ آل عمران آیت نمبر 19 میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا
اے میرے بندو! (آج مورخہ 9 ذوالحجہ 10 ہجری کو مقام عرفات میں) میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور میں نے اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں اور تمہارے لئے اسلام کو مستقل دین بنا دیا ہے، اور یقینا اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی قابل تسلیم دین ہے۔
ان تمام آیات کا خلاصہ اور نچوڑ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں انسانوں کی ضروریات کا حل اور ہر طرح کی رہبری موجود ہے کیونکہ دین اسلام کو اللہ نے ایک مستقل نظامِ حکومت اور قانونِ شریعت کے طور پر اتارا ہے اس کے اخلاقیات، شفاف اور پاکیزہ ہیں اور اس کے تمام نظام ہائے زندگی عادلانہ ہیں، اسلام کے اندر پوری کائنات کے انسانوں پر حکمرانی کرنے کی ہمہ گیر صلاحیت اور عالمگیر اہلیت موجود ہے۔ جن قوموں نے اس کی حکمرانی کو تسلیم کیا اور اس کی حکمرانی کے تحت اپنی زندگیاں گزاریں وہ فلاح و ترقی کے اَوجِ ثریا پر فائز ہو گئے۔ اور جنہوں نے اس کی حکمرانی سے منہ موڑا وہ ذلیل ہو گئے اور صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔
مذکورہ بالا آیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کی حکمرانی کو تسلیم کرنا اور ہر معاملے میں اسی سے رجوع کرنا ہی اصل توحید ہے یعنی اگر دنیا کے تمام انسان اللہ کی ذات واحد کو ہی حاکم اعلیٰ مانتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ اللہ ہی کے دین اور اس کے قوانین تعلیمات حدود اور اس کی شریعت کے تمام نظاموں کو اپنی انفرادی، اجتماعی، سیاسی، حکمرانی، اقتصادی، عدالتی، ثقافتی، صنعتی، تعلیمی، طبی اور ملکی نظاموں میں نافذ کریں اور ثابت کر دیں کہ دنیا میں اللہ ہی کا نظام چل سکتا ہے ورنہ ہمارا دعوائے توحید محض لفاظی ہے حقیقی نہیں۔
دنیا میں جن مسلم مملکتوں کے اندر شریعت اسلامیہ کے بجائے انسانی ساخت کے وضعی قوانین نافذ ہیں یہ قوانین کھلم کھلا اللہ کی توحید کے منافی اور اس کی شریعت سے جنگ ہے اور یہی کھلا شرک ہے کہ ہم نے اللہ کے قوانین کے مقابلے میں انسانی ساخت کے قوانین کو اولیت دی ہے۔ اللہ کے قوانین کو پیشوا ماننے کی بجائے انسانی نظام کو پیشوا مان لیا ہے، شرک صرف اس بات کو نہیں کہتے کہ ہم اللہ کی ذات کے ساتھ کسی اور کو برابر کریں اور نہ ہی توحید اس پر بس ہے کہ ہم کوئی بھی نیکی عبادت، بندگی، صدقہ اور نیاز اللہ کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام پر ہرگز نہ دیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں اللہ ہی کی مرضی اور اس کے انتخاب اور اس کی پسند کو آگے رکھیں، یہ ہے شفاف توحید اور اسلام کی صحیح حکمرانی۔