• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیطان سے پیمان…

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
شیطان سے پیمان…
کالم: حامد میر
جمعرات 16 جولائی 2015م

اہل اسلام رمضان میں شیطان سے دور بھاگتے ہیں لیکن اہل ایران نے رمضان المبارک کے آخری اور مبارک ترین عشرے میں بڑے شیطان کے ساتھ نئے عہد و پیمان کر لئے۔ آسٹریا کے شہر ویانا میں 14 جولائی کو ایران نے امریکہ سمیت چھ عالمی طاقتوں کو یہ یقین دلایا کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا اور اپنی ایٹمی تنصیبات کو اقوام متحدہ کے معائنے کیلئے کھول دے گا جس کے جواب میں ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔ ایران اور چھ عالمی طاقتوں میں معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد امریکی صدر اوباما کی فاتحانہ تقریر صرف پوری دنیا میں نہیں بلکہ ایران میں بھی سنی گئی جس کا اختتام اس فقرے پر ہوا۔ "خدا امریکہ پر رحمتیں نازل کرتا رہے"۔ اس معاہدے کا دنیا کے اکثرممالک نے خیر مقدم کیا ہے۔ اہل ایران تو خوشی سے سڑکوں پر نکل آئے۔


وہ بھول گئے کہ انقلاب ایران کے قائد آیت اللہ خمینی نے امریکہ کو "شیطان بزرگ" قرار دیا تھا۔ اہل ایران کی ایک نسل "مرگ بر امریکہ" کے نعرے لگاتے ہوئے قبروں میں اتر گئی۔ دوسری نسل نے "مرگ بر امریکہ" کے نعرے لگاتے لگاتے بال سفید کرلئے لیکن تیسری نسل امریکہ کو گلے لگانے کیلئے بے چین ہے۔ نوجوان ایرانی اس معاہدے کو اپنے لئے رحمت سمجھ رہے ہیں اور اسرائیل اس معاہدے کو اپنے لئے زحمت سمجھ رہا ہے۔ اسرائیل کی تکلیف سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مذکورہ معاہدہ صرف امریکہ کی نہیں بلکہ ایران کی بھی جیت ہے۔ ایران سمیت کسی بھی ملک کا تنگ نظری پر مبنی ملائیت میں پھنسے رہنا اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ صہیونی لابی چاہتی تھی کہ اہل ایران "مرگ بر امریکہ" کے نعرے لگاتے رہیں تاکہ ایران و امریکہ کی محاذ آرائی سے اسرائیل فائدہ اٹھاتا رہے، ایران نے اپنی معیشت کی ترقی کے لئے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ معاہدے پر دستخط تو ہو گئے لیکن معاہدے پر عملدرآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔

کچھ ماہرین کے خیال میں اس معاہدے نے شیر کی مرضی سے شیر کے دانت نکال دئیے ہیں اور جب شیر کے دانت نکل جائیں تو پھر اس پر کتے بھی بھونکتے ہیں۔ یہ ذمہ داری عالمی طاقتوں کی ہے کہ وہ اسرائیل کو ایران پر بھونکنے یا حملہ آور ہونے سے باز رکھیں لیکن تاریخ پر نظر دوڑائیں تو عالمی طاقتوں کے وعدوں پر اعتبار کرنا کسی غضب سے کم نہیں ہوتا۔

زیادہ دور مت جائیے، مارچ 1976ء میں آسٹریا کے اسی شہر ویانا میں طویل بحث مباحثے کے بعد فرانس اور پاکستان میں نیو کلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی کمیشن نے اس معاہدے کی توثیق کر دی تھی۔ کمیشن میں موجود امریکہ کے نمائندے نے بھی معاہدے کی حمایت کی لیکن کچھ عرصے کے بعد امریکہ نے اس معاہدے کی مخالفت شروع کر دی۔ اگست 1976ء میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کہا کہ وہ اپنے ایٹمی عزائم سے باز رہیں ورنہ انہیں عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا۔ بھٹو نے امریکی دبائو کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کے ثبوت اکٹھے کئے اور جون 1977ء میں لیبیا میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں تقسیم کر دئیے جس کے بعد اس کانفرنس نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کے خلاف قرار داد منظور کر ڈالی۔

