الطاف الرحمن
رکن
- شمولیت
- جنوری 13، 2013
- پیغامات
- 63
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 64
شہرت طلبی کی نحوست اور ایک داعی کی ذمہ داری
تحریر: الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی
بہتوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ فیس بک اور سوشل میڈیا پر شہرت طلبی کے مذموم ارادے سے جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔۔ یعنی ان کا اصل مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ شہرت مل جائے۔
اس مقصد کے حصول میں وہ سیاسی پارٹیوں کی طرح ہر پینترے کھیلتے ہیں ، ان کا ہر مضمون اور پیغام ریاکاری اور مکاری کا شاہکار ہوتا یے۔
کچھ اپنا یہ گھناؤنا خواب دوسروں کے مضامین اپنی طرف منسوب کرکے پورا کرتے ہیں ، اور بعض صاحب تحریر کا نام حذف کرکے ( علمی خیانت کا مجرم بن کر) واہ واہی لوٹنے کو شرف سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہیں جس قدر لائک اور کمنٹس کی پرواہ ہوتی ہے یا خوشی ملتی ہے اس کے علاوہ کسی اور چیز کی پرواہ نہیں ہوتی۔۔۔
میرے بھائیو!! یہ بہت بڑا فتنہ ہے ، یہ ریا کاری ہے جس سے آپ کو معمولی دنیاوی فائدے تو ہو سکتے ہیں مگر اللہ کے یہاں آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ۔۔اور دعوت دین اللہ کی محبوب ترین عبادت ہے ، لیکن اس میں ریا ، شہرت اور نام و نمود اگر پیدا ہوجائے تو یہی محبوب عبادت وبال جان بن جاتی ہے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " انما الاعمال بالنيات " اللہ ! بندے کے عمل سے زیادہ اس کی نیت کو دیکھتا ہے۔
اور فرمایا: " إني أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر " قالوا وما الشرك الأصغر ؟ قال:" الريا"... [السلسلة الصحيحة للألباني: 951 اسناده جيد] مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر شرک اصغر کا ہے ، صحابہ نے پوچھا کس شرک اصغر سے؟ آپ نے فرمایا: ریا کاری سے۔
صحیح مسلم میں ہے اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) عالم ، مالدار اور مجاہد کے بارے میں قیامت کے روز سب سے پہلے فیصلہ ہوگا ، تینوں نے دنیا میں بظاہر بڑے نیک کام کئے ہوں گے ، عالم علم حاصل کرکے دوسروں کو سکھایا ہوگا ، مالدار اپنے مال و زر کو اللہ کے تمام راستہ میں خرچ کیا ہوگا ، مجاہد اسلامی جہاد میں مارا گیا ہوگا ۔۔۔ الغرض تینوں نے بظاہر نیک اعمال کئے مگر ایک غلطی نے زندگی بھر کئے گئے اعمال کو برباد کرکے جہنم رسید کر دیا ہوگا ، معلوم ہے وہ غلطی کیا ہے ؟ ریا کاری ، شہرت طلبی ، واہ واہی ، لوگوں میں اپنا شمار بڑوں میں کرانے کا خواب ! ۔۔۔
ریا کاری کے ذریعہ ہمیں دنیا میں وقتی اور معمولی فائدہ ممکن ہے ہوجائے ، مگر یاد ریے اس کے بعد ہمیشہ کے لئے رسوائی یقینی یے۔
لہذا ہمیں ہر کام میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کا طلبگار ہونا چاہئے ، امت کی اصلاح کی تڑپ بھی صرف اس لئے ہو کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے ۔۔ اس سوچ کے ساتھ کام کرنے والوں کو اللہ دنیا وآخرت دونوں جگہ بہترین کامیابی سے نوازے گا۔
