سدرہ منتہا
رکن
- شمولیت
- ستمبر 14، 2011
- پیغامات
- 114
- ری ایکشن اسکور
- 576
- پوائنٹ
- 90
ہندوستان کے مایۂ ناز محدث حضرت مولانا انور شاہ کاشمیریؒ کے ایک لائق شاگرد مولانا علی احمدؒ بھی حدیث پر گہری نظر رکھتے تھے، آپ نہایت ہی معمولی اور کمزور جثے کے مالک تھے۔ چھوٹا سا قد ، سیاہی مائل رنگ، معمولی ناک نقشہ ، کمزور و ناتواں، بظاہر ان کی شخصیت میں کوئی کشش نہ تھی۔
ایک دن دورانِ درس بڑے تاثر کے ساتھ مزے لے لے کر اپنا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ واقعہ اس قدر سبق آموز تھا کہ آج تک اس کا اثر دل پر باقی ہے۔ مولانا نے بیان فرمایا:
’’ میں اعظم گڑھ میں مقیم تھا، عصر کی نماز پابندی سے شہر کی جامع مسجد میں پڑھتا تھا۔ نماز پڑھ کر جب مسجد سے نکلتا تو مسجد کی سیڑھیوں پر ایک نوجوان کھڑا ملتا، میں بے اختیار چند لمحے رک کر اسے رشک سے دیکھتا رہتا۔ نوجوان واقعی قدرت کا عجیب و غریب شاہ کار تھا ، بلند و بالا قد، متناسب اعضا، سرخ و سفید کھِلتا ہوا رنگ، دلکش ناک نقشہ، بہترین صحت۔
’’میں اسے دیکھتا تو اپنا وجود نہایت حقیر معلوم ہوتا ۔ احساسِ کمتری میں مبتلا، افسردہ اور مضمحل بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی راہ لیتا۔ راستے میں عجیب عجیب باتیں سوچتا۔ مجھے ایسا لگتا جیسے میرا دل حقیر اور اور معمولی جثے پر اللہ سے شکایت کر رہا ہو۔ میں کوشش کرکے خیالات جھٹک دیتا مگر اگلے روز یہ احساسات پھر کچھ اور زیادہ قوت کے ساتھ تازہ ہوجاتے۔
یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلتا رہا۔ میں مسجد سے باہر آتا۔ نوجوان کھڑا ملتا اور میں اشتیاق سے اس پر نظریں جما دیتا۔ نوجوان کی شخصیت بڑی ہی دلآویز تھی ،مگر اس نے کبھی مجھے نظر بھر کر نہ دیکھا، نہ میری طرف متوجہ ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی خاص فکر میں ہے۔ کبھی وہ فضا میں تاکتا جیسے اسے گہرے غم نے گھیر رکھا ہو، کبھی کسی سمت ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ وہ آنے جانے والوں سے بالکل ہی بے نیاز اپنی فکر میں مگن ہے۔
کافی دن بعد ایک روز میں حسبِ معمول مسجد سے باہر آرہا تھا کہ یکایک وہ میری طرف لپکا۔ میں ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا۔ میرے دل کی دھڑکن کسی قدر تیز ہوگئی ۔ جب وہ میرے قریب آیا تو مجھے اپنا بھدا اور کمزور وجود کچھ اور زیادہ حقیر معلوم ہونے لگا۔ نوجوان نے کسی تمہید کے بغیر بڑی عاجزی اور لجاجت سے کہا’’ مولانا صاحب ! آپ کی بڑی مہربانی ہوگی، مجھے کوئی دعا بتائیے یا کوئی تعویذ دے دیجیے ۔ شاید اللہ مجھ پر کرم فرمائے۔‘‘
میں حیرت سے اس کے یہ خلافِ توقع جملے سنتا رہا ۔ پھر میرے دماغ نے نہایت چابک دستی سے یہ فیصلہ کیا کہ نوجوان ضرور دل کے ہاتھوں مجبور ہے۔ مجھے دلچسپی ہوئی ۔ میں نے اس کے حسین چہرے کی طرف سر اٹھاتے ہوئے پوچھا’’بھائی آپ کس کام کے لیے دعا اور تعویذ مانگ رہے ہیں ؟ ‘‘
’’مولانا صاحب! میرے جسم کے ایک ایک جوڑ میں درد ہے، نہ بیٹھ سکتا ہوں نہ کوئی کام کر سکتا ہوں… برسوں سے علاج کرارہا ہوں، سیکڑوں ڈاکٹروں اور حکیموں کو دکھا چکا مگرکوئی افاقہ نہیں…روز بروز حالت خراب ہوتی جارہی ہے۔ گھر میں طبیعت گھبراتی ہے تو یہاں آکر کھڑا ہوجاتا ہوں۔ مولانا صاحب کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں۔ زندگی سے بیزار ہوں، مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ میری زندگی میں کوئی سُکھ نہیں ۔‘‘ نوجوان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو چھلک پڑے، آواز بھرا گئی اور کچھ دیر کے لیے وہ خاموش ہوگیا۔
’’میں حیران و ششدر یہ سب سن رہا تھا۔ کچھ دیرتو میں بت بنا خاموش کھڑا رہا اور پھر اسے کوئی جواب دیے بغیر اس طرح وہاں سے بھاگا جیسے میں نے کوئی بڑا جرم کیا ہو، میں نہایت تیز تیز قدموں سے چل رہا تھا۔ بے اختیار میری زبان پر شکر کے کلمات جاری تھے، آج مجھے اپنا مختصر سا وجود بڑا قیمتی محسوس ہورہا تھا۔ میری آنکھیں کھل گئی تھیں اور آج اللہ کے شکر میں وہ لذت تھی جو اس سے پہلے مجھے کبھی میسر نہیں آئی ۔‘‘
