ابوابراہیم فیصل
مبتدی
- شمولیت
- فروری 27، 2025
- پیغامات
- 13
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 5
جیسے ہی رمضان المبارک کی آمد آمد ہوتی ہے تو ملحدین زور شور سے یہ اعتراضات کرتے ہیں کہ احادیث مبارکہ میں جب یہ ارشادات موجود ہیں کہ شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے تو پھر انسان گناہ کیوں کرتے ہیں ؟
پہلے ہمیں یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ گناہ سرزد ہوتے کیوں ہیں ۔
قرآن مجید کا پہلا مقام
اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے ۔
وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ (سورہ یوسف : 53)
قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیت کریمہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کا نفس انسان کو ب…
شیخ جو اب بھیجوں گا وہ بھیجیئے پرنٹنگ کے لئے
"شیاطین کے جکڑے جانے کے باوجود گناہ کیوں؟"
۔۔
جیسے ہی رمضان المبارک کی آمد آمد ہوتی ہے تو ملحدین زور شور سے یہ اعتراضات کرتے ہیں کہ احادیث مبارکہ میں جب یہ ارشادات موجود ہیں کہ شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے تو پھر انسان گناہ کیوں کرتے ہیں ؟
پہلے ہمیں یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ گناہ سرزد ہوتے کیوں ہیں ۔
قرآن مجید کا پہلا مقام
اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے ۔
وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ (سورہ یوسف : 53)
قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیت کریمہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کا نفس انسان کو برائی کرنے پر آمادہ کرتا ہے ۔ اور برائی سے بچنے کی توفیق اللہ کے حکم سے ہے ۔
قرآن مجید کا دوسرا مقام ۔
يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا
اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (بوجھ) ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
(سورہ النساء : 28 )
جہاں پر اللہ رب العزت نے قرآن میں انسان کو احسن تقویم کہا ہے وہیں پر اللہ نے انسان کو بعض معاملات میں ضعیف (کمزور) بھی کہا ہے ۔
قرآن مجید کا تیسرا مقام
وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
اور تمھیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤ گے۔ بلاشبہ انسان یقیناً بڑا ظالم، بہت ناشکرا ہے۔ (سورہ ابراہیم : 34)
یعنی ایک تو انسان کا نفس اس کو برائی اور گناہ کرنے پر ابھارتا ہے دوسرا انسان کمزور بھی ہے اور تیسرا یہ کہ انسان ناشکرا اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والا بھی ہے ۔ اس لئے انسان کی ان کیفیات کا تعلق قطعی طور پر کسی خاص مدت تک محدود نہیں اور نہ ہی انسان کی ان صفات کو کسی خاص مدت میں محدود(یعنی مقدار کو کم ) کیا جا سکتا ہے ۔
قرآن مجید فرقان حمید کا چوتھا مقام :
وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولً
اور انسان برائی کی دعا کرتا ہے اپنے بھلائی کی دعا کرنے کی طرح اور انسان ہمیشہ سے بہت جلد باز ہے۔ (سورہ الاسراء: 11)
اس آیت کریمہ میں انسان کی ایک اور صفت بھی بیان ہوئی ہے کہ انسان بہت سے اعمال کرنے میں جلد بازی کر جاتا ہے ۔ کئی ایسے مقامات انسانی زندگی میں آتے ہیں جہاں پر اسے جلدی بازی سے نہیں صبر سے کام لینا ہوتا ہے گناہ اور سرکشی اختیار کرنے میں بھی انسان جلد بازی کرتا ہے ۔۔۔
قرآن مجید کا پانچواں مقام :
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دشمن بنا دیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا رہتا ہے اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ پس چھوڑ انھیں اور جو وہ جھوٹ گھڑتے ہیں۔( سورہ الانعام : 112)
رمضان میں جن شیاطین کو قید کیا جاتا ہے ان سے متعلق دو باتیں جاننا انتہائی ضروری ہیں:
شیاطین کی ایک قسم ’’شیاطینِ انس‘‘ ہوتی ہے اور وہ رمضان میں بھی آزاد ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں’’شیاطینِ جن‘‘ کے ساتھ ’’شیاطینِ انس‘‘ کا بھی ذکر ہوا ہے۔ فرمایا:
الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِمِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [الناس : 5 – 6]
ترجمہ: وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔
اس لئے یہ ملحدین کا مغالطہ ہے کہ قرآن و حدیث میں کوئی ایسا ارشاد بیان کر دیا گیا ہے کہ رمضان میں شیاطین جکڑنے سے مراد انسان کی تمام تر کمزوریاں ، اختیاری ارادے ، گناہ کے ارتقاب کی طاقت ، اس کی اپنے نفس پر ظلم کی تمام صفات کو ہی ختم کر دیا جاتا ہے ۔
رمضان میں شیاطین کو جکڑنا،قید کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے، جن میں سے چند یہ ہیں*
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ ".
