- شمولیت
- مئی 31، 2017
- پیغامات
- 21
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 36
شہید کون؟
تحریر: غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری
شہادت مالک کریم کی طرف سے اپنے خاص بندوںکی تکریم ہے، اسلام میں منصب شہادت ان پاکیزہ ارواح کے لئے روا رکھا گیا ہے، جو لیلیٰ اسلام کے لئے حد جاں سے گزر جاتی ہیں، شہیداسے کہا جاتا ہے جو اللہ کے راستے میں لڑتا ہوا مقتول ہو جائے، قرآن و سنت میں شہید کے نام سے جاری کردہ تمام تکریمات و اعزازات اسی خوش بخت کا نصیبہ ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض دوسرے لوگوں کو بھی اسلام میں شہید کہا گیا ہے، یہ حکماً شہید ہیں حقیقی نہیں، انہیں صرف شہید کا نام دیا گیا ہے، شہید فی سبیل اللہ کے تمام اجر میں شریک و سہیم نہیں بنایا گیا۔
بات چل نکلی ہے تو کہے دیں کہ ہمارے ہا ں درجہ شہادت تقسیم کرنے کا جو ٹرینڈ چل نکلا ہے، ہر ایرے غیرے، کو شہید کانام دے دیا جاتا ہے، شہیدِ سیاست،شہید جمہوریت،شہید تحریک،شہید آزادی، حتی کہ مشرکین اور بے دین ملاحدہ کو بھی شہید کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ کسی ملک یا علاقے یا تحریک کے لئے قابل تکریم ہوں تو ہوں ، مگر اسلام کا عطا کردہ مرتبہ شہادت جو اسلام کا ایک پرائیویٹ اعزاز ہے، ہر ایک کے لئے انتہائی نامناسب ہے، یہ علمی چوری ہے، اسلامی اصطلاحات کے ساتھ بھیانک مذاق ہے، منصب شہادت کی بنیاد عقیدہ وعمل پرہے ، جو اسلا م کو سرے سے مانتا ہی نہیں یا اسلامی عقائد سے نالاں و برگشتہ ہے، اسے شہید کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟
ازراہ کرم! آپ اپنے معززین کو کوئی اور نام دے لیں مگر اسلام کی اصطلاحات کو تباہ نہ کریں، انہیں اسلام کے ساتھ رہنے دیں، ویسے دن رات اسلام کی مخالفت کرنے والے اسلام کے درجہ شہادت کو اپنے نام کرنے کے لئے کتنے بے چین ہیں؟
شارح مسلم، حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ الشَّہِیدَ ثَلَاثَۃُ أَقْسَامٍ أَحَدُہَا الْمَقْتُولُ فِي حَرْبِ الْکُفَّارِ بِسَبَبٍ مِّنْ أَسْبَابِ الْقِتَالِ فَہٰذَا لَہ، حُکْمُ الشُّہَدَاءِ فِي ثَوَابِ الْآخِرَۃِ وَفِي أَحْکَامِ الدُّنْیَا وَہُوَ أَنَّہ، لَا یُغَسَّلُ وَلَا یُصَلّٰی عَلَیْہِ، وَالثَّانِي شَہِیدٌ فِي الثَّوَابِ دُونَ أَحْکَامِ الدُّنْیَا وَہُوَ الْمَبْطُونُ وَالْمَطْعُونُ وَصَاحِبُ الْہَدْمِ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہٖوَغَیْرُہُمْمِمَّنْجَاءَتِالْـأَحَادِیثُالصَّحِیحَۃُبِتَسْمِیَتِہٖشَہِیدًافَہٰذَایُغَسَّلُوَیُصَلّٰیعَلَیْہِوَلَہ،فِيالْآخِرَۃِثَوَابُالشُّہَدَاءِوَلَایَلْزَمُأَنْیَّکُونَ مِثْلَ ثَوَابِ الْـأَوَّلِ، وَالثَّالِثُ مَنْ غَلَّ فِي الْغَنِیمَۃِ وَشَبَہِہٖمِمَّنْوَرَدَتِالْآثَارُبِنَفْيِتَسْمِیَتِہٖشَہِیدًاإِذَاقُتِلَفِيحَرْبِالْکُفَّارِفَہٰذَالَہ،حُکْمُالشُّہَدَاءِفِيالدُّنْیَافَلَایُغَسَّلُوَلَایُصَلّٰی عَلَیْہِ وَلَیْسَ لَہ، ثَوَابُہُمُ الْکَامِلُ فِي الْآخِرَۃِ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
