کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنتی ہیں
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قسمتوں کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے:
’’لاَّ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُوْلِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُـلاًّ وَعَدَ اللّهُ الْحُسْنَى‘‘
ایمان والوں میں سے بیٹھ رہنے والے، جو کسی تکلیف میں نہیں اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں، اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے اور ہر ایک سے اللہ نے اچھی جزا (جنت) کا وعدہ کیا ہے۔
[النساء : 95]
سورۃ النساء کی اس آیت میں غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کےلیے کسی معذوری کے بغیر شریک نہ ہونے والوں سے درجہ کی بلندی اور برتری کا ذکر فرمایا ہے، اس فرق مراتب کے باوجود فرمایا: ’’وَكُـلاًّ وَعَدَ اللّهُ الْحُسْنَى ‘‘ اللہ کا وعدہ دونوں کےلیے جنت کا ہے۔ غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں کے بارے میں درجات کی بلندی، مغفرت ورحمت کی بشارتیں ہیں، اہل بدر ہی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے بارے میں فرمایا ہے: تم جو چاہو عمل کرو میں نے تمہارے لیے جنت واجب کردی ہے۔
(صحیح البخاری: 3983)
مگر بدر میں شریک نہ ہونے والے بھی سعادت سے محروم نہیں، اللہ تعالیٰ نے دونوں کےلیے جنت کا وعدہ کیا ہے۔
بالکل یہی بشارت اسی اسلوب میں فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال سے جہاد کرنے والوں اور فتح مکہ کے بعد جان ومال سے جہاد کرنے والوں کے بارے میں پے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلّاً وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‘‘
تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور قتال کیا وہ (اور یہ عمل بعد میں کرنے والے) برابر نہیں، یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور قتال کیا اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا (جنت) کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو خوب باخبر ہے۔
[الحديد : 10]
’’لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلّاً وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‘‘
تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور قتال کیا وہ (اور یہ عمل بعد میں کرنے والے) برابر نہیں، یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور قتال کیا اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا (جنت) کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو خوب باخبر ہے۔
[الحديد : 10]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درجہ بندی کی ہے۔ ایک وہ جو فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جان ومال خرچ کرنے سے دریغ نہیں کیا، دوسرے وہ جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے اور انہوں نے بھی اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا اور جہاد کیا۔ فرق مراتب کے باوجود دونوں ہی کے بارے میں فرمایا: ’’وَكُلّاً وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى ‘‘ اللہ نے حسنیٰ یعنی اچھی جزا (جنت) کا وعدہ کیا ہے۔ ”الحسنیٰ“ کا لفظ جنت ہی کے معنیٰ میں قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ فرمایا:
”لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ“
جن لوگوں نے نیکی کی انہیںکےلیے نہایت اچھا بدلہ اور اس سے زیادہ ہے۔
[يونس : 26]
حدیث وآثار میں وضاحت موجود ہے کہ ”الحسنیٰ“ سے مراد جنت اور ”زیادہ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔ اسی طرح سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے پہلے جہنم اور جہنمیوں کا ذکر کیا، پھر فرمایا:
”إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَى أُوْلَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ“
بے شک وہ لوگ جن کےلیے ہماری طرف سے بھلائی طے ہوچکی وہ اس سے دور رکھے گئے ہوں گے۔
[الأنبياء : 101]
”لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ“
جن لوگوں نے نیکی کی انہیںکےلیے نہایت اچھا بدلہ اور اس سے زیادہ ہے۔
[يونس : 26]
حدیث وآثار میں وضاحت موجود ہے کہ ”الحسنیٰ“ سے مراد جنت اور ”زیادہ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔ اسی طرح سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے پہلے جہنم اور جہنمیوں کا ذکر کیا، پھر فرمایا:
”إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَى أُوْلَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ“
بے شک وہ لوگ جن کےلیے ہماری طرف سے بھلائی طے ہوچکی وہ اس سے دور رکھے گئے ہوں گے۔
[الأنبياء : 101]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے ”الحسنیٰ“ کا وعدہ ہے اور یہاں جن سے ”الحسنیٰ“ کا وعدہ ہے ان کے بارے میں جہنم سے دور رہنے کا اعلان ہے، اتنا دور کہ اس کے بعد فرمایا:
”لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا “
وہ اس کی آہٹ (بھی) نہیں سنیں گے۔
[الأنبياء : 102]
”لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا “
وہ اس کی آہٹ (بھی) نہیں سنیں گے۔
[الأنبياء : 102]
اسی سے حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب قطعی جنتی ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
”کلہم من اہل الجنۃ قطعا“
(الاصابۃ: 7/1)
شائقین حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کا مکمل کلام ان کی معروف کتاب الفصل فی الملل والاہواء والنحل (149،148/4) میں ملاحظہ فرمائیں۔
یہاں یہ بات بھی دیکھیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک بار سورۃ الانبیاء کی یہی آیت تلاوت کی اور فرمایا: ”عثمان منہم“ کہ جن کے لیے ”الحسنیٰ کا وعدہ ہے ان میں عثمان ہیں۔“
(ابن ابی شیبۃ:25/2، ابن جریر: 96/17)
”کلہم من اہل الجنۃ قطعا“
(الاصابۃ: 7/1)
شائقین حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کا مکمل کلام ان کی معروف کتاب الفصل فی الملل والاہواء والنحل (149،148/4) میں ملاحظہ فرمائیں۔
یہاں یہ بات بھی دیکھیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک بار سورۃ الانبیاء کی یہی آیت تلاوت کی اور فرمایا: ”عثمان منہم“ کہ جن کے لیے ”الحسنیٰ کا وعدہ ہے ان میں عثمان ہیں۔“
(ابن ابی شیبۃ:25/2، ابن جریر: 96/17)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں دو طبقے یا گروہ تھے: ایک مہاجرین اور دوسرا انصار، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ ان کے فضائل اور مناقب، ان کی بخشش اور مغفرت کا ذکر کیا ہے بلکہ ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کو بھی اپنی رضا مندی اور جنت کی بشارت دی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:
”وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ “
مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کےلیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔
[التوبة : 100]