جب رمضان شروع ہو تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3277)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1079)
مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ ؛ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ
جب رمضان آتا ہے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کےدروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین بیڑیوں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1079)
سنن ترمذی میں ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتْ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنْ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ
جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اورسرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بندنہیں کیاجاتا، پکارنے والا پکارتاہے: خیر کے طلب گار!آگے بڑھ ، اور شرکے طلب گار! رُک جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزادکئے ہوئے بندے ہیں (توہوسکتاہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا(رمضان کی) ہررات کو ہوتا ہے
(سنن ترمذی حدیث نمبر-682)
( سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1642)
اسے البانی رحمہ اللہ نے "صحیح الجامع": (759) میں صحیح قرار دیا ہے
۔۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے رمضان المبارک کے ایام سے متعلق استفسار کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس ماہ میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں) لیکن اس کے با وجود لوگوں کو جنوں کے دورے پڑتے ہیں؛ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کو دورے بھی پڑیں اور شیاطین جکڑے ہوئے بھی ہوں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس حدیث کے بعض الفاظ میں یہ بھی ہے کہ : (سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں) اور نسائی کی حدیث میں ہے کہ(بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں) اس قسم کی احادیث غیبی امور سے متعلق ہیں ، اور غیبی امور کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ جیسے بیان ہوں ویسے ہی تسلیم کر لیا جائے اور انہیں مبنی بر حق مانا جائے، نیز اس بارے میں اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی موقف کی بنا پر ہر آدمی کا دین سلامت اور انجام بہتر ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جب عبد اللہ بن امام احمد بن حنبل نے اپنے والد سے کہا: "انسان کو رمضان میں بھی جنات کے دورے پڑتے ہیں" تو انہوں نے کہا: "حدیث میں ایسے ہی آیا ہے، اس بارے میں مزید بات مت کرو" ویسے بھی لوگوں کو گمراہ کرنے سے انہیں روک دیا جاتا ہے اور یہ بات مشاہدے میں بھی ہے کہ لوگ کثرت کیساتھ خیر چاہتے ہیں، اور رمضان میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں"
(" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (20/ 75)
۔۔۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ اس لیے ہے کہ ماہ رمضان میں دل نیکی، اور اعمال صالح کی طرف لپکتے ہیں، جن کی وجہ سے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور دل گناہوں سے بچتے ہیں اسی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ وہ ایسے کار نامے سر انجام نہیں دے پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جکڑا ہوا قید ہوتا ہے، اور شیاطین کیلئے بنی آدم کو گمراہ کرنے کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب بنی آدم شہوت کی گرفت میں آجائے، چنانچہ جس قدر بنی آدم شہوت سے دور رہتے ہیں شیاطین جکڑ بندی کی حالت میں ہی رہتے ہیں" انتہی
("مجموع الفتاوى"14/167)
۔۔۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ:
"یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب رمضان شروع ہو جائے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے)؛ کیونکہ شیاطین کے چلنے کی جگہ خون ہوتا ہے، اور شیاطین کیلئے وہی تنگ کر دیا جاتا ہے، جب شیاطین تنگ ہوتے ہیں تو دل نیکی کرنے کیلئے لپکتے ہیں، اور انہی نیکیوں کی وجہ سے ہی جنت کے دروازے کھلتے ہیں، اور دل برائی سے بچتے ہیں جس کی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو پا بند سلاسل کر دیے جانے کی وجہ سے ان کی قوت، نشاط کمزور پڑ جاتی ہے، چنانچہ رمضان میں وہ کچھ نہیں کر پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں، [غور کی بات یہ ہے کہ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ انہیں قتل کر دیا جاتا ہے، یا مار دیا جاتا ہے، بلکہ فرمایا: (جکڑ دیا جاتا ہے) اور جکڑا ہوا شیطان بھی اذیت پہنچا سکتا ہے اگرچہ یہ اذیت غیر رمضان کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے؛ اور شیطانی اذیت میں کمی روزے کے معیار پر منحصر ہے، چنانچہ جس شخص کا روزہ کامل ہوگا شیطان اس سے دور بھاگے گا، لیکن ناقص روزے والے سے زیادہ دور نہیں جائے گا، یہ بات روزے دار کو کھانے پینے سے روکنے کیلئے بالکل واضح معلوم ہوتی ہے"
("مجموع الفتاوى" (25/246)
۔۔ شیخ عثیمین اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمھما اللہ کے فتاویٰ جات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں میں گناہ کرنے کا تناسب کم ہو جاتا ہے ۔ یعنی گناہ کرنے کی رفتار و مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے اور کسی بھی مسلمان کا دوران روزہ گناہ کرنا اس کے تقویٰ اور معیار روزہ پر منحصر ہے ۔ روزے دار کا تقویٰ جتنا اچھا ہو گا وہ جتنا گناہوں سے اجتناب کرنے میں اللہ سے ڈرے گا اتنی ہی اسے گناہوں سے بچنے کی توفیق بھی ملے گی ۔
انسان صفت شیاطین کا ، رمضان المبارک میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو اختیار کرنا ، زنا ، چوری ، ڈاکا ، قتل ، راہ زنی وغیرہ اختیار کرنا سراسر ایمان کے گھاٹے کے سبب ہے ۔
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، عن الاعمش، عن ذكوان، عن ابي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ولا يشرب حين يشربها وهو مؤمن، والتوبة معروضة بعد".
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ذکوان نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، وہ چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، شرابی جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر ان سب آدمیوں کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا ہوا ہے۔“
حدیث نمبر: 6810
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
اس لئے کسی ملحد کا ایمانیات پر اعتراض کرنا سرے سے درست ہے ہی نہیں رسول اللہ ﷺ کی اس اہم حدیث میں کسی خاص وقت ، خاص مہینے کا ذکر نہیں فرمایا گیا ۔ اگر ایسا ہو جاتا تو یقینا رمضان میں کسی بھی قسم کا کوئی گناہ سرزد ہوتا ہی نہیں ۔۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اہل ایمان کو وعید بھی سنائی کہ جو رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش نہ کروا سکے تو اس کے لئے اللہ کی طرف سے کیا سزا ہو گی ۔۔۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
شقِيَ عبدٌ أدركَ رمضانَ فانسلخَ منهُ ولَم يُغْفَرْ لهُ(صحيح الأدب المفرد:500)
ترجمہ: بدبخت ہے وہ جس نے رمضان پایا اوریہ مہینہ اس سے نکل گیا اور وہ اس میں( نیک اعمال کرکے) اپنی بخشش نہ کرواسکا۔
الفاظ کے اختلاف کے ساتھ اس معنی کی کئی صحیح احادیث وارد ہیں جن سےرمضان المبارک میں محروم ہونے والوں کی محرومی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ایک جگہ ہے :رَغِمَ أنفُ امرئٍ أدرك رمضانَ فلم يُغْفَرْ له(فضل الصلاۃ للالبانی:15، صحیح بشواھدہ)
ترجمہ: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے رمضان پایا اور اس کی بخشش نہ ہوئی۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:بَعُدَ من أدرك رمضانَ فلم يُغْفَرْ له(صحيح الترغيب:1677)
ترجمہ: دوری ہو اس کے لئے جس نے رمضان پایا اور وہ نہیں بخشا گیا۔
تیسری جگہ وارد ہے:منْ أدركَ شهرَ رمضانَ ، فلم يُغفرْ له ، فدخلَ النارَ ؛ فأَبعدهُ اللهُ(صحيح الترغيب:1679)
ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا ، اس کی مغفرت نہ ہوئی اور وہ جہنم میں داخل ہوا اسے اللہ دور کرے گا ۔
