• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریک بن عبد اللہ القاضی

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
نام: شريك بن عبد الله بن أبى شريك النخعى ، أبو عبد الله الكوفى القاضى ( بواسط ثم الكوفة ، أدرك زمان عمر بن عبد العزيز )
طبقۃ: : 8 من الوسطى من أتباع التابعين
المولد: 95 ھ
الوفاۃ: 177 یا 178 ھ ب الکوفہ
روى له : خت م د ت س ق ( البخاري تعليقا - مسلم - أبو داود - الترمذي - النسائي - ابن ماجه )
رَوَى عَن: إِبْرَاهِيم بْن عَبد الله بْن حنين (د تم س) ، وأنس بْن مالك (خ م د س ق) ، وسَعِيد بْن عَبْد الرَّحْمَنِ بْن مكمل الأعشى، وسَعِيد بن المُسَيَّب (خ م) ، وعامر بْن سعد بْن أَبي وقاص، وعَبد اللَّهِ بْن حنين (س) ، وعبد اللَّه بْن أَبي عتيق (م س) ، وعَبْد الرحمن بْن أَبي سَعِيد الخُدْرِيّ (م) ، وعبد الرحمن بْن أَبي عَمْرة (خ م) ، وعطاء بْن يسار (خ م د س ق) ، وعكرمة مولى ابْن عباس، وعلي بْن يحيى بْن خلاد، وعُمَر بْن الحكم بْن ثوبان، وعُمَر بْن نبيه الكعبي - وهو من أقرانه - وعون بْن عَبد اللَّهِ بْن عتبة، وكريب مولى ابْن عباس (خ م د ق) ، ويحيى بْن جعفر بْن أَبي كثير - وهو أصغر منه - وأبي السائب مولى هشام بْن زهرة، وأَبِي سلمة بْن عَبْد الرحمن بْن عوف (د تم س) ، وأَبِي صالح مولى السعديين.
رَوَى عَنه: إِبْرَاهِيم بْن طهمان، وإبراهيم بْن مُحَمَّد بْن أَبي يحيى وإِسْمَاعِيل بْن جعفر بْن أَبي كثير (خ م س) ، وأَبُو ضمرة أنس بْن عياض (خ) ، وبكير بْن عَبد اللَّهِ بْن الأشج، وأَبُو صخر حميد بْن زياد (م د ق) ، وزهير بْن مُحَمَّد التميمي (د س) ، وسَعِيد بْن أَبي أيوب، وسَعِيد بْن أَبي سَعِيد المقبري (خ د س ق) - وهُوَ أكبر منه - وسَعِيد بْن سلمة بْن أَبي الحسام، وسفيان الثوري، وسُلَيْمان بْن بلال (خ م د تم س ق) ، وصالح بْن مُوسَى الطلحي، وعَبْد اللَّهِ بْن عطاء بْن يسار، وعَبْد العزيز بْن مُحَمَّد الدَّراوَرْدِيّ (د س ق) ، وقرة بْن عَبْد الرحمن بن حيوئيل، ومالك بن أنس (خ س) ، ومحمد بْن جعفر بْن أَبي كثير (خ م) ، ومحمد بْن عمار المؤذن، ومحمد بْن عَمْرو بْن عطاء - وهو أكبر منه - ومحمد بْن عَمْرو بْن علقمة بْن وقاص الليثي، ومسلم بْن خالد الزنجي، وأَبُو بَكْرِ بْنُ عَبد الله بْن أَبي سبرة.

أقوال اهل الجرح والتعديل:
جارحین کے اقوال:
1- امام علی بن عبد اللہ المدینی (المتوفی 234) فرماتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید القطان (المتوفی 120) کو فرماتے سنا: "قَدِمَ شَرِيكٌ مَكَّةَ، فَقِيلَ لِي آتِهِ، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ بَيْنَ يَدَيَّ مَا سَأَلْتُهُ عَنْ شَيْءٍ، وَضَعَّفَ يَحْيَى حَدِيثَهُ جِدًّا" شریک مکہ میں آئے تو مجھے ان کے آنے کی خبر دی گئی، تو میں نے کہا، اگر وہ میرے سامنے بھی ہوتے تو میں ان سے کسی چیز کے متعلق نا پوچھتا، اور یحیی نے انہیں سخت ضعیف قرار دیا۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلی: 2/193 واسنادہ صحیح)