''جان لیجئے کہ شہدا کی تین اقسام ہیں : 1: قتال کے کسی سبب سے کفار سے جنگ کے دوران قتل ہو جانے والا۔ شہدا کے لیے جو ثواب آخرت میں تیار ہے اور ان پر جو دنیوی احکام لاگو ہوتے ہیں، اس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ 2: ایک وہ شہید ہے، جس کا ثواب تو شہداء والا ہے، لیکن اس پر دنیوی احکام صادر نہیں ہوتے۔ اس قسم میں پیٹ کی بیماری میں فوت ہو جانے والا، طاعون کی زد میں دم توڑ جانے والا، دب کر جاں بحق ہو نے والا، اپنے مال کے دفاع میں قتل ہو جانے والا اور دیگر، جن پر احادیث صحیحہ میں شہید کا لفظ بولا گیا، شامل ہیں۔ ان کو غسل دیا جائے گا، جنازہ بھی پڑھا جائے گا، لیکن آخرت میں ثواب شہید والا ہی ہے۔ ہاں یہ ضروری نہیں کہ ان کا ثواب پہلے کے برابر ہو۔ 3: جو مال غنیمت میں ڈنڈی مارے، اسی طرح کفار سے لڑائی میں مارے جانے والے وہ مجاہدین، جنہیں شہید کہنے کی نفی میں احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اس قسم کے لوگوں پر دنیا میں شہدا والے احکام جاری ہوں گے، یعنی انہیں غسل دیا جائے گا، نہ جنازہ پڑھا جائے گا اور آخرت میں کامل اجر سے محروم ہوں گے۔ واللہ اعلم بالصواب!''
(شرح صحیح مسلم : ٢/١٦٣)
ذیل کی سطور میں ان شہداء کا تذکرہ کیا جاتا ہے جنہیں اسلام نے حقیقی یا حکمی کسی بھی صورت میں شہید کہا ہے۔
1 ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلشُّہَدَاءُ خَمْسَۃٌ، الْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ، وَالْغَرِقُ، وَصَاحِبُ الْہَدْمِ، وَالشَّہِیدُ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ .
''شہید پانچ قسم کے ہیں۔ 1۔ طاعون سے فوت ہونے والا 2۔ پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہو نے والا3۔ ڈوب کر فوت ہو جانے والا4۔ دب کر فوت ہو جانے والا 5۔ اللہ کی راہ میں کٹ جانے والا۔''
(صحیح البخاري : ٢٨٢٩، صحیح مسلم : ١٩١٤)
2.سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَہ، عَلٰی قَدْرِ نِیَّتِہٖ،وَمَاتَعُدُّونَالشَّہَادَۃَ؟قَالُوا : الْقَتْلُفِيسَبِیلِاللّٰہِتَعَالٰی،قَالَرَسُولُاللّٰہِصَلَّیاللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الشَّہَادَۃُ سبعٌ سِوَی الْقَتْلِ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ المَطْعُونُ شَہِیدٌ، والْغَرِقُ شَہِیدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَہِیدٌ، وَالْمَبطُونُ شَہِیدٌ، وَصَاحِبُ الْحَرِیقُ شَہِیدٌ، وَالَّذِي یَمُوتُ تَحْتَ الْہَدْمِ شَہِیدٌ، وَالْمَرْأَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَہِیدٌ .
''اللہ تعالیٰ نیت کے مطابق اجر دیتا ہے، آپ شہادت کسے سمجھتے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کہنے لگے : میدان جہاد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میدان قتال کے علاوہ بھی سات اسبابِ شہادت ہیں۔ 1۔ مرض طاعون میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار جانے والا 2۔ ڈوب کر مر نے والا3۔ نمونیا سے جاں بحق ہونے والا 4۔ پیٹ کی بیماری سے جان کی بازی ہار جانے والا5۔ جل کر ہلاک ہو نے والا 6۔ دب کر دم توڑ دینے والا 7۔ حمل سے فوت ہو جانے والی خاتون۔''
(موطّأ الإمام مالک : ١/٢٣٣۔٢٣٤، سنن النسائي : ١٨٤٦، سنن أبي داود : ٣١١١، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (٣١٨٩) نے ''صحیح'' اورامام حاکم رحمہ اللہ (١/٥٠٣) نے اس کی سند کو ''صحیح'' کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ''صحیح ''کہا ہے۔
3 ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّہ، عَذَابٌ یَّبْعَثُہُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ، وَأَنَّ اللّٰہَ جَعَلَہ، رَحْمَۃً لِّلْمُؤْمِنِینَ، لَیْسَ مِنْ أَحَدٍ یَّقَعُ الطَّاعُونُ، فَیَمْکُثُ فِي بَلَدِہٖصَابِرًامُّحْتَسِبًا،یَعْلَمُأَنَّہ،لَایُصِیبُہ،إِلَّامَاکَتَبَاللّٰہُ لَہ،، إِلَّا کَانَ لَہ، مِثْلُ أَجْرِ شَہِیدٍ .
''یہ عذاب الٰہی ہے، اللہ کی مرضی سے کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اسے مومنوں کے لیے رحمت بنا دیتا ہے۔ جو طاعون کا شکار ہو جائے، صبر اور نیکی کی امید رکھتے ہوئے اپنے علاقے میں ہی ٹھہرتا ہے، نیز یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ بیماری نصیب میں لکھی تھی، اس کے لیے ایک شہید کے برابر اجر ہے۔''
(صحیح البخاري : ٣٤٧٤)
4 ۔ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل قرشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہٖفَہُوَشَہِیدٌ،وَمَنْقُتِلَدُونَ أَہْلِہٖفَہُوَشَہِیدٌ،وَمَنْقُتِلَدُونَدِینِہٖفَہُوَشَہِیدٌ،وَمَنْقُتِلَدُونَدَمِہٖفَہُوَشَہِیدٌ .
''اپنےمالکےدفاعمیںدمتوڑدینےوالاشہیدہے،اپنےاہلوعیالکیحفاظتکےدورانقتلہوجانےوالاشہیدہے،اپنےدینکوبچاتےہوئےجانکیبازی ہار جانے والا شہید ہے اور اپنی جان بچاتے بچاتے اللہ کو پیارا ہو جانے والا بھی شہید ہے۔''
(سنن أبي داود : ٤٧٧٢، سنن النسائي : ٤٠٩٥، سنن الترمذي : ١٤٢١، سنن ابن ماجہ : ٢٥٨٠، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ''حسن صحیح'' اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (٣١٩٤) نے ''صحیح'' کہا ہے۔
5 ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہٖفَہُوَشَہِیدٌ .
''مالکےدفاعمیںجاںبحقہونےوالاشہیدہے۔''
(صحیحالبخاري : ٢٤٨٠،صحیحمسلم : ١٤١)
6 ۔ سیدہامسلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَدّٰی زَکَاۃَ مَالِہٖطَیِّبَالنَّفْسِبِہَایُرِیدُبِہٖوَجْہَاللّٰہِوَالدَّارَالْآخِرَۃَلَمْیُغِیِّبْشَیْئًامِّنْمَّالِہٖوَأَقَامَالصَّلَاۃَفَتَعَدّٰیعَلَیْہِالْحَقُّفَأَخَذَسِلَاحَہ،فَقَاتَلَفَقُتِلَفَہُوَشَہِیدٌ .
''جس نے دل وجان سے زکوۃ ادا کی اور اپنے مال میں سے کچھ بھی غائب نہیں کیا۔ اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی مطلوب تھی، نماز قائم کی۔ زکوۃ وصولی کے دوران اس سے زیادتی کی گئی، تو اس نے اسلحہ تھام کر لڑائی کی لیکن، خود شکار ہو گیا، ایسا شخص بھی شہید ہے۔''
(المعجم الکبیر للطبراني : ٢٣/٢٨٧، ح : ٦٣٢، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٥٦٢، ح : ١٤٧٠، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٢٣٣٦) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (٣١٩٣) نے ''صحیح'' کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے ''بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح '' قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
7 ۔ سیدہ ام حرام بنت ملحان انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْمَائِدُ فِي الْبَحْرِ الَّذِي یُصِیبُہُ الْقَيْءُ لَہ، أَجْرُ شَہِیدٍ، وَالْغَرِقُ لَہ، أَجْرُ شَہِیدَیْنِ .
