نصر اللہ خالد
رکن
- شمولیت
- اگست 23، 2012
- پیغامات
- 188
- ری ایکشن اسکور
- 143
- پوائنٹ
- 70
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا
إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ۔۔۔۔سنن ابی داؤد2470
انسان پیدائش کے بعد سے ہی جوں جوں پرورش پاتاہےاس کے اندر نمایاں تبدیلیاں رونماہونا شروع ہوجاتی ہیں۔یہ تبدیلیاں جہاں ظاہر ی خدوخال میں ہوتی ہیںوہاں ہی ذہنی طورپر فطری رجحان اور میلان میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔اصل میں یہ رجحانات اس کی اپنی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ یہ اسکو اسکے اردگرد میں پائے جانے والے ماحول سے ملتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک بچہ اگر مذہبی ماحول میں پلا بڑھا ہو تو اسکے اندر مذہبی غیرت اور مذہبی حساسیت زیادہ ہوگی۔اسی طرح اگر کوئی بچہ ایسے ماحول میں پلا بڑھا ہو جو غلط حرکات اور اعمال فاسقہ کا مرتکب ہو تو ایسے بچے کے رجحانات بھی برائی ہی کی طرف ہوں گے۔
یہاں پر ہم نے دوطرح کے ماحول کو اجمالی طور پر جائزہ پیش کیا ہے ذیل میں ہم ان کی مخصرا وضاحت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے۔
اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا
شیطان انسان کا کھلم کھلا واضح اور روز روشن کی طرح عیاں دشمن ہے۔انسان کے بہلانے پھسلانے اور برائی کی طرف مائل کرنےکےلئے شیطان کے پاس مختلف آلات،حربے اور طریقے ہیں لیکن مشاہدے کی روشنی میں شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار "فطری یا معاشرتی رجحان" ہےبرائی میں پلنے اور گندگی کو شروع سے ہی دیکھنے والے انسان کو گندگی برائی اور فسق و فجور کی طرف لے جاناشیطان کےلئےانتہائی آسان ہے۔وہ آدمی کو اس برائی کو رنگین کر کے دیکھاتاہے۔جبکہ انسان پہلے سے ہی اس برائی کا قائل ہوتاہےنتیجتاً تھوڑی سی محنت کے بعد ہی دشمن بازی لے جاتاہے۔
اس کے برعکس ایک ایسا بچہ جو فطری طور پر سلیم الطبع اور مذہبی ماحول کی پیداوار ہوتاہے ایسے لوگ شیطان کےلئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتے۔انکو برائی کی طرف لانا بعض دفعہ اس کےلئے نہ صرف مشکل ہی بلکہ ناممکن بھی ہو جاتاہے۔ایسی صورت میں شیطان اپنے سب سے قیمتی ہتھیار فطری رجحان یا معاشرتی میلان کو بر وائےکار لاکر کسی طرح سےغیر شرعی امور پر ابھارتا ہے ۔اس کا جائزہ اختصاراطبقات کی تقسیم کے ساتھ ًحسب ذیل ہے۔
مثال نمبر 1:
ایک ایسا انسان جو رسول اللہ ﷺ کا سچا پیروکار ہے اور ان کی شان پر کٹ مرنے کو تیار ہوتاہے شیطان ایسے آدمی کو کبھی بھی برائی کی دعوت نہیں دیتا کیونکہ کو وہ جانتاہے کہ اس کو اگر برائی کی دعوت دی گئی تو اس کےلئے بہت محنت کی ضرورت ہے اور اسکے لئے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ شخص برائی کی طرف مائل ہوتا ہے بھی ہے یا نہیں۔اسلئے شیطان وسوسوں کوسہارا لیتاہے۔
وسوسہ نمبر 1:
ایسے شخص کےلئے شیطان اسکے رحجان کو استعمال کرواتے ہوئےاس کے دل میں عقیدت ومحبت میں غلو کے ساتھ یہ وسوسہ ڈالتاہے کہ رسول اللہ ﷺ انبیاء کے امام ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو زندہ ہیں اور ہمارے نبی فوت ہو گئےہوں۔؟
سو وہ بندہ اس بات کا قائل ہوتا نظر آتا ہے کہ رسول اللہ زندہ موجود اور ہماری اس دنیا یں ہیں۔
وسوسہ نمبر2:
پھر وہ اسکو اس طرف لاتاہے ہےکہ ہم بھی انسان اور رسول اللہﷺ بھی انسان(بشر) ہیں تو ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہتالہذا نہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔یہ تو گستاخی کے زمرہ میں آجائے گا کیوں نہ ایسا ہو کہ رسول اللہ ﷺ کو نور من نور اللہ کر دیا جائے۔۔۔۔!!
