• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیشان کے شہید

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شیشان کے شہید

عرفان صدیقی
موج خوں چار سو بہہ رہی ہو تو انسانی جان اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھتی ہے۔ ہم کچھ ایسی ہی کیفیت سے گزررہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے وطن عزیز ایک قتل گاہ کا روپ اختیار کرگیا ہے۔ بم دھماکے‘خودکش حملے‘ نشانہ کشی‘ (target killings)‘ڈرون حملے ہمارے معمولات حیات کا حصہ بن چکے ہیں۔ خون کے تالاب‘ بکھرے ہوئے انسانی اعضاء‘ لہو میں لت پت لاشیں‘ اسپتالوں کو دوڑتی گاڑیاں‘ بستروں پہ پڑے زخمی اور روتے بلکتے لواحقین‘ روز مرہ کی زندگی کے اجزا ہیں۔ پاکستان کبھی جنت ارضی نہ تھا لیکن یہاں زندگی کبھی اتنی ارزاں اور بے مایہ بھی نہ تھی۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران غارت گری کا وہ طوفان اٹھا کہ تھمنے میں نہیں آرہا۔ یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں شدت آتی جارہی ہے۔ قدم قدم پر ناکے‘ باز پرس‘ تلاشیاں‘ بند کردی جانے والی سڑکیں‘ قلعے بنادیئے جانے والے گھر اور دفاتر‘ سیکورٹی کے نام پر عذاب بنادی جانے والی زندگیاں لیکن اس سب کچھ کے باوجود آگ اور بارود کا کھیل جاری ہے۔ ہمارے بڑوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی‘ انہیں کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا‘ ان کا قلع قمع کردیا گیا لیکن عوام ان رنگین غباروں سے کھیلنے کو تیار نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ خون کی ندی چڑھی ہوئی ہے اور یہاں کسی کی زندگی محفوظ نہیں۔ ریاست اس حوالے سے ناکام ہو چکی ہے۔
انسانی جان کی اس ارزانی نے ہمارے سکیورٹی اداروں کے اوسان بھی خطا کررکھے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ان پر اعصاب زدگی کی کیفیت طاری ہے۔ ڈرے سہمے‘ بوکھلائے ہوئے‘ ہراساں لوگ جو تاریکی میں ہلتی جھاڑی کو بھی خودکش حملہ آور سمجھ کر گولیوں کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔ چیچنیا کی تین بیٹیوں اور دو نوجوانوں کے ساتھ کوئٹہ میں جو کچھ ہوا‘ اُس نے دل رکھنے والے پاکستانیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہ ظلم ہے اور میں یہ سوچ کر کانپ جاتا ہوں کہ کیا اس ظلم کی سزا دو چار اہلکاروں تک محدود رہے گی یا انصاف کا لمبا ہاتھ ہمارے گریبانوں تک بھی پہنچے گا جو اس طرح کی درندگی پر بھی ”قومی مفاد“ کا کمبل ڈال کر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔
تفصیلات دل دہلادینے والی ہیں۔ وہ پانچوں ایک ہی خاندان کے افراد تھے۔ الله اور رسول ختمی مرتبت ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے۔ ابھی ہفتہ دس دن قبل میں اسلامک رائٹرزفورم کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے کوئٹہ میں تھا۔ نوجوان قلم کاروں کی یہ تنظیم بڑے مثبت مقاصد کے لئے سرگرم ہے اور اپنے دستور کے مطابق نہایت مثبت اقدام کررہی ہے۔ ایک شام یہ نوجوان مجھے کوئٹہ کے ایک نواحی قصبے کچلاک لے گئے۔ انہوں نے ایک گھر کے کشادہ صحن میں شاداب گھاس پر فرشی نشست کا انتظام کررکھا تھا۔ درختوں کے گھنے سائے تلے یہ ایک خنک شام تھی۔ انگور کی بیلوں میں ابھی خوشے نہیں لگے تھے اور انار کے پودے گہرے عنابی رنگ کی کلیوں سے لدے کھڑے تھے۔
جب میں نے پڑھا کہ شیشان (چیچینیا) کی سرزمین سے آئے اس قافلے نے کچلاک کی ایک مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی تو میرے ذہن میں اس غریب و سادہ سی بستی کے بے آب و رنگ سے گلی کوچے گردش کرنے لگے۔ ایک رپورٹ یہ ہے کہ وہ خستہ ہال سے لوگ تھے۔ اتنے کہ کچھ لوگوں نے انہیں چپل اور جوتے دیئے۔ پھر کیا ہوا؟ یکایک وہ خودکش بمبار کیسے بن گئے؟ اُن کے بوسیدہ سے کپڑوں پہ خودکش جیکٹس کیسے اُگ آئیں؟ اُن کی جیبیں دستی بموں سے کیسے بھرگئیں؟ وہ کیوں کر کوئٹہ کی جری پولیس اور ایف سی کے صف شکن جانبازوں کے لئے خطرہ بن گئے؟ کیا صورت حال پیش آئی کہ اُنہیں انتہائی بے دردی سے چھلنی کردینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا؟ ان سوالوں کے شافی جواب شاید کبھی نہ مل سکیں کہ پاکستان کی کھیتی میں صرف سوال ہی سوال ہیں۔ جواب وہاں آتے ہیں جہاں کوئی قانون‘ کوئی نظام انصاف‘ کوئی ضابطہ احتساب اور کوئی خوف خدا موجود ہو۔ جہاں انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت ہو۔ جہاں اس نوع کی سفاکی کے مرتکب افراد کو عبرت گاہ کا مرقع بنادینے کی کوئی روایت ہو۔