2- امام ابراہیم بن سعید الجوہری (المتوفی 249) فرماتے ہیں: "أخطأ شَرِيك في أربع مِئَة حديث" "شریک نے چار سو حدیثوں میں غلطی کی ہے" (الکامل لابن عدی: 5/12 وسندہ صحیح)

3- امام ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی (المتوفی 259) فرماتے ہیں: "شريك بن عبد الله سيء الحفظ مضطرب الحديث مائل" "شریک بن عبد اللہ خراب حافظے والے اور مضطرب الحدیث مائل شخص تھے" (احوال الرجال للجوزجانی: 1/150)

4- امام ابو زرعہ الرازی (المتوفی 264) نے فرمایا: "كان كثير الحديث صاحب وهم، يغلط أحيانا" "وہ کثیر الحدیث تھے، اور اکثر وہم اور غلطی کرتے تھے۔" (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 4/367)
جب امام ابو زرعہ کو بتایا گیا کہ شریک القاضی نے واسط میں باطل روایتیں بیان کی ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ: "(انہیں) باطل نہ کہو" (ایضا) یعنی امام ابو زرعہ کے نزدیک شریک کی غلطیاں زیادہ شدید نہ تھیں۔

5- امام ابو الحسن الدارقطنی (المتوفی 385) فرماتے ہیں: "وَشَرِيكٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِيمَا يَتَفَرَّدُ بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ" "شریک جس روایت کو روایت کرنے میں منفرد ہوں اس میں وہ لیس بالقوی ہیں، واللہ اعلم۔" (سنن الدارقطنی: 2/150 ح 1307)
نوٹ: اس کے برعکس ایک دوسری جگہ پر امام دارقطنی نے شریک کو "حفاظ ثقات" میں شمار کیا ہے۔ (سنن: 1/89)

6- امام ابو بکر البیہقی (المتوفی 458) فرماتے ہیں: "وَشَرِيكٌ مِمَّنْ لَا يُحْتَجُّ بِهِ فِيمَا يُخَالِفُهُ فِيهِ أَهْلُ الْحِفْظِ وَالثِّقَةُ لِمَا ظَهَرَ مِنْ سُوءِ حِفْظِهِ" "شریک ان لوگوں میں سے ہے جو اگر اہل الحفظ والثقہ کی مخالفت کریں تو حجت نہیں پکڑی جاتی جیسا کہ ان کے حافظے میں خرابی ظاہر ہوئی ہے" (معرفۃ السنن والآثار: 12/388 # 17115)
نوٹ: یقینا اگر کوئی بھی زیادہ حافظے والے راوی کی مخلافت کرے تو حجت نہیں ہوتا، اس لیے بیہقی کا یہ قول شریک کی تضعیف کو لازم نہیں ہے۔

7- حافظ ابن حزم الاندلسی (المتوفی 456) نے شریک پر جھوٹ اور وضع حدیث کی تہمت لگائی ہے (تاریخ الاسلام للذہبی: 9/109)
حافظ ذہبی ابن حزم کے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "وَهَذَا جَهْلٌ مِنِ ابْنِ حَزْمٍ، فَإِنَّ هَذَا الشَّيْخَ مِمَّنِ اتَّفَقَ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ عَلَى الاحْتِجَاجِ بِهِ" "یہ ابن حزم کی نا واقفیت ہے کیونکہ یہ شیخ تو بخاری اور مسلم کے اتفاق سے احتجاج کے قابل ہیں" (تاریخ الاسلام: 9/109)

8- حافظ ابن حجر العسقلانی (المتوفی 852) شریک کے متعلق فرماتے ہیں: "صدوق يخطىء كثيرا تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة وكان عادلا فاضلا عابدا شديدا على أهل البدع" "صدوق کثیر غلطیاں کرتے تھے، ان کا حافظہ خراب ہو گیا تھا جب سے انہوں نے کوفہ میں قضاءۃ کا عہدہ سنبھالا، اور وہ عادل فاضل عابد اور اہل البدعت پر شدید رد کرنے والے تھے" (تقریب: 1/266)
نوٹ: یخطی کثیرا سے حافظ ابن حجر ممکنا طور پر شریک کی اختلاط کے بعد والی حالت مراد لے رہے ہیں کیونکہ طبقات المدلسین میں حافظ ابن حجر خود فرماتے ہیں کہ "وہ ثبت راویوں میں سے ہیں" (ص 44)