5 جولائی1977ء کو امریکہ کی خاموش تائید سے جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی کو پاکستان میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ایران کے پاس بھٹو نہیں تھا جو اپنی جان پر کھیل کر ایران کے ایٹمی پروگرام کو بچا لیتا۔ بھٹو کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے ایران اور سعودی عرب سمیت تمام مسلم ممالک کی حمایت حاصل کرلی تھی لیکن ایران کی قیادت نے بہت سے مسلم ممالک کو اپنا دشمن بنائے رکھا۔ بھٹو کی موت کے بعد فرانس نے پاکستان کے ساتھ ایٹمی معاہدہ منسوخ کردیا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کے باوجود پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو منجمد کیا نہ رول بیک کیا اور بھٹو صاحب کے دریافت شدہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ذریعہ ایٹمی پروگرام جاری رکھا۔

ڈاکٹر قدیر کے علاوہ دیگر سائنسدانوں نے بھی پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن ایٹمی ایندھن بنانے کا کریڈٹ ڈاکٹر قدیر کو جاتا ہے اور اسی لئے جنرل پرویز مشرف کے دور میں عالمی طاقتوں نے ڈاکٹر قدیر کو بھی عبرت کی مثال بنا دیا۔ تاریخ میں یہ بدنامی صرف اہل پاکستان کے حصے میں آئے گی کہ جس وزیر اعظم نے ایٹمی پروگرام شروع کیا اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا، جس وزیر اعظم نے ایٹمی دھماکہ کیا اسے جلاوطن کر دیا اور جس سائنسدان نے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز میں ایٹمی ایندھن اور میزائل تیار کئے اسے چور بنا کر ٹی وی پر پیش کیا گیا۔

اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جن حالات سے دوچار کیا آج مشرف بھی انہی حالات سے دو چار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میل ملاقات پر کچھ پابندیاں ہیں اور مشرف جب چاہیں اپنی پسند کے کسی بھی ٹی وی اینکر کے ہاتھ میں اپنی مرضی کے سوالات تھما کر ایک نام نہاد انٹرویو دے ڈالتے ہیں۔ آج تک کسی ٹی وی اینکر نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے ڈاکٹر قدیر پر ایران اور لیبیا کو ایٹمی راز دینے کا الزام لگایا لیکن آپ نے کس سے پوچھ کر پاکستان کے فوجی اڈے غیر ملکی طاقتوں کو دئیے؟

اب تو کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے بھی گواہی دے دی۔ انہوں نے کہا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں حریت کانفرنس پر دبائو ڈالا تھا کہ ہم مسئلہ کشمیر سے دستبردار ہو جائیں۔ اس قسم کا دعویٰ کسی سیاستدان کے بارے میں کیا جاتا تو اب تک میڈیا میں اس کی تکہ بوٹی کی جا چکی ہوتی لیکن جب معاملہ ڈکٹیٹر کا آئے تو فرینڈلی مائنڈ کے ماہر کچھ ٹی وی اینکر موصوف کے سامنے بھیگی بلی بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ بھی نہیں پوچھ پاتے کہ آج کل شہر شہر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف بغاوت کی ایف آئی آر کٹوانے کا شوق جنگل میں آگ کی طرح پھیلا ہوا ہے لیکن جب آپ پر آئین سے غداری کا مقدمہ بنا تو آپ نے اس باغی الطاف حسین سے مدد کیوں مانگی؟ غداری کے مقدمے میں آپ کا دفاع کرنے والے دو اہم وکلاء فروغ نسیم اور محمد علی سیف ا یم کیو ایم کے سینیٹر ہیں۔ آپ ان کی خدمات واپس کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟ بہرحال الطاف حسین پر بغاوت کے جتنے زیادہ مقدمے قائم ہوں گے پاکستان میں اتنی ہی زیادہ بحثیں طول پکڑیں گی۔