''سمندری سفر میں جی متلانے اور سر چکرانے کی وجہ سے فوت ہونے والا شہید کا اجر پاتا ہے اور ڈوب کر مرنے والے کے لیے دو شہیدوں کے برابر اجر ہے۔''
(مسند الحمیدي : ٣٤٩، سنن أبي داو،د : ٢٤٩٣، السنن الکبریٰ للبیھقي : ٤/٣٣٥، وسندہ، حسنٌ إن کان یعلی بن شداد سمع من أم حرام)
8 ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ فِیکُمْ؟ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَنْ قُتِلَ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، قَالَ : إِنَّ شُہَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَّقَلِیلٌ، قَالُوا : فَمَنْ ہُمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ : مَنْ قُتِلَ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَمَنْ مَّاتَ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَمَنْ مَّاتَ فِي الطَّاعُونِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَمَنْ مَّاتَ فِي الْبَطْنِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَالْغَرِیقُ شَہِیدٌ .
''آپ کی نظر میں شہید کون ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا : اللہ کے رسول! وہی ہے، جو میدان مقتل میں جان لٹا دے۔ فرمایا : یوں تو میری امت میں شہید برائے نام ہوں گے! صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول! اور کون ہے؟ فرمایا : میدان مقتل میں کٹ جانے والا شہید ہے، دوران جہاد فوت ہو جانے والا شہید ہے۔ مرضِ طاعون میں جان کی بازی ہار جانے والا شہیدہے۔ پیٹ کی بیماری سے ہلاک ہو جانے والا شہید ہے۔ نیز ڈوب کر فوت ہو جانے والا بھی شہید ہے۔''
(صحیح مسلم : ١٩١٥)
9 ۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ طَلَبَ الشَّہَادَۃَ صَادِقًا، أُعْطِیَہَا، وَلَوْ لَمْ تُصِبْہُ .
''جو صدقِ دل سے شہادت کا طالب ہو، تو اسے بغیر شہادت کے بھی اجر شہادت مل جائے گا۔''
(صحیح مسلم : ١٩٠٨)
10 ۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ رَّجُلٍ مُّسْلِمٍ فَوَاقَ نَاقَۃٍ، وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ، وَمَنْ سَأَلَ اللّٰہَ الْقَتْلَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِہٖصَادِقًاثُمَّمَاتَأَوْقُتِلَ،فَلَہ،أَجْرُشَہِیدٍ،وَمَنْجُرِحَجُرْحًافِيسَبِیلِاللّٰہِ،أَوْنُکِبَنَکْبَۃً،فَإِنَّہَاتَجِيءُیَوْمَالْقِیَامَۃِ کَأَغْزَرِ مَا کَانَتْ، لَوْنُہَا کَالزَّعْفَرَانِ وَرِیحُہَا کَالْمِسْکِ، وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِیلِ اللّٰہِ فَعَلَیْہِ طَابَعُ الشُّہَدَاءِ .
''جس نے اتنا وقت قتال کیا، جتنا ایک بار اونٹنی کا دودھ دوہنے میں لگتا ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ جو اللہ تعالیٰ سے تہہ دل سے شہادت کا سوال کرے، پھر وہ شہید ہو یا طبعی موت مر جائے، ہر دو صورت شہادت کا اجر پا لیتا ہے۔ جسے جہاد میں کوئی زخم لگا یا پاؤں کو ٹھوکر لگی، وہ روز قیامت پہلے سے زیادہ گہرا ہو گا، اس کا رنگ زعفران اور خوشبو کستوری کی سی ہو گی۔ جہاد میں زخمی آدمی پر شہدا کی چھاپ ہوتی ہے۔''(سنن النسائي : ٣١٤١، وسندہ، حسنٌ)
11 ۔ سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَأَلَ اللّٰہَ الشَّہَادَۃَ بِصِدْقٍ، بَلَّغَہُ اللّٰہُ مَنَازِلَ الشُّہَدَائِ، وَإِنْ مَّاتَ عَلٰی فِرَاشِہٖ .
''جس نے اللہ تعالیٰ سے صدق ِ دل سے شہادت کا سوال کیا، اللہ تعالیٰ اسے شہدا کا مرتبہ عطا کرتاہے، خواہ بستر پر ہی فوت ہوا ہو۔''(صحیح مسلم : ١٩٠٩)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی شہادت نصیب فرمائے۔آمین!