ہم مسلمان ہیں ، لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ امت کی اصلاح کی فکر کریں ، سوشل میڈیا اور دیگر دعوتی پلیٹ فارم کا استعمال عوام کو صحیح تعلیم سے روشناس کرانے کے لئے کریں ۔ امت کی اصلاح کی خاطر ہمارے دلوں میں درد ہونی چاہئے۔۔
کیونکہ آج کا ہر بڑا دعوتی پلیٹ فارم چاہے وہ "شوسل میڈیا" ہو یا کوئی اور پلیٹ فارم سب پر غیر اسلامی نظریات کا غلبہ ہے, اپنے مکتبہ فکر کے کم پڑھے لکھے لوگ بھی ایسے نظریات سے کافی متاثر ہو رہے ہیں, اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں شیطانی تنظیموں کی طرف سے بکثرت مواد فراہم ہو رہے ہیں .... وہ بھی اسلامی اسلوب میں... تاکہ انہیں با آسانی اپنے چنگل میں پھانس سکیں.۔
یہ ایک عام سی بات ہوگئی ہے جس کا مشاہدہ ہم آئے دن کرتے رہتے ہیں ، کبھی کوئی دہشت گرد تنظیم کو مضبوطی دینے کے لئے فضائل جہاد کے نصوص کا سہارا لے کر عوام کو اپنے فیور میں لے رہا رہے ، تو کہیں عوام کے جذبہ عبادت کا فائدہ اٹھا کر متصوفانہ نظریہ میں انہیں دین کا تصور کرایا جاتا یے۔ کہیں اسلام کے نام پر شرک کے فروغ کا بازار عام یے، تو کوئی عیسی مسیح کا دعوٰی کرے عوام کو گمراہ کررہا ہے ، کہیں مرزائیت کی تبلیغ ہورہی ہے ، تو کہیں انکار حدیث کا ماحول رواج پر ہے۔۔۔ وغیرہ
الغرض راہ حق سے بھٹکی ساری دشمن تنظیمیں عوام کی جہالت کا خوب خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔۔۔ اور ہم سبھی ان دشمنوں کے نشانہ پر ہیں ۔۔۔
ایسے میں اگر بچے کھچے چند فیصد سلفی علماء بھی سیاسی, تفریحی اور واہ واہی والے مضامین لکھنے اور بولنے میں اپنی انرجی صرف کرتے دکھائی دیں ( جبکہ ایسے مضامین لکھنے اور بولنے والوں کی کسی بھی طبقہ میں کمی نہیں.) تو پھر امت کی اصلاح کے لئے دعوتی پلیٹ فارم کو صحیح رخ دینے کی کس سے امید کی جا سکتی ہے۔؟؟
مشین خراب ہوجائے تو اس کی اصلاح کے لئے انجینئر کی ضرورت پڑتی ہے ، اگر انجینئر اس کی اصلاح نہ کرے تو وہ کباڑ خانہ کا حصہ بن جاتی ہے جسے کچھ دنوں بعد پگھلا کر دوسری چیز بنا دی جاتی ہے ۔۔۔ ایسے ہی جب عوام گمراہی کا شکار ہو جائے تو اس کی اصلاح کے لئے عالم کی ضرورت پڑتی ہے ، اب اگر عالم عوام کی اصلاح نہ کرے تو وہ اپنی گمراہی کے سبب کسی اور فرقہ میں ڈھل سکتی ہے۔۔
لہذا ہمیں جاہل عوام کے اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، ہمیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ انہیں ہماری اشد ضرورت ہے ۔۔۔ جاہل عوام صحیح دین کی تلاش میں اہل علم کی رہنمائی کا شدید محتاج ہے۔ ۔۔
یاد رہے ان کی یہ محتاجی ہمیں خود سمجھنا ہوگا کیونکہ اس مسئلہ میں وہ کبھی اپنی محتاجی آپ کے سامنے ظاہر نہ کر پائیں گے۔۔ اس لئے کہ انہیں تو پتہ ہی نہیں کہ وہ گمراہی میں ہیں یا ہدایت پر۔۔
ہر چند اہل علم کو ان کی فریاد رسی کے لئے پورے طور پر مستعد رہنا ہوگا , ورنہ جب یہ قافلہ بھی دوسرے گروہ میں انہیں اہل حق سمجھ کر داخل ہوجائے گا, تو پھر ہم انہیں بہت جلد اپنے خلاف ہی صف آرا پائیں گے, اس وقت انہیں دعوت اصلاح دیں گے یا دعوت مناظرہ ومقابلہ؟