لوگ گلی گلی پوچھیں گے کہ غدار اور شیطان صرف سیاستدان کیوں ہوتے ہیں؟ پاکستان کے فوجی اڈے غیر ملکی طاقتوں کو دینا اور غیر ملکی بنک اکائونٹوں کو کروڑوں ڈالر سے بھرنا کہاں کی حب الوطنی ہے؟ سپریم کورٹ میں نیب کی طرف سے میگا کرپشن کیسز کی فہرت سیاستدانوں کے خلاف چارج شیٹ نہیں بنے گی۔ یاد رکھئے ! شیطان صرف سیاسی نہیں بلکہ غیر سیاسی بھی ہوا کرتے ہیں۔ سیاسی شیطانوں کا احتساب ضرور ہونا چاہئے لیکن غیر سیاسی شیطانوں کا کیوں نہیں۔ شیطان کے ساتھ پیمان ایران میں ہو یا پاکستان میں اہل اسلام کو محتاط رہنا چاہئے۔ شیطان سے خیر کی توقع نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ یا تو سب شیطانوں سے سمجھوتہ کر لیا جائے یا سب کی خبر لی جائے۔ تیرا شیطان برا اور میرا شیطان اچھا والی پالیسی اب پاکستان میں تو نہیں چلنے والی۔ احتساب ہوگا تو سب کا ہوگا، سیاسی شیطانوں کا بھی ہوگا اور غیر سیاسی شیطانوں کا بھی ہوگا۔ نہیں ہوگا تو کسی کا نہیں ہوگا۔ ایک شیطان سے لڑائی اور دوسرے شیطان سے پیمان میں اہل اسلام کو فائدہ نہیں نقصان ہوتا ہے۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ایران سے ڈیل شمالی کوریا سے بھی بدتر ہے: شہزادہ بندر

جوہری معاہدے سے مشرق وسطیٰ تباہی سے دوچار ہوجائے گا

شہزادہ بندر بن سلطان نے لکھا ہے کہ امریکا کے دوستوں کو اس کے دشمن سے بھی زیادہ خوف زدہ ہونا چاہیے۔


العربیہ ڈاٹ نیٹ

جمعرات 16 جولائی 2015م

سعودی عرب کے واشنگٹن میں سابق سفیر اور سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ بندر بن سلطان نے کہا ہے کہ امریکا نے شمالی کوریا طرز کی صورت حال پیدا ہونے کی پیشین گوئیوں کے باوجود ایران کے ساتھ جوہری تنازعے پر معاہدہ کر لیا ہے۔


انھوں نے لندن سے تعلق رکھنے والی عربی کی نیوز ویب سائٹ الف پر شائع ہونے والے ایک کالم میں خبردار کیا ہے کہ ایران سے نیو کلئیر ڈیل مشرق وسطیٰ میں تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔

شہزادہ بندر نے لکھا ہے کہ ''میڈیا اور سیاست کے سنجیدہ پنڈت صدر اوباما کی ایران سے ڈیل کو سابق صدر بل کلنٹن کی شمالی کوریا کے ساتھ ڈیل سے بھی بدتر قرار دے رہے ہیں۔ صدر کلنٹن نے تو خارجہ پالیسی کے تزویراتی تجزیوں، قومی انٹیلی جنس کی انتہائی خفیہ اطلاعات اور شمالی کوریا کے عوام کو قحط کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے ڈیل کا فیصلہ کیا تھا''۔

وہ امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان 1994ء میں طے پائے فریم ورک سمجھوتے کا حوالہ دے رہے تھے۔ اس کے تحت شمالی کوریا نے اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کر دیا تھا لیکن یہ سمجھوتا 2003ء میں شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) سے نکل جانے کے اعلان کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ بعد میں اس نے جوہری بم بنانے کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ اب چین کے سراغرساں اداروں کی اطلاع کے مطابق شمالی کوریا کے پاس بیس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