تحریر: غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری
شہادت مالک کریم کی طرف سے اپنے خاص بندوںکی تکریم ہے، اسلام میں منصب شہادت ان پاکیزہ ارواح کے لئے روا رکھا گیا ہے، جو لیلیٰ اسلام کے لئے حد جاں سے گزر جاتی ہیں، شہیداسے کہا جاتا ہے جو اللہ کے راستے میں لڑتا ہوا مقتول ہو جائے، قرآن و سنت میں شہید کے نام سے جاری کردہ تمام تکریمات و اعزازات اسی خوش بخت کا نصیبہ ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض دوسرے لوگوں کو بھی اسلام میں شہید کہا گیا ہے، یہ حکماً شہید ہیں حقیقی نہیں، انہیں صرف شہید کا نام دیا گیا ہے، شہید فی سبیل اللہ کے تمام اجر میں شریک و سہیم نہیں بنایا گیا۔
بات چل نکلی ہے تو کہے دیں کہ ہمارے ہا ں درجہ شہادت تقسیم کرنے کا جو ٹرینڈ چل نکلا ہے، ہر ایرے غیرے، کو شہید کانام دے دیا جاتا ہے، شہیدِ سیاست،شہید جمہوریت،شہید تحریک،شہید آزادی، حتی کہ مشرکین اور بے دین ملاحدہ کو بھی شہید کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ کسی ملک یا علاقے یا تحریک کے لئے قابل تکریم ہوں تو ہوں ، مگر اسلام کا عطا کردہ مرتبہ شہادت جو اسلام کا ایک پرائیویٹ اعزاز ہے، ہر ایک کے لئے انتہائی نامناسب ہے، یہ علمی چوری ہے، اسلامی اصطلاحات کے ساتھ بھیانک مذاق ہے، منصب شہادت کی بنیاد عقیدہ وعمل پرہے ، جو اسلا م کو سرے سے مانتا ہی نہیں یا اسلامی عقائد سے نالاں و برگشتہ ہے، اسے شہید کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟
ازراہ کرم! آپ اپنے معززین کو کوئی اور نام دے لیں مگر اسلام کی اصطلاحات کو تباہ نہ کریں، انہیں اسلام کے ساتھ رہنے دیں، ویسے دن رات اسلام کی مخالفت کرنے والے اسلام کے درجہ شہادت کو اپنے نام کرنے کے لئے کتنے بے چین ہیں؟
شارح مسلم، حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ الشَّہِیدَ ثَلَاثَۃُ أَقْسَامٍ أَحَدُہَا الْمَقْتُولُ فِي حَرْبِ الْکُفَّارِ بِسَبَبٍ مِّنْ أَسْبَابِ الْقِتَالِ فَہٰذَا لَہ، حُکْمُ الشُّہَدَاءِ فِي ثَوَابِ الْآخِرَۃِ وَفِي أَحْکَامِ الدُّنْیَا وَہُوَ أَنَّہ، لَا یُغَسَّلُ وَلَا یُصَلّٰی عَلَیْہِ، وَالثَّانِي شَہِیدٌ فِي الثَّوَابِ دُونَ أَحْکَامِ الدُّنْیَا وَہُوَ الْمَبْطُونُ وَالْمَطْعُونُ وَصَاحِبُ الْہَدْمِ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہٖوَغَیْرُہُمْمِمَّنْجَاءَتِالْـأَحَادِیثُالصَّحِیحَۃُبِتَسْمِیَتِہٖشَہِیدًافَہٰذَایُغَسَّلُوَیُصَلّٰیعَلَیْہِوَلَہ،فِيالْآخِرَۃِثَوَابُالشُّہَدَاءِوَلَایَلْزَمُأَنْیَّکُونَ مِثْلَ ثَوَابِ الْـأَوَّلِ، وَالثَّالِثُ مَنْ غَلَّ فِي الْغَنِیمَۃِ وَشَبَہِہٖمِمَّنْوَرَدَتِالْآثَارُبِنَفْيِتَسْمِیَتِہٖشَہِیدًاإِذَاقُتِلَفِيحَرْبِالْکُفَّارِفَہٰذَالَہ،حُکْمُالشُّہَدَاءِفِيالدُّنْیَافَلَایُغَسَّلُوَلَایُصَلّٰی عَلَیْہِ وَلَیْسَ لَہ، ثَوَابُہُمُ الْکَامِلُ فِي الْآخِرَۃِ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
