• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شکر کرو

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
شکر صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے بھی کرنا چاہیے
اس کا بہترین طریقہ نماز کی بروقت ادائیگی ہے ۔
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ۔سورۃابراہیم آیت 7
اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔


نماز کی اہمیت کا تو کوئی مول ہی نہیں،،،،،،لیکن

زبان بھی تو بڑی اہمیت رکھتی ہے، زیادہ خرابیاں ہماری زبان ہمارے کلمات ہی تو ہیں۔ اگر ہم ہر چیز میں ہر حال میں زبان سے شکرانے کے کلمات اداکریں تو بہت بڑے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہے۔ ایسی بیماری جو ہمارے دلوں کو روز بہ روز کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہےجو ہماری زبان پر شکوہ کے علاوہ اور کچھ آنے ہی نہیں دیتی، اگر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنے کی عادت نہ ہو تو ہمیں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی بھی عادت نہیں پڑتی۔

حضرت لقمان کا ایک واقعہ ہے میں وہ شکر کے حوالے سے رقم کررہا ہوں

حضرت لقمان کسی سردارکے یہاں ملازم تھے آپکے اعلی اخلاق وکردار کی وجہ سے آپ کاسردار آپسے محبت کرنے لگاوہ اُس وقت تک نہ کھاتا جب تک پہلے حضرت لقمان نہ کھالیتے وہ سردار آپ کے چھوڑے ہوئے کھانے سے ہی کھالینا اپنی سعادت سمجھتا ایک دن سردار کے پاس خربوزہ آیا سرادر نے حضرت لقمان کو بلواکر خود کاٹ کاٹ کر انھیں قاشیں دینے لگا اور بڑی محبت بھری ادا کیساتھ حضرت کوکھاتا دیکھ کر خوش ہو رہاتھا حضرت لقمان بھی مسکراکر اسکی محبت کا جواب دے رہے تھے ایک قاش باقی رہ گی تو سردار نے کہا اجازت ہو یہ میں کھالوں آپ نے اجازت دیدی اسنے وہ قاش منہ میں رکھی وہ اتنی کڑوی تھی کہ سردار کےمنہ میں چھالے پڑ گے اور وہ نازک طبع بے ہوش ہوگیا جب افاقہ ہواتو عرض کی اے میرے محبوب آ پنے اسکی کڑواہٹ کسطرح برداشت کی۔
حضرت لقمان نے فرمایا میرے آقاآپکے ہاتھ سے ہزاروں نعمتیں کھائی ہیں جنکے شکر سے میری کمر جھک گی اسی ہاتھ سے آج اگر کڑوی چیز مل رہی ہے تو میں منہ کیوں پھیردوں۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

ہم سوچیں لاکھوں نعمتیں ہمیں روز مل رہی ہیں اگر ذرا تکلیف آجائے، ہم فورا ناشکرے بن جاتے ہیں اسکے انعامات کو بھول جاتے ہیں اللہ حکیم بھی ہے حاکم بھی اور حکیم مرض کےموافق ہی دوادیتا ہے کبھی دوائی میں حلوا کبھی بادام اور کبھی گلو اور نیم کے پتے کھلادیتاہے دونوں حالتوں میں فائدہ مریض ہی کاہوتا ہے۔
جب دنیا کے مصائب پر صبر کے عوض قیامت کےدن ثواب ملےگا توہر تمنا کرے گا کاش دنیا میں میری کھال قینچی سے کاٹ دیجاتی اگر ہمیشہ عافیت رہے تو مزاج عبدیت سے ہٹنا شروع ہو جاتا ہے بغیر تکلیف کے آہ وزاری پیدا نہیں ہوتی حدیث قدسی ہے۔
انا عند المنکسرت قلوبھم..... میں ٹوٹے دلوں کے پاس رہتا ہوں...
بندہ کاکام ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرنا ہے۔

مزیدلنک
ہمیں ہرحال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ۔سورۃابراہیم آیت 7
اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔


نماز کی اہمیت کا تو کوئی مول ہی نہیں،،،،،،لیکن

زبان بھی تو بڑی اہمیت رکھتی ہے، زیادہ خرابیاں ہماری زبان ہمارے کلمات ہی تو ہیں۔ اگر ہم ہر چیز میں ہر حال میں زبان سے شکرانے کے کلمات اداکریں تو بہت بڑے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہے۔ ایسی بیماری جو ہمارے دلوں کو روز بہ روز کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہےجو ہماری زبان پر شکوہ کے علاوہ اور کچھ آنے ہی نہیں دیتی، اگر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنے کی عادت نہ ہو تو ہمیں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی بھی عادت نہیں پڑتی۔

حضرت لقمان کا ایک واقعہ ہے میں وہ شکر کے حوالے سے رقم کررہا ہوں

حضرت لقمان کسی سردارکے یہاں ملازم تھے آپکے اعلی اخلاق وکردار کی وجہ سے آپ کاسردار آپسے محبت کرنے لگاوہ اُس وقت تک نہ کھاتا جب تک پہلے حضرت لقمان نہ کھالیتے وہ سردار آپ کے چھوڑے ہوئے کھانے سے ہی کھالینا اپنی سعادت سمجھتا ایک دن سردار کے پاس خربوزہ آیا سرادر نے حضرت لقمان کو بلواکر خود کاٹ کاٹ کر انھیں قاشیں دینے لگا اور بڑی محبت بھری ادا کیساتھ حضرت کوکھاتا دیکھ کر خوش ہو رہاتھا حضرت لقمان بھی مسکراکر اسکی محبت کا جواب دے رہے تھے ایک قاش باقی رہ گی تو سردار نے کہا اجازت ہو یہ میں کھالوں آپ نے اجازت دیدی اسنے وہ قاش منہ میں رکھی وہ اتنی کڑوی تھی کہ سردار کےمنہ میں چھالے پڑ گے اور وہ نازک طبع بے ہوش ہوگیا جب افاقہ ہواتو عرض کی اے میرے محبوب آ پنے اسکی کڑواہٹ کسطرح برداشت کی۔
حضرت لقمان نے فرمایا میرے آقاآپکے ہاتھ سے ہزاروں نعمتیں کھائی ہیں جنکے شکر سے میری کمر جھک گی اسی ہاتھ سے آج اگر کڑوی چیز مل رہی ہے تو میں منہ کیوں پھیردوں۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

ہم سوچیں لاکھوں نعمتیں ہمیں روز مل رہی ہیں اگر ذرا تکلیف آجائے، ہم فورا ناشکرے بن جاتے ہیں اسکے انعامات کو بھول جاتے ہیں اللہ حکیم بھی ہے حاکم بھی اور حکیم مرض کےموافق ہی دوادیتا ہے کبھی دوائی میں حلوا کبھی بادام اور کبھی گلو اور نیم کے پتے کھلادیتاہے دونوں حالتوں میں فائدہ مریض ہی کاہوتا ہے۔
جب دنیا کے مصائب پر صبر کے عوض قیامت کےدن ثواب ملےگا توہر تمنا کرے گا کاش دنیا میں میری کھال قینچی سے کاٹ دیجاتی اگر ہمیشہ عافیت رہے تو مزاج عبدیت سے ہٹنا شروع ہو جاتا ہے بغیر تکلیف کے آہ وزاری پیدا نہیں ہوتی حدیث قدسی ہے۔
انا عند المنکسرت قلوبھم..... میں ٹوٹے دلوں کے پاس رہتا ہوں...
بندہ کاکام ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرنا ہے۔

