رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
یہ ایک لہولہان سوال ہے کہ ایک امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس اور اس کے ساتھیوں نے تین بے گناہ پاکستانیوں کو کیوں قتل کیا۔ مزنگ جیسے مصروف چوک میں کوئی پاگل بھی ڈکیتی وغیرہ نہیں کر سکتا۔ شہیدوں کو ڈاکو بھی پولیس بنا رہی ہے اور کیس کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکی جاسوس کسی ٹاسک پر نکلا تھا اس کے پاس اسلحہ تھا اور ایسے کاغذات تھے جن کے بارے میں ایم این اے ن لیگ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں ٹی وی چینل پر ان کاغذات اور آلات کے بارے میں نہیں بتا سکتا۔ جو امریکی جاسوس سے ملے ہیں۔ خدا کرے عدالت تک جاتے جاتے یہ چیزیں حکومت کے پاس باقی رہیں، خواجہ صاحب اس صورتحال کے گواہ ہیں۔ مجھے یقین کہ دونوں نوجوانوں نے ریمنڈ کو کسی واردات میں ملوث دیکھ لیا تھا اور اس نے ثبوت ختم کرنے کے لئے دونوں کو ختم کر دیا۔ ہمارے ہاں تو چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ پہچان لئے جانے کے خطرے میں دوسرے کی جان لے لی جاتی ہے۔ ریمنڈ نے یقیناً کچھ چھپانے کے لئے یہ ظلم کیا ہے۔ مزید ظلم ہماری حکومت اور پولیس کر رہی ہے۔ تیسرے نوجوان کو امریکی گاڑی نے کچل ڈالا جو ریمنڈ کی مدد کرنے آیا تھا۔ امریکہ کا جاسوسی نیٹ ورک پاکستان میں جاری و ساری ہے۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی معرفت سب کچھ جانتے ہیں مگر ہر بندہ خاموش ہے اور مصلحت کا شکار ہے۔ سیاست میں مصلحت کو مصالحت کا نام دیا جاتا ہے۔ سب سیاسی پارٹیاں یہی کچھ کر رہی ہیں۔ ریمنڈ سے وہ تصویریں بھی ضبط کی جائیں جو اس نے اپنی فائرنگ کی کامیابی کے بعد بڑے اطمینان اور آسودگی سے بنائی تھیں۔ اس کے پاس کچھ نقشے اور تصویریں پہلے سے تھیں۔ اپنے دفاع میں ریمنڈ نے یہ قاتلانہ کارروائی کی مگر اسے اپنی حرکات کے منکشف ہونے کا خطرہ تھا۔ پنجاب پولیس اسے ڈکیتی کا رنگ دے رہی ہے۔ نوجوانوں پر اسلحہ بھی پولیس نے حسب عادت خود ڈال دیا ہوگا۔ حکومت ریمنڈ کی غیر عدالتی رہائی مرتکب ہو گی۔ عدالتی رہائی بھی تو پولیس کی کارروائی کے بعد ملتی ہے۔ پولیس کی مدد سے ظالم عدالتوں سے رہائی پاتے اور بے گناہ جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔ داتا دربار کے قریب بم دھماکے میں پولیس کے جوانوں نے شہادت کی سعادت حاصل کی اب وہ غازی بھی بنیں اور ہر قسم کے دباﺅ کے خلاف ڈٹ جائیں اور اپنے لوگوں کو خوش کر دیں۔ صرف حکام کی خدمت گزاری نہ کریں۔ کچھ عوام کا بھی خیال رکھیں۔ ان امریکی بھگوڑوں کو بھی پکڑیں جو عبادالرحمان کو کچل کر چھپ گئے ہیں، وہ اصل آدمی ہیں۔