آج غیر مسلم بھی اپنے مذہبی بکواسات سے بے چینی محسوس کررہا ہے ، وہ اپنی اکتاہٹ اور بے چینی کا مداوا اسلامی تعلیمات میں پاتا ہے، امن و سکون کی تلاش میں فطری طور پر اسلام سے متاثر دکھائی دے رہا ہے، بس ذرا مہمیز لگانے کی ضرورت ہے۔۔ ان کو صحیح رخ دے کر اسلامی تعلیم سے روشناس کرانے کی کوشش ہم نہ کئے تو آخر کون کرے گا۔۔۔ ؟؟
سلفی عالم کا یہ امتیاز یے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوہ بنا کر صبر کا دامن تھامے ہوئے دینی, دعوتی اور اصلاحی کوششوں میں مصرف رہتا ہے , نا تو وہ کبھی دعوت دیتے ہوئے مایوس ہوتا یے اور نا ہی اسے کوئی تکلیف دینی کام سے روک سکتی ہے.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عظیم فرمان سامنے رکھتے ہوئے بلا خوف لومۃ لائم اپنے مشن پر چلتا رہتا ہے " واللہ لأن يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من حمر النعم " یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو خیبر کی طرف بھیجتے ہوتے فرمایا تھا....
آپ نے نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا: " چلتے جاو , پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا... (یعنی اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہے کتنی بھی ناکامی پیش کیوں نا آئے,) حتی کہ بعض معتبر روایات کے مطابق علی رضی اللہ عنہ تھوڑی دیر چل کر رک جاتے ہیں اور آپ سے پیچھے مڑے بغیر پوچھتے ہیں : " اللہ کے رسول! میں لوگوں سے کس بات پر قتال کروں ؟ تو آپ نے فرمایا جب تک وہ کلمہ شہادت کی گواہی نہ دے دیں..... [ مسلم: 2405]
اس واقعہ میں دعوتی میدان میں کام کرنے والے ہر اہل علم کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے.... یہ نصیحت ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنی چاہیئے.۔۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ابتدائی دعوت میں کتنی پریشانیاں برداشت کیں لیکن اپنے مشن میں اللہ سے قوی امید لگائے ہوئے لگے رہے..... دعوتی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائک یا کمنٹس پر دھیان نہیں دیتے تھے بلکہ ان سب چیزوں سے بے پرواہ ہوکر اپنے مشن میں مضبوطی کے ساتھ لگے رہے...
اس سے بڑھ کر سبق ہمارے لئے اور کیا ہوسکتا ہے... ؟
جب ہم جانتے ہیں کہ شوسل میڈا پر دوسروں نے غلبہ حاصل کیا ہوا ہے, عوام کالانعام ہونے کی وجہ سے انہیں کا دیوانہ ہے... ایسے میں جو لوگ دینی سوچ کے ساتھ میڈیا پر تشریف لاتے ہیں صحیح مواد انہیں بھی نہ ملا تو وہ بھی بہت جلد فکری انحراف کے شکار بن جائیں گے... پھر انہیں ہم شوسل میڈا پر نا تو اپنا بنا پائیں گے کہ وہ دینی پوسٹ سے مستفید ہوں .... اور نہ ہی دروس و پرگرام میں انہیں مسحور کر پائیں گے....
داعیان اسلام !! اگر ہم واقعی دین کے سپاہی ہیں ، سچے داعی ہیں تو ہمیں دعوت کے میدان میں اللہ سے اجر وثواب کی امید لگائے ڈٹے رہنا چاہئے ۔۔ اپنی توجہ لوگوں کے لائک اور کمنٹس پر مبذول کرکے اپنے اندر خوشی یا مایوسی کا ماحول نہیں پیدا ہونے دینا چاہئے۔۔
کیونکہ ایک اسلامی داعی لوگوں کی توجہ ، لائک اور کمنٹس پر دھیان نہیں دیتا کہ اگر اسے یہ حاصل نا ہوا تو مایوس ہونے لگے... بلکہ وہ اپنے مشن میں انیباء کے دعوتی مرحلہ کو سامنے رکھ کر کامیابی کی امید لئے رواں دواں رہتا ہے.... اور وہ صرف اللہ سے خیر کا امید وار ہوتا ہے... إن أجري الا علي الله.
