کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
شعبہ بینکاری۔ حقائق اور تجزیہ
ڈاکٹر شاہد حسین صدیقیجمعرات 10 ستمبر 2015م
پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں نے 2014ء میں مجموعی طور پر 247 ارب روپے کا ٹیکس سے قبل منافع دکھایا ہے۔
2013ء میں ان بینکوں کا مجموعی منافع 162 ارب روپے تھا۔
یعنی 12 ماہ میں بینکوں کے مجموعی منافع میں 85 ارب روپے کا زبردست اضافہ ہوا۔
یہ بات یقیناً حیران کن ہے کیونکہ بینکوں نے 1947ء سے 2001ء کے 55 برسوں میں مجموعی طور پر جو منافع کمایا تھا اس سے کہیں زیادہ منافع کے حجم میں اضافہ صرف 2013ء میں 2014ء کے مقابلے میں ہوا ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ پاکستان میں سودی بینکوں میں بھی تمام بچت اور میعادی کھاتے نفع نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسٹیٹ بینک کی معاونت سے بینک معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی کرنسی کے کھاتے داروں کو حقیقی معنوں میں اپنے منافع میں شریک نہیں کرتے رہے ہیں۔
ملک کے دو بڑے بینک حبیب اور یو نائیٹڈ بینک 2002ء اور 2004ء میں نج کاری کے نام پر غیر ملکیوں کے حوالے کر دیئے گئے تھے۔ اس کے بعد سے بینکوں نے اجارہ داری قائم کر کے کھاتے داروں کو دی جانے والی حقیقی شرح منافع کم کر کے اپنا منافع بڑھانا شروع کر دیا۔
گزشتہ کئی برسوں سے مختلف حکومتیں، اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ، منصوبہ بندی کمیشن، نج کاری کمیشن، اور بہت سے ماہرین اس امر پر متفق رہے ہیں کہ پاکستان میں بینکوں کی نج کاری کا تجربہ انتہائی کامیاب رہا ہے۔ یہ سوچ وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی ہے اور حقیقت سے بہت دور ہے۔ چند حقائق نذر قارئین ہیں۔
(1)
2002ء میں بینکنگ سیکٹر کا ٹیکس سے قبل مجموعی منافع صرف 19 ارب روپے تھا
جو 2014ء میں بڑھ کر 247 ارب روپے ہو گیا۔
اسی مدت میں بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس میں 450 فیصد،
قرضوں میں 383 فیصد ،
سرمایہ کاری میں 657 فیصد
اور اثاثوں میں 445 فیصد اضافہ ہوا
لیکن حیران کن طور پر ٹیکسوں سے قبل منافع میں 5521 فیصد اضافہ ہوا۔
حالیہ تاریخ میں کسی بھی ملک میں ڈپازٹس، قرضوں اور اثاثوں وغیرہ کے مقابلے میں منافع میں اتنے زبردست اضافے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
(2)
اس سے قبل جب بینکوں کا ٹیکس سے قبل منافع 1.1 ارب روپے تھا
بینکوں نے اپنے بچت کھاتے داروں کو 6.6 فیصد سالانہ کی شرح سے منافع دیا تھا۔
2014ء میں منافع تو بڑھ کر 247 ارب روپے ہو گیا لیکن نفع و نقصان کی شراکت کے کھاتوں پر بینک اب صرف 4.5 فیصد سالانہ منافع دے رہے ہیں۔
اندازہ ہے کہ بینکوں نے اس مدت میں اپنے کھاتے داروں کو تقریباً 1450 ارب روپے اس رقم سے کم دیئے جو 2000ء میں دی گئی حقیقی شرح منافع کے مطابق ان کا حق تھا۔
2014ء میں بینکوں نے اپنے حصص یافتگان کو 24.3 فیصد منافع دیا۔
(3)
یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ پچھلے 6 برسوں سے بینک صنعت، تجارت، زراعت، برآمدات اور مائیکرو فنانس وغیرہ کے لئے نجی شعبے کو قرضے فراہم کرنے کے اپنے بنیادی فرض سے بڑی حد تک دستبردار ہو گئے ہیں۔ اس کے بجائے بینک ٹیکسوں کی چوری اور کرپشن وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے حکومت کے تمسکات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یہ بلا شبہ تباہی کا نسخہ ہے۔
2008ء میں بینکوں نے مجموعی طور پر 3173 ارب روپے کے قرضے دیئے ہوئے تھے۔
دسمبر 2014ء میں ان قرضوں کا حجم بڑھ کر 4447 ارب روپے ہوگیا۔
اسی مدت میں بینکوں کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کا حجم 1087 ارب روپے سے بڑھ کر 5310 ارب روپے ہو گیا ۔