شاباش پولیس سرجن ڈاکٹر باقر شاہ کو کہ اس بے خوف انسان نے ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے بے لاگ پوسٹ مارٹم رپورٹ مرتب کی۔ اس رپورٹ کے مطابق پانچوں چیچن شہریوں کی شہادت کم فاصلے سے چلائی جانے والی گولیوں سے ہوئی۔ کسی کے جسم میں دو‘ کسی کے بدن میں تین اور کسی کے مختلف اعضاء میں آٹھ گولیاں پیوست تھیں۔ ڈاکٹروں نے کل اکیس گولیوں کی نشاندہی کی ۔ ان سے زیادہ کا بھی امکان موجود ہے اور بیسویں گولیاں وہ ہیں جو ”نشانہ“ پہ لگنے کے بجائے اِدھر اُدھر لگیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ یہ پانچوں ایک ہی کم نصیب خاندان کے افراد تھے۔ ماں باپ‘ دوبیٹیاں اور ایک بیٹا۔ پینتالیس سالہ باپ‘ چالیس سالہ ماں‘ اٹھارہ سے بیس سال کے تین بچے۔ والدہ کے پیٹ میں ایک سات ماہ کا بچہ بھی تھا۔ یہ ہمارے جری جانبازوں کا نشانہ بننے والا چھٹا شہید ہے جسے دنیا میں آنے سے پہلے ہی واپس آسمانوں کو بھیج دیا گیا۔ یہ عجب خود کش بمبار تھے کہ اپنی شناختیں‘ اپنے کارڈز اور اپنے پاسپورٹ جیبوں میں لئے پھررہے تھے۔ یہ عجب خودکش بمبار تھے کہ ایک قافلے کی شکل میں سفر کررہے تھے۔ یہ عجب خودکش بمبار تھے کہ جن سے ایک چھوٹا سا پسٹل بھی برآمد نہیں ہوا۔ پانچوں کے پاس روس کے جاری کردہ اصل پاسپورٹ تھے۔ پانچوں کے پاسپورٹوں پر ایران کے اصل ویزے لگے ہوئے تھے اور وہ چمن سے ایران جانے کی کوئی سبیل نکال رہے تھے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
پولیس اور ایف سی کے اہل کاروں نے جھوٹ کے طومار باندھ دیئے۔ دنیا بھر کو فریب دینے کی کوشش کی۔ وہ اب تک جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ فریب کاری کی سیاہی اُن کے چہروں سے عیاں ہے اور اُن کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہے۔ اُنہیں معلوم ہے کہ پاکستان میں کوئی اُن کی گرفت نہیں کرسکے گا۔ عدالتیں کتنی ہی آزاد ہوجائیں وردیوں تک جاتے جاتے اُن کے دست انصاف پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے۔ کوئٹہ کے انتظامی اہل کاروں نے اس کھلے جھوٹ کی پردہ پوشی کے لئے فریب کاری کی ایک نئی تاریخ لکھ ڈالی۔ میں نے خشخشی داڑھی والے پولیس آفیسر کو ٹی وی پر یوں جھوٹ بولتے دیکھا کہ اُس کے ہونٹ خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ رہے تھے اور اُس کی بدن بولی‘ اُس پہ کوڑے برسارہی تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور وزیراعظم گیلانی کی طرح اس شرمناک واردات کو پولیس اور ایف سی کی ”فتح عظیم“ قرار دے ڈالا۔ ممکن ہے گراں قدر انعامات اور اہلکاروں کی ترقی درجات کی سمری بھی اُن کی میز تک پہنچ گئی ہو‘ جب قومی پریس نے آسمان سرپہ اٹھالیا تو انہوں نے ہائیکورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی کے قیام کا اعلان کردیا۔
شاید درندگی کا یہ واقعہ میری یادداشت کی لوح سے مٹ جائے لیکن وہ مختصر سی فلم دیر تک میرے دماغ کے نگار خانے میں چلتی رہے گی جس میں گولیوں کی بوچھاڑ کی زد میں آئی ایک چیچن بیٹی اپنا ہاتھ لہرا لہرا کر پناہ مانگ رہی ہے۔ اگلے دن وہ تصویر ہمارے اخبارات میں چھپی جب لاشوں کے بیچوں بیچ ایک بازو آسمان کا رخ کئے کھڑا ہے۔ کوئی سنگ دل ہی ہوگا جس کی آنکھیں یہ تصویر دیکھ کر بھر نہ آئی ہوں۔ ایک عینی شاہد ٹی وی پر بتا رہا تھا کہ وہ سب ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کلمہ شہادت پڑھ رہے تھے۔ الله تو شاید اسی دنیا میں حساب برابر کردے لیکن ہم روز حشر رسول الله علیہ السلام کو کیا جواب دیں گے؟ شیشان کے چھ شہیدوں کا خون بہا کیسے ادا کریں گے؟
 
Top