سابقین اولین کون کون ہیں، اس بارے میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، امام سعید بن مسیب، ابن سیرین اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ وہ مہاجرین و انصار مراد ہیں جو تحویل قبلہ سے پہلے مسلمان ہوئے۔ امام عطاء اور محمد بن کعب رحمہما اللہ فرماتے ہیں جو غزوہ بدرمیں شریک ہوئے۔ امام عامر بن شراحیل شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو صلح حدیبیہ میں شمار ہوئے، وہ مراد ہیں۔ گویا سابقین اولین ، مہاجرین و انصار کے بارے میں غیر مشروط طور پر اور جو ان کے متبع ہوئے، بشرط ِ احسان ان سب کےلیے اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا ہے۔ حضرت مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے بھتیجے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اس کی ہجرت پر بیعت لے لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[لَا بَلْ عَلَى الْإِسْلَامِ فَإِنَّهُ لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ، وَيَكُونُ مِنَ التَّابِعِينَ بِإِحْسَانٍ]
نہیں بلکہ اسلام پر بیعت ، کیونکہ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں اور وہ نیکی کے ساتھ پیچھے آنے والوں میں سے ہے۔
(مسند احمد: 468/3 )
”وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ “
مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کےلیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔
[التوبة : 100]
سابقین اولین کون کون ہیں، اس بارے میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، امام سعید بن مسیب، ابن سیرین اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ وہ مہاجرین و انصار مراد ہیں جو تحویل قبلہ سے پہلے مسلمان ہوئے۔ امام عطاء اور محمد بن کعب رحمہما اللہ فرماتے ہیں جو غزوہ بدرمیں شریک ہوئے۔ امام عامر بن شراحیل شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو صلح حدیبیہ میں شمار ہوئے، وہ مراد ہیں۔ گویا سابقین اولین ، مہاجرین و انصار کے بارے میں غیر مشروط طور پر اور جو ان کے متبع ہوئے، بشرط ِ احسان ان سب کےلیے اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا ہے۔ حضرت مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے بھتیجے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اس کی ہجرت پر بیعت لے لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[لَا بَلْ عَلَى الْإِسْلَامِ فَإِنَّهُ لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ، وَيَكُونُ مِنَ التَّابِعِينَ بِإِحْسَانٍ]
نہیں بلکہ اسلام پر بیعت ، کیونکہ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں اور وہ نیکی کے ساتھ پیچھے آنے والوں میں سے ہے۔
(مسند احمد: 468/3 )
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اسی روایت کو مسند احمد سے نقل کر کے فرمایا ہے کہ یحییٰ بن اسحاق کے علاوہ اس کے سب راوی صحیح کے راوی ہیں اور یحییٰ بھی ثقہ ہے۔
(مجمع الزوائد: 250/5)
اس لیے فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والے اور آپ کی زیارت سے مشرف ہونے والے سبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس آیت کا مصداق ہیں بلکہ علامہ قرطبی رحمہ اللہ وغیرہ نے تو تابعین کرام کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں مذکورہ بالا آیت میں بھی [رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ] کی بشارت ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اس حوالے سے جو کچھ رقم فرمایا ہے وہ انہی کے گوہر بار قلم سے پڑھیے:
آیت میں سابقون الاولون اور ان کے متبعین کی نسبت فرمایا:
[رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ]
اللہ ان سے راضی ہوا وہ اللہ
(المجادلۃ: 22)
اس مقام کا ایک پہلو قابل غور ہے جس پر لوگوں کی نظر نہیں پڑی یعنی ورضوا عنہ پر کیوں زور دیا گیا؟ اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ اللہ ان سے خوشنود ہوا ۔ کیونکہ ان کے اعمال اللہ کی خوشنودی ہی کےلیے تھے، یہ بات خصوصیت کے ساتھ کیوں کہی گئی کہ وہ بھی اللہ سے خوشنود ہوئے، اس لیے کہ ان کے ایمان و اخلاص کا اصلی مقام بغیر اس کے نمایاں نہیں ہوسکتا تھا۔
