• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ سے ملاقات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
شیخ القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ سے ملاقات

انٹرویو پینل​
شیخ القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری حفظہ اللہ اہل حدیث مکتبہ فکر میں علم تجوید وقراء ات کے بانی اساتذہ میں سے ہیں۔ آپ دار القراء، جامعہ عزیزیہ، ساہیوال کے مدیر اور کلیہ القرآن الکریم، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے حالیہ رئیس ہیں۔ آپ کی شخصیت کا امتیاز ہے کہ شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ اور شیخ القراء قاری محمود الحسن بڈھیمالوی حفظہ اللہ جیسی شخصیات کے اساتذہ میں سے ہیں۔انتہائی نمایاں مقام پر فائز ہونے کے باوجود طبعی اعتبار سے انتہائی متواضع اوررقیق القلب انسان ہیں۔ آپ کی شخصیت کے انہی پہلوؤں کی نسبت سے رشد ’قراء ات نمبر‘ میں ہم آپ کا انٹرویو شائع کر رہے ہیں۔ انٹرویو پینل قاری اظہار اَحمدحفظہ اللہ (مدرس جامعہ عزیزیہ، ساہیوال)، قاری فہد اللہ مرادحفظہ اللہ (فاضل کلیہ القرآن الکریم، جامعہ لاہور) اور مولانا محسن محمود حفظہ اللہ(مدرس جامعہ عزیزیہ، ساہیوال) پر مشتمل تھا۔ (ادارہ)
رشد: اپنا تفصیلی تعارف کروائیے؟
شیخ: میرانام محمد یحییٰ اور والد صاحب کا نام مولانا نور اللہa ہے۔میں ہندوستان کے ضلع فیروزپور کے قصبہ کوٹ کپورہ میں اپنے ننھیال کے ہاں سن ۱۹۴۵ء میں پیدا ہوا۔
رشد: کیاآپ کے والد محترم فیروزپورکے رہنے والے تھے؟
شیخ: نہیں ہمارا آبائی گاؤں 15-1R رسول نگر ہے جو اوکاڑہ سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر شمالی جانب واقع ہے۔ فیروزپور میں میرے ننھیال رہتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے والد محترم مولانا نور اللہ رحمہ اللہ، مولانا باقررحمہ اللہ کے مدرسہ جھوک دادو سے فراغت کے بعد دوبارہ بخاری پڑھنے کی غرض سے امام عبدالستار دھلوی رحمہ اللہ کے ہاں دہلی چلے گئے ۔ انہی دنوں میرے نانا مولانامحمد اسحق کوٹ کپوری رحمہ اللہ جو امام صاحب کے کلاس فیلو تھے، ان کے ہاں آئے اور میرے ابو کے لئے اپنی بیٹی کے رشتے کی پیشکش کی جو امام صاحب کے کہنے پہ والد صاحب نے قبول کر لی۔ بعدازاں ان کی وہاں شادی ہوگئی کیونکہ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں اس لیے پنجاب کے عام رواج کے مطابق میری پیدائش میرے ننھیال میں ہوئی ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رشد: ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
شیخ: اپنی تعلیم کا آغاز میں نے اپنے گاؤں سے ہی کیا۔یہاں سے پرائمری کی اور اس کے بعد چھٹی کلاس کے لئے اپنے گاؤں کے قریب ستگھرہ کے مقام پر ہائی سکول ہے، وہاں داخلہ لیا۔وہاں یونیفارم نیکر اور شرٹ تھی جو پی ٹی کے اصرار کے باوجود میں نہیں پہنتا تھاکیونکہ اس میں ستر ننگا ہوتا تھا اس غیر شرعی فعل کی بناء پر میں نے سکول کو خیر آباد کہنا بہتر سمجھا ۔