مزیدلنک
ہمیں ہرحال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
جزاکم اللہ خیرا!
ازراہِ کرم سیدنا لقمان﷤ والے قصّے کا ریفرنس دے دیجئے!
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
جزاکم اللہ خیرا!
ازراہِ کرم سیدنا لقمان﷤ والے قصّے کا ریفرنس دے دیجئے!
میں نے کافی جگہوں پر پڑھا تھا لیکن جاندار ریفرنس مجھے بھی نہیں ملا
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَهُوَ يَعِظُهٗ يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ 13 ؀
(Remember) when Luqman said to his son, while he was advising him, :My dear son, do not ascribe partners to Allah. Indeed, ascribing partners to Allah (shirk) is grave transgression

.
يٰبُنَيَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ 16؀


(Luqman went on saying to his son,) :My dear son, in fact, if there be anything to the measure of a grain of rye, and it be (hidden) in a rock or in the heavens or in the earth, Allah will bring it forth. Surely, Allah is All-Fine, All-Aware.
يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ 17۝ۚ
My dear son, establish Salah , and bid the Fair and forbid the Unfair, and observe patience on what befalls you. Surely, this is among the matters of determination;
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ 18؀ۚ
and do not turn your cheek away from people, and do not walk on the earth haughtily. Surely, Allah does not like anyone who is arrogant, proud;
وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ 19؀ۧ
and be moderate in your walk, and lower your voice. Surely, the ugliest of voices is the voice of the donkeys.
اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً ۭ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ 20؀
Have you not seen that Allah has subjugated for you what is in the heavens and what is on the earth, and has perfected His blessings on you, both outward and inward? But among people there are those who debate about Allah with no knowledge, no guidance and no book to enlighten.
sura loqman 13,16,17,18,19 ,20
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
دفعہ حضرت لقمان نے چند نصیحتیں اپنے بیٹے کو فرمائیں کہ وہ اتنی اہم تھیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا۔ دنیا میں اولاد ہی ایک ایسا رشتہ ہے جس کے متعلق انسان انتہائی خلوص برتتا ہے اور نفاق نہیں کرسکتا۔ اور اولاد ہی کے متعلق اس کی آرزو ہوسکتی ہے کہ وہ ہر بھلائی کی بات میں اس سے آگے نکل جائے۔ حتیٰ کہ ایسی آرزو انسان اپنے حقیقی بہن بھائیوں اور دوستوں تک سے بھی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ پہلی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وہ یہ تھی کہ اللہ کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہ بنانا۔ کیونکہ دنیا میں سب سے بڑی ناانصافی اور اندھیر کی بات یہی شرک ہی ہے۔ شرک مجسم ظلم اور سب سے برا ظلم ہے۔ جیساکہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب (سورہ انعام کی) یہ آیت اتری۔(اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ 82؀ۧ) 6-الانعام:82) تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بہت شاق گزری۔ وہ کہنے لگے ''ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ایمان کے ساتھ ظلم (یعنی کوئی گناہ) نہ کیا ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتلایا کہ اس آیت میں ظلم سے ہر گناہ مراد نہیں ہے (بلکہ شرک مراد ہے) کیا ہم نے لقمان کا قول نہیں سنا۔ جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا۔ ان الشرک لظلم عظیم (بخاری۔ کتاب التفسیر)
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اہل مکہ ایک طرف تو لقمان حکیم کے حکیم اور دانا ہونے کے قائل تھےؑ، دوسری طرف شرک میں بھی بری طرح مبتلا تھے۔ انہیں بتلایا جارہا ہے۔ کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصحیتیں کی تھیں ان میں سرفہرست شرک سے ان کی نفرت اور بیزاری تھی۔ کیونکہ اللہ کے بندے پر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے۔ جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماذ بن جبل سے فرمایا: ''تجھے معلوم ہے کہ اللہ کا اس کے بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟'' حضرت معاذ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ : ''اللہ اور اس کا پیغمبر ہی خوب جانتے ہیں'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'': اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو بندہ شرک نہ کرتا ہو اللہ اسے عذاب نہ کرے'' (ہمیشہ دوزخ میں نہ رکھے) میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا میں لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سنا دوں؟'' فرمایا: ایسا نہ کرو ورنہ وہ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے'' (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب اسم الفرس والحمار)
 
Top