الحمد للہ:
اول:
دشمان دين اسلام ابھى تك اللہ كى شريعت پر مختلف صورتوں اور اساليب كے ساتھ طعن و تشنيع كر رہے ہيں، اور دين اسلام كے بارہ ميں مسلمانوں ميں اپنے شبہات اور گمراہياں پھيلا رہے ہيں، اور بعض كمزور ايمان اور جاہل قسم كےمسلمان ان كے پيچھے چل نكلتے ہيں، اگر ان عام لوگوں ميں سے كوئى ايك بھى ذرا سا بھى غور و فكر كرے تو اسے معلوم ہو جائيگا كہ ان دشمان اسلام كے شبہات بالكل خالى ہيں، اور ان كى كوئى دليل نہيں ہے.
ايك عام شخص كے ليے اس شبہ كو رد كرنے كا آسان سا طريقہ يہ ہے كہ وہ اپنے آپ سے دريافت كرے: وہ ظہر كى كتنى ركعات ادا كرتا ہے، اور زكاۃ كا نصاب كيا ہے ؟
يہ آسان سے دو سوال ہيں جن سے كوئى ايك مسلمان بےپرواہ نہيں ہو سكتا اور ان دونوں كا جواب وہ كتاب اللہ ميں نہيں پائيگا، وہ يہ پائيگا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے نماز اور زكاۃ كى ادائيگى كا حكم ديا ہے، تو وہ اللہ كے احكام كو بغير سنت نبويہ ديكھے كس طرح نافذ كر سكتا ہے ؟
ايسا كرنا محال اور ناممكن ہے، اسى ليے قرآن مجيد كے ليے سنت كى ضرورت حديث كے ليے قرآن كى ضرورت سے زيادہ ہے! جيسا كہ امام اوزاعى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" كتاب اللہ كو سنت كے مقابلہ ميں سنت كى زيادہ ضرورت ہے، اور سنت كو كتاب اللہ كى كم "
ديكھيں: البحر المحيط للزركشى ( 6 / 11 ).
اور ابن مفلح نے اسے تابعى مكحول رحمہ اللہ سے بھى نقل كيا ہے.
ديكھيں: الآداب الشرعيۃ ( 2 / 307 ).
سائل كے بارہ ميں ہمارا گمان اچھا اور بہتر ہى ہے، ہمارے خيال ميں اس نے يہ سوال اس طرح كى باتيں كرنے والے كا رد كرنے كے ليے دريافت كيا ہے، تا كہ وہ اسے جواب دے سكے جو قرآن كريم كى تعظيم كا گمان ليے پھرتا ہے.