اس طرح ایسا شخص ایک نا ایک دن ضرور کامیاب ہوکر ظاہر ہوتا ہے...
کام کرنے والے لوگوں کی پراہ کریں تو کبھی کچھ نہ کرسکیں... شاید یہی عقل مندی ہے... کیونکہ لوگ تو مختلف ذہن کے ہوتے ہیں، ان کا سوچنا سمجھنا اور طرز تکلم بھی جداگانہ ہوتا ہے۔
لہذا یہ لائک اور کمنٹس کا چکر چھوڑ کر دینی دعوتی کاز کو فعال بنانے میں لگے رہیں... ان شاء اللہ دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیابی نصیب ہوگی..
اس مقصد پر اگر آپ کو لائک یا کمنٹس بھی حاصل ہو رہے ہوں تو فبھا... نہیں تو ہمیں اس کی کیا ضرورت... اللہ ہمارے اعمال دیکھ رہا ہے, ہمیں اس سے بہتر جزا دینے والا کوئی نہیں...
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ہم سبھی کو چاہیے کہ دینی پوسٹ پڑھیں دوسروں کو ترغیب دیں اسی طرح لائک , شیئر اور کمنٹس کرکے ایک طرف مضمون نگار کی ہمت افزائی کریں تو دوسری طرف دعوتی کام میں ہاتھ بھی بٹائیں... یہ بھی اتنا ہی ثواب کا کام ہے جتنا مضمون نگار کا ہے.
افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم سیاسی, استہزائی, غیر اسلامی پوسٹ اور تصوروں کو خوب لکھتے پڑھتے ہیں خوب لائک اور شيئر کرتے اور دوسروں تک عام بھی کرتے ہیں جب کہ اسلامی پوسٹ کے لکھنے , پڑھنے اور عام کرنے میں بخیلی اور کاہلی جگہ لے لیتی ہے....
اللہ ہم سب کی اصلاح فرمائے. آمین.
تحریر: الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی
بہتوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ فیس بک اور سوشل میڈیا پر شہرت طلبی کے مذموم ارادے سے جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔۔ یعنی ان کا اصل مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ شہرت مل جائے۔
اس مقصد کے حصول میں وہ سیاسی پارٹیوں کی طرح ہر پینترے کھیلتے ہیں ، ان کا ہر مضمون اور پیغام ریاکاری اور مکاری کا شاہکار ہوتا یے۔
کچھ اپنا یہ گھناؤنا خواب دوسروں کے مضامین اپنی طرف منسوب کرکے پورا کرتے ہیں ، اور بعض صاحب تحریر کا نام حذف کرکے ( علمی خیانت کا مجرم بن کر) واہ واہی لوٹنے کو شرف سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہیں جس قدر لائک اور کمنٹس کی پرواہ ہوتی ہے یا خوشی ملتی ہے اس کے علاوہ کسی اور چیز کی پرواہ نہیں ہوتی۔۔۔
میرے بھائیو!! یہ بہت بڑا فتنہ ہے ، یہ ریا کاری ہے جس سے آپ کو معمولی دنیاوی فائدے تو ہو سکتے ہیں مگر اللہ کے یہاں آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ۔۔اور دعوت دین اللہ کی محبوب ترین عبادت ہے ، لیکن اس میں ریا ، شہرت اور نام و نمود اگر پیدا ہوجائے تو یہی محبوب عبادت وبال جان بن جاتی ہے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " انما الاعمال بالنيات " اللہ ! بندے کے عمل سے زیادہ اس کی نیت کو دیکھتا ہے۔
اور فرمایا: " إني أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر " قالوا وما الشرك الأصغر ؟ قال:" الريا"... [السلسلة الصحيحة للألباني: 951 اسناده جيد] مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر شرک اصغر کا ہے ، صحابہ نے پوچھا کس شرک اصغر سے؟ آپ نے فرمایا: ریا کاری سے۔