''جان لیجئے کہ شہدا کی تین اقسام ہیں : 1: قتال کے کسی سبب سے کفار سے جنگ کے دوران قتل ہو جانے والا۔ شہدا کے لیے جو ثواب آخرت میں تیار ہے اور ان پر جو دنیوی احکام لاگو ہوتے ہیں، اس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ 2: ایک وہ شہید ہے، جس کا ثواب تو شہداء والا ہے، لیکن اس پر دنیوی احکام صادر نہیں ہوتے۔ اس قسم میں پیٹ کی بیماری میں فوت ہو جانے والا، طاعون کی زد میں دم توڑ جانے والا، دب کر جاں بحق ہو نے والا، اپنے مال کے دفاع میں قتل ہو جانے والا اور دیگر، جن پر احادیث صحیحہ میں شہید کا لفظ بولا گیا، شامل ہیں۔ ان کو غسل دیا جائے گا، جنازہ بھی پڑھا جائے گا، لیکن آخرت میں ثواب شہید والا ہی ہے۔ ہاں یہ ضروری نہیں کہ ان کا ثواب پہلے کے برابر ہو۔ 3: جو مال غنیمت میں ڈنڈی مارے، اسی طرح کفار سے لڑائی میں مارے جانے والے وہ مجاہدین، جنہیں شہید کہنے کی نفی میں احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اس قسم کے لوگوں پر دنیا میں شہدا والے احکام جاری ہوں گے، یعنی انہیں غسل دیا جائے گا، نہ جنازہ پڑھا جائے گا اور آخرت میں کامل اجر سے محروم ہوں گے۔ واللہ اعلم بالصواب!''
(شرح صحیح مسلم : ٢/١٦٣)
ذیل کی سطور میں ان شہداء کا تذکرہ کیا جاتا ہے جنہیں اسلام نے حقیقی یا حکمی کسی بھی صورت میں شہید کہا ہے۔
1 ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلشُّہَدَاءُ خَمْسَۃٌ، الْمَطْعُونُ، وَالْمَبْطُونُ، وَالْغَرِقُ، وَصَاحِبُ الْہَدْمِ، وَالشَّہِیدُ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ .
''شہید پانچ قسم کے ہیں۔ 1۔ طاعون سے فوت ہونے والا 2۔ پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہو نے والا3۔ ڈوب کر فوت ہو جانے والا4۔ دب کر فوت ہو جانے والا 5۔ اللہ کی راہ میں کٹ جانے والا۔''
(صحیح البخاري : ٢٨٢٩، صحیح مسلم : ١٩١٤)
2.سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَہ، عَلٰی قَدْرِ نِیَّتِہٖ،وَمَاتَعُدُّونَالشَّہَادَۃَ؟قَالُوا : الْقَتْلُفِيسَبِیلِاللّٰہِتَعَالٰی،قَالَرَسُولُاللّٰہِصَلَّیاللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الشَّہَادَۃُ سبعٌ سِوَی الْقَتْلِ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ المَطْعُونُ شَہِیدٌ، والْغَرِقُ شَہِیدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَہِیدٌ، وَالْمَبطُونُ شَہِیدٌ، وَصَاحِبُ الْحَرِیقُ شَہِیدٌ، وَالَّذِي یَمُوتُ تَحْتَ الْہَدْمِ شَہِیدٌ، وَالْمَرْأَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَہِیدٌ .
''اللہ تعالیٰ نیت کے مطابق اجر دیتا ہے، آپ شہادت کسے سمجھتے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کہنے لگے : میدان جہاد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میدان قتال کے علاوہ بھی سات اسبابِ شہادت ہیں۔ 1۔ مرض طاعون میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار جانے والا 2۔ ڈوب کر مر نے والا3۔ نمونیا سے جاں بحق ہونے والا 4۔ پیٹ کی بیماری سے جان کی بازی ہار جانے والا5۔ جل کر ہلاک ہو نے والا 6۔ دب کر دم توڑ دینے والا 7۔ حمل سے فوت ہو جانے والی خاتون۔''
(موطّأ الإمام مالک : ١/٢٣٣۔٢٣٤، سنن النسائي : ١٨٤٦، سنن أبي داود : ٣١١١، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (٣١٨٩) نے ''صحیح'' اورامام حاکم رحمہ اللہ (١/٥٠٣) نے اس کی سند کو ''صحیح'' کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ''صحیح ''کہا ہے۔
3 ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّہ، عَذَابٌ یَّبْعَثُہُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ، وَأَنَّ اللّٰہَ جَعَلَہ، رَحْمَۃً لِّلْمُؤْمِنِینَ، لَیْسَ مِنْ أَحَدٍ یَّقَعُ الطَّاعُونُ، فَیَمْکُثُ فِي بَلَدِہٖصَابِرًامُّحْتَسِبًا،یَعْلَمُأَنَّہ،لَایُصِیبُہ،إِلَّامَاکَتَبَاللّٰہُ لَہ،، إِلَّا کَانَ لَہ، مِثْلُ أَجْرِ شَہِیدٍ .
''یہ عذاب الٰہی ہے، اللہ کی مرضی سے کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اسے مومنوں کے لیے رحمت بنا دیتا ہے۔ جو طاعون کا شکار ہو جائے، صبر اور نیکی کی امید رکھتے ہوئے اپنے علاقے میں ہی ٹھہرتا ہے، نیز یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ بیماری نصیب میں لکھی تھی، اس کے لیے ایک شہید کے برابر اجر ہے۔''
(صحیح البخاري : ٣٤٧٤)
4 ۔ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل قرشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہٖفَہُوَشَہِیدٌ،وَمَنْقُتِلَدُونَ أَہْلِہٖفَہُوَشَہِیدٌ،وَمَنْقُتِلَدُونَدِینِہٖفَہُوَشَہِیدٌ،وَمَنْقُتِلَدُونَدَمِہٖفَہُوَشَہِیدٌ .
''اپنےمالکےدفاعمیںدمتوڑدینےوالاشہیدہے،اپنےاہلوعیالکیحفاظتکےدورانقتلہوجانےوالاشہیدہے،اپنےدینکوبچاتےہوئےجانکیبازی ہار جانے والا شہید ہے اور اپنی جان بچاتے بچاتے اللہ کو پیارا ہو جانے والا بھی شہید ہے۔''
(سنن أبي داود : ٤٧٧٢، سنن النسائي : ٤٠٩٥، سنن الترمذي : ١٤٢١، سنن ابن ماجہ : ٢٥٨٠، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ''حسن صحیح'' اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (٣١٩٤) نے ''صحیح'' کہا ہے۔
5 ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہٖفَہُوَشَہِیدٌ .
''مالکےدفاعمیںجاںبحقہونےوالاشہیدہے۔''
(صحیحالبخاري : ٢٤٨٠،صحیحمسلم : ١٤١)
6 ۔ سیدہامسلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَدّٰی زَکَاۃَ مَالِہٖطَیِّبَالنَّفْسِبِہَایُرِیدُبِہٖوَجْہَاللّٰہِوَالدَّارَالْآخِرَۃَلَمْیُغِیِّبْشَیْئًامِّنْمَّالِہٖوَأَقَامَالصَّلَاۃَفَتَعَدّٰیعَلَیْہِالْحَقُّفَأَخَذَسِلَاحَہ،فَقَاتَلَفَقُتِلَفَہُوَشَہِیدٌ .
''جس نے دل وجان سے زکوۃ ادا کی اور اپنے مال میں سے کچھ بھی غائب نہیں کیا۔ اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی مطلوب تھی، نماز قائم کی۔ زکوۃ وصولی کے دوران اس سے زیادتی کی گئی، تو اس نے اسلحہ تھام کر لڑائی کی لیکن، خود شکار ہو گیا، ایسا شخص بھی شہید ہے۔''
(المعجم الکبیر للطبراني : ٢٣/٢٨٧، ح : ٦٣٢، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٥٦٢، ح : ١٤٧٠، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٢٣٣٦) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (٣١٩٣) نے ''صحیح'' کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے ''بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح '' قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
7 ۔ سیدہ ام حرام بنت ملحان انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْمَائِدُ فِي الْبَحْرِ الَّذِي یُصِیبُہُ الْقَيْءُ لَہ، أَجْرُ شَہِیدٍ، وَالْغَرِقُ لَہ، أَجْرُ شَہِیدَیْنِ .
