ابو بصیر
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 30، 2012
- پیغامات
- 1,420
- ری ایکشن اسکور
- 4,198
- پوائنٹ
- 239
ہمارے افغان طالبان بھائی اس خطرے سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ امت کو بھی اس سے منتبہ کرتے ہیں۔ ان کے ترجمان کے انٹریو سے ایک قیمتی اقتباس:
سوال: شیعہ سنی اختلافات کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں اور اس بارے میں امارت اسلامیہ کی پالیسی کیا ہے ؟
جواب: شیعہ سنی کے درمیان لڑائی اور اختلافات پیدا کرنا اور ان کو گرمانا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ، امت مسلمہ کو اس وقت کفر کے یلغار کا سامنا ہے۔ اگر اس زمانے میں بھی کوئی اسلامی ملک کے اندر جھگڑے،فسادپیداکرتا ہے اور گھر گھر دشمنی کی فضا بناتاہے تو واضح طورپر کہدوں کہ یہ عمل مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ۔ ایسے واقعات سےصرف کفار ہی کو فائدہ ہوگا ۔ آپ جانتے ہیں کہ قریبی تمام اسلامی ممالک میں اہل سنت اور اہل تشیع مشترکہ زندگی گذارتے ہیں ۔ اگر ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ تمام اسلامی دنیا کے ممالک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی ۔ اور ایسی جنگ جس کا کوئی انجام بھی نہ ہوگا ۔ انجام اس لیے نہ ہوگا کہ کثرت کے باعث کسی فریق کے لیے دوسرے فریق کاختم کردینا اور مٹاکے رکھ دینا ناممکن ہوگا ۔ اس لیے یہ ایک بے پایاں جنگ ہوگی جس کے عواقب انتہائی خطرناک ہوں گے ۔ آج امت مسلمہ میں مکمل طورپر اتحاد کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے سنیوں اور اہل تشیع کو خاص غور وفکر کی ضرورت ہے ۔ اب امارت اسلامیہ کی واضح پالیسی کی بنیاد پر کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی شخص کو صرف اس لیے کہ وہ شیعہ ہے اس پرحملہ آور ہو اور اسے قتل کرے ۔ امارت اسلامیہ امت مسلمہ کی اتحاد کے لیے سرگرم عمل ہے ۔ ساری امت مسلمہ کو اس آگ کی فکر کرنی چاہیے جو کافروں نے جلائی ہے جس میں بلاتفریق سارے مسلمان خاکستر ہورہے ہیں ۔
ذبیح اللہ مجاہد۔ ترجمان امارتِ اسلامیہ افغانستان
سوال: شیعہ سنی اختلافات کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں اور اس بارے میں امارت اسلامیہ کی پالیسی کیا ہے ؟
جواب: شیعہ سنی کے درمیان لڑائی اور اختلافات پیدا کرنا اور ان کو گرمانا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ، امت مسلمہ کو اس وقت کفر کے یلغار کا سامنا ہے۔ اگر اس زمانے میں بھی کوئی اسلامی ملک کے اندر جھگڑے،فسادپیداکرتا ہے اور گھر گھر دشمنی کی فضا بناتاہے تو واضح طورپر کہدوں کہ یہ عمل مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ۔ ایسے واقعات سےصرف کفار ہی کو فائدہ ہوگا ۔ آپ جانتے ہیں کہ قریبی تمام اسلامی ممالک میں اہل سنت اور اہل تشیع مشترکہ زندگی گذارتے ہیں ۔ اگر ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ تمام اسلامی دنیا کے ممالک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی ۔ اور ایسی جنگ جس کا کوئی انجام بھی نہ ہوگا ۔ انجام اس لیے نہ ہوگا کہ کثرت کے باعث کسی فریق کے لیے دوسرے فریق کاختم کردینا اور مٹاکے رکھ دینا ناممکن ہوگا ۔ اس لیے یہ ایک بے پایاں جنگ ہوگی جس کے عواقب انتہائی خطرناک ہوں گے ۔ آج امت مسلمہ میں مکمل طورپر اتحاد کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے سنیوں اور اہل تشیع کو خاص غور وفکر کی ضرورت ہے ۔ اب امارت اسلامیہ کی واضح پالیسی کی بنیاد پر کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی شخص کو صرف اس لیے کہ وہ شیعہ ہے اس پرحملہ آور ہو اور اسے قتل کرے ۔ امارت اسلامیہ امت مسلمہ کی اتحاد کے لیے سرگرم عمل ہے ۔ ساری امت مسلمہ کو اس آگ کی فکر کرنی چاہیے جو کافروں نے جلائی ہے جس میں بلاتفریق سارے مسلمان خاکستر ہورہے ہیں ۔
ذبیح اللہ مجاہد۔ ترجمان امارتِ اسلامیہ افغانستان