صحیح مسلم میں ہے اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) عالم ، مالدار اور مجاہد کے بارے میں قیامت کے روز سب سے پہلے فیصلہ ہوگا ، تینوں نے دنیا میں بظاہر بڑے نیک کام کئے ہوں گے ، عالم علم حاصل کرکے دوسروں کو سکھایا ہوگا ، مالدار اپنے مال و زر کو اللہ کے تمام راستہ میں خرچ کیا ہوگا ، مجاہد اسلامی جہاد میں مارا گیا ہوگا ۔۔۔ الغرض تینوں نے بظاہر نیک اعمال کئے مگر ایک غلطی نے زندگی بھر کئے گئے اعمال کو برباد کرکے جہنم رسید کر دیا ہوگا ، معلوم ہے وہ غلطی کیا ہے ؟ ریا کاری ، شہرت طلبی ، واہ واہی ، لوگوں میں اپنا شمار بڑوں میں کرانے کا خواب ! ۔۔۔
ریا کاری کے ذریعہ ہمیں دنیا میں وقتی اور معمولی فائدہ ممکن ہے ہوجائے ، مگر یاد ریے اس کے بعد ہمیشہ کے لئے رسوائی یقینی یے۔
لہذا ہمیں ہر کام میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کا طلبگار ہونا چاہئے ، امت کی اصلاح کی تڑپ بھی صرف اس لئے ہو کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے ۔۔ اس سوچ کے ساتھ کام کرنے والوں کو اللہ دنیا وآخرت دونوں جگہ بہترین کامیابی سے نوازے گا۔
ہم مسلمان ہیں ، لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ امت کی اصلاح کی فکر کریں ، سوشل میڈیا اور دیگر دعوتی پلیٹ فارم کا استعمال عوام کو صحیح تعلیم سے روشناس کرانے کے لئے کریں ۔ امت کی اصلاح کی خاطر ہمارے دلوں میں درد ہونی چاہئے۔۔
کیونکہ آج کا ہر بڑا دعوتی پلیٹ فارم چاہے وہ "شوسل میڈیا" ہو یا کوئی اور پلیٹ فارم سب پر غیر اسلامی نظریات کا غلبہ ہے, اپنے مکتبہ فکر کے کم پڑھے لکھے لوگ بھی ایسے نظریات سے کافی متاثر ہو رہے ہیں, اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں شیطانی تنظیموں کی طرف سے بکثرت مواد فراہم ہو رہے ہیں .... وہ بھی اسلامی اسلوب میں... تاکہ انہیں با آسانی اپنے چنگل میں پھانس سکیں.۔
یہ ایک عام سی بات ہوگئی ہے جس کا مشاہدہ ہم آئے دن کرتے رہتے ہیں ، کبھی کوئی دہشت گرد تنظیم کو مضبوطی دینے کے لئے فضائل جہاد کے نصوص کا سہارا لے کر عوام کو اپنے فیور میں لے رہا رہے ، تو کہیں عوام کے جذبہ عبادت کا فائدہ اٹھا کر متصوفانہ نظریہ میں انہیں دین کا تصور کرایا جاتا یے۔ کہیں اسلام کے نام پر شرک کے فروغ کا بازار عام یے، تو کوئی عیسی مسیح کا دعوٰی کرے عوام کو گمراہ کررہا ہے ، کہیں مرزائیت کی تبلیغ ہورہی ہے ، تو کہیں انکار حدیث کا ماحول رواج پر ہے۔۔۔ وغیرہ
الغرض راہ حق سے بھٹکی ساری دشمن تنظیمیں عوام کی جہالت کا خوب خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔۔۔ اور ہم سبھی ان دشمنوں کے نشانہ پر ہیں ۔۔۔
ایسے میں اگر بچے کھچے چند فیصد سلفی علماء بھی سیاسی, تفریحی اور واہ واہی والے مضامین لکھنے اور بولنے میں اپنی انرجی صرف کرتے دکھائی دیں ( جبکہ ایسے مضامین لکھنے اور بولنے والوں کی کسی بھی طبقہ میں کمی نہیں.) تو پھر امت کی اصلاح کے لئے دعوتی پلیٹ فارم کو صحیح رخ دینے کی کس سے امید کی جا سکتی ہے۔؟؟
مشین خراب ہوجائے تو اس کی اصلاح کے لئے انجینئر کی ضرورت پڑتی ہے ، اگر انجینئر اس کی اصلاح نہ کرے تو وہ کباڑ خانہ کا حصہ بن جاتی ہے جسے کچھ دنوں بعد پگھلا کر دوسری چیز بنا دی جاتی ہے ۔۔۔ ایسے ہی جب عوام گمراہی کا شکار ہو جائے تو اس کی اصلاح کے لئے عالم کی ضرورت پڑتی ہے ، اب اگر عالم عوام کی اصلاح نہ کرے تو وہ اپنی گمراہی کے سبب کسی اور فرقہ میں ڈھل سکتی ہے۔۔
