• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہید سے مراد !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
شہید سے مراد !!!
سوال نمبر 2 - فتوی نمبر 6564

س 2: شہداء سے کون مراد ہیں، اور حدیث میں ان کی تعداد کیا ہے، اور کیا جسے مرگی کا مرض ہو وہ ان میں سے ہے؟ جیساکہ اس عورت کی حدیث میں ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرگی سے شفا کے لئے دعا کی درخواست کی تھی، اور اس میں یہ بھی ہے کہ جب ان پر مرگی کا حملہ ہوتا تو ان کا جسم کھل جاتا، تو کیا یہ حکم امت محمد کے لئے عام ہے یا اسی عورت کے ساتھـ خاص تھا؟

ج 2: حقیقی شہید وہ ہے جس کی موت اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہوئے آئی ہو، یا اس میں زخمی ہوا اور اس کے اثر سے مرگيا، اس کے علاوہ کو بھی شہید کہا گیا ہے، جیساکہ بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:شھید پانچ ہیں: طاعون سے مرنے والے اور پیٹ کی بیماری سے مرنے والے اور ڈوب کر مرنے والے اور دب کر مرنے والے اور اللہ کی راہ میں شہيد ہونے والے ہيں۔
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 19)

اور امام بخاری نے شہداء کے لئے ایک باب اس طرح باندھا ہے:

(اس کا باب کہ قتل کے علاوہ شہادت کی سات قسمیں ہیں) اور اس باب میں جو تعداد مذکور ہے اس کا ذکر اس حدیث میں ملتا ہے جسے امام مالک نے جابر بن عتیک سے روایت کیا ہے-

کہ نبی صلى الله عليہ وسلم عبد الله بن ثابت کی عیادت کے لئے تشریف لائے، پوری حدیث ذکر کی اور اس میں یہ ہے:۔۔ تم اپنے آپ میں سے کس کو شھید شمار کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا: جسے اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا ہو۔اور اسی میں آگے یہ ہے:اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے علاوہ سات شہید ہیں۔تو اس میں حضرت ابو ہریرہ کی سابقہ حدیث کی بہ نسبت اتنا اضافہ ہے:آگ میں جهلس کر ہلاک ہونے والا اور پیٹ کی بیماری سے مرنے والا اور وہ عورت جس کی موت زچکی کی حالت میں ہوجائے۔ اور صحاب سنن کی ایک روایت ہے جسے امام ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے جوکہ حضرت سعید بن زید سے مرفوعًا مروی ہے:جو اپنے مال کی حفاظت میں قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے، اور جو اپنے دین کی حفاظت میں قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے، اور جو اپنے خون کی حفاظت میں قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے، اور جو اپنے گھر والوں کی حفاظت میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔ اور امام نسائی نے حضرت سويد بن مقرن سے
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 20)
مرفوعًا روایت کیا ہے:

جو اپنى مظلوميت كى وجہ سے قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔​


خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تحدید کا قصد نہیں کیا ہے، حافظ ابن حجر نے فتح الباري میں کہا: جید طرق (عمدہ سندوں) سے ہمارے پاس بیس سے زیادہ صفات جمع ہوگئی ہیں، بہرحال اس عورت کی حدیث جسے مرگی آتی تھی اس میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ حکم اسی کے لئے خاص ہے، بلکہ امید کی جاتی ہے کہ یہ حکم اس جیسے تمام لوگوں کے لئے عام ہے جنہیں مرگی کی بیماری ہو جائے اور وہ اس پر صبر وتحمل کریں اور اسی حالت میں ان کی موت ہو جائے، اور جہاں تک اس عورت کو شہداء میں شمار کرنے کی بات ہے تو ہم نہیں سمجھتے کہ حدیث میں ایسی کوئی دلیل ہے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر نائب صدر کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود - عبدالرزاق عفیفی - عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
شھدا کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں 7 انعامات مقرر ہیں


11081108_850196245035790_5978175532798413113_n.jpg
 
Top