وسوسہ نمبر3:
فطری رجحان کو استعمال کرتے ہوئے وہ انسان کو یہ بات کرنے پر مجبور کر دیتاہے کہ عیدین تو رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے ہی آئی ہیں لہذا اصل عید تو آقا ﷺ کی ولادت باسعادت کی ہے۔
پھر اسی طرح دین اسلام اور شرائع اسلامیہ میں اس قدر غلو کرواتا جاتاہے کہ ایسا بندہ نوافل کو فرائض اور اسی طرح سنن کو بھی فرائض کا درجہ دینے لگ جاتاہے۔مثلاًنماز کے بعد کے نوافل کو سفر میں بھی نہ چھوڑنا جبکہ فرض کو آدھا ادا کیا جارہا ہے لیکن سنن پوری پڑھی جارہی ہیں۔وغیرہ۔
ایسے لوگ رسوم و رواج اور نئی نئی بدعتیں بہت جلد بے دلیل قبول بھی کر لیتےہیں اور ان پر عمل کرنا حتمی جنت کی ضمانت بھی مان لیتے ہیں۔ایسا آدمی درست راستے کو چھوڑ کا غلط راستے پر آجاتاہے جہاں وہ کام تو ثواب کی نیت سے کرتاہے لیکن ثواب میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتاہے کیونکہ ثواب کےلئے گارنٹی کارڈ رسول اللہ ﷺ کی بات ہے۔
آپ اگر اردگرد کا مشاہدہ کریں تو ایسی اور ہزاروں مثالیں آپ کو مل جائیں گی جس سے یہ بخوبی اندازہ ہو گا ہےکہ انسان کو رجحان اور طبعی میلان اس کو کس طرح سے راہ راست سے ہٹا دیتاہے۔
۔مثال نمبر2:
کچھ انسان ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں جہاں پر آئمہ کی شان میں خاطر خواہ زیادتی سے کام لیا جاتاہے۔یہ انسان شیطان کے لئے بڑے کارگر ثابت ہوتے ہیں ایسے لوگ بزرگوں کو باتوں کو کلی دین کانام دیتے ہیں اور اگر ان کی باتیں قرآن و حدیث کے متعارض بھی ہو جائیں تو بھی ان ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
وسوسہ نمبر1:
ایسے لوگوں کےدلوں میں سب سے پہلا وسوسہ یہ ہی ہوتاہے کہ بزرگوں کی باتیں تو قرآن و حدیث کا نچوڑ ہیں اسلئے ان ہی پر اکتفا کر لیا جائے۔
جبکہ قرآن کی واضح تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ :"جب تم کسی چیز میں اختلاف رائے کرو تو اپنے اس مسئلہ کو اللہ اور اسکے رسول کی طرف لے جاؤ" النساء۔
اور جو تمہیں اللہ کے رسول دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سےرک جاؤ"
عجیب معمہ ہےکہ ایسے لوگ پس پردہ قرآن و حدیث کے صریح نصوص کے کھلم کھلا انکار کی وجہ سے کبیرہ گناہ کے مرتکب بھی ہو جاتے ہیں اور ان کو پتہ بھی نہیں چلتا۔یہ لوگ خود کو دین کا سچا داعی سمجھ کر حقیقت سے دور نکل جاتےہیں۔
وسوسہ نمبر2:
ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے آئمہ یا امام نے تو دین کی الجھی گتھیاں سلجھائی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حدیث کے مقابلہ میں یہ لوگ امام کی بات کا دفاع بڑی ڈٹھائی سے کرتے نظر آئیں آتے ہیں۔
مثال نمبر3:
یہ مثال ایک ایسے طبقے پر دی جارہی ہےجس میں رسول اللہ ﷺ کے خاندان کی حیثیت اور ان کا مقام و مرتبہ اسقدر بڑھا دیاگیا ہےکہ ایسے لوگ اس کی آڑ میں دیگر تمام تر لوگوں (صحابہ کرام رضوان اللہ ) کو گمراہ اور غلط تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔
وسوسہ نمبر1:
تمام صحابہ نے اہل بیت کے ساتھ زیادتی کی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
وسوسہ نمبر2:
خلافت کے حقدار تو اہل بیت تھے جبکہ صحابہ کرام نے ان سے یہ منصب خلافت چھین کر بھی زیادتی کی ہے۔
وسوسہ نمبر3:
وصال رسول ﷺ کے بعد تمام صحابہ کرام نعوذباللہ مرتد ہو گئے تھے۔وغیرہ ایسے ہزاروں اعتراضات درحقیقت وسوسےہی ہیں جو انسان کی طرف ڈالے گئے ہیں۔
