• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صححه الحاکم و وافقه الذهبي کا تحقیقی جائزہ!

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
546
ری ایکشن اسکور
169
پوائنٹ
77
صححه الحاکم و وافقه الذهبي کا تحقیقی جائزہ!

تحریر: محمد خبیب احمد

الحمد للّٰه رب العالمین والصلاة والسلام علی خیر الأنام محمد بن عبد اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم ومن والاہ۔ أما بعد:

امام حاکم رحمه الله کا اسمِ گرامی محمد بن عبد الله بن حمدویہ ہے۔ جو معروف امام، ناقد، حافظ، علامہ اور شیخ المحدثین تھے۔ کنیت ابو عبد الله ابن البیع قرار پائی۔ الضبی، النیسابوری کی نسبت سے معروف ہوئے۔ ولادت باسعادت سوموار (۱۳) ربیع الأول ۳۲۱ھ کو نیشاپور میں ہوئی۔

[ سیر أعلام النبلاء: ۱۷/ ۱٦۲، ۱٦۳]

آپ کی علمی تُراث میں متعدد تصنیفات موجود ہیں۔ ان میں سے ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ شہرۂ آفاق کتاب ہے۔ صاحبِ کتاب اس کے منہج کی توضیح میں رقمطراز ہیں:

’’وقد سألني جماعۃ من أعیان أھل العلم بهذہ المدینۃ وغیرھا أن أجمع کتابًا یشتمل علی الأحادیث المرویۃ بأسانید یحتج محمد بن إسماعیل و مسلم بن الحجاج بمثلھا‘‘

’’اس شہر اور دیگر شہروں کے متعدد نامور اہلِ علم نے مجھ سے تقاضا کیا کہ میں ان احادیث پر مشتمل ایک کتاب تالیف کروں جن جیسی سندوں سے امام بخاری رحمه الله اور امام مسلم رحمه الله نے احتجاج (استدلال) کیا ہو۔‘‘

[ مقدمۃ المستدرک للحاکم: ۱/ ۲۔۳ ]

ان کی اس کتاب کی تلخیص آٹھویں صدی ہجری کے نامی گرامی محدث حافظ ذہبی رحمه الله (۷٤۸ھ) نے کی ہے۔ جو بیروت، لبنان سے مطبوع المستدرک کے حاشیے میں شائع ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ خلاصہ کی ابتدا میں فرماتے ہیں:

’’یہ حافظ ابو عبد الله حاکم کی کتاب المستدرک علی الصحیحین کا خلاصہ ہے۔ جس کے ملخص حافظ ذہبی رحمه الله ہیں۔ انھوں نے متون ذکر کر کے اسانید کو حذف کیا ہے اور ان پر کلام کیا ہے۔‘‘
[ تلخیص المستدرک: ۱/ ۲ ]

صاحبِ تلخیص دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

’’یہ سود مند کتاب ہے جس کا خلاصہ میں نے ذکر کیا ہے۔ ‘‘

[ سیر أعلام النبلاء: ۱۷/ ۱۷٦ ]

مزید فرمایا:

’’میں نے المستدرک کے اختصار میں ان (ضعیف اور منکر روایات) کی نشاندہی کی ہے۔‘‘

[ تاریخ الإسلام للذھبي، حوادث و وفیات ٤۰۱۔٤۲۰ھ،ص: ۱۳۲ ]

ان تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی رحمه الله نے تلخیص کی ہے اور اسے ہی مقدم رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بسا اوقات وہ صاحبِ المستدرک کا تعاقب بھی کرتے ہیں۔ مگر بیش تر وہ حاصلِ کلام ہی ذکر کرتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کو علمائے کرام ’’أقرہ الذھبي، وافقہ الذھبي‘‘ اور ’’سکت عنہ الذھبي‘‘ جیسی اصطلاحات سے تعبیر کرتے ہیں کہ حافظ ذہبی رحمه الله کا اس حدیث پر کلام نہ کرنا امام حاکم رحمه الله کی موافقت کی دلیل ہے۔ اسی رائے کا تجزیہ ہم آئندہ سطور میں پیش کریں گے۔

تلخیص میں حافظ ذہبی رحمه الله کے منہج کو چار مرکزی اقسام میں بانٹا جا سکتا ہے۔
(①) خلاصہ
(②) خلاصہ مع تعاقب
(③) خلاصہ میں امام حاکم رحمه الله کے کلام کا حذف
(④) مستدرک کی احادیث کا حذف۔