انسان جب کبھی کسی مقصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور مصیبتوں سے دوچار ہوتا ہےتو دو طرح کی مصیبتیں جھیل لیتے ہیں لیکن ان کو جھیلنا جھیل لینا ہی ہوتا ہے، یہ بات نہیں ہوتی کہ مصیبتیں ان کےلیے مصیبتیں نہ رہی ہوں، عیش وراحت ہوگئی ہوں کیونکہ مصیبت پھر مصیبت ہے ، باہمت آدمی کڑوا گھونٹ بغیر کسی جھجک کے پی لے گا لیکن اس کی کڑواہٹ کی بدمزگی محسوس ضرور کرے گا لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں صرف باہمت ہی نہیں کہنا چاہیے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ سمجھنا چاہیے، ان میں صرف ہمت وجوانمردی ہی نہیں ہوتی بلکہ عشق وشیفتگی کی حالت پیدا ہوجاتی ہے ، وہ مصیبتوں کو مصیبتوں کی طرح نہیں جھیلتے بلکہ عیش وراحت کی طرح ان سے لذت وسرور حاصل کرتے ہیں، راہ ِ محبت کی ہر مصیبت ان کےلیے عیش وراحت کی ایک نئی لذت بن جاتی ہے، اگر اس راہ میں کانٹوں پر لوٹنا پڑے تو کانٹوں کی چبھن میں انہیں ایسی راحت ملے ، جو کسی کو پھولوں کی سیج پر لوٹ کر نہیں مل سکتی حتیٰ کہ اس راہ کی مصیبتیں جس قدر بڑھتی جاتی ہیں، اتنی ہی زیادہ ان کے دل کی خوشحالیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں، ان کےلیے صرف اس بات کا تصور کہ یہ کچھ کس کی راہ میں پیش آرہا ہے اور اس کی نگاہیں ہمارے حال سے بےخبر نہیں، عیش وسرور کا ایک ایسا بے پایاں جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ اس کی سرشاری میں جسم کی کوئی کلفت اور ذہن کی کوئی اذیت محسوس ہی نہیں ہوتی۔
یہ بات سننے میں تمہیں عجیب معلوم ہوتی ہوگی لیکن فی الحقیقت حالت میں اتنی عجیب نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کی معمولی واردات میں سے ہے اور عشق و محبت کا مقام تو بہت بلند ہے، بوالہوسی کا عالم بھی ان واردات سے خالی نہیں
[رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ]
اللہ ان سے راضی ہوا وہ اللہ
(المجادلۃ: 22)
اس مقام کا ایک پہلو قابل غور ہے جس پر لوگوں کی نظر نہیں پڑی یعنی ورضوا عنہ پر کیوں زور دیا گیا؟ اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ اللہ ان سے خوشنود ہوا ۔ کیونکہ ان کے اعمال اللہ کی خوشنودی ہی کےلیے تھے، یہ بات خصوصیت کے ساتھ کیوں کہی گئی کہ وہ بھی اللہ سے خوشنود ہوئے، اس لیے کہ ان کے ایمان و اخلاص کا اصلی مقام بغیر اس کے نمایاں نہیں ہوسکتا تھا۔
انسان جب کبھی کسی مقصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور مصیبتوں سے دوچار ہوتا ہےتو دو طرح کی مصیبتیں جھیل لیتے ہیں لیکن ان کو جھیلنا جھیل لینا ہی ہوتا ہے، یہ بات نہیں ہوتی کہ مصیبتیں ان کےلیے مصیبتیں نہ رہی ہوں، عیش وراحت ہوگئی ہوں کیونکہ مصیبت پھر مصیبت ہے ، باہمت آدمی کڑوا گھونٹ بغیر کسی جھجک کے پی لے گا لیکن اس کی کڑواہٹ کی بدمزگی محسوس ضرور کرے گا لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں صرف باہمت ہی نہیں کہنا چاہیے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ سمجھنا چاہیے، ان میں صرف ہمت وجوانمردی ہی نہیں ہوتی بلکہ عشق وشیفتگی کی حالت پیدا ہوجاتی ہے ، وہ مصیبتوں کو مصیبتوں کی طرح نہیں جھیلتے بلکہ عیش وراحت کی طرح ان سے لذت وسرور حاصل کرتے ہیں، راہ ِ محبت کی ہر مصیبت ان کےلیے عیش وراحت کی ایک نئی لذت بن جاتی ہے، اگر اس راہ میں کانٹوں پر لوٹنا پڑے تو کانٹوں کی چبھن میں انہیں ایسی راحت ملے ، جو کسی کو پھولوں کی سیج پر لوٹ کر نہیں مل سکتی حتیٰ کہ اس راہ کی مصیبتیں جس قدر بڑھتی جاتی ہیں، اتنی ہی زیادہ ان کے دل کی خوشحالیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں، ان کےلیے صرف اس بات کا تصور کہ یہ کچھ کس کی راہ میں پیش آرہا ہے اور اس کی نگاہیں ہمارے حال سے بےخبر نہیں، عیش وسرور کا ایک ایسا بے پایاں جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ اس کی سرشاری میں جسم کی کوئی کلفت اور ذہن کی کوئی اذیت محسوس ہی نہیں ہوتی۔