''سمندری سفر میں جی متلانے اور سر چکرانے کی وجہ سے فوت ہونے والا شہید کا اجر پاتا ہے اور ڈوب کر مرنے والے کے لیے دو شہیدوں کے برابر اجر ہے۔''
(مسند الحمیدي : ٣٤٩، سنن أبي داو،د : ٢٤٩٣، السنن الکبریٰ للبیھقي : ٤/٣٣٥، وسندہ، حسنٌ إن کان یعلی بن شداد سمع من أم حرام)
8 ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ فِیکُمْ؟ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَنْ قُتِلَ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، قَالَ : إِنَّ شُہَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَّقَلِیلٌ، قَالُوا : فَمَنْ ہُمْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ : مَنْ قُتِلَ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَمَنْ مَّاتَ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَمَنْ مَّاتَ فِي الطَّاعُونِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَمَنْ مَّاتَ فِي الْبَطْنِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَالْغَرِیقُ شَہِیدٌ .
''آپ کی نظر میں شہید کون ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا : اللہ کے رسول! وہی ہے، جو میدان مقتل میں جان لٹا دے۔ فرمایا : یوں تو میری امت میں شہید برائے نام ہوں گے! صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول! اور کون ہے؟ فرمایا : میدان مقتل میں کٹ جانے والا شہید ہے، دوران جہاد فوت ہو جانے والا شہید ہے۔ مرضِ طاعون میں جان کی بازی ہار جانے والا شہیدہے۔ پیٹ کی بیماری سے ہلاک ہو جانے والا شہید ہے۔ نیز ڈوب کر فوت ہو جانے والا بھی شہید ہے۔''
(صحیح مسلم : ١٩١٥)
9 ۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ طَلَبَ الشَّہَادَۃَ صَادِقًا، أُعْطِیَہَا، وَلَوْ لَمْ تُصِبْہُ .
''جو صدقِ دل سے شہادت کا طالب ہو، تو اسے بغیر شہادت کے بھی اجر شہادت مل جائے گا۔''
(صحیح مسلم : ١٩٠٨)
10 ۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ رَّجُلٍ مُّسْلِمٍ فَوَاقَ نَاقَۃٍ، وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ، وَمَنْ سَأَلَ اللّٰہَ الْقَتْلَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِہٖصَادِقًاثُمَّمَاتَأَوْقُتِلَ،فَلَہ،أَجْرُشَہِیدٍ،وَمَنْجُرِحَجُرْحًافِيسَبِیلِاللّٰہِ،أَوْنُکِبَنَکْبَۃً،فَإِنَّہَاتَجِيءُیَوْمَالْقِیَامَۃِ کَأَغْزَرِ مَا کَانَتْ، لَوْنُہَا کَالزَّعْفَرَانِ وَرِیحُہَا کَالْمِسْکِ، وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِیلِ اللّٰہِ فَعَلَیْہِ طَابَعُ الشُّہَدَاءِ .
''جس نے اتنا وقت قتال کیا، جتنا ایک بار اونٹنی کا دودھ دوہنے میں لگتا ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ جو اللہ تعالیٰ سے تہہ دل سے شہادت کا سوال کرے، پھر وہ شہید ہو یا طبعی موت مر جائے، ہر دو صورت شہادت کا اجر پا لیتا ہے۔ جسے جہاد میں کوئی زخم لگا یا پاؤں کو ٹھوکر لگی، وہ روز قیامت پہلے سے زیادہ گہرا ہو گا، اس کا رنگ زعفران اور خوشبو کستوری کی سی ہو گی۔ جہاد میں زخمی آدمی پر شہدا کی چھاپ ہوتی ہے۔''(سنن النسائي : ٣١٤١، وسندہ، حسنٌ)
11 ۔ سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَأَلَ اللّٰہَ الشَّہَادَۃَ بِصِدْقٍ، بَلَّغَہُ اللّٰہُ مَنَازِلَ الشُّہَدَائِ، وَإِنْ مَّاتَ عَلٰی فِرَاشِہٖ .
''جس نے اللہ تعالیٰ سے صدق ِ دل سے شہادت کا سوال کیا، اللہ تعالیٰ اسے شہدا کا مرتبہ عطا کرتاہے، خواہ بستر پر ہی فوت ہوا ہو۔''(صحیح مسلم : ١٩٠٩)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی شہادت نصیب فرمائے۔آمین!