اب ان نکات کی تفصیل ملاحظہ ہو:

(❶) پہلی قسم : خلاصہ:

تلخیص کی ان اقسام میں سے سب سے بڑی قسم یہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمه الله امام حاکم رحمه الله کی ذکر کردہ سند اور اس پر لگائے ہوئے حکم کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں۔ جس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ عموماً ان کی ذکر کردہ سند کا نصفِ اول، کبھی اس سے زیادہ اور بسا اوقات اس سے کم حذف کر دیتے ہیں۔ محض صحابہ، تابعین، تبع تابعین وغیرہ کے طبقات پر اکتفا کرتے ہیں۔ بعد ازاں متنِ حدیث کے ذکر کے ساتھ ساتھ وہ حافظ حاکم رحمه الله کے کلام کا نچوڑ بیان کرتے ہیں جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

(۱) امام حاکم رحمه الله حدیث کی سند اور متن بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ ’’هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه‘‘

اس کی تلخیص میں حافظ ذہبی رحمه الله فرماتے ہیں: ’’علی شرطهما‘‘ [ المستدرک: ۱/ ۷ ] یا پھر ’’خ۔م‘‘ یعنی بخاری ومسلم جیسے رموز کی بدولت اس کا خلاصہ بیان کرتے ہیں۔ [ المستدرک: ۱/ ۵۷ ]

(۲) امام حاکم رحمه الله لکھتے ہیں: ’’هذا حدیث صحیح علی شرط البخاري ولم یخرجاه‘‘

حافظ ذہبی رحمه الله فرماتے ہیں: ’’علی شرط (خ) ‘‘ المستدرک [ ۱/ ۹۵ ] بسا اوقات ’’خ‘‘ پر اکتفا کرتے ہیں۔[ تلخیص المستدرک: ۱/ ۴۲۰ ]

(۳) صحیح مسلم کی شرط پر حدیث کو امام حاکم رحمه الله ’’احتج به مسلم‘‘ وغیرہ اصطلاحات سے تعبیر کرتے ہیں۔ حافظ ذہبی رحمه الله فرماتے ہیں: ’’علی شرط م‘‘ تلخیص المستدرک [ ۱/ ۷ ] کبھی ’’هذا خرجہ م‘‘ سے بھی ذکر کرتے ہیں۔ تلخیص المستدرک [ ۱/ ٤۷ ] نادر طور پر وہ اسے (م) سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ [ التلخیص: ۱/ ٤۳۰ ]

(٤) امام حاکم رحمه الله فرماتے ہیں: ’’هذا حدیث صحیح لا نعرف له علة بوجه من الوجوه ولم یخرجاه‘‘

حافظ ذہبی رحمه الله لکھتے ہیں: ’’صحیح لا نعرف علۃ‘‘ [ تلخیص المستدرک: ۱/ ۹ ]

علاوۂ ازیں تلخیص کے دیگر الفاظ بھی ہیں جن کا استیعاب ہمارا مقصود نہیں۔

(❷) دوسری قسم: خلاصہ مع تعاقب:

حافظ ذہبی رحمه الله امام حاکم رحمه الله کے کلام کی تلخیص کے ہمراہ ان کا تعاقب بھی کرتے ہیں۔ جسے وہ صیغۂ متکلم قُلتُ سے شروع کرتے ہیں۔ اس کی تین انواع ہیں:

(①) حدیث میں ضعف کے باوجود امام حاکم رحمه الله اسے صحیح کہہ دیتے ہیں جیسے انھوں نے مثنی بن الصباح کی سند سے حدیث: ’’کان إذا جاء جبرئیل…‘‘ بیان کی اور پھر فرمایا: ’’هذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاه‘‘ حافظ ذہبی رحمه الله اس کی تلخیص اور ان کے تعاقب میں رقمطراز ہیں ’’صحیح، قلت: مثنی، قال النسائي: متروک‘‘ [ المستدرک: ۱/ ۲۳۱ ]

دوسری جگہ فرمایا: ’’قلت: لا‘‘ [ المستدرک: ۲/ ٦۱۱ ]