لہذا ہمیں جاہل عوام کے اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، ہمیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ انہیں ہماری اشد ضرورت ہے ۔۔۔ جاہل عوام صحیح دین کی تلاش میں اہل علم کی رہنمائی کا شدید محتاج ہے۔ ۔۔
یاد رہے ان کی یہ محتاجی ہمیں خود سمجھنا ہوگا کیونکہ اس مسئلہ میں وہ کبھی اپنی محتاجی آپ کے سامنے ظاہر نہ کر پائیں گے۔۔ اس لئے کہ انہیں تو پتہ ہی نہیں کہ وہ گمراہی میں ہیں یا ہدایت پر۔۔
ہر چند اہل علم کو ان کی فریاد رسی کے لئے پورے طور پر مستعد رہنا ہوگا , ورنہ جب یہ قافلہ بھی دوسرے گروہ میں انہیں اہل حق سمجھ کر داخل ہوجائے گا, تو پھر ہم انہیں بہت جلد اپنے خلاف ہی صف آرا پائیں گے, اس وقت انہیں دعوت اصلاح دیں گے یا دعوت مناظرہ ومقابلہ؟
آج غیر مسلم بھی اپنے مذہبی بکواسات سے بے چینی محسوس کررہا ہے ، وہ اپنی اکتاہٹ اور بے چینی کا مداوا اسلامی تعلیمات میں پاتا ہے، امن و سکون کی تلاش میں فطری طور پر اسلام سے متاثر دکھائی دے رہا ہے، بس ذرا مہمیز لگانے کی ضرورت ہے۔۔ ان کو صحیح رخ دے کر اسلامی تعلیم سے روشناس کرانے کی کوشش ہم نہ کئے تو آخر کون کرے گا۔۔۔ ؟؟
سلفی عالم کا یہ امتیاز یے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوہ بنا کر صبر کا دامن تھامے ہوئے دینی, دعوتی اور اصلاحی کوششوں میں مصرف رہتا ہے , نا تو وہ کبھی دعوت دیتے ہوئے مایوس ہوتا یے اور نا ہی اسے کوئی تکلیف دینی کام سے روک سکتی ہے.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عظیم فرمان سامنے رکھتے ہوئے بلا خوف لومۃ لائم اپنے مشن پر چلتا رہتا ہے " واللہ لأن يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من حمر النعم " یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو خیبر کی طرف بھیجتے ہوتے فرمایا تھا....
آپ نے نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا: " چلتے جاو , پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا... (یعنی اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہے کتنی بھی ناکامی پیش کیوں نا آئے,) حتی کہ بعض معتبر روایات کے مطابق علی رضی اللہ عنہ تھوڑی دیر چل کر رک جاتے ہیں اور آپ سے پیچھے مڑے بغیر پوچھتے ہیں : " اللہ کے رسول! میں لوگوں سے کس بات پر قتال کروں ؟ تو آپ نے فرمایا جب تک وہ کلمہ شہادت کی گواہی نہ دے دیں..... [ مسلم: 2405]
اس واقعہ میں دعوتی میدان میں کام کرنے والے ہر اہل علم کے لئے بہت بڑی نصیحت ہے.... یہ نصیحت ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنی چاہیئے.۔۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ابتدائی دعوت میں کتنی پریشانیاں برداشت کیں لیکن اپنے مشن میں اللہ سے قوی امید لگائے ہوئے لگے رہے..... دعوتی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائک یا کمنٹس پر دھیان نہیں دیتے تھے بلکہ ان سب چیزوں سے بے پرواہ ہوکر اپنے مشن میں مضبوطی کے ساتھ لگے رہے...