رشد: آپ نے دینی تعلیم کا آغاز کہاں سے کیا؟
شیخ: میں نے دینی تعلیم کاآغازاپنے گاؤں کے قریب مولانا حافظ عبدالرزاق حفظہ اللہ کے مدرسہ جامعہ اسلامیہ سے کیا جو کہ علاقہ میں درس ڈھلیانہ کے نام سے معروف ہے۔ وہاں حضرت حافظ صاحب کے ہاں حفظ شروع کیا۔ حافظ صاحب چونکہ طبعاً کافی سخت تھے اس لیے میں ان کے پاس زیادہ دیر تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ آٹھ پارے حفظ کرنے کے بعد وہاں سے چھوڑدیا۔ بعد ازاں چک نمبر16 جی ڈی مدو کا میں حضرت پیر جماعت علی شاہ رحمہ اللہ کے ہاں گیا، لیکن وہاں سختی کا یہ عالم تھا کہ باقاعدہ سزادینے کے لیے ایک آدمی رکھاہوا تھا لہٰذا وہاں بھی مجھے ٹھہرنانصیب نہ ہوا۔بالآخر جامعہ عثمانیہ جامع مسجد گول چوک اوکاڑہ میں حضرت مولانا قاری فاروق رحمہ اللہ کے ہاں حفظ مکمل کیا۔ حفظ کے بعد میرے چچا حاجی عبداللہ جو کہ ان دنوں لاہور میں کانسٹیبل تھے، مجھے حضرت شیخ القراء مولاناقاری اظہاراحمدرحمہ اللہ کے پاس چینیاں والی مسجد میں داخل کراآئے۔ وہاں میں نے قاری صاحب رحمہ اللہ کے پاس دو سال ۱۹۶۳ء۔۱۹۶۱ء میں تجوید مکمل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رشد :۱۹۶۳ء میں شیخ المشائخ قاری اظہار احمد رحمہ اللہ کے پاس تجوید مکمل کرنے کے بعد آپ کی کیا مصروفیات تھیں؟
شیخ: یہاں سے فارغ ہونے کے بعد میں نے درسِ نظامی کاآغاز کیا سب سے پہلے۱۹۶۳ء کے آخری اَیام اور ۱۹۶۴ء کے ابتدائی ایام میں جامعہ اہل حدیث قدس ،چوک دالگراں میں داخل ہوا۔ یہاں اَساتذہ میں سے حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ، مولاناعبد الحق رحمہ اللہ، مولانا محمد حسین رحمہ اللہ تھے۔ یہ تینوں میرے استاد تھے، انہیں سے میں نے بنیادی کتابیں پڑھیں ہیں۔ حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ اس وقت بھی نحو وصرف میں مشہورتھے۔ چونکہ ان کے والد مولانا حافظ محمدحسین حفظہ اللہ بڑے عالم تھے اورنحو وصرف میں ید طولہ رکھتے تھے، اس لیے یہ بھی اس میدان میں یکتا روزگار تھے۔ اس وقت جماعت میں دو عالم ہی معروف تھے: حافظ محمد حسین روپڑی رحمہ اللہ اورمولانا عطاء اللہ لکھوی رحمہ اللہ ۔ دونوں کوعلمی حلقوں میں نحو وصرف کا امام ماناجاتا تھا۔ اب بھی ماشاء اللہ حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نحو وصرف میں مہارت رکھتے ہیں اورساتھ ہی آپ حجیتِ حدیث میں بھی اپنے فن کے امام مانے جاتے ہیں۔
رشد:آپ نے چوک دالگراںمیں کتنا عرصہ گزارا؟
شیخ: یہاں میں نے صرف پہلی کلاس پڑھی تھی اور دوسری کلاس کے لیے وہاں سے گوجرانوالا چلا گیاتھا ۔
رشد:اس دوران کوئی اہم واقعہ ہو توبتائیے ؟