ایک ٹی وی چینل کے اینکر نے شہید فیضان حیدر کی والدہ سے پوچھا کہ آپ قتل کے لئے کوئی خون بہا قبول کریں گی۔ تو بے بہا جذبوں والی ماں نے جواب دیا کہ میں بیش بہا دعاﺅں کے سائے میں دفن ہونے والے اپنے شہید بچے کے لئے کوئی چیز قبول نہیں کروں گی۔ مائیں بیٹوں کے خون کا سودا نہیں کیا کرتیں۔ شاید وہ نہیں جانتی ہوں گی کہ ہمارے ایک صدر جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ میں نے اپنے کئی ہم وطنوں کو امریکہ کے حوالے کر دیا اور ڈالر کمائے۔ ان میں پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی بھی شامل ہے۔ ایک امریکی نے ایسے پاکستانیوں کے لئے کہا کہ یہ ایک ڈالر کے لئے اپنی ماں بیچ دیتے ہیں۔ حکمران اور سیاست دان ماں دھرتی بیچ دیتے ہیں۔
میں اس عظیم ماں کو سلام کرتا ہوں مگر جب اس سے یہ بات کہی گئی کہ کیا آپ ڈاکٹر عافیہ کے بدلے میں اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کر دیں گی تو اس نے بے ساختہ کہا کہ میں ایسا ضرور کروں گی۔ وہ وطن کی بیٹی ہے اور میری بیٹی ہے۔ ماں تو سانجھی ہوتی ہے۔ لوگو سنو کہ شہید فیضان کی ماں ڈاکٹر عافیہ کو جانتی نہیں نہ وہ کبھی فوزیہ صدیقی کو ملی ہو گی۔ مگر اسے پاکستان کے بیٹوں کے جذبات کا پتہ ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کے لئے کتنے بے قرار ہیں۔ خدا کی قسم اگر امریکی قاتل سامنے آئے تو یہ ماں اس کا کلیجہ چبا جائے گی مگر اس نے کتنی آسانی اور اطمینان سے کہہ دیا کہ میں ڈاکٹر عافیہ کے لئے اپنے شہید بیٹے کے قاتل کو معاف کر دوں گی۔ اے خدا ہمیں معاف کر دے۔ سیاست دان اپنے مفاد اور عناد کی خاطر اپنے پرانے دوستوں کو معاف نہیں کرتے۔ اس طرح مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے مجید نظامی کا خیال نہیں کرتے اور یہ بے بس اور مظلوم عورت کتنی بڑی شخصیت ہے۔ میں اس کی خدمت میں درد وچھوڑے کا حال ایک عاجزانہ سلام کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ شاہ حسینؒ نے یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا۔ ایسی ہی ماں کے قدموں میں اپنے دکھ رکھے جا سکتے ہیں۔ ….ع
مائے نی میں کہنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال
ہمارے حکمران امریکہ کے سامنے یہ تجویز کیوں نہیں پیش کرتے اور امریکہ کو یہ تجویز قبول کرنے میں کیا اعتراض ہے۔ امریکہ ہمارے منہ پر تھوکنا چاہتا ہے۔ ہماری بے گناہ بیٹی کی مضحکہ خیز سزا برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اپنا قاتل جاسوس کسی کارروائی کے بغیر چھڑوانا چاہتا ہے۔ غلامی اور رسوائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کیا ہمارے حکمران اور سیاست دان ذلت کی ساری حدیں پھلانگ چکے ہیں۔ وہ تو سرحدیں بھی پامال کر چکے ہیں۔ اب سرحدوں اور نظریاتی سرحدوں کی کوئی عزت ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے دل میں ذرہ بھر نہیں ہے۔
میرا خیال ہے کہ ریمنڈ کو اب کسی سفارتی یا عدالتی دھوکے میں رہا کیا گیا تو لوگوں کا ردعمل بہت شدید ہو گا مگر اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا ہمیشہ ردعمل کو ردی عمل بنا دیا جاتا ہے۔ ممتاز کالم نگار، ادیبہ طیبہ ضیا نے بھی یہی بات لکھی ہے ”امریکی جاسوس ریمنڈ کو چھوڑ دیا گیا تو کسی انقلاب کا امکان نہیں“ طیبہ کو کیا بتائیں کہ ہمارے پاس سچا اضطراب بھی نہیں۔ ….