٭- امام ابن المبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے شریک کے متعلق فرمایا: "ليس حديثه بشَيْءٍ" (الکامل لابن عدی: 5/11) لیکن اس قول کی سند میں ایک سے زیادہ مجھول اور غیر متعین راوی ہیں جس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے، اس کے برعکس یہ امام ابن المبارک کی تعدیل کے خلاف ہے جیسا کہ نیچے ذکر آئے گا، ان شاء اللہ۔

معدلین کے اقوال:
1- امام عمرو بن علی الفلاس (المتوفی 249) فرماتے ہیں: "كَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ لَا يُحَدِّثُ عَنْ شَرِيكٍ، وَلَا عَنْ إِسْرَائِيلَ، وَكَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، يُحَدِّثُ عَنْهُمَا" "یحیی بن سعید نہ شریک سے روایت کرتے تھے اور نہ ہی اسرائیل سے، جبکہ عبد الرحمن دونوں سے روایت کرتے تھے" (الضعفاء الکبیر للعقیلی: 2/193 واسنادہ صحیح؛ و الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 4/365 اسنادہ صحیح ایضا)
فائدہ: امام عبد الرحمن بن مہدی کی شریک سے روایت کا مطلب ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقہ تھے کیونکہ عبد الرحمن اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت لیتے تھے۔

2- امام عبد اللہ بن المبارک (المتوفی 181) فرماتے ہیں: "شريك أعلم بحديث الكوفيين من سفيان الثوري" "کوفیوں کی حدیث کو شریک سفیان الثوری سے بھی زیادہ جانتے ہیں" (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: (4/366 وسندہ صحیح)

3- امام عیسی بن یونس السبیعی (المتوفی 187) فرماتے ہیں: "ما رأيت أحدا قط أورع في علمه من شريك" "میں نے کبھی کسی کو اپنے علم میں شریک سے زیادہ متقی کسی کو نہیں دیکھا" (الجرح والتعدیل: 4/366 اسنادہ صحیح)

4- امام احمد بن حنبل (المتوفی 241) سے شریک کی ابو اسحاق سے روایت کے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا: "كان ثبتاً فيه" "وہ اس میں ثبت تھے" (العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ عبد اللہ: 348)
ایک دوسری روایت میں امام احمد نے فرمایا: "كَانَ عَاقِلًا صَدُوقًا مُحَدِّثًا عِنْدِي، وَكَانَ شَدِيدًا عَلَى أَهْلِ الرِّيَبِ وَالْبِدَعِ، قَدِيمَ السَّمَاعِ مِنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَبْلَ زُهَيْرٍ وَقَبْلَ إِسْرَائِيلَ" "شریک میرے نزدیک ایک عاقل صدوق محدث تھے، اور وہ شک و بدعت والے لوگوں پر شدید تھے۔ ان کا ابو اسحاق سے سماع قدیم ہے زہیر اور اسرائیل سے بھی پہلے" (الضعفاء الکبیر 2/193، و اسنادہ صحیح)

5- امام یحیی بن معین (المتوفی 233) فرماتے ہیں: "شريك ثقة من يسأل عنه؟" "شریک ثقہ ہیں ان کے بارے میں کون پوچھتا ہے؟" (الجرح والتعدیل: 4/367 اسنادہ صحیح)
امام یحیی بن معین سے پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک ابو اسحاق سے روایت کرنے میں کون زیادہ پسندیدہ ہے، شریک یا اسرائیل؟ تو انہوں نے فرمایا: "شریک زیادہ پسندیدہ ار مقدم ہے" (الجرح والتعدیل: 4/367 و اسنادہ صحیح)
ایک دوسری روایت میں امام ابن معین سے پوچھا گیا کہ منصور سے روایت کرنے میں شریک آپ کو زیادہ پسند ہے یا ابو الاحوص؟ تو انہوں نے فرمایا: "شریک اس معاملے میں زیادہ اعلم ہیں" (الجرح والتعدیل: 4/367 واسنادہ صحیح)

6- امام محمد بن اسماعیل البخاری (المتوفی 256) نے شریک کی حدیث کی تصحیح کی اور فرمایا: "هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ: لَا أَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ، إِلَّا مِنْ رِوَايَةِ شَرِيكٍ" "یہ حدیث حسن ہے" اور کہا "میں اس روایت کو ابو اسحاق سے شریک کے علاوہ اور کسی طریق سے نہیں جانتا" (سنن الترمذی: ح 1366)