شیخ: اس دوران واقعات تو بے شمار ہوئے،ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک دفعہ حافظ عبدالقادرروپڑی رحمہ اللہ تشریف لائے توطالب علموں نے کہا کہ جی آج لڑکے بھوک سے مرگئے ہیں توحافظ صاحب کہنے لگے کہ بتاؤ کتنے مر گئے ہیں ان کے کفن تیار کرتے ہیں اورجوباقی بچ گئے ہیں ان کو ہسپتال میں داخل کراتے ہیں۔ حافظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ بڑے حاضر جواب اورذہین تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رشد:اس وقت مدرسے کے مہتمم کون تھے؟
شیخ: مہتمم اصل تو حافظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ ہی تھے، اس لیے کہ سارا نظام ان کے ہاتھ میں تھا، لیکن انہوں نے حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کو ناظم تعلیم بنایاہوا تھا ۔
رشد:یہاں ایک سال پڑھنے کے بعد پھرآپ نے کہاں داخلہ لیا ؟
شیخ: پھر میں جامعہ اسلامیہ گوجرانوالا میں داخل ہواجس کے مؤسس حافظ محمدگوندلوی رحمہ اللہ تھے۔ وہاں میں نے عرصہ تین سال گزارا اورمشکوٰۃ تک کتابیں پڑھیں ۔
رشد:وہاں آپ کے معروف اَساتذہ میں سے کون کون ہیں؟
شیخ: ایک ہمارے استاد مشفق حافظ محمد یحییٰ بھوجیانوی رحمہ اللہ تھے، جو حافظ محمد یحی عزیز میرمحمدی کے قریبی عزیزتھے۔ ان کے پاس میں نے دوسری کلاس کی کتب یعنی نحو میراورصرف میرجیسی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ ہمارے دوسرے استاذ مولانا نذیر احمد امرتسری رحمہ اللہ تھے۔ وہ بڑے چوٹی کے عالم تھے۔ ان کے پاس میں نے کافیہ وغیرہ اس قسم کی کتابیں پڑھی تھیں۔ وہاں شیخ الحدیث مولانافاروق احمد راشدی، جو ان دنوںمیں نائب شیخ الحدیث تھے ، تو ان سے ہم نے مشکوٰۃ اور اس کے علاوہ باقی کتب پڑھیں ۔
رشد:گوجرانوالا کا کوئی اہم واقعہ ہوتوبتائیے؟
شیخ: مولانا ابوالبرکات رحمہ اللہ یہاں کے مہتمم تھے اوربڑے استادبھی تھے۔ مولانا کے کئی واقعات مشہورہیں، مثلاآپ طلبا کو داخل کرنا،خارج کرنا، چھٹی دینا،کتابیں دینا، کتابیں جمع کرناوغیرہ جملہ معاملات اپنے پاس رکھتے تھے۔ کسی استاد کی کوئی ڈیوٹی نہیں لگاتے تھے۔ استاد آئیں اورپڑھا کرچلے جائیں، جبکہ اب ہرکام کے لئے الگ الگ شخص کا تعین کرنا پڑتاہے۔ مولاناکے بارے میں مشہور تھا کہ جب آپ بازار آتے ا ور کوئی اگر سوچ لیتا کہ مولانا آرہے ہیں اورمولاناکو سلام کروں گا، توسب سے پہلے مولانا کہہ دیتے: السلام علیکم کیا حال ہے بھائی، یعنی سلام میں مولانا ہی پہل کرتے تھے۔ مولانا کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ مولانا صاحب رحمہ اللہ بیمارہوئے تو حافظ محمدابراہیم سلفی رحمہ اللہ کے بیٹے محمد عثمان جو مدیر تعلیم بھی رہے، وہ تنخواہ لے کر مولانا کے پاس ہسپتال گئے تو مولانا نے کہا کہ میں نے تو پڑھایا نہیں، میں توبیمارہوں، میری تنخواہ اُن اَساتذہ میں تقسیم کردی جائے، جنہوں نے میرے سبق پڑھائے ہیں۔ دیکھیں ان میں کتنی للہیت تھی۔ ایک دفعہ ایک آدمی مولانا کے پاس کوئی لنگیاں لیکر آیا اورکہا کہ مولانا یہ لنگیاں قبول کرلیں، تومولانا نے فرمایا کہ میرے پاس تو لنگی ہے، یہ لنگیاں طلباء کو دے دیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک آدمی آیا اورکہا کہ مولانا آپ حج کرکے آئیں اورہم آپ کو حج کے لئے پیسے دیتے ہیں، تومولانا فرمانے لگے کہ میرے اوپر تو حج فرض نہیں ہے، حج توتب فرض ہوتا کہ میرے پاس اپنے پیسے ذاتی ہوں؟ جب میرے پاس اپنے پیسے نہیں تومیں آپ سے حج کے لئے پیسے لے کر حج پر جائوں تویہ کوئی حج نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رشد:وہاں آپ نے کتنے سال پڑھا؟
شیخ: یہاں تقریباً میں نے تین سال پڑھاہے۔
رشد:اس کے بعد آپ نے کہاں کا ارادہ کیا؟
شیخ: اس کے بعد پھر میں عازم کراچی ہوا۔کراچی میں نے یہ سنا تھاکہ وہاں ایک جامعہ اسلامیہ بنوریہ ٹاون ہے وہاں شیخ عطارزق مصری آئے تھے، وہاں ان کی شہرت سن کر میں نے کراچی کاارادہ کیا کہ وہاں قرا ء ات پڑھیں گے اوردرس نظامی بھی ۔
رشد: کیا شیخ عطارزق مصری قراء ات کے استاد تھے؟
شیخ: ہاں ! یہ مصر کے قراء ات کے بڑے معروف استاد تھے، جب میں جامعہ عربیہ بنوریہ ٹاؤن کراچی پہنچا تو پتہ چلا کہ شیخ عطارزق مصر چلے گئے ہیں، چنانچہ پھر میں نے مدرسہ بحرالعلوم میں داخلہ لے لیا، جس کے مؤسس ایک بہت بڑے استاد مولاناعلامہ یوسف رحمہ اللہ کلکتہ والے تھے۔اس وقت ہم دوساتھی کراچی تعلیم کی غرض سے گئے تھے اوردوسرے ساتھی مولانا حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ تھے ۔
رشد:مولانا حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ کون ہیں؟
شیخ: مولانا حبیب الرحمن لکھوی رحمہ اللہ کے بیٹے اور مولانا عطاء اللہ لکھوی رحمہ اللہ کے پوتے ہیں۔مولاناحفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ نے جامعہ اسلامیہ، مدینہ سے فارغ ہوکر رائیونڈ روڈ پر ’شیخ الاسلام ابن تیمیہ‘ کے نام سے اپنا ایک اداراہ قائم کیا ہوا ہے۔ بہت فاضل آدمی ہیں۔ نحو وصرف میں ’دکتوراہ‘ رکھتے ہیں۔ انہوں نے نحووصرف میں کتابیں بھی تالیف کی ہیں، جیسے نحومیر کی شرح وغیرہ۔
رشد: دوران تعلیم آپ کی تعلیمی قابلیت کیسی تھی؟
شیخ: میں دورانِ حفظ ایک متوسط درجے کاطالب علم تھا یعنی امتحان میں اوّل،دوم، سوم کبھی نہیں آیا تھا۔ میرے ساتھی طالب علم مجھ سے زیادہ ہوشیار تھے،لیکن میں اَساتذہ کی خدمت ہمیشہ کیاکرتا تھا۔شا ید اَساتذہ کی خدمت اور والدین کی دعاؤں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے باقی ساتھیوں کی نسبت مجھ سے زیادہ کا م لیا ہے اور لے رہا ہے، لیکن جب میں شعبہ کتب میں پڑھتا تھا تو اس وقت اوّل،دوم، سوئم آیا کرتا تھا، کیونکہ اس وقت کچھ سمجھ آگئی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رشد:کبھی کوئی انعام بھی حاصل کیا ؟