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
طیبہ کو اندیشہ ہے کہ اس واقعہ سے پاکستان کو کوئی نقصان پہنچنے کا خطرہ نہیں ہے۔ آہ!اب ہم اپنے قومی نفع نقصان کے ادراک سے بھی محروم ہو گئے ہیں
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔
تحریر: ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
ایک ٹی وی چینل کے اینکر نے شہید فیضان حیدر کی والدہ سے پوچھا کہ آپ قتل کے لئے کوئی خون بہا قبول کریں گی۔ تو بے بہا جذبوں والی ماں نے جواب دیا کہ میں بیش بہا دعاﺅں کے سائے میں دفن ہونے والے اپنے شہید بچے کے لئے کوئی چیز قبول نہیں کروں گی۔ مائیں بیٹوں کے خون کا سودا نہیں کیا کرتیں۔ شاید وہ نہیں جانتی ہوں گی کہ ہمارے ایک صدر جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ میں نے اپنے کئی ہم وطنوں کو امریکہ کے حوالے کر دیا اور ڈالر کمائے۔ ان میں پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی بھی شامل ہے۔ ایک امریکی نے ایسے پاکستانیوں کے لئے کہا کہ یہ ایک ڈالر کے لئے اپنی ماں بیچ دیتے ہیں۔ حکمران اور سیاست دان ماں دھرتی بیچ دیتے ہیں۔
میں اس عظیم ماں کو سلام کرتا ہوں مگر جب اس سے یہ بات کہی گئی کہ کیا آپ ڈاکٹر عافیہ کے بدلے میں اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کر دیں گی تو اس نے بے ساختہ کہا کہ میں ایسا ضرور کروں گی۔ وہ وطن کی بیٹی ہے اور میری بیٹی ہے۔ ماں تو سانجھی ہوتی ہے۔ لوگو سنو کہ شہید فیضان کی ماں ڈاکٹر عافیہ کو جانتی نہیں نہ وہ کبھی فوزیہ صدیقی کو ملی ہو گی۔ مگر اسے پاکستان کے بیٹوں کے جذبات کا پتہ ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کے لئے کتنے بے قرار ہیں۔ خدا کی قسم اگر امریکی قاتل سامنے آئے تو یہ ماں اس کا کلیجہ چبا جائے گی مگر اس نے کتنی آسانی اور اطمینان سے کہہ دیا کہ میں ڈاکٹر عافیہ کے لئے اپنے شہید بیٹے کے قاتل کو معاف کر دوں گی۔ اے خدا ہمیں معاف کر دے۔ سیاست دان اپنے مفاد اور عناد کی خاطر اپنے پرانے دوستوں کو معاف نہیں کرتے۔ اس طرح مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے مجید نظامی کا خیال نہیں کرتے اور یہ بے بس اور مظلوم عورت کتنی بڑی شخصیت ہے۔ میں اس کی خدمت میں درد وچھوڑے کا حال ایک عاجزانہ سلام کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ شاہ حسینؒ نے یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا۔ ایسی ہی ماں کے قدموں میں اپنے دکھ رکھے جا سکتے ہیں۔ ….ع
مائے نی میں کہنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال
ہمارے حکمران امریکہ کے سامنے یہ تجویز کیوں نہیں پیش کرتے اور امریکہ کو یہ تجویز قبول کرنے میں کیا اعتراض ہے۔ امریکہ ہمارے منہ پر تھوکنا چاہتا ہے۔ ہماری بے گناہ بیٹی کی مضحکہ خیز سزا برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اپنا قاتل جاسوس کسی کارروائی کے بغیر چھڑوانا چاہتا ہے۔ غلامی اور رسوائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کیا ہمارے حکمران اور سیاست دان ذلت کی ساری حدیں پھلانگ چکے ہیں۔ وہ تو سرحدیں بھی پامال کر چکے ہیں۔ اب سرحدوں اور نظریاتی سرحدوں کی کوئی عزت ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے دل میں ذرہ بھر نہیں ہے۔
میرا خیال ہے کہ ریمنڈ کو اب کسی سفارتی یا عدالتی دھوکے میں رہا کیا گیا تو لوگوں کا ردعمل بہت شدید ہو گا مگر اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا ہمیشہ ردعمل کو ردی عمل بنا دیا جاتا ہے۔ ممتاز کالم نگار، ادیبہ طیبہ ضیا نے بھی یہی بات لکھی ہے ”امریکی جاسوس ریمنڈ کو چھوڑ دیا گیا تو کسی انقلاب کا امکان نہیں“ طیبہ کو کیا بتائیں کہ ہمارے پاس سچا اضطراب بھی نہیں۔ ….
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
طیبہ کو اندیشہ ہے کہ اس واقعہ سے پاکستان کو کوئی نقصان پہنچنے کا خطرہ نہیں ہے۔ آہ!اب ہم اپنے قومی نفع نقصان کے ادراک سے بھی محروم ہو گئے ہیں
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔
تحریر: ڈاکٹر محمد اجمل نیازی