7- امام محمد بن سعد کاتب الواقدی (المتوفی 230) فرماتے ہیں: "وَكَانَ شَرِيكٌ ثِقَةً مَأْمُونًا كَثِيرَ الْحَدِيثِ وَكَانَ يَغْلَطُ كَثِيرًا" "شریک ثقہ مامون کثیر الحدیث تھے، اور وہ (اختلاط کے بعد) کثیر غلطیاں کرتے تھے" (طبقات الکبری: (6/356)

8- امام ابو الحسن العجلی (المتوفی 261) فرماتے ہیں: "ثِقَة وَكَانَ حسن الحَدِيث" (الثقات للعجلی: 1/453)۔

9- امام ابو حاتم الرازی (المتوفی 275) سے ان کے فرزند نے ان سے شریک اور ابو الاحوص کے متعلق پوچھا کہ ان میں کون آپ کو زیادہ پسند ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: "شريك أحب إلي شريك صدوق، وهو أحب إلي من أبي الأحوص وقد كان له أغاليط" (الجرح والتعدیل: 4/367)

10- امام ابو عیسی الترمذی (المتوفی 279) نے شریک کی حدیث کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا: "هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ" (سنن الترمذی: ح 1366)

11- امام ابو اسحاق الحربی (المتوفی 285) نے اپنی تاریخ میں فرمایا: "كان ثقة" (بحوالہ اکمال تہذیب الکمال: 6/247)

12- امام ابو عبد الرحمن النسائی (المتوفی 303) نے اپنی کتاب "الجرح والعدیل" میں فرمایا: "ليس به بأس" (بحوالہ اکمال تہذیب الکمال: 6/248)

13- امام ابن خزیمہ (المتوفی 311) نے شریک کی کافی حدیثیں اپنی صحیح میں بیان کیں اور ان کی تصحیح کی۔ (دیکھیں صحیح ابن خزیمہ ح 437, 533, 626, 629, 646, 1215, 1432, 1807, 2057, 2140, 2516, 3046, 3047)

14- امام ابو بکر البزار (المتوفی 313) نے شریک کی حدیث کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا: "إِسْنَاد حسن" (مسند البزار بحوالہ بیان الوہم والایہام: 3/293)

15- امام ابن حبان البستی (المتوفی 354) نے شریک کی احادیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا (دیکھیں صحیح ابن حبان: ح 226, 550, 954, 996, 1006, 1290, 1387, 1405, 1430, 1505, 1508, 1912, 2514, 3083, 3093, 3095, 3215, 3768, 4078, 4090, 4260, 4370, 4384, 4410, 4743, 5120, 5169, 5195, 5442, 5461, 5579, 5593, 5756, 5781, 5783, 6294, 6295, 6311, 6433, 7056, 7335, 7489)
امام ابن حبان نے شریک کو اپنی کتاب الثقات (6/444 ت 8507) میں بھی ذکر کیا ہے۔

16- امام ابو حفص عمر بن شاہین (المتوفی 385) نے انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے (ت 522)۔

17- امام ابو احمد بن عدی الجرجانی (المتوفی 365) فرماتے ہیں: "والغالب على حديثه الصحة والاستواء" (الکامل لابن عدی 5/35)

18- امام ابو عبد اللہ الحاکم النیساپوری (المتوفی 405) نے شریک کی حدیث کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا: "هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ" (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ح 4072، 5563، 8478 نیز دیکھیں ح 4633 ،7569)۔

تاریخ نیسابور میں امام حاکم فرماتے ہیں: "وشريك أحد أركان الفقه والحديث" "شریک فقہ اور حدیث کے ارکانوں میں ایک ہیں" (بحوالہ اکمال تہذٰب الکمال: 6/247)

19- امام الجرح والتعدیل شمس الدین ذہبی (المتوفی 748) فرماتے ہیں: "كان شريك حسن الحديث إماما فقيها ومحدثا مكثرا" (تذکرۃ الحفاظ للذہبی: 1/170)
ایک دوسری جگہ پہ فرمایا: "وَكَانَ مِنْ كِبَارِ الفُقَهَاءِ" (سیر اعلام النبلاء 7/247)۔
اور المیزان میں فرمایا: "الحافظ الصادق أحد الأئمة" (2/270)
امام ذہبی نے شریک کو اپنی کتاب "من تکلم فیہ وھو موثق" میں بھی ذکر کیا ہے (1/99 ت 159)

20- حافظ نور الدین الہیثمی (المتوفی 807) نے شریک کی ایک حدیث کے متعلق فرمایا: "وَفِيهِ شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ النَّخَعِيُّ، وَهُوَ ثِقَةٌ" (مجمع الزوائد: 3/211 نیز دیکھیں: 9/123 وقال ھو حسن الحدیث)

21- حافظ شہاب الدین البوصیری (المتوفی 840) نے شریک کی ایک روایت کے متعلق فرمایا: "هَذَا إِسْنَادٌ رُوَاتُهُ ثِقَاتٌ" (اتحاف الخیرۃ 6/43)

قاضی شریک اور تدلیس

1- امام ابن حزم الاندلسی (المتوفی 456) نے فرمایا: "وَهَذَا لَا حُجَّةَ فِيهِ، لِأَنَّ شَرِيكًا مُطَّرِحٌ، مَشْهُورٌ بِتَدْلِيسِ الْمُنْكَرَاتِ إلَى الثِّقَاتِ" "اس میں کوئی حجت نہیں ہے کیونکہ شریک مجروح اور ثقات کی طرف منکرات کی تدلیس کے ساتھ مشہور ہے" (المحلی بالآثار: 4/48)

2- حافظ ابو الحسن ابن القطان (المتوفی 628) فرماتے ہیں: "وَشريك مُخْتَلف فِيهِ، وَهُوَ مُدَلّس" (بیان الوہم الایہام: 3/122)

3- حافظ ابن الملقن (المتوفی 804) فرماتے ہیں: "شريك بن عبد الله القَاضِي، وَهُوَ مَعْرُوف بتدليس الْمُنْكَرَات عَن الثِّقَات" (البدر المنیر: 2/597)
اس کے علاوہ شریک کو ابن حجر، ابو زرعہ ابن العراقی، السیوطی، الحلبی، اور المقدسی وغیرہ نے بھی مدلسین میں ذکر کیا ہے۔

قاضی شریک اور اختلاط

شریک القاضی نے جب سے کوفہ میں قضاءۃ کا عہدہ سنبھالا تب سے ان کے حافظے میں اختلاط ہو گیا تھا اور وہ کوفہ کے قاضی 155 ھ میں مقرر ہوئے۔
1- امام شریک بن عبد اللہ خود فرماتے ہیں: "إني لأسمع الكلمة فيتغير لها بولي" (الثقات للعجلی 1/220 واسنادہ صحیح)۔

2- اسحاق الازرق، عباد بن العوام، اور یزید بن ہارون جنہوں نے شریک سے واسط میں ان کی کتاب سے روایت کیا کا ذکر کرنے کے بعد، امام احمد بن حنبل نے فرمایا: "ان لوگوں کا سماع شریک سے بالکل صحیح ہے" (سؤالات ابو داؤد: 1/321)۔

3- امام ابن حبان (المتوفی 354) نے فرمایا: "كَانَ فِي آخر أمره يخطىء فِيمَا يروي تغير عَلَيْهِ حفظه فسماع الْمُتَقَدِّمين عَنهُ الَّذين سمعُوا مِنْهُ بواسط لَيْسَ فِيهِ تَخْلِيط مثل يزِيد بن هَارُون وَإِسْحَاق الْأَزْرَق وَسَمَاع الْمُتَأَخِّرين عَنهُ بِالْكُوفَةِ فِيهِ أَوْهَام كَثِيرَة" (الثقات لابن حبان: 6/444)

4- حافظ ابو الحسن ابن القطان نے فرمایا: "وَجُمْلَة أمره أَنه صَدُوق، ولي الْقَضَاء فَتغير محفوظه فَمن سمع مِنْهُ قبل ذَلِك فَحَدِيثه صَحِيح" (بیان الوہم والایہام: 3/295)

5- حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں: "ولما ولي القضاء تغير حفظه" (طبقات المدلسین، ص 44)

خلاصۃ الکلام:
شریک بن عبد اللہ القاضی کی حدیث اگر وہ اختلاط سے پہلے ہو اور سماع کی تصریح ہو تو حسن کے درجے سے نیچے نہیں گرتی۔
واللہ اعلم۔
 
Top