چوتھی جگہ مذکور ہے:مَن أدرك شهرَ رمضانَ فماتَ فلم يُغْفَرْ لهُ فأُدْخِلَ النَّارَ فأبعدَه اللهُ(صحيح الجامع:75)
ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا ، مرگیا ، اس کی مغفرت نہیں ہوئی اور وہ جہنم میں داخل کردیا گیا اسے اللہ اپنی رحمت سے دور کردے گا۔
یعنی جو شخص رمضان المبارک پا لینے کے بعد جس میں نیکیوں کے اجر لا محدود ہیں اور خود حدیث قدسی میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا ۔ اس کے باوجود انسان گناہوں کی زندگی کو ترک نہ کرے تو اس کے لئے کتنی بد بختیاں ہیں ۔ اللہ کی لعنت کا مستحق ہے ، جہنم میں داخل کر دیا جائے گا اور اللہ رب العزت اپنی رحمت سے دور کر دے گا ۔ اس کا صاف واضح مطلب یہ ہے کہ ان احادیث مبارکہ میں یہ وعیدیں سنائی جانا اسی لئے ہے کہ شیاطین کے قید ہونے سے شیاطین انس اور نفس امارہ جو گناہوں کی طرف متوجہ و راغب کرتی ہیں گناہ کرنے والے انسان ان کے مطابق اختیار والے ہوں گے ۔ لیکن رمضان المبارک کی وجہ سے ملنے والی خوشخبریوں کی وجہ سے اہل ایمان کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے دور رہنے کی کوشش کریں گے اور شیاطین کے وساوس کو شکست دیں گے ۔
رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ آدم کی ساری اولاد خطاکار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہے جو اپنے گناہوں سے توبہ کرے معافی مانگے ۔ ایک ملحد جو اللہ ہی کے وجود کا انکاری ہے ، جن و شیاطین کا انکاری ہے ، انسانی نفس کی کمزوریوں کا منکر ہے ۔ وہ کس طرح ایمانیات میں یہ مغالطہ پیدا کر سکتا ہے ؟ جب کہ وہ خود شیطانی وساوس اور تشکیکات کے نرغے میں ہے؟ اور اسے اپنے روحانی علاج کی سخت ضرورت ہے ۔اللہ رب العزت ہمیں رمضان المبارک کی برکات سمیٹنے کی توفیق دے اور ہمارے سارے گناہوں کو اپنی رحمت اور فضل سے معاف فرما دے آمین ۔
ازقلم : عبدالسلام فیصل
پہلے ہمیں یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ گناہ سرزد ہوتے کیوں ہیں ۔
قرآن مجید کا پہلا مقام
اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے ۔
وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ (سورہ یوسف : 53)
قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیت کریمہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کا نفس انسان کو ب…
شیخ جو اب بھیجوں گا وہ بھیجیئے پرنٹنگ کے لئے
"شیاطین کے جکڑے جانے کے باوجود گناہ کیوں؟"
۔۔
جیسے ہی رمضان المبارک کی آمد آمد ہوتی ہے تو ملحدین زور شور سے یہ اعتراضات کرتے ہیں کہ احادیث مبارکہ میں جب یہ ارشادات موجود ہیں کہ شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے تو پھر انسان گناہ کیوں کرتے ہیں ؟
پہلے ہمیں یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ گناہ سرزد ہوتے کیوں ہیں ۔
قرآن مجید کا پہلا مقام
اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے ۔
وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی، بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ (سورہ یوسف : 53)
قرآن مجید فرقان حمید کی اس آیت کریمہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کا نفس انسان کو برائی کرنے پر آمادہ کرتا ہے ۔ اور برائی سے بچنے کی توفیق اللہ کے حکم سے ہے ۔
قرآن مجید کا دوسرا مقام ۔
يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا
اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (بوجھ) ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
(سورہ النساء : 28 )
جہاں پر اللہ رب العزت نے قرآن میں انسان کو احسن تقویم کہا ہے وہیں پر اللہ نے انسان کو بعض معاملات میں ضعیف (کمزور) بھی کہا ہے ۔
قرآن مجید کا تیسرا مقام
وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
اور تمھیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤ گے۔ بلاشبہ انسان یقیناً بڑا ظالم، بہت ناشکرا ہے۔ (سورہ ابراہیم : 34)
