• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہادت کی انگلی تشہد میں کھڑی کرنے کے بارے میں سوال

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اس معاملے میں میرا بھی ایک شبہ ھے، جو میں علماء کی موجودگی دور کرنا چاھوں گا۔

شیخ صالح المنجد(رحمۃاللہ)، اور شیخ ابن اثیمین (رحمۃ اللہ)، کے فتوے کے متابق، اس حدیث میں صرف دعا کے دوران ھی انگلی سے اشارہ کرنا مطلوب ھے۔

تو کیا یہ سحیح ھے؟

یہ رھا ان کا مکمل فتویٰ:

تشھد ميں انگلى كو حركت دينا​

ميں نے بعض نمازيوں كو ديكھا ہے كہ تشھد ميں اپنى انگشت شہادت اوپر نيچے ہلاتے ہيں، كيا ايسا كرنا سنت ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نماز ميں تشھد كے اندر اپنى انگشت شہادت سے اشارہ كرتے اور اسے حركت ديتے تھے، اس ميں اہل علم كا اختلاف اور كئى ايك اقوال ہيں:

1 - احناف كے ہاں انگلى كو تشھد ميں اس وقت اٹھايا جائيگا جب اشھد ان لا الہ ميں ميں لا كہا جائے، اور اس كے بعد انگلى نيچے كر لى جائيگى.
2 - شافعى حضرات كہتے ہيں كہ: الا اللہ كے وقت انگلى اٹھائى جائيگى.
3 - اور مالكيوں كے ہاں نماز سے فارغ ہونے تك انگلى دائيں بائيں حركت دى جائيگى.
4 - اور حنابلہ كے ہاں يہ ہے كہ جب بھى لفظ جلالہ " اللہ " كہا جائے انگلى سے اشارہ كيا جائيگا ليكن حركت نہيں دى جائيگى.

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: سنت ميں ان تحديدات اور كيفيات كى كوئى اصل اور دليل نہيں ہے، اور اگر لفظ جلالہ كے وقت حركت كى قيد نہ لگائيں تو سب سے قريب مذہب حنابلہ كا ہے.
ديكھيں: تمام المنۃ صفحہ نمبر ( 223 ).

دوم:
اس مسئلہ ميں دلائل:

ا ۔ عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں بيٹھتے تو اپنا باياں پاؤں ران اور پنڈلى كے درميان كرتے، اور داياں پاؤں بچھاتے اور اپنا باياں ہاتھ بائيں گھٹنے اور داياں ہاتھ دائيں ران پر ركھتے، اور اپنى انگلى كے ساتھ اشارہ كرتے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 579 ).

اور نسائى اور ابو داود ميں ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب دعاء كرتے تو اپنى انگلى كے ساتھ اشارہ كرتے، اور اسے حركت نہيں ديتے تھے "
سنن نسائى حديث نمبر ( 1270 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 989 ) اور اسے حركت نہيں ديتے تھے، والے زيادہ الفاظ كو زاد المعاد ميں ابن قيم اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے تمام المنۃ ميں ضعيف كہا ہے.
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 238 ) اور تمام المنۃ صفحہ نمبر ( 218 ).

ب۔ وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے كہا ميں ضرور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھوں گا كہ وہ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں:
" چنانچہ ميں نے ديكھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير كہى اور اپنے دونوں ہاتھ كانوں تك بلند كيے ( يعنى رفع اليدين كيا ) پھر اپنا داياں ہاتھ اپنى بائيں ہتھيلى اور جوڑ اور كلائى پر ركھا، اور جب ركوع كرنا چاہا تو پھر اسى طرح رفع اليدين كيا.

