السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اسکی سند کی صحت اور مطلب کی تشریح درکار ہے
قال عمر: أیها الناس علیکم بدیوانکم لا یضل. قالوا: وما دیواننا؟ قال: شعر الجاهلیه فإن فیه تفسیر کتابکم ومعانی کلامکم.راجع تفسیر الکشاف 2 ص 165،
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول مفسرین نے سورۃ النحل کی (آیۃ ۴۷ ) کی تفسیر میں بیان کیا ہے
اَوْ يَاْخُذَهُمْ عَلٰي تَخَــوُّفٍ ۭ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ (47)
یا انہیں ڈرا دھمکا کر پکڑ لے، پس یقیناً تمہارا پروردگار اعلیٰ شفقت اور انتہائی رحم والا ہے۔ (47)
تخو ّف کے معنی کی تحقیق '
عذاب کی قسم :۔ ایک دفعہ سیدنا عمر ؓنے بر سر منبر تخوف کے معنی پوچھے تو قبیلہ بنو ہذیل کے ایک آدمی نے جواب میں کہا کہ ہماری لغت میں تخوف کا لفظ تنقص (آہستہ آہستہ گھٹاتے جانا) کے معنی میں آتا ہے پھر ثبوت کے طور پر ایک شعر بھی پڑھا تو سیدنا عمر نے فرمایا : جاہلیت کے اشعار یاد رکھو کیونکہ اس میں تمہاری کتاب کی تفسیر ہے ( تفسیر قرطبی ، تفسیر کشاف ، تفسیر بیضاوی )
ان سب تفاسیر میں یہ قول بلا سند ہی منقول ہے ،
نیز سیدنا ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے بھی (علی تخوف )کے معنی
تنقص ہی بیان فرمائے ہیں (بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة نہل)
ان تین آیات میں عذاب الٰہی کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک عذاب ایسا ہے جو دفعتاً آن پڑتا ہے خواہ وہ ارضی ہو یا سماوی ہو۔ اس کی آگے بیشمار قسمیں ہیں جیسے بارش کی صورت میں پتھروں کی طرح آدھ آدھ سیر کے اولے گرنے لگیں اور وہ فصلیں اور جانداروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیں یا زمین میں زلزلہ آئے تو شہر کے شہر زلزلہ سے پھٹی ہوئی زمین کے اندر دھنس جائیں یا سمندر میں طغیانی آئے تو وہ کناروں پر آباد شہروں کو پانی میں غرق کر دے۔ یا آتش فشاں پہاڑ پھٹے جس سے ہر چیز جل کر راکھ ہوجائے اور عذاب کی یہ سب قسمیں ایسی ہیں جن کی پہلے سے کسی کو خبر نہیں ہوتی۔
دوسری قسم کے عذاب وہ ہیں جو دوران سفر پیش آتے ہیں۔ جیسے کوئی دیو ہیکل وہیل مچھلی کسی جہاز کو ٹکر مار کر اسے غرق کر دے یا کسی بحری، بری جہاز یا کسی طرح کی دوسری گاڑی کا انجن خراب ہوجائے یا چلنا بند ہوجائے۔ یا ریلوں یا بسوں کا تصادم ہوجائے۔ یا کوئی بس کسی کھڈ میں نیچے جاگرے اور مسافر غرق ہوجائیں یا ہلاک ہوجائیں۔ غرض اس قسم کی بھی آگے بیشمار صورتیں ہیں۔
اور تیسری قسم وہ ہے جس کے متعلق علی تخوف کے الفاظ آئے ہیں۔
ایسے لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ عذاب الٰہی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ایسا عذاب اندر ہی اندر بتدریج اپنا کام کرتا جاتا ہے اور ایسا معاشرہ زوال پذیر ہونا شروع ہوجاتا ہے حتیٰ کہ وہ ہلاکت تک پہنچ جاتا ہے اور ایسے عذاب کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو امام طبری نے تفسیر جامع البیان میں بالاسناد دوسرے الفاظ سے نقل فرمایا ہے :
حدثنا ابن وكيع، قال: ثنا أبي، عن المسعودي، عن إبراهيم بن عامر بن مسعود، عن رجل، عن عُمَر أنه سألهم عن هذه الآية (أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ) فقالوا: ما نرى إلا أنه عند تنقص ما يردّده من الآيات، فقال عمر: ما أرى إلا أنه على ما تنتقصون من معاصي الله، قال: فخرج رجل من كان عند عمر، فلقي أعرابيا، فقال: يا فلان ما فعل ربك؟ قال: قد تَخَيفته، يعني تنقصته، قال: فرجع إلى عمر فأخبره، فقال: قدّر الله ذلك.))
اس متن میں جاہلی شعر سے تفسیر میں استشہاد نہیں ہے ، لیکن آّیت کا معنی وہی کیا ہے جو جاہلی شاعری کے حوالے سے کشاف والی روایت کا ہے
دوسری بات یہ کہ امام طبری نے جو سند پیش کی ہے اسکا ایک راوی
(عن رجل ) مجہول ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جاہلی عربی ادب
قرآن کے معانی کے تعین اور تفسیر میں معاون تو ہے ، لیکن اساسی مصدر نہیں ،
مثلاً ( صلوٰۃ ) عربوں میں قبل از اسلام بھی مستعمل تھا ، لیکن قرآن نے اسے مخصوص معنی میں استعمال کیا ، جو جاہلی عربی ادب میں نہیں ،