یعنی ایک تو انسان کا نفس اس کو برائی اور گناہ کرنے پر ابھارتا ہے دوسرا انسان کمزور بھی ہے اور تیسرا یہ کہ انسان ناشکرا اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والا بھی ہے ۔ اس لئے انسان کی ان کیفیات کا تعلق قطعی طور پر کسی خاص مدت تک محدود نہیں اور نہ ہی انسان کی ان صفات کو کسی خاص مدت میں محدود(یعنی مقدار کو کم ) کیا جا سکتا ہے ۔
قرآن مجید فرقان حمید کا چوتھا مقام :
وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولً
اور انسان برائی کی دعا کرتا ہے اپنے بھلائی کی دعا کرنے کی طرح اور انسان ہمیشہ سے بہت جلد باز ہے۔ (سورہ الاسراء: 11)
اس آیت کریمہ میں انسان کی ایک اور صفت بھی بیان ہوئی ہے کہ انسان بہت سے اعمال کرنے میں جلد بازی کر جاتا ہے ۔ کئی ایسے مقامات انسانی زندگی میں آتے ہیں جہاں پر اسے جلدی بازی سے نہیں صبر سے کام لینا ہوتا ہے گناہ اور سرکشی اختیار کرنے میں بھی انسان جلد بازی کرتا ہے ۔۔۔
قرآن مجید کا پانچواں مقام :
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دشمن بنا دیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا رہتا ہے اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ پس چھوڑ انھیں اور جو وہ جھوٹ گھڑتے ہیں۔( سورہ الانعام : 112)
رمضان میں جن شیاطین کو قید کیا جاتا ہے ان سے متعلق دو باتیں جاننا انتہائی ضروری ہیں:
شیاطین کی ایک قسم ’’شیاطینِ انس‘‘ ہوتی ہے اور وہ رمضان میں بھی آزاد ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں’’شیاطینِ جن‘‘ کے ساتھ ’’شیاطینِ انس‘‘ کا بھی ذکر ہوا ہے۔ فرمایا:
الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِمِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [الناس : 5 – 6]
ترجمہ: وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔
اس لئے یہ ملحدین کا مغالطہ ہے کہ قرآن و حدیث میں کوئی ایسا ارشاد بیان کر دیا گیا ہے کہ رمضان میں شیاطین جکڑنے سے مراد انسان کی تمام تر کمزوریاں ، اختیاری ارادے ، گناہ کے ارتقاب کی طاقت ، اس کی اپنے نفس پر ظلم کی تمام صفات کو ہی ختم کر دیا جاتا ہے ۔
رمضان میں شیاطین کو جکڑنا،قید کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے، جن میں سے چند یہ ہیں*
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ ".
جب رمضان شروع ہو تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3277)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1079)
مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ ؛ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ
جب رمضان آتا ہے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کےدروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین بیڑیوں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1079)
سنن ترمذی میں ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتْ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنْ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ
جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اورسرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بندنہیں کیاجاتا، پکارنے والا پکارتاہے: خیر کے طلب گار!آگے بڑھ ، اور شرکے طلب گار! رُک جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزادکئے ہوئے بندے ہیں (توہوسکتاہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا(رمضان کی) ہررات کو ہوتا ہے
(سنن ترمذی حدیث نمبر-682)
( سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1642)
اسے البانی رحمہ اللہ نے "صحیح الجامع": (759) میں صحیح قرار دیا ہے
۔۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے رمضان المبارک کے ایام سے متعلق استفسار کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس ماہ میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں) لیکن اس کے با وجود لوگوں کو جنوں کے دورے پڑتے ہیں؛ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کو دورے بھی پڑیں اور شیاطین جکڑے ہوئے بھی ہوں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس حدیث کے بعض الفاظ میں یہ بھی ہے کہ : (سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں) اور نسائی کی حدیث میں