شیخ: جب ہم کراچی میں پڑھتے تھے تو اس وقت میں نے اوّل یا دوم پوزیشن حاصل کی تھی ۔اس وقت آزاد کشمیر کے صدر سردار عبد القیوم کوادارے والوں نے بطورِ مہمان خصوصی بلایا تھا، چنانچہ انہوں نے ہمیں انعامات دیئے تھے۔ان کے ہاتھوں مجھے انعام میں تفسیر الفضل الکبیر دی گئی تھی۔
رشد:پھر آپ نے بحر العلوم میں کتنی دیر تک پڑھا ہے؟
شیخ: میں نے بحر العلوم میں تقریباَ پانچ سال پڑھا ہے ۔
رشد:بحرالعلوم میں کن کن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی؟
شیخ: ۱۹۶۵ء میں گیاتھا اور۱۹۷۰ء تک وہاں رہا ہوں۔ یہاں ہمارے بڑے اساتذہ میں سے مولانا محمد داؤدراغب رحمانی رحمہ اللہ تھے، جو ہمیں مسلم شریف اورہدایۃ وغیرہ پڑھاتے تھے۔ موصوف جامعہ رحمانیہ دہلی کے فارغ التحصیل تھے اور بے شمار کتب کے مترجم تھے۔ ابن ماجہ پر حاشیہ بھی لکھ چکے تھے۔ اسی طرح ایک ان کی مستقل تصنیف ہے الفضل الکبیر کے نام سے، جومولانا نے ہم کوفراغت کے وقت تحفہ میں دی تھی۔ دوسرے استاد مولانا نسیم الدین ولی اللہ فاضل دیوبند تھے۔ مولانا بڑے قابل آدمی تھے، وہ ہمارے ادب اور حدیث کے استاد تھے اور دورہ حدیث کے بڑے استادعلامہ محمد یوسف کلکتوی رحمہ اللہ ،جو ادارہ کے مہتمم بھی تھے، آپ ہمیں پڑھاتے اور تدریس کے ساتھ ساتھ تجارت بھی کرتے تھے ۔ موصوف عالم باعمل اوربڑے مناظر تھے۔ انہی ایام میں ایک دیوبندی عالم کی مولانا کے ساتھ سورہ فاتحہ پرگفتگوہوئی۔ مولانا نے کہا کہ تم کیا پڑھاتے ہو؟تو اس نے کہا کہ میں منطق پڑھاتا ہوں۔ تومولانا نے کہا تمہارے ساتھ ہمارا مناظرہ منطق میں ہی ہوجائے۔ مولانا نے فرمایا تم یہ بتاؤ کہ لاصلوٰۃ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ لاصلوٰۃ یہ’سالبہ کلیہ‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرآپ کہتے ہیں کہ لاصلوٰۃکوئی نمازنہیں ہے، تواس کی’ نقیض موجبہ جزئیہ‘ ہونی چاہئے اور ایسی دلیل ہو کہ اس میں الفاظ بعض الصلوٰۃ بغیر فاتحۃ کے ہوں، کیونکہ’ موجبہ جزئیہ‘ جوہے وہ لفظ بعض سے شروع ہوتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حدیث میں لاصلوٰۃ ہے، تو آپ کوئی حدیث دکھائیں کہ جس میں لکھاہوکہ بعض الصلوٰۃ جائز بغیر فاتحۃ وہ اس بات سے عاجزآگیا، تومولانا نے اس کومثال یہ دی کہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے نمازپڑھائی اورآپ 1نے چار رکعت کی بجائے دورکعت پڑھادیں تو صحابہ نے ایک دوسرے سے سرگوشی کی اورکہاکہ رسول اللہ1بھول گئے ہیں یانمازکم ہو گئی ہے توایک صحابی ذوالیدین نے آپؐ سے سوال کیا کہ أقُصِرَتِ الصلوۃُ أم نَسِیْتَ یا رسول اﷲﷺ؟آپ بھول گئے ہیں یا نمازکم ہوگئی؟ توآپؐ نے فرمایا نہ میں بھولا ہوں اورنہ نمازکم ہوئی ہے، توپھر ذوالیدین نے کہا کہ قد کان بعض ذلک یعنی اس نے حضورؐ کے بولے گئے ’سا لبہ کلیہ‘ کو لفظ بعض کہہ کر توڑا تومولانا نے فرمایا کہ لہٰذا لاصلوٰۃ کی نقیض’ موجبہ جزئیہ‘ ہے، لہٰذا لاصلوٰۃ کا مطلب یہ ہوا کہ فاتحہ کے بغیر کو ئی نماز نہیں ہوتی، تواب آپ دکھائیں کہ بعض الصلوٰۃ جائز بغیر فاتحۃ، تواس بات سے وہ شکست کھا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رشد:آپ نے ۱۹۷۰ء تک وہاں پڑھا تواس دورمیں آخری کلاس کے آپ کے کون کون سے ساتھی تھے جوآپ کو یاد ہوں؟
شیخ: صحیح بخاری کے ہمارے ساتھیوں میں سے مولانا عبد العزیزکشمیری، مولانا فضل الرحمن ہزاروی اور مولانا ضیاء اللہ وغیرہ ہیں۔ اس طرح ہم کوئی پندرہ سولہ ساتھی تھے۔ مولانا عبد العزیز علوی حفظہ اللہ بھی ہمارے ساتھی تھے، جو اس وقت جماعۃ الدعوۃ کشمیر کے مسئول ہیں۔ مولانا عبد العزیز حنیف حفظہ اللہ ،حو اسلام آبادجامع مسجد آبپارہ میں خطیب ہیں اور مرکزی جمعیت اہلحدث کے ناظم اعلی بھی رہ چکے ہیں،ہم سے ایک سال پہلے فارغ ہوچکے تھے ۔
رشد:اس دوران کوئی عبرت انگیز واقعہ پیش آیا ہو توبتائیے؟
شیخ: ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک طالب علم نے امام صاحب کے بارے میں گستاخانہ الفاظ کہے۔ جب ہمارے استاد صاحب کلکتے والے کو علم ہوا تومولانا نے فرمایا کہ اس کو فورا مدرسہ سے نکال دو، کہیں اللہ کا عذاب نہ آجائے، چنانچہ اسے فوراً مدرسے سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ وہ طالب علم دماغی طورپر صحیح نہ رہا اور پاگلوں کی طرح شہر میں چکر کاٹتا رہتا۔ اللہ تعالی اس طرح کے طرز عمل سے ہمیں بچائے۔ آمین
رشد:آپ نے وہاں درس نظامی کے ساتھ ساتھ اور کچھ بھی پڑھا؟
شیخ: وہاں میں نے عربی کتب کے ساتھ تجوید وقراء ات سبعہ بھی مکمل کی۔ کراچی میں تجوید القرآن کے نام سے ایک مدرسہ تھا، وہاں قاری حبیب اللہ افغانی رحمہ اللہ استاد تھے۔ یہاںمیں ان کے پاس ظہر سے لے کر عشاء تک پڑھتا تھا۔ ان سے میں نے دوسال میں شاطبیۃ،عقیلۃ اورعدّ الآي وغیرہ پڑھیں اور قراء ت ثلاثہ میں درہ کی تکمیل کی اورقاری صاحب رحمہ اللہ کو تقریباً پندرہ سولہ پارے قراء ات سبعہ میں اورپندرہ سولہ پارے قراء ات ثلاثہ میں حدرسنایا۔ تین سال میں قراء ات سبعہ مکمل کی اورباقی دوسال میں قراء ات ثلاثہ کی تکمیل کی یعنی کل پانچ سال ان سے استفادہ کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رشد:یعنی آپ نے قراء ات سبعہ قاری حبیب اللہ رحمہ اللہ سے پڑھی؟