اس سے بڑھ کر سبق ہمارے لئے اور کیا ہوسکتا ہے... ؟
جب ہم جانتے ہیں کہ شوسل میڈا پر دوسروں نے غلبہ حاصل کیا ہوا ہے, عوام کالانعام ہونے کی وجہ سے انہیں کا دیوانہ ہے... ایسے میں جو لوگ دینی سوچ کے ساتھ میڈیا پر تشریف لاتے ہیں صحیح مواد انہیں بھی نہ ملا تو وہ بھی بہت جلد فکری انحراف کے شکار بن جائیں گے... پھر انہیں ہم شوسل میڈا پر نا تو اپنا بنا پائیں گے کہ وہ دینی پوسٹ سے مستفید ہوں .... اور نہ ہی دروس و پرگرام میں انہیں مسحور کر پائیں گے....
داعیان اسلام !! اگر ہم واقعی دین کے سپاہی ہیں ، سچے داعی ہیں تو ہمیں دعوت کے میدان میں اللہ سے اجر وثواب کی امید لگائے ڈٹے رہنا چاہئے ۔۔ اپنی توجہ لوگوں کے لائک اور کمنٹس پر مبذول کرکے اپنے اندر خوشی یا مایوسی کا ماحول نہیں پیدا ہونے دینا چاہئے۔۔
کیونکہ ایک اسلامی داعی لوگوں کی توجہ ، لائک اور کمنٹس پر دھیان نہیں دیتا کہ اگر اسے یہ حاصل نا ہوا تو مایوس ہونے لگے... بلکہ وہ اپنے مشن میں انیباء کے دعوتی مرحلہ کو سامنے رکھ کر کامیابی کی امید لئے رواں دواں رہتا ہے.... اور وہ صرف اللہ سے خیر کا امید وار ہوتا ہے... إن أجري الا علي الله.
اس طرح ایسا شخص ایک نا ایک دن ضرور کامیاب ہوکر ظاہر ہوتا ہے...
کام کرنے والے لوگوں کی پراہ کریں تو کبھی کچھ نہ کرسکیں... شاید یہی عقل مندی ہے... کیونکہ لوگ تو مختلف ذہن کے ہوتے ہیں، ان کا سوچنا سمجھنا اور طرز تکلم بھی جداگانہ ہوتا ہے۔
لہذا یہ لائک اور کمنٹس کا چکر چھوڑ کر دینی دعوتی کاز کو فعال بنانے میں لگے رہیں... ان شاء اللہ دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیابی نصیب ہوگی..
اس مقصد پر اگر آپ کو لائک یا کمنٹس بھی حاصل ہو رہے ہوں تو فبھا... نہیں تو ہمیں اس کی کیا ضرورت... اللہ ہمارے اعمال دیکھ رہا ہے, ہمیں اس سے بہتر جزا دینے والا کوئی نہیں...
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ہم سبھی کو چاہیے کہ دینی پوسٹ پڑھیں دوسروں کو ترغیب دیں اسی طرح لائک , شیئر اور کمنٹس کرکے ایک طرف مضمون نگار کی ہمت افزائی کریں تو دوسری طرف دعوتی کام میں ہاتھ بھی بٹائیں... یہ بھی اتنا ہی ثواب کا کام ہے جتنا مضمون نگار کا ہے.
افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم سیاسی, استہزائی, غیر اسلامی پوسٹ اور تصوروں کو خوب لکھتے پڑھتے ہیں خوب لائک اور شيئر کرتے اور دوسروں تک عام بھی کرتے ہیں جب کہ اسلامی پوسٹ کے لکھنے , پڑھنے اور عام کرنے میں بخیلی اور کاہلی جگہ لے لیتی ہے....
اللہ ہم سب کی اصلاح فرمائے. آمین.