صحابہ کرام اور ان کی قربانیوں پر یقین کرنا جزوی طور پر ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔لیکن شیطان معاشرتی رجحان کو استعمال کرواتے ہوئے لوگوں ایک مخصوص طبقے تک نہ صرف خاص کردیتاہے بلکہ دوسرے طبقے پر لعن طعن اور تعن و شنیع کو ثواب کا درجہ دے کر زبانوں پر جاری بھی کر دیتاہے۔
یہ لوگ شرائع اسلامی کا کلی طور پر انکارکردینے والے ہو جاتےہیں۔یہاں تک کے بنیادی طور پر کلمے میں تبدیلی کر دیتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ کے دین میں لائے گئےکلمے کا اس کے کوئی تعلق نہیں ایسے لوگوں جو کلمے میں تبدیلی کے ساتھ خود کو مسلمان کہتے ہیں کو مسلمان کہلاوانے کا حق نہیں ہے۔
لیکن شیطان ایسے لوگوں کو یہ جھانسہ دینے میں کامیاب رہتاہے کہ تم تو حقیقی سفارش کے مستحق ہو،اور تمہارے اعمال اور تمہاری عقیدت جنت میں لے جانےلئے کافی ہے۔
لیکن محبت اتباع رسول ہی کا نام ہے۔
مثال نمبر4:
ایک ایسا انسان جو درست اور صحیح و سالم عقیدہ والے ماحول میں پروان چڑھا ہو،شرائع اسلام کو اپنا دسار اور رسول اللہ ﷺ کی بات کو حتمی طورپر فیصلہ کن ماننے والا ہو۔
ایسے لوگ عقیدہ میں تو کوئی کپمرومائز نہیں کرتے لیکن شیطان ان کو بھی بڑے ادب سے بے وقوف بنا لیتاہے۔
وسوسہ نمبر1:
ایسے لوگ فرائض کو تو فرائض کی جگہ دیتےہیں لیکن نوافل کو چنداں حٰیثیت نہیں دیتے شیطان ان کو یہ وسوسہ دیتا ہے کہ یہ نوافل کونسا ضروری ہیں سو ان کو رہنے دو۔
وسوسہ نمبر2:
کیا ہوا کہ اگر تم عمل میں بہت بہتر نہیں ہو تو لیکن تمہارا عقیدہ ہی تمہیں جنت میں لے جانے کو کافی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عقیدہ جنت میں لے جانے کی ضمانت ہے لیکن عمل جہنم کی سختی سے بچانے کا سبب ہے۔
ایسے لوگ عمل میں کم ہوتے ہوتے زیرو ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ فرائض میں بھی کوتاہی ہونے لگ جاتی ہے۔
قارئین کرام: اوپر کی تمام تر مثالیں فطری مذہبی رجحان کو سامنے رکھ کر دی گئ ہیں۔لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو مذہب سے ہٹ کر تمام لوگوں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔اور وہ ہیں معاشرتی برائیاں جیسے چوری،ڈکیتی،فحش گوئی،زنا،شراب نوشی،کمار بازی اور جوا وغیرہ۔یہ برائیاں تمام تر طبقات کے ان لوگوں میں یکساں پائی جاتی ہیں جوایسے معاشرتی ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔اس کی سادہ مثال آپ کے ماحول میں موجود ہے کہ: مسجد تو ہر طبقہ کی الگ ہے لیکن سینما گھر ،جوا خانہ،نائٹ کلب وغیرہ سب کے ایک ہی ہیں۔اللہ ہم سب کو ان لعنتوں سے دوررکھیں۔
میں نے یہ مضمون بنا کسی مسلکی ترجیح کے لکھا ہے۔ جس کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ہم جیسی طبیعت رکھتے ہوں گےاچھی یا بری شیطان اسی طرف ہم کو لے جاکر ہمیں بے وقوف بنائے گا۔کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والے ہوں ہماری بات رسول اللہ ﷺ کی بات پر ہی حتمی ہونی چاہیئے۔مثبت انداز سے سوچیں،محبت کا درس دیں۔
اللہ ہم سب کو شیطان کی چالوں سے محفوظ رکھیں۔
آمین
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا
إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ۔۔۔۔سنن ابی داؤد2470