راوى كہتے ہيں: اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر ركھے، اور پھر جب ركوع سے سر اٹھايا تو اسى طرح رفع اليدين كيا، پھر سجدہ كيا اور اپنے دونوں ہاتھ كانوں كے برابر كيے، اور پھر بيٹھے تو اپنا باياں پاؤں بچھايا اور اپنى دائيں ہتھيلى اپنى بائيں ران اور گھٹنے پر ركھى، اور اپنى دائيں كہنى كى حد اپنى دائيں ران پر ركھى پھر اپنى دو انگلياں بند كيں اور حلقہ بنايا اور پھر اپنى انگلى اٹھائى تو ميں نے ديكھا كہ اسے حركت دے رہے اور اس كے ساتھ دعاء كر رہے تھے"
سنن نسائى حديث نمبر ( 889 ) ابن حبان ( 5 / 170 ) ابن خزيمہ نے صحيح ابن خزيمہ ( 1 / 354 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 367 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث " اسے حركت دے كر دعاء كر رہے تھے "سے يہ استدلال كيا ہے كہ تشھد ميں ہر دعائيہ جملہ پر انگلى كو حركت دى جائيگى.

الشرح الممتع ميں كہتے ہيں:
" سنت اس پر دلالت كرتى ہے كہ دعاء كے وقت انگلى كے ساتھ اشارہ كرے، كيونكہ حديث كے لفظ ہيں: " اسے حركت دے كر دعاء كر رہے تھے " چنانچہ جب بھى آپ دعاء كريں تو انگلى كے ساتھ اوپر كى طرف اللہ سبحانہ وتعالى كى طرف اشارہ كريں، اس سے دعاء كى مانگى جارہى ہے، اس ليے ہم كہتے ہيں كہ:

السلام عليك ايہا النبى ۔ يہاں انگلى كو حركت دے كر اشارہ كيا جائيگا كيونكہ السلام خبر ہے جو كہ دعاء كے معنى ميں ہے.
السلام علينا: اس ميں بھى اشارہ ہو گا.
اللہم صلى على محمد : يہاں بھى انگلى كو ہلايا جائيگا.
اللہم بارك على محمد: اس ميں بھى اشارہ كرتے ہوئے انگلى كو حركت ديں.
اعوذ باللہ من عذاب جہنم: اس ميں بھى اشارہ اور انگلى كو حركت دى جائيگى.
و من عذاب القبر: يہاں بھى حركت ديں.
و من فتنۃ المحيا و الممات: يہاں بھى اشارہ اور حركت ہو گى.
و من فتنۃ مسيح الدجال: اس ميں بھى اشارہ كرينگے.
اور جب بھى آپ دعاء كريں انگلى كے ساتھ اوپر كى جانب جس سے آپ دعاء كر رہے ہيں اشارہ كريں، يہى سنت كے زيادہ قريب ہے. اھ۔

سوم:

سنت يہ ہے كہ انگلى كے ساتھ اشارہ اور حركت ديتے ہوئے انگشت شہادت كى طرف ديكھا جائے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" سنت يہ ہے كہ اس كى نظر اس كے اشارہ سے تجاوز نہ كرے، اس كے متعلق سنن ابو داود ميں صحيح حديث موجود ہے، اور قبلہ كى جانب اس سے اشارہ كرے اور اس ميں توحيد اور اخلاص كى نيت ہونى چاہيے "
ديكھيں: شرح مسلم ( 5 / 81 ).

جس حديث كى طرف امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اشارہ كيا ہے يہ عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہما كى مندرجہ بالا حديث ہے، ابو داود ميں اس كے الفاظ اس طرح ہيں:
" اس كى نظر اشارہ سے تجاوز نہ كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 989 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چہارم:

سنت يہ ہے كہ انگلى كے ساتھ قبلہ كى جانب اشارہ كيا جائے.
عبد اللہ بن عمررضى اللہ تعالى عنہما نے ايك شخص كو نماز ميں ہاتھ كے ساتھ كنكرياں ہلاتے ہوئے ديكھا، اور جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اسے فرمايا:
" تم نماز ميں كنكريوں كو حركت نہ ديا كرو، كيونكہ يہ شيطان كى جانب سے ہے، ليكن تم اس طرح كيا كرو جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كيا كرتے تھے.
راوى كہتے ہيں: چنانچہ انہوں نے اپنا داياں ہاتھ اپنى ران پر ركھا اور انگوٹھے كے ساتھ والى انگلى سے قبلہ كى جانب اشارہ كرنے لگے، اور اپنى نظر بھى انگلى كى طرف كرلى، پھر فرمانے لگے:
" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايسا كرتے ہوئے ديكھا "
سنن نسائى حديث نمبر ( 1160 ) ابن خزيمہ ( 1 / 355 ) ابن حبان ( 5 / 273 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