شیخ: جی ہاں، بلکہ فارغ ہونے کے بعد میں نے ایک سال تک وہاں پڑھایا بھی ہے۔ پھربیمار ہونے کی وجہ سے واپس گاؤں آگیا۔ یہاں آکر کچھ عرصہ میں نے اپنے گاؤں رسولنگر میں کام کیا۔ اس کے بعداستادالقراء قاری اظہار احمدرحمہ اللہ وہاں امتحان لینے کے لئے آئے اورمجھے فرمایا کہ گاؤں میں تمہارا بیٹھنا مناسب نہیں، تم کسی شہر میں آؤ۔ اسی دوران ہی ہمارے پاس حافظ محمدیحی عزیز میرمحمدی رحمہ اللہ تشریف لائے، جو جماعت کے ناظم تعلیم تھے۔ انہوں نے مجھے مسجد لسوڑھیاں والی میں آنے کی دعوت دی۔ ایسے ہی راولپنڈی میں ایک مدرسہ تھاجس کے مہتمم مولانا محمد دین رحمہ اللہ تھے، انہوں نے مجھے راولپنڈی آنے کی دعوت دی۔ بہر صورت میں نے اساتذہ سے مشورہ کیا توشیخ المشائخ قاری اظہار احمدرحمہ اللہ نے فرمایا کہ تمہارا نیا نیاکام ہے، لہٰذا تم لاہور ہمارے قریب آجاؤ، استاد قریب ہو تومشاورت ہوتی رہتی ہے،چنانچہ میں شیخ المشائخ قاری اظہار احمدرحمہ اللہ کے مشورے پر لاہور آگیا۔
رشد :یہ کس سن کی بات ہے؟
شیخ: یہ تقریباً۱۹۷۰ء کی بات ہے۔
رشد:آپ کتنے سال تک وہاں کام کرتے رہے؟
شیخ: تقریباً آٹھ سال تک میں نے وہاں پڑھایا ہے۔ وہاں سے کثیر تعداد میں طلبا فارغ ہوئے ۔ان میں سے معروف قراء شمس القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ، قاری صدیق الحسن رحمہ اللہ ،ڈاکٹر قاری عبدالقادرحفظہ اللہ جو جامعہ لاہور الاسلامیہ اور جامعہ ریاض کے فاضل ہیں اور آج کل جامعہ اسلامیہ، اسلام آباد میں شعبہ حدیث کے استادہیں۔ڈاکٹر قاری عبدالغفار d، جو جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ کے فاضل ہیں اوراب سعودی ایمبسی، ریاض میں شعبہ عربی کے انچارج ہیں۔ قاری روح الامین حفظہ اللہ بنگلہ دیشی، جو بہت خوش الحان قاری تھے، قاری محمود الحسن بڈھیمالوی حفظہ اللہ ،قاری محمد جعفرحفظہ اللہ،قاری محمد حنیف بھٹی حفظہ اللہ، جوآج کل ضلع فیصل آباد میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ناظم اعلی اور جڑانوالہ میں خطیب ہیں اور قاری خلیل الرحمن رحمہ اللہ، جومسجد توحید اچھرہ رحمان پورہ میں ایک عرصہ تک امام رہے ہیں اور وہیں فوت ہوگئے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رشد:آپ نے یہاں کتنا عرصہ کام کیا ہے؟
شیخ: تقریباً آٹھ سال کا عرصہ بنتا ہے یعنی۱۹۷۰ء سے لے کر ۱۹۷۷ء تک۔اس لیے کہ وہاں شعبہ تجوید وقراء ات کی بنیاد میں نے رکھی تھی۔ میرے ساتھی استاد قاری عزیر حفظہ اللہ اورقاری نذیر احمدحفظہ اللہ تھے۔ آخری سال قاری محمد ادریس عاصم حفظہ اللہ بھی میرے ساتھ رہے ۔
رشد: آپ کے اپنے اساتذہ کے ساتھ مراسم کیسے تھے؟
شیخ: اَسا تذہ سے مراسم تو ایسے تھے کہ شیخ المشائخ قاری اظہار احمد رحمہ اللہ سے اتنی مودت تھی کہ میں جب دوپہر کوکلاس سے فارغ ہوتا، توان کے پاس چلا جاتا۔ وہاں ان کے ساتھ بیٹھتا، حدر اور مشق سنتا اور اگراساتذہ کے پاس ٹائم ہوتا توخود ان کو سناتا بھی۔ اسی دوران میں نے حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ سے شاطبیہ کاسماع بھی کیا۔
رشد:وہاں سے چھوڑنے کا کیا سبب تھا اور اس کے بعد آپ نے کہاںتدریس کی؟