یہ بات سننے میں تمہیں عجیب معلوم ہوتی ہوگی لیکن فی الحقیقت حالت میں اتنی عجیب نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کی معمولی واردات میں سے ہے اور عشق و محبت کا مقام تو بہت بلند ہے، بوالہوسی کا عالم بھی ان واردات سے خالی نہیں
حریف کاوش ِ مژگان ِ خونریزش نہ ٔ ناصح
بہ دست آوررگ ِ جانے و نشتر را تماشا کن
بہ دست آوررگ ِ جانے و نشتر را تماشا کن
”سابقون الاولون“ کی محبت ایمانی کا یہی حال تھا ، ہر شخص جو ان کی زندگی کے سوانح کا مطالعہ کرے گا، بے اختیار تصدیق کرے گا کہ انہوں نے راہ حق کی مصیبتیں صرف جھیلی ہی نہیں بلکہ دل کی پوری خوشحالی اور روح کے کامل سرور کے ساتھ اپنی پوری زندگیاں ان میں بسر کر ڈالیں، ان میں سے جو لوگ اول ِ دعوت میں ایمان لائے تھے، ان پر شب و روز کی جاں کاہیوں اور قربانیوں کے پورے تیئس (23) برس گزر گئے لیکن اس تمام مدت میں کہیں بھی یہ بات دکھائی نہیں دیتی کہ مصیبتوں کی کڑواہٹ ان کے چہروں پر کبھی کھلی ہو۔ انہوں نے مال وعلائق کی ہر قربانی اس جوش و مسرت کے ساتھ کی ، گویا دنیا جہاں کی خوشیاں اور راحتیں ان کےلیے فراہم ہوگئی ہیں اور جان کی قربانیوں کا وقت آیا تو اس طرح خوش خوش گردنیں کٹوادیں، گویا زندگی کی سب سے بڑی خوشی زندگی میں نہیں بلکہ موت میں تھی۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے اتنی عمریں نہیں پائیں کہ اسلام کی غربت کے ساتھ اسلام کا عروج و اقبال بھی دیکھ لیتے اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی طرح کہہ سکتے
”وَكُنْتُ فِيمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى “
[عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا:
” لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى “
ایسا ضرور ہونے والا ہے کہ کسریٰ کے خزانے فتح مندانہ کھولو گے۔
” وَكُنْتُ فِيمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى “
یہ پیش گوئی میں نے اپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھ لی کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے کسریٰ کا خزانہ کھولا۔
(صحیح البخاری: 3595)]
تاہم جب دنیا سے گئے تو اس عالم میں گئے کہ ان سے زیادہ عیش وخوشحالی میں شاید ہی کسی نے دنیا چھوڑی ہو، بدر اور احد کے شہیدوں کے حالات پڑھو، ایمان لانے کے بعد جو کچھ بھی ان کے حصے میں آیا وہ بجز رات دن کی کاہشوں اور مصیبتوں کے اور کیا تھا اور پھر قبل اس کے کہ اسلام کے فتح و اقبال کی کامرانیوں میں شریک ہونے کا موقع ملتا دشمنوں کی تیغ و سنان سے چُور میدان ِ جنگ میں دم توڑ رہے تھے۔ لیکن پھر بھی غور کرو ان کے دل کی شادمانیوں کا کیا حال تھا، اس اطمینان وسکون کےساتھ عیش ونشاط کے بستروں پر کسی نے جان دی ہوگی، جس طرح انہوں نے میدان ِ جنگ میں ریتلی ریت پر لوٹ لوٹ کر دی۔ جنگ ِ احد میں سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے دیکھا، زخمیوں میں پڑے سانس توڑ رہے ہیں، پوچھا کوئی وصیت کرنی ہو تو کردو، کہا اللہ کے رسول کو میرا سلام پہنچا دینا اور قوم سے کہنا ان کی راہ میں جانیں نثار کرتے رہیں۔
عمار بن زیاد رضی اللہ عنہ زخموں سے چُور جانکنی کی حالت میں تھے کہ آنحضرت ﷺ سرہانے پہنچ گئے۔ فرمایا: کوئی آرزو ہو تو کہہ دو، عمار رضی اللہ عنہ نے اپنا زخمی جسم گھسیٹ کر اور زیادہ قریب کر دیا اور اپنا سر آپ ﷺ کے قدموں پر رکھ دیا کہ اگر کوئی آرزو ہو سکتی ہے تو صرف یہی ہے۔