شہزادہ بندر نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ''اگر صدر کلنٹن کو یہ علم ہوتا کہ وہ ایک بڑی انٹیلی جنس ناکامی اور خارجہ پالیسی کے غلط تجزیے کی بنیاد پر فیصلہ کر رہے ہیں تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے''۔

''صدر اوباما نے تزویراتی خارجہ پالیسی تجزیے، قومی انٹیلی جنس کی معلومات اور خطے میں امریکی اتحادیوں کی انٹیلی جنس کے باوجود ایران کے ساتھ ڈیل کی ہے حالانہ ان سب نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ اس کے نتائج بھی شمالی کوریا کے ساتھ معاہدے ایسے ہوں گے بلکہ اس سے بھی بدتر ہوں گے اور ایران کو اربوں ڈالرز تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس سے مشرق وسطیٰ میں تباہی آئے گی حالانکہ یہ خطے پہلے ہی تباہ کن ماحول کا منظر پیش کر رہا ہے اور ایران اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں ایک بڑے کھلاڑی کا کردار ادا کر رہا ہے''۔ انھوں نے مزید لکھا ہے۔

سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ نے اپنی تحریر میں سوال اٹھایا ہے کہ صدر اوباما نے اس طرح کا سمجھوتا کیوں کیا ہے؟ جبکہ وہ یہ بات جانتے تھے کہ صدر کلنٹن شمالی کوریا کے ساتھ معاہدہ کر رہے تھے تو یہ سب کچھ نہیں جانتے تھے؟ صدر اوباما نے شاید ایسا اس لیے کیا ہے کیونکہ وہ نظریاتی طور پر یہ یقین کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں، وہ درست ہی ہوتا ہے۔

انھوں نے مزید لکھا ہے: ''مجھے یہ یقین ہے کہ ان کے خیال میں فیصلے کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں اور وہ اس کو قابل قبول ناگزیر نقصان تصور کریں گے''۔

''میں اپنے اچھے دوست ہینری کسنجر کی اس بات کا پہلے سے بھی زیادہ قائل ہو گیا ہوں، جب وہ یہ کہتے ہیں کہ امریکا کے دشمنوں کو امریکا سے خوف کھانا چاہیے لیکن امریکا کے دوستوں کو امریکا سے زیادہ خوف زدہ ہونا چاہیے''۔ وہ امریکا کے سابق وزیر خارجہ اور امن نوبل انعام یافتہ ہینری کسنجر کے ایک قول کا حوالہ دے رہے تھے۔

انھوں نے اپنے کالم کے اختتام میں لکھا ہے کہ ''میرے خطے کے لوگ اب اللہ کی منشاء پر انحصار کر رہے ہیں۔ وہ اپنی مقامی صلاحیتوں کو مجتمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ ہمارے دیرینہ اور سب سے طاقتور اتحادی کے سوا ہر کسی کے ساتھ مل کر تجزیہ کر رہے ہیں''۔

ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان منگل کے روز ویانا میں طویل مذاکرات کے نتیجے میں جوہری معاہدہ طے پایا ہے۔ اس کے تحت ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کر دے گا۔ اعلیٰ سطح کی یورینیم کے ذخیرے کو ضائع کر دے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عاید امریکا، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ معاہدے کے تحت ایران ویانا میں قائم جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے گا تاکہ وہ اس امر کی تصدیق کر سکیں کہ آیا ایران نے خفیہ طور پر تو یورینیم کو افزودہ کرنے کی سرگرمیاں جاری نہیں رکھی ہوئی ہیں۔

ح
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
ایسے معاہدے سے ایٹم بم بنانے کے لئے نئے ویٹامن ملیں گے ایران کو
 
Top