انسان پیدائش کے بعد سے ہی جوں جوں پرورش پاتاہےاس کے اندر نمایاں تبدیلیاں رونماہونا شروع ہوجاتی ہیں۔یہ تبدیلیاں جہاں ظاہر ی خدوخال میں ہوتی ہیںوہاں ہی ذہنی طورپر فطری رجحان اور میلان میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔اصل میں یہ رجحانات اس کی اپنی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ یہ اسکو اسکے اردگرد میں پائے جانے والے ماحول سے ملتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک بچہ اگر مذہبی ماحول میں پلا بڑھا ہو تو اسکے اندر مذہبی غیرت اور مذہبی حساسیت زیادہ ہوگی۔اسی طرح اگر کوئی بچہ ایسے ماحول میں پلا بڑھا ہو جو غلط حرکات اور اعمال فاسقہ کا مرتکب ہو تو ایسے بچے کے رجحانات بھی برائی ہی کی طرف ہوں گے۔
یہاں پر ہم نے دوطرح کے ماحول کو اجمالی طور پر جائزہ پیش کیا ہے ذیل میں ہم ان کی مخصرا وضاحت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے۔
اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا
شیطان انسان کا کھلم کھلا واضح اور روز روشن کی طرح عیاں دشمن ہے۔انسان کے بہلانے پھسلانے اور برائی کی طرف مائل کرنےکےلئے شیطان کے پاس مختلف آلات،حربے اور طریقے ہیں لیکن مشاہدے کی روشنی میں شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار "فطری یا معاشرتی رجحان" ہےبرائی میں پلنے اور گندگی کو شروع سے ہی دیکھنے والے انسان کو گندگی برائی اور فسق و فجور کی طرف لے جاناشیطان کےلئےانتہائی آسان ہے۔وہ آدمی کو اس برائی کو رنگین کر کے دیکھاتاہے۔جبکہ انسان پہلے سے ہی اس برائی کا قائل ہوتاہےنتیجتاً تھوڑی سی محنت کے بعد ہی دشمن بازی لے جاتاہے۔
اس کے برعکس ایک ایسا بچہ جو فطری طور پر سلیم الطبع اور مذہبی ماحول کی پیداوار ہوتاہے ایسے لوگ شیطان کےلئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتے۔انکو برائی کی طرف لانا بعض دفعہ اس کےلئے نہ صرف مشکل ہی بلکہ ناممکن بھی ہو جاتاہے۔ایسی صورت میں شیطان اپنے سب سے قیمتی ہتھیار فطری رجحان یا معاشرتی میلان کو بر وائےکار لاکر کسی طرح سےغیر شرعی امور پر ابھارتا ہے ۔اس کا جائزہ اختصاراطبقات کی تقسیم کے ساتھ ًحسب ذیل ہے۔
مثال نمبر 1:
ایک ایسا انسان جو رسول اللہ ﷺ کا سچا پیروکار ہے اور ان کی شان پر کٹ مرنے کو تیار ہوتاہے شیطان ایسے آدمی کو کبھی بھی برائی کی دعوت نہیں دیتا کیونکہ کو وہ جانتاہے کہ اس کو اگر برائی کی دعوت دی گئی تو اس کےلئے بہت محنت کی ضرورت ہے اور اسکے لئے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ شخص برائی کی طرف مائل ہوتا ہے بھی ہے یا نہیں۔اسلئے شیطان وسوسوں کوسہارا لیتاہے۔
وسوسہ نمبر 1:
ایسے شخص کےلئے شیطان اسکے رحجان کو استعمال کرواتے ہوئےاس کے دل میں عقیدت ومحبت میں غلو کے ساتھ یہ وسوسہ ڈالتاہے کہ رسول اللہ ﷺ انبیاء کے امام ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو زندہ ہیں اور ہمارے نبی فوت ہو گئےہوں۔؟
سو وہ بندہ اس بات کا قائل ہوتا نظر آتا ہے کہ رسول اللہ زندہ موجود اور ہماری اس دنیا یں ہیں۔
وسوسہ نمبر2:
پھر وہ اسکو اس طرف لاتاہے ہےکہ ہم بھی انسان اور رسول اللہﷺ بھی انسان(بشر) ہیں تو ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہتالہذا نہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔یہ تو گستاخی کے زمرہ میں آجائے گا کیوں نہ ایسا ہو کہ رسول اللہ ﷺ کو نور من نور اللہ کر دیا جائے۔۔۔۔!!