منم و ہمیں تمنا کہ بہ وقت ِ جاں سپردن
بہ رخ ِ تو دیدہ باشم تو درون ِ دیدہ باشی
بہ رخ ِ تو دیدہ باشم تو درون ِ دیدہ باشی
عورتوں تک کا یہ حال تھا کہ بیک وقت انہیں ان کے شوہر، بھائی اور باپ کے شہید ہوجانے کی خبر پہنچائی جاتی تھی اور وہ کہتی تھیں : یہ تو ہوا مگر بتلاؤ اللہ کے رسول کا کیا حال ہے؟ پھر جب آپ کا جمال جہاں آرا نظر آتا تو بے اختیار خوش ہوکر پکار اٹھتیں ”كل مصيبة بعدك جلل“ تو اگر سلامت ہے تو پھر دنیا کی ساری مصیبتیں ہمارے لیے شہد وشکر کا گھونٹ ہوگئیں۔
من ودل گر فنا شدیم، چہ باک
غرض اندر میان سلامت ِ اوست
غرض اندر میان سلامت ِ اوست
تاریخ اسلام میں جنگ حنین پہلی جنگ ہے جس میں بکثرت مال ِ غنیمت ہاتھ آیا۔ چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی کا ذکر روایات میں ملتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ ”سابقون الاولون“ کو مال و دولت سے حصہ وافر ملتا لیکن آنحضرت ﷺ نے ان باشندگان ِ مکہ کو ترجیح دی جو فتح مکہ کے بعد نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور انصار ِ مدینہ کے حصہ میں کچھ نہ آیا کیونکہ آپ کے پیش نظر نو مسلموں کی تالیف ِ قلب تھی، یہ حالت دیکھ کر بعض نوجوانوں کو خیال ہوا، اہل مکہ سے لڑے تو ہم لیکن آج مال غنیمت کا حصہ مل انہیں رہا ہے، بات آنحضرت ﷺ تک پہنچی تو آپﷺ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا:
” أَتَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالبَعِيرِ، وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِكُمْ “
کیا تمہاری خوشنودی کےلیے یہ بات کافی نہیں کہ لوگ یہاں سے مال ِ غنیمت کے حصے لے کر جائیں اور تم اللہ کے نبی کو اپنے ساتھ لے کر جاؤ؟ انصار بے اختیار پکار اٹھے:
”رضينا يا رسول الله رضينا“
ہم خوشنود ہیں، یا رسول اللہ (ﷺ) ہم خوشنود ہیں۔
(صحیحین)
اور پھر غور کرو جو لوگ ” اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ “ میں داخل ہوئے انہیں بھی کس درجہ اس مقام سے حصہ وافر ملا تھا؟ دنیا میں شاید ہی کسی عورت کے دل میں اپنے عزیزوں کے لیے ایسی محبت پیدا ہوئی ہوگی جیسی جاہلیت کی مشہور شاعرہ خنساء کے دل میں تھی۔ اس نے جو مرثیے اپنے بھائی صخر کے غم میں کہے ہیں تمام دنیا کی شاعری میں اپنی نظیر نہیں رکھتے۔
يذكّرني طلوع الشّمس صخرا
واذكره بكل غروب شمس
واذكره بكل غروب شمس
(ہر صبح سورج کا نکلنا صخر کی یاد تازہ کردیتا ہے اور کوئی شام مجھ پر ایسی نہیں آتی کہ صخر کی یاد سامنے نہ آگئی ہو۔ الاصابہ میں خنساء کے ترجمہ میں دوسرا مصرع یوں ہے: وأبكيه لكلّ غروب شمس)
لیکن ایمان لانے کے بعد اسی خنساء کی نفسیاتی حالت ایسی منقلب ہوگئی کہ جنگ یرموک میں اپنے تمام لڑکے ایک ایک کرکے کٹوادیے اور جب آخری لڑکا بھی شہید ہوچکا تو پکار اٹھی: الحمد لله الذي أكرمني بشهادتهم.
پس ورضوا عنه میں اسی اشارہ اسی طرف ہے کہ اللہ اور اس کے کلمہ حق کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آیا انہوں نے اسے جھیلا ہی نہیں بلکہ کمال محبت ایمانی کی وجہ سے اس میں خوش حال وخوشنود رہے اور یہی مقام ہے جو ان کے درجہ کو تمام مدارج ایمان و عمل میں ممتاز کردیتا ہے۔
مقام صحابہ رضی اللہ عنھم از ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ
کمپوزنگ: آزاد
پس ورضوا عنه میں اسی اشارہ اسی طرف ہے کہ اللہ اور اس کے کلمہ حق کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آیا انہوں نے اسے جھیلا ہی نہیں بلکہ کمال محبت ایمانی کی وجہ سے اس میں خوش حال وخوشنود رہے اور یہی مقام ہے جو ان کے درجہ کو تمام مدارج ایمان و عمل میں ممتاز کردیتا ہے۔
مقام صحابہ رضی اللہ عنھم از ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ
کمپوزنگ: آزاد