• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ الحدیث پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ سے ملاقات

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ایک غیر روایتی مولانا سے ملاقات (خالد منہاس، روزنامہ نئی بات)ر

امجد عثمانی کا بہت بہت شکریہ کہ بالآخر انہوں نے شیخ الحدیث پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ سے ملاقات کا بندوبست کر دیا۔ جامعہ اشرفیہ میں ہونے والی اس ملاقات میں شیخ الحدیث سے جہاں اور بہت سی باتیں کیں وہاں انہوں نے دلچسپ بات یہ بھی کی کہ وہ پرچون نہیں بلکہ تھوک کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کی گفتگوعام لوگوں کے لیے نہیں بلکہ زیادہ تر علماء کرام کے لیے ہوتی ہے۔ ان کا مخاطب ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان کے پیغام کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں اور صحافی بھی اس طبقے میں شامل ہیں ۔ اسی لیے اللہ نے قلم کی قسم کھائی۔ڈاکٹر صاحب نے اسلامک سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ہے اور مکہ مکرمہ میں شیخ الحدیث ہیں۔تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ختم نبوت پر بہت سا کام کیا ہے ۔ کئی مقالے اور کتابیں لکھ چکے ہیں۔ان کے خطبات کا ایک وسیع ذخیرہ انٹرنیٹ اور خاص طور پر یو ٹیوب پر پڑا ہوا ہے۔ آپ روایتی مولانا نہیں بلکہ عہد حاضر کے تمام اہم مسائل پر مدلل گفتگو کرتے ہیں۔ ان سے ایک اور تعلق یہ نکل آیا کہ وہ آج کل جدہ سے شائع ہونے والے اردو روزنامے اردو نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔اردو نیوز کی بات ہو تو سیدی مختار الفال یاد آ جاتے ہیں، نصیر ہاشمی اور اطہر ہاشمی کی یاد بھی آتی ہے اور چیف صاحب (ظفر اقبال) خد ا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے وہ تو بہت یاد آئے۔سید ابصار،لئیق صاحب،رؤف طاہر ، ندیم ، شہزاد سب بہت یاد آئے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی یاد تو کبھی بھولتی نہیں اور عروس البلاد جدہ تو اب تک آنکھوں میں بسا ہے۔ان گلیوں میں ایک بارپھر جانے کی آرزو بھی مچل اٹھی۔ نذر حجازی کی باتیں بھی ہوئیں اور اردو نیوز کے موجودہ چیف ایڈیٹر کا ذکر بھی ہوا۔ مولانا فرمانے لگے کہ جمعہ کو اردو نیوز کی سرکولیشن پچاس ہزار تک پہنچ جاتی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں اردو اخبار کی پذیرائی کس قدر زیادہ ہے۔ ہمارے مالکان دبئی اور لندن کی طرف تو جارہے ہیں انہیں سعودی عرب پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

انہوں نے علماء کے حوالے سے بات کی کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں۔پھر وراثت کے حوالے سے مدلل گفتگو کی کہ وراثت کے لیے وارث اور وفات پانے والے میں ایک رشتہ ہونا ضروری ہے اور یہ تین بنیادوں پر ہوتا ہے ایک نسب کی وجہ سے، دوسرا نکاح کی وجہ سے اور تیسرا غلام کو آزاد کرنے کی صورت میں۔ وراثت کے لیے انبیاء اور علماء کے درمیان کوئی رشتہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ وراثت مال و متاع نہیں بلکہ وہ پیغام ہے جو نبی اکرمؐ ہمارے لیے چھوڑ کر گئے ہیں۔کیا ہم اس پیغام کو صحیح طریقے سے سمجھ کر آگے پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے کمال کی بات کی کہ ہمارے علماء کرام کا حال تو یہ ہے کہ وہ دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث کے مسلک سے نہیں نکلتے مگر اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں۔ایک ہی فرقے کا عالم دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔وہ سیاسی مفادات کو سب سے مقدم سمجھ رہے ہیں۔کیا یہ باتیں ایک روائتی مولانا کر سکتا ہے۔انہوں نے اپنے بہت سے ذاتی تجربات بھی ہم سے شیئر کیے ۔پاکستان میں نفاذ اسلام کے حوالے سے انہوں نے ایک اور نقطہ نظر پیش کیا جو روایتی علماء کرام سے ہٹ کر ہے۔ ہر مسلک کی دینی جماعت اس ملک پر اپنی فقہ نافذ کرنے کے لیے کام کر رہی ہے مگر ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ میں صدق دل سے یہ سمجھتاہوں کہ اگر پاکستان میں اسلام نافذ کرنا ہے تو علماء کرام کو ان سیاسی جماعتوں میں شامل ہونا ہو گا جو ملک کی بڑی جماعتیں ہیں۔
فرمانے لگے کہ مسلمانوں کی دنیا بڑی ہے یا ان کی جو مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ اس حقیقت کو کیسے جھٹلا دیا جائے کہ ان کی دنیا بڑی ہے اس لیے تمام مسلمان ممالک اپنے تمام فیصلے ان کی مرضی اور منشاء سے کرتے ہیں ۔اگر آج امریکہ پوری دنیامیں اپنی حکمرانی قائم کر رہا ہے تو بھی کلمہ گو مسلمانوں کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ جب تک اس دنیا میں ایک بھی کلمہ گو موجود ہے وہ اس پر قیامت برپا نہیں کرے گا اور اگر یہ قیامت برپا نہیں ہو رہی تو کلمہ گو مسلمانوں کی وجہ سے ہے۔خود یورپ اور امریکہ کو یہ بات محسو س کرنی چاہیے کہ مسلمان ان کی بربادی نہیں بلکہ ان کو بچانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ایک منصوبے کے تحت کام ہو رہا ہے اور بہت سے لوگ جان بوجھ کر اور کئی انجانے میں صہیونی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ منظم ایجنڈے کے تحت وفات مسیح پر بحث کو چھیڑا جار ہا ہے اسی لیے وہ آج کل اس حوالے سے مدلل مقالے لکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔اس ملاقات کے بعد ہمیں اس بات کا انتہائی قلق رہا کہ ان سے ملاقات اتنی تاخیر سے کیوں ہوئی۔
 
Top