(②) امام حاکم رحمه الله نے حضرت ابوہریرۃ رضی الله عنہ کی حدیث ’’أکمل المؤمنین إیماناً…‘‘ بدونِ تبصرہ بیان کی تو حافظ ذہبی رحمه الله نے فرمایا: ’’قلت: لم یتکلم علیه المؤلف وھو صحیح‘‘

’’میں کہتا ہوں: مؤلف نے اس حدیث پر حکم نہیں لگایا حالانکہ یہ روایت صحیح ہے۔‘‘

[ المستدرک: ۱/ ۳ ]

(③) المستدرک میں ذکر کردہ حدیث شرطِ شیخین یا صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی شرط پر نہیں ہوتی یعنی وہ حدیث یا راوی ان کتب میں موجود ہوتا ہے۔ گویا وہ المستدرک کی شرط پر نہیں۔ امام حاکم رحمه الله نے حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث ’’افترقت الیھود…‘‘ بیان کی اور فرمایا:

’’مسلم نے محمد بن عمرو، عن ابی سلمہ، عن أبی ہریرہ سے احتجاجاً روایت لی ہے۔ بخاری و مسلم فضل بن موسیٰ سے احتجاجاً روایت لینے میں متفق ہیں اور فضل ثقہ ہیں۔‘‘

حافظ ذہبی رحمه الله ان کی تردید میں فرماتے ہیں:

’’قلت: ما احتج (م) بمحمد بن عمرو منفرداً بل بانضمامه إلی غیره‘‘

’’میں کہتا ہوں: مسلم نے محمد بن عمرو کی انفرادی روایت بطورِ دلیل نہیں لی بلکہ متابع کے طور پر ذکر کی ہے۔‘‘ [ المستدرک: ۱/٦ ]

اس قسم کی دوسری مثال یہ ہے کہ امام حاکم رحمه الله نے حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث: ’’الجرس مزمار الشیطان‘‘ ذکر کی اور فرمایا: ’’هذا حدیث صحیح علی شرطِ مسلم ولم یخرجاه‘‘

حافظ ذہبی رحمه الله لکھتے ہیں: ’’قلت خرجه مسلم بھذا السند‘‘[ المستدرک: ۱/ ٤٤۵ ]

یہ حدیث صحیح مسلم (۲۱۱٤) میں ہے۔ مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ المستدرک میں مزمار کا لفظ ہے اور صحیح مسلم میں مزامیر (مزمار کی جمع) کے الفاظ ہیں۔

بسا اوقات امام حاکم رحمه الله المستدرک میں حدیث ذکر کرنے کے بعد اعتراف بھی کرتے ہیں کہ شیخین نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ وہ حضرت انس رضی الله عنہ کی حدیث: ’’کان آخر وصیۃ…‘‘ کے بعد فرماتے ہیں: ’’وقد اتفقا علی إخراج هذا الحدیث وعلی إخراج حدیث عائشۃ: آخر کلمۃ تکلم بھا: الرفیق الأعلیٰ‘‘

’’امام بخاری اور امام مسلم رحمه الله نے حضرت انس رضی الله عنہ کی اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث ’’آخر کلمۃ…‘‘ بھی بیان کی ہے۔‘‘ [ المستدرک: ۳/ ۵۷ ]

حافظ ذہبی رحمه الله فرماتے ہیں: ’’فلماذا أوردتہ!‘‘

’’پھر آپ کو اسے المستدرک میں ذکر کرنے کا فائدہ کیاہے؟‘

امام حاکم کا حضرت انس رضی الله عنہ کی حدیث کاانتساب صحیح بخاری اور مسلم کی طرف کرنا محلِ نظر ہے کیونکہ یہ روایت سنن النسائی اور سنن ابن ماجہ میں ہے۔ علامہ مزی رحمه الله نے بھی اس حدیث کو ان دونوں کتب کی طرف منسوب کیا ہے۔ [ تحفۃ الأشراف للمزي: ۱/ ۳۱۹، حدیث: ۱۲۲۹ ]