پنجم:

اشارہ كرتے ہوئے انگلى كو ٹيڑھا كرنا، يہ نمير الخزاعى كى حديث ميں آيا ہے جو ابو داود حديث نمبر ( 991 ) اور سنن نسائى حديث نمبر ( 1274 ) ميں موجود ہے، ليكن يہ حديث ضعيف ہے.
ديكھيں: تمام المنۃ للالبانى صفحہ نمبر ( 222 ).

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
1۔ لفظ ’تحریک‘ سے باربار کی حرکت ثابت ہوتی ہے لیکن آپ کا موقف صرف بار بار کی حرکت نہیں ہے بلکہ مکمل تشہد میں استمرار اور تسلسل کے ساتھ بار با ر کی حرکت ہے۔ میں نے یہی بات واضح کی تھی کہ بعض اہل علم اسےیعنی ’تحریک‘ کو ’مہملہ‘ کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ تشہد میں اس کی جگہ متعین نہیں ہے۔
2۔ قیاس صحیح کا معلوم نہیں آپ کیا معنی لیتے ہیں کیونکہ آپ ہر مسئلہ میں اپنی تحقیق کے قائل ہیں۔ جہان تک اصولیین کا معاملہ ہے تو ان کے نزدیک قیاس صحیح کےارکان مقیس، مقیس علیہ، علت اور حکم ہیں۔ ان ارکان کے علاوہ قیاس صحیح کا کوئی تصور اصولیین میں نہیں ہے۔ آپ نے ماشا ء اللہ ! امام ابن حزم رحمہ اللہ پر خوب تحقیق کی ہو گی ۔ہماری اصلاح کے لیے ان کے قیاس صحیح کے تصور میں ذرا مقیس، مقیس علیہ، علت اور حکم کی بحث یا کم ازکم علت اور اس کے انتقال کی تائید ہی دکھا دیں۔ہمیں سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے، اس سے انکار نہیں ہے۔
3۔ بحث کا مقصود آپ کی رائے کو غلط ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ ہمارا یہ موقف ہے کہ اجتہادی معاملات میں اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے اور اسے برداشت کرنا چاہیے تھے۔ ہمارے نزدیک اپنی تحقیق راجح اور دوسرے کی قابل احترام ہوتی ہے۔ لیکن آپ کا اسلوب بیان یہ تھا کہ آپ اپنی رائے میں خطا کے احتمال کے بھی قائل نہیں ہیں جس کی وجہ سے آپ دوسرے ائمہ یا اہل الحدیث علماء کی رائے کوکبھی ’ضعیف“ اور کبھی ’شاذ‘ نقل کر دیتے ہیں۔اگر آپ اجتہادی مسائل میں اپنی رائے کو محتمل الخطا اور دوسرے ائمہ اور علماء کی رائے کو محتمل الصواب سمجھتے ہیں تو ہمارا اختلاف پھر لفظی ہے۔
4۔ حدیث کے بارے میں اہل علم کا یہ اتفاق ہے کہ وہ بالمعنی نقل ہوئی ہے یعنی اس میں الفاظ کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن آپ کے الفاظ ہو بہو محفوظ نہیں ہیں بلکہ آپ کا معنی محفوظ ہے۔ جس شخص نے بھی صحیح مسلم یا دوسری کتب احادیث میں ایک ہی حدیث کے متعدد طرق کامطالعہ کیا ہو تو اس پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حدیث کے بیان میں راویان میں الفاظ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نقل کرتے ہوئے اختلاف نقل ہو جاتا ہے۔