شیخ: قاری محمد عزیر حفظہ اللہ نے مجھے مشورہ دیا کہ ساہیوال میں ایک بہت بڑی مسجد خالی پڑی ہے اوروہاں کی انتظامیہ چاہتی ہے کہ یہاں کوئی ادارہ قائم کیاجائے۔ اگر وہاں آپ کا رابطہ ہوجائے تومناسب رہے گا، لہٰذا میں اسی رمضان میں قاری محمد عزیر حفظہ اللہ کے مشورہ پر ساہیوال آیا او ردیکھا کہ یہ تقریباً تین کنال جگہ ہے، جس جگہ اب میں پڑھا رہا ہوں، ایک بہت بڑی مسجد اور کچھ کمرے بھی تھے۔یہاںآکر میں نے پڑھانا شروع کردیا ،تو الحمد للہ تقریباً ۳۲ سال سے اب تک یہاں پڑھا رہا ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
رشد:اس دوران آپ سے تقریباکتنے طلباء نے کسب فیض کیا ہو گا ؟
شیخ: اصل تعداد توادارے کے ریکارڈ میں ہے، لیکن انداز اً ۲۵،۳۰ طلباء ہر سال فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔
رشد:یہاں سے فارغ ہونے والے معروف تلامذہ کے نام بتائیے؟
شیخ: یہاں سے فارغ ہونے والے طلباء میں سے قاری عبدالسلام عزیزی ،قاری عبد الرزاق ثانی، قاری احمد یار حقانی، قاری محمدایوب چنیوٹی،قاری سیف اللہ عزیزی، جو اب سعودی عرب میں تقریباَپندرہ سال سے قرآن کریم کی خدمت میںمشغول ہیں اوران کے سینکڑوں تلامذہ ہیں، قاری محمد عبداللہ ،قاری بشیر احمد عزیزی،جوشاعر بھی ہیں، قاری خالد مجاہدپتوکی والے،قاری اکبر اسد اور اسی طرح میرا بیٹا قاری اظہار احمد ہے۔
رشد:یہاں آنے کے بعد آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟
شیخ: یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے اَساتذہ کا مزاج قراء والا نہیں ہے ۔ویسے بھی ہرجگہ مدرسین کو مشکلات توہوتی ہیں۔یہاں بھی شروع میں جماعت کے ساتھ کچھ اختلاف ہوا، لیکن بعدمیں الحمد للہ سب ٹھیک ہو گیا۔
رشد:آپ نے بچیوں کامدرسہ بھی قائم کیا ہے، یہ کب قائم ہوا اور اس کے مقاصد کیاتھے؟
شیخ: بچیوں کامدرسہ، طلباء کا مدرسہ قائم کرنے کے تقریباً تین چارسال بعد قائم ہو گیا تھا۔سبب اس کا یہ تھا کہ عارف والا سے حاجی محمد عاشق صاحب ہمارے پاس آئے اورکہنے لگے کہ میری بچی تاندلیانوالہ میں پڑھتی ہے اور جب ہم تاندلیانوالہ جاتے ہیں تو پہلے ہمیں عارف والا پھر ساہیوال اس کے بعد تاندلیانوالہ جانا پڑتا ہے۔آپ یہاں بچیوں کامدرسہ قائم کیوں نہیں کردیتے؟ چنانچہ میں نے اُم سالم اور ان کی ہمشیرہ اُم انس کو اس کام پر لگادیا۔ اس جامعہ میں دوشعبے کام کر رہے ہیں: شعبہ حفظ او رشعبہ کتب۔ شعبہ کتب اوّل تا آخر وفاق المدارس کی طرز پر کام کر ہے اورماشاء اللہ بہت کامیاب ہوا۔یہاں سے ہزاروں بچیاں فارغ ہوکرمیدان عمل میں مصروف ہیں۔پہلے یہ ادارہ جامعہ عزیزیہ کی اوپر والی منز ل میں تھا، اب ہم اسے وہاں سے منتقل کر کے نیاشاداب ٹاؤن میں لے گئے ہیں،جہاں دومنزلہ عالیشان بلڈنگ او رساتھ ایک مسجد تعمیر کی ہے۔وہاں میری بڑی بیٹی حافظہ قاریہ طاہرہ (ایم اے عربی) بطورِ پرنسپل اور مدرس کام کررہی ہے۔
 
Top