یہ روایت صحیح ابن حبان میں بھی موجود ہے جیسا کہ حافظ ہیثمی رحمه الله نے موارد الظماٰن [ ص: ۲۹۸، حدیث: ۱۲۲۰ ] میں ذکر کی ہے۔ معلوم شدکہ موارد الظمان زوائد علی الصحیحین ہے۔ یعنی اس میں صحیح ابن حبان کی ایسی روایات ہیں جو بخاری و مسلم میں نہیں۔ چنانچہ حافظ ہیثمی رحمه الله مقدمہ کتاب میں فرماتے ہیں:

’’فقد رأیت أن أفرد زوائد صحیح أبي حاتم محمد بن حبان البستي علی صحیح البخاري و مسلم‘‘ [ مقدمہ موارد الظمان، ص: ۲۸ ]

یہ مضبوط دلیل ہے کہ حضرت انس رضی الله عنہ کی حدیث بخاری و مسلم میں نہیں۔ امام حاکم رحمه الله کا اسے ان کتب کی طرف منسوب کرنا قابلِ غور ہے۔ حافظ ذہبی رحمه الله کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اس انداز سے امام حاکم رحمه الله کا تعاقب کرتے۔

تنبیہ (۱):

حافظ ابن حجر رحمه الله نے إتحاف المھرۃ [ ۲/ ۲۴۹ رقم:۱٦۴۳ ] میں اسے صحیح ابن حبان اور مسند احمد کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور المستدرک کا حوالہ ان سے رہ گیا ہے۔ حالانکہ یہ کتاب کی شرط پر ہے۔ فلیستدرک علیہ!

تنبیہ (۲):

المستدرک کی سند میں سلیمان التیمی اور انس بن مالک کے مابین قتادہ کا واسطہ ساقط ہے۔ جیسا کہ حدیث کے دیگر مراجع سے معلوم ہوتا ہے۔

(❸) تیسری قسم: تلخیص میں حاکم رحمه الله کے کلام کا حذف:

بسا اوقات امام حاکم کسی حدیث پر حکم لگاتے ہیں مگر وہ تلخیص میں موجود نہیں ہوتا۔

حافظ حاکم رحمه الله فرماتے ہیں:

’’هذا حدیث لم یخرج في الصحیحین وقد احتج مسلم بأحادیث القعقاع بن حکیم عن أبی صالح‘‘ [ المستدرک: ۱/۵ ]

مگر یہ کلام یا اس کا خلاصہ تلخیص میں مذکور نہیں۔ نہ معلوم یہ طباعتی غلطی ہے یا نسخوں کا اختلاف ہے یا حافظ ذہبی رحمه الله نے اسے حذف کر دیا ہے۔

(❹) چوتھی قسم: احادیث کا حذف:

ایسا بھی ممکن ہے کہ المستدرک والی حدیث التلخیص میں موجود نہ ہو۔ یہاں اس احتمال کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ حافظ ذہبی رحمه الله تکرار کی بنا پر اسے حذف کر دیتے ہوں یا شدید ضعف کی بنا پر اسے ساقط کر دیتے ہوں۔ مگر یہ دوسرا احتمال محلِ نظر ہے کیونکہ انھوں نے انتہائی منکرروایات بھی التلخیص میں ذکر کی ہیں۔ اور حافظ حاکم رحمه الله پر خفگی کا اظہار کیا ہے۔

حافظ حاکم رحمه الله نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث ’’مابعث رسول اللّٰه…‘‘ کو صحیح کہا ہے مگر حافظ ذہبی رحمه الله انتہائی غصیلے انداز میں لکھتے ہیں:

’’یہ روایت صحیح ہے۔‘‘ میں (ذہبی رحمه الله ) کہتا ہوں: سہل (بن عمار العتکی) کو حاکم رحمه الله نے تاریخ میں کذاب قرار دیا ہے اور یہاں اس کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔ کیا یہی دین داری ہے؟‘‘ [ المستدرک: ۳/ ۲۱۵ ]

دوسرے مقام پر یوں اظہارِ برہمی کیا:

’’میں کہتا ہوں: کیا مؤلف (حاکم رحمه الله ) کو اس خود ساختہ حدیث کے بیان کرنے میں حیا مانع نہیں؟ میں الله تعالیٰ کو گواہ بنا کر، اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ حدیث جھوٹ ہے۔ ‘‘ [ المستدرک:۱/ ۲۳٤ ]

تلخیص کی تیسری اور چوتھی قسم مشکوک ہے۔ جس کی ضروری تفصیل ابھی گزری ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ المستدرک اور