وسوسہ نمبر3:
فطری رجحان کو استعمال کرتے ہوئے وہ انسان کو یہ بات کرنے پر مجبور کر دیتاہے کہ عیدین تو رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے ہی آئی ہیں لہذا اصل عید تو آقا ﷺ کی ولادت باسعادت کی ہے۔
پھر اسی طرح دین اسلام اور شرائع اسلامیہ میں اس قدر غلو کرواتا جاتاہے کہ ایسا بندہ نوافل کو فرائض اور اسی طرح سنن کو بھی فرائض کا درجہ دینے لگ جاتاہے۔مثلاًنماز کے بعد کے نوافل کو سفر میں بھی نہ چھوڑنا جبکہ فرض کو آدھا ادا کیا جارہا ہے لیکن سنن پوری پڑھی جارہی ہیں۔وغیرہ۔
ایسے لوگ رسوم و رواج اور نئی نئی بدعتیں بہت جلد بے دلیل قبول بھی کر لیتےہیں اور ان پر عمل کرنا حتمی جنت کی ضمانت بھی مان لیتے ہیں۔ایسا آدمی درست راستے کو چھوڑ کا غلط راستے پر آجاتاہے جہاں وہ کام تو ثواب کی نیت سے کرتاہے لیکن ثواب میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتاہے کیونکہ ثواب کےلئے گارنٹی کارڈ رسول اللہ ﷺ کی بات ہے۔
آپ اگر اردگرد کا مشاہدہ کریں تو ایسی اور ہزاروں مثالیں آپ کو مل جائیں گی جس سے یہ بخوبی اندازہ ہو گا ہےکہ انسان کو رجحان اور طبعی میلان اس کو کس طرح سے راہ راست سے ہٹا دیتاہے۔
۔مثال نمبر2:
کچھ انسان ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں جہاں پر آئمہ کی شان میں خاطر خواہ زیادتی سے کام لیا جاتاہے۔یہ انسان شیطان کے لئے بڑے کارگر ثابت ہوتے ہیں ایسے لوگ بزرگوں کو باتوں کو کلی دین کانام دیتے ہیں اور اگر ان کی باتیں قرآن و حدیث کے متعارض بھی ہو جائیں تو بھی ان ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
وسوسہ نمبر1:
ایسے لوگوں کےدلوں میں سب سے پہلا وسوسہ یہ ہی ہوتاہے کہ بزرگوں کی باتیں تو قرآن و حدیث کا نچوڑ ہیں اسلئے ان ہی پر اکتفا کر لیا جائے۔
جبکہ قرآن کی واضح تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ :"جب تم کسی چیز میں اختلاف رائے کرو تو اپنے اس مسئلہ کو اللہ اور اسکے رسول کی طرف لے جاؤ" النساء۔
اور جو تمہیں اللہ کے رسول دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سےرک جاؤ"
عجیب معمہ ہےکہ ایسے لوگ پس پردہ قرآن و حدیث کے صریح نصوص کے کھلم کھلا انکار کی وجہ سے کبیرہ گناہ کے مرتکب بھی ہو جاتے ہیں اور ان کو پتہ بھی نہیں چلتا۔یہ لوگ خود کو دین کا سچا داعی سمجھ کر حقیقت سے دور نکل جاتےہیں۔
وسوسہ نمبر2:
ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے آئمہ یا امام نے تو دین کی الجھی گتھیاں سلجھائی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حدیث کے مقابلہ میں یہ لوگ امام کی بات کا دفاع بڑی ڈٹھائی سے کرتے نظر آئیں آتے ہیں۔
مثال نمبر3:
یہ مثال ایک ایسے طبقے پر دی جارہی ہےجس میں رسول اللہ ﷺ کے خاندان کی حیثیت اور ان کا مقام و مرتبہ اسقدر بڑھا دیاگیا ہےکہ ایسے لوگ اس کی آڑ میں دیگر تمام تر لوگوں (صحابہ کرام رضوان اللہ ) کو گمراہ اور غلط تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔
وسوسہ نمبر1:
تمام صحابہ نے اہل بیت کے ساتھ زیادتی کی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
وسوسہ نمبر2:
خلافت کے حقدار تو اہل بیت تھے جبکہ صحابہ کرام نے ان سے یہ منصب خلافت چھین کر بھی زیادتی کی ہے۔
وسوسہ نمبر3:
وصال رسول ﷺ کے بعد تمام صحابہ کرام نعوذباللہ مرتد ہو گئے تھے۔وغیرہ ایسے ہزاروں اعتراضات درحقیقت وسوسےہی ہیں جو انسان کی طرف ڈالے گئے ہیں۔
صحابہ کرام اور ان کی قربانیوں پر یقین کرنا جزوی طور پر ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔لیکن شیطان معاشرتی رجحان کو استعمال کرواتے ہوئے لوگوں ایک مخصوص طبقے تک نہ صرف خاص کردیتاہے بلکہ دوسرے طبقے پر لعن طعن اور تعن و شنیع کو ثواب کا درجہ دے کر زبانوں پر جاری بھی کر دیتاہے۔
یہ لوگ شرائع اسلامی کا کلی طور پر انکارکردینے والے ہو جاتےہیں۔یہاں تک کے بنیادی طور پر کلمے میں تبدیلی کر دیتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ کے دین میں لائے گئےکلمے کا اس کے کوئی تعلق نہیں ایسے لوگوں جو کلمے میں تبدیلی کے ساتھ خود کو مسلمان کہتے ہیں کو مسلمان کہلاوانے کا حق نہیں ہے۔
لیکن شیطان ایسے لوگوں کو یہ جھانسہ دینے میں کامیاب رہتاہے کہ تم تو حقیقی سفارش کے مستحق ہو،اور تمہارے اعمال اور تمہاری عقیدت جنت میں لے جانےلئے کافی ہے۔
لیکن محبت اتباع رسول ہی کا نام ہے۔
مثال نمبر4:
ایک ایسا انسان جو درست اور صحیح و سالم عقیدہ والے ماحول میں پروان چڑھا ہو،شرائع اسلام کو اپنا دسار اور رسول اللہ ﷺ کی بات کو حتمی طورپر فیصلہ کن ماننے والا ہو۔
ایسے لوگ عقیدہ میں تو کوئی کپمرومائز نہیں کرتے لیکن شیطان ان کو بھی بڑے ادب سے بے وقوف بنا لیتاہے۔
وسوسہ نمبر1:
ایسے لوگ فرائض کو تو فرائض کی جگہ دیتےہیں لیکن نوافل کو چنداں حٰیثیت نہیں دیتے شیطان ان کو یہ وسوسہ دیتا ہے کہ یہ نوافل کونسا ضروری ہیں سو ان کو رہنے دو۔
وسوسہ نمبر2:
کیا ہوا کہ اگر تم عمل میں بہت بہتر نہیں ہو تو لیکن تمہارا عقیدہ ہی تمہیں جنت میں لے جانے کو کافی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عقیدہ جنت میں لے جانے کی ضمانت ہے لیکن عمل جہنم کی سختی سے بچانے کا سبب ہے۔
ایسے لوگ عمل میں کم ہوتے ہوتے زیرو ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ فرائض میں بھی کوتاہی ہونے لگ جاتی ہے۔
نوٹ:
قارئین کرام: اوپر کی تمام تر مثالیں فطری مذہبی رجحان کو سامنے رکھ کر دی گئ ہیں۔لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو مذہب سے ہٹ کر تمام لوگوں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔اور وہ ہیں معاشرتی برائیاں جیسے چوری،ڈکیتی،فحش گوئی،زنا،شراب نوشی،کمار بازی اور جوا وغیرہ۔یہ برائیاں تمام تر طبقات کے ان لوگوں میں یکساں پائی جاتی ہیں جوایسے معاشرتی ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔اس کی سادہ مثال آپ کے ماحول میں موجود ہے کہ: مسجد تو ہر طبقہ کی الگ ہے لیکن سینما گھر ،جوا خانہ،نائٹ کلب وغیرہ سب کے ایک ہی ہیں۔اللہ ہم سب کو ان لعنتوں سے دوررکھیں۔
میں نے یہ مضمون بنا کسی مسلکی ترجیح کے لکھا ہے۔ جس کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ہم جیسی طبیعت رکھتے ہوں گےاچھی یا بری شیطان اسی طرف ہم کو لے جاکر ہمیں بے وقوف بنائے گا۔کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والے ہوں ہماری بات رسول اللہ ﷺ کی بات پر ہی حتمی ہونی چاہیئے۔مثبت انداز سے سوچیں،محبت کا درس دیں۔
اللہ ہم سب کو شیطان کی چالوں سے محفوظ رکھیں۔
آمین
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