ہے کہ(بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں) اس قسم کی احادیث غیبی امور سے متعلق ہیں ، اور غیبی امور کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ جیسے بیان ہوں ویسے ہی تسلیم کر لیا جائے اور انہیں مبنی بر حق مانا جائے، نیز اس بارے میں اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی موقف کی بنا پر ہر آدمی کا دین سلامت اور انجام بہتر ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جب عبد اللہ بن امام احمد بن حنبل نے اپنے والد سے کہا: "انسان کو رمضان میں بھی جنات کے دورے پڑتے ہیں" تو انہوں نے کہا: "حدیث میں ایسے ہی آیا ہے، اس بارے میں مزید بات مت کرو" ویسے بھی لوگوں کو گمراہ کرنے سے انہیں روک دیا جاتا ہے اور یہ بات مشاہدے میں بھی ہے کہ لوگ کثرت کیساتھ خیر چاہتے ہیں، اور رمضان میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں"
(" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (20/ 75)
۔۔۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ اس لیے ہے کہ ماہ رمضان میں دل نیکی، اور اعمال صالح کی طرف لپکتے ہیں، جن کی وجہ سے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور دل گناہوں سے بچتے ہیں اسی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ وہ ایسے کار نامے سر انجام نہیں دے پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جکڑا ہوا قید ہوتا ہے، اور شیاطین کیلئے بنی آدم کو گمراہ کرنے کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب بنی آدم شہوت کی گرفت میں آجائے، چنانچہ جس قدر بنی آدم شہوت سے دور رہتے ہیں شیاطین جکڑ بندی کی حالت میں ہی رہتے ہیں" انتہی
("مجموع الفتاوى"14/167)
۔۔۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ:
"یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب رمضان شروع ہو جائے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے)؛ کیونکہ شیاطین کے چلنے کی جگہ خون ہوتا ہے، اور شیاطین کیلئے وہی تنگ کر دیا جاتا ہے، جب شیاطین تنگ ہوتے ہیں تو دل نیکی کرنے کیلئے لپکتے ہیں، اور انہی نیکیوں کی وجہ سے ہی جنت کے دروازے کھلتے ہیں، اور دل برائی سے بچتے ہیں جس کی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو پا بند سلاسل کر دیے جانے کی وجہ سے ان کی قوت، نشاط کمزور پڑ جاتی ہے، چنانچہ رمضان میں وہ کچھ نہیں کر پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں، [غور کی بات یہ ہے کہ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ انہیں قتل کر دیا جاتا ہے، یا مار دیا جاتا ہے، بلکہ فرمایا: (جکڑ دیا جاتا ہے) اور جکڑا ہوا شیطان بھی اذیت پہنچا سکتا ہے اگرچہ یہ اذیت غیر رمضان کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے؛ اور شیطانی اذیت میں کمی روزے کے معیار پر منحصر ہے، چنانچہ جس شخص کا روزہ کامل ہوگا شیطان اس سے دور بھاگے گا، لیکن ناقص روزے والے سے زیادہ دور نہیں جائے گا، یہ بات روزے دار کو کھانے پینے سے روکنے کیلئے بالکل واضح معلوم ہوتی ہے"
("مجموع الفتاوى" (25/246)
۔۔ شیخ عثیمین اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمھما اللہ کے فتاویٰ جات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں میں گناہ کرنے کا تناسب کم ہو جاتا ہے ۔ یعنی گناہ کرنے کی رفتار و مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے اور کسی بھی مسلمان کا دوران روزہ گناہ کرنا اس کے تقویٰ اور معیار روزہ پر منحصر ہے ۔ روزے دار کا تقویٰ جتنا اچھا ہو گا وہ جتنا گناہوں سے اجتناب کرنے میں اللہ سے ڈرے گا اتنی ہی اسے گناہوں سے بچنے کی توفیق بھی ملے گی ۔
انسان صفت شیاطین کا ، رمضان المبارک میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو اختیار کرنا ، زنا ، چوری ، ڈاکا ، قتل ، راہ زنی وغیرہ اختیار کرنا سراسر ایمان کے گھاٹے کے سبب ہے ۔
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، عن الاعمش، عن ذكوان، عن ابي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ولا يشرب حين يشربها وهو مؤمن، والتوبة معروضة بعد".