(مولانا یوسف اصلاحی کی تحریر کردہ کتاب "شعورِحیات" سے اقتباس )
ایک دن دورانِ درس بڑے تاثر کے ساتھ مزے لے لے کر اپنا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ واقعہ اس قدر سبق آموز تھا کہ آج تک اس کا اثر دل پر باقی ہے۔ مولانا نے بیان فرمایا:
’’ میں اعظم گڑھ میں مقیم تھا، عصر کی نماز پابندی سے شہر کی جامع مسجد میں پڑھتا تھا۔ نماز پڑھ کر جب مسجد سے نکلتا تو مسجد کی سیڑھیوں پر ایک نوجوان کھڑا ملتا، میں بے اختیار چند لمحے رک کر اسے رشک سے دیکھتا رہتا۔ نوجوان واقعی قدرت کا عجیب و غریب شاہ کار تھا ، بلند و بالا قد، متناسب اعضا، سرخ و سفید کھِلتا ہوا رنگ، دلکش ناک نقشہ، بہترین صحت۔
’’میں اسے دیکھتا تو اپنا وجود نہایت حقیر معلوم ہوتا ۔ احساسِ کمتری میں مبتلا، افسردہ اور مضمحل بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی راہ لیتا۔ راستے میں عجیب عجیب باتیں سوچتا۔ مجھے ایسا لگتا جیسے میرا دل حقیر اور اور معمولی جثے پر اللہ سے شکایت کر رہا ہو۔ میں کوشش کرکے خیالات جھٹک دیتا مگر اگلے روز یہ احساسات پھر کچھ اور زیادہ قوت کے ساتھ تازہ ہوجاتے۔
یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلتا رہا۔ میں مسجد سے باہر آتا۔ نوجوان کھڑا ملتا اور میں اشتیاق سے اس پر نظریں جما دیتا۔ نوجوان کی شخصیت بڑی ہی دلآویز تھی ،مگر اس نے کبھی مجھے نظر بھر کر نہ دیکھا، نہ میری طرف متوجہ ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی خاص فکر میں ہے۔ کبھی وہ فضا میں تاکتا جیسے اسے گہرے غم نے گھیر رکھا ہو، کبھی کسی سمت ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ وہ آنے جانے والوں سے بالکل ہی بے نیاز اپنی فکر میں مگن ہے۔
کافی دن بعد ایک روز میں حسبِ معمول مسجد سے باہر آرہا تھا کہ یکایک وہ میری طرف لپکا۔ میں ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا۔ میرے دل کی دھڑکن کسی قدر تیز ہوگئی ۔ جب وہ میرے قریب آیا تو مجھے اپنا بھدا اور کمزور وجود کچھ اور زیادہ حقیر معلوم ہونے لگا۔ نوجوان نے کسی تمہید کے بغیر بڑی عاجزی اور لجاجت سے کہا’’ مولانا صاحب ! آپ کی بڑی مہربانی ہوگی، مجھے کوئی دعا بتائیے یا کوئی تعویذ دے دیجیے ۔ شاید اللہ مجھ پر کرم فرمائے۔‘‘
میں حیرت سے اس کے یہ خلافِ توقع جملے سنتا رہا ۔ پھر میرے دماغ نے نہایت چابک دستی سے یہ فیصلہ کیا کہ نوجوان ضرور دل کے ہاتھوں مجبور ہے۔ مجھے دلچسپی ہوئی ۔ میں نے اس کے حسین چہرے کی طرف سر اٹھاتے ہوئے پوچھا’’بھائی آپ کس کام کے لیے دعا اور تعویذ مانگ رہے ہیں ؟ ‘‘
’’مولانا صاحب! میرے جسم کے ایک ایک جوڑ میں درد ہے، نہ بیٹھ سکتا ہوں نہ کوئی کام کر سکتا ہوں… برسوں سے علاج کرارہا ہوں، سیکڑوں ڈاکٹروں اور حکیموں کو دکھا چکا مگرکوئی افاقہ نہیں…روز بروز حالت خراب ہوتی جارہی ہے۔ گھر میں طبیعت گھبراتی ہے تو یہاں آکر کھڑا ہوجاتا ہوں۔ مولانا صاحب کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں۔ زندگی سے بیزار ہوں، مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ میری زندگی میں کوئی سُکھ نہیں ۔‘‘ نوجوان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو چھلک پڑے، آواز بھرا گئی اور کچھ دیر کے لیے وہ خاموش ہوگیا۔
’’میں حیران و ششدر یہ سب سن رہا تھا۔ کچھ دیرتو میں بت بنا خاموش کھڑا رہا اور پھر اسے کوئی جواب دیے بغیر اس طرح وہاں سے بھاگا جیسے میں نے کوئی بڑا جرم کیا ہو، میں نہایت تیز تیز قدموں سے چل رہا تھا۔ بے اختیار میری زبان پر شکر کے کلمات جاری تھے، آج مجھے اپنا مختصر سا وجود بڑا قیمتی محسوس ہورہا تھا۔ میری آنکھیں کھل گئی تھیں اور آج اللہ کے شکر میں وہ لذت تھی جو اس سے پہلے مجھے کبھی میسر نہیں آئی ۔‘‘
(مولانا یوسف اصلاحی کی تحریر کردہ کتاب "شعورِحیات" سے اقتباس )