آپ نے حدیث میں ایک لفظ ’فاء‘ پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھی ہے ۔ پس یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ حدیث کے الفاظ سے استدلال کیاجا سکتا ہے لیکن چونکہ اس میں کسی لفظ کے بارے یہ احتمال قوی طور پر موجود ہوتا ہے کہ وہ لفظ آپ یاصحابی کا نہ ہو بلکہ بعد کے کسی راوی نے بیان روایت میں اپنی طرف سے کوئی مترادف استعمال کر دیا ہو ، تو الفاظ حدیث سے یہ استدلال ظنی درجہ کا ہو جاتا ہے ۔ اور ہمارا مقصود بھی یہی ہے کہ آپ کی رائے ظنی ہے اور ظن کا احتمال رکھنے والی رائے محتمل الخطا ہوتی ہے۔ اور محتمل الخطارائے کے حامل کو اتنی سختی اور تشدد زیب نہیں دیتا ہے۔مقصود صرف یہی ہے ، اپنی تحقیق پر عمل کریں اور دوسروں کی رائے کاحترام کریں۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
۱۔ جب حدیث میں لفظ یدعو بہا موجود ہیں تو اسے مہملہ کہنا قرین قیاس کے خلاف ہے ۔
۲۔قیاس کے یہی ارکان ہوتے ہیں مقیس مقیس علیہ اور علت مشترکہ منصوص علیہا یا بدیہیہ ۔ رہے ابن حزم تو میں نے انہیں زیادہ نہیں پڑھا۔ اور ابن حزم کا قیاس کے بارہ میں موقف میں جلد ہی پیش کردوں گا ۔ إن شاء اللہ تعالى۔
۳۔ ہر مجتہد اپنے موقف کو ہی درست اور دوسرے کے موقف کو غلط سمجھتا ہے ۔ لیکن اپنے موقف کو صحیح سمجھنے کے باوجودمحتمل الخطأ اور دوسرے کے موقف کو محتمل الصواب بھی سمجھتا ہے ۔
اور اسی بناء پر دوسرے کے موقف کو ضعیف اور شاذ اور غیر صحیح لکھتے اور کہتے ہیں ۔
۴۔ حدیث کا معنى جب محفوظ ہے تو اسی معنى کی بناء پر ہی ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ تعیقب مع الوصل کا معنى محفوظ ہے جسے ادا کرنے کے لیے عربی لغت میں لفظ " ف " استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہاں اگر لفظ " ثم " استعمال کیا جائے تو معنى تعقیب مع التراخی بن جاتا ہے ۔ یعنی تعقیب مع الوصل کا معنى بصورت لفظ " ف " محفوظ ہے ۔ فتدبر !!!
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
اس معاملے میں میرا بھی ایک شبہ ھے، جو میں علماء کی موجودگی دور کرنا چاھوں گا۔

شیخ صالح المنجد(رحمۃاللہ)، اور شیخ ابن اثیمین (رحمۃ اللہ)، کے فتوے کے متابق، اس حدیث میں صرف دعا کے دوران ھی انگلی سے اشارہ کرنا مطلوب ھے۔

تو کیا یہ سحیح ھے؟
اولا : اس حدیث میں حرکت کو صرف دعاء کے ساتھ خاص کرنے کی دلیل موجود نہیں کیونکہ علاوہ از دعاء حرکت کی ممانعت نہیں ۔
ثانیا : اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ حرکت دعاء کے وقت ہی دینی چاہیے تو بھی اس سے سارے تشہد میں حرکت ثابت ہو جاتی ہے کیونکہ تشہد میں اللہ کی حمد وثناء کے بعد دعاء کا آغاز ہو جاتا ہے اور آخر تک رہتا ہے ۔ غور فرمائیں کہ اپنے لیے تمام اہل ایمان کے لیے اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے سلامتی کی دعاء بھی تو دعاء ہی ہے اسی طرح درود بھی تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے دعائے رحمت ومغفرت ہی ہے اور اسکے بعد دعاء پھر دعاء ہی ہے ۔
خوب سمجھ لیں ۔
 
Top