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ذکوان نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، وہ چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، شرابی جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر ان سب آدمیوں کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا ہوا ہے۔“
حدیث نمبر: 6810
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
اس لئے کسی ملحد کا ایمانیات پر اعتراض کرنا سرے سے درست ہے ہی نہیں رسول اللہ ﷺ کی اس اہم حدیث میں کسی خاص وقت ، خاص مہینے کا ذکر نہیں فرمایا گیا ۔ اگر ایسا ہو جاتا تو یقینا رمضان میں کسی بھی قسم کا کوئی گناہ سرزد ہوتا ہی نہیں ۔۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اہل ایمان کو وعید بھی سنائی کہ جو رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش نہ کروا سکے تو اس کے لئے اللہ کی طرف سے کیا سزا ہو گی ۔۔۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
شقِيَ عبدٌ أدركَ رمضانَ فانسلخَ منهُ ولَم يُغْفَرْ لهُ(صحيح الأدب المفرد:500)
ترجمہ: بدبخت ہے وہ جس نے رمضان پایا اوریہ مہینہ اس سے نکل گیا اور وہ اس میں( نیک اعمال کرکے) اپنی بخشش نہ کرواسکا۔
الفاظ کے اختلاف کے ساتھ اس معنی کی کئی صحیح احادیث وارد ہیں جن سےرمضان المبارک میں محروم ہونے والوں کی محرومی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ایک جگہ ہے :رَغِمَ أنفُ امرئٍ أدرك رمضانَ فلم يُغْفَرْ له(فضل الصلاۃ للالبانی:15، صحیح بشواھدہ)
ترجمہ: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے رمضان پایا اور اس کی بخشش نہ ہوئی۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:بَعُدَ من أدرك رمضانَ فلم يُغْفَرْ له(صحيح الترغيب:1677)
ترجمہ: دوری ہو اس کے لئے جس نے رمضان پایا اور وہ نہیں بخشا گیا۔
تیسری جگہ وارد ہے:منْ أدركَ شهرَ رمضانَ ، فلم يُغفرْ له ، فدخلَ النارَ ؛ فأَبعدهُ اللهُ(صحيح الترغيب:1679)
ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا ، اس کی مغفرت نہ ہوئی اور وہ جہنم میں داخل ہوا اسے اللہ دور کرے گا ۔
چوتھی جگہ مذکور ہے:مَن أدرك شهرَ رمضانَ فماتَ فلم يُغْفَرْ لهُ فأُدْخِلَ النَّارَ فأبعدَه اللهُ(صحيح الجامع:75)
ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا ، مرگیا ، اس کی مغفرت نہیں ہوئی اور وہ جہنم میں داخل کردیا گیا اسے اللہ اپنی رحمت سے دور کردے گا۔
یعنی جو شخص رمضان المبارک پا لینے کے بعد جس میں نیکیوں کے اجر لا محدود ہیں اور خود حدیث قدسی میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا ۔ اس کے باوجود انسان گناہوں کی زندگی کو ترک نہ کرے تو اس کے لئے کتنی بد بختیاں ہیں ۔ اللہ کی لعنت کا مستحق ہے ، جہنم میں داخل کر دیا جائے گا اور اللہ رب العزت اپنی رحمت سے دور کر دے گا ۔ اس کا صاف واضح مطلب یہ ہے کہ ان احادیث مبارکہ میں یہ وعیدیں سنائی جانا اسی لئے ہے کہ شیاطین کے قید ہونے سے شیاطین انس اور نفس امارہ جو گناہوں کی طرف متوجہ و راغب کرتی ہیں گناہ کرنے والے انسان ان کے مطابق اختیار والے ہوں گے ۔ لیکن رمضان المبارک کی وجہ سے ملنے والی خوشخبریوں کی وجہ سے اہل ایمان کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے دور رہنے کی کوشش کریں گے اور شیاطین کے وساوس کو شکست دیں گے ۔
رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے کہ آدم کی ساری اولاد خطاکار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہے جو اپنے گناہوں سے توبہ کرے معافی مانگے ۔ ایک ملحد جو اللہ ہی کے وجود کا انکاری ہے ، جن و شیاطین کا انکاری ہے ، انسانی نفس کی کمزوریوں کا منکر ہے ۔ وہ کس طرح ایمانیات میں یہ مغالطہ پیدا کر سکتا ہے ؟ جب کہ وہ خود شیطانی وساوس اور تشکیکات کے نرغے میں ہے؟ اور اسے اپنے روحانی علاج کی سخت ضرورت ہے ۔اللہ رب العزت ہمیں رمضان المبارک کی برکات سمیٹنے کی توفیق دے اور ہمارے سارے گناہوں کو اپنی رحمت اور فضل سے معاف فرما دے آمین ۔
ازقلم : عبدالسلام فیصل