یعنی گزشتہ 6 برسوں میں بینکوں کے قرضوں میں 1274 ارب روپے اور سرمایہ کاری میں 4223 ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔
یہ بات تکلیف دہ ہے کہ 2014ء میں بینکوں کی سرمایہ کاری کا حجم بینکوں کے قرضوں کے حجم سے 863 ارب روپے زیادہ ہو گیا ہے
جبکہ 2008ء میں بینکوں کے قرضوں کا حجم سرمایہ کاری کے حجم سے تقریباً 3 گنا تھا۔
نجی شعبے کے بینکوں کی اس تباہ کن پالیسی میں اب نیشنل بینک بھی شامل ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ اسٹیٹ بینک کے عملی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا کیونکہ اسٹیٹ بینک اسی سرمایہ کاری کے لئے بینکوں کو بڑے پیمانے پر رقوم فراہم کر رہا ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک یہ تعاون نہ کرتا تو حکومت پر ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد کرنے کے لئے دبائو بڑھتا جس کے بغیر معیشت کی بحالی ممکن ہی نہیں ہے۔ بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو قرضے فراہم کرنے کے اپنے اصل کام سے عملاً دستبرداری کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
بینکوں کی اس پالیسی اور اسٹیٹ بینک کی پرجوش معاونت کی وجہ سے معیشت کی شرح نمو سست ہو رہی ہے۔
روزگار کے مواقع کم میسر آ رہے ہیں۔
صنعتی و تجارتی سرگرمیاں اور برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔
ٹیکسوں کی چوری اور کرپشن کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے
اور معیشت پر بحیثیت مجموعی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی بینکاری کی ایک جائزہ رپورٹ میں یہ اعتراف موجود ہے کہ پاکستان کے بجٹ خسارے کا بڑھتا ہوا حجم (جسے ہم ام الخبائث کہتے رہے ہیں) بینکوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا ہے۔
(4)
بینکوں کی جانب سے کھاتے داروں کو مناسب شرح سے منافع نہ دینے کی وجہ سے وطن عزیز میں بچتوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے قرضوں پر انحصار بڑھ رہا ہے۔
2002-03ء میں مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے قومی بچتوں کی شرح 20.3 فیصد تھی جو گر کر اب صرف تقریباً 14 فیصد رہ گئی ہے۔
یہ امر تشویشنا ک ہے کہ پاکستان میں بچتوں کی شرح بنگلہ دیش ، سری لنکا ، بھارت اور انڈونیشیا وغیرہ کی شرح سے نصف ہے۔
منصوبہ بندی کے وفاقی سیکرٹری نے تسلیم کیا ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی کے اہداف حاصل نہ کرنے کی ایک وجہ قومی بچتوں کا کم سطح پر ہونا ہے۔
آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے لئے تعلیم ، صحت اور انسانی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر زیادو رقوم مختص کرنا اب انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لئے بینکوں کی اصلاح، ٹیکسوں کے نظام کو منصفانہ بنانا اور کرپشن پر قابو پانا نیشنل ایکشن پلان کا لازمی حصہ ہونا چاہئے وگرنہ آپریشن ضرب عضب کے اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے۔
(5)
سندھ اور پنجاب میں بینکوں کی تمام شاخوں کا 2014ء میں بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس میں حصہ 76 فیصد اور قرضوں میں حصہ 91 فیصد تھا
اس کے مقابلے میں بلوچستان میں بینکوں کی برانچوں کا ڈپازٹس میں حصہ ۔ 0.62 فیصد اور قرضوں میں حصہ 0.067 تھا یعنی نہ ہونے کے برابر۔
پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی کامیابی کے لئے اسٹیٹ بینک کو بلوچستان میں بڑے پیمانے پر مائیکرو فنانس کے لئے فوری طور پر بینکوں کو اہداف دینا ہوں گے۔
مزید گزارشات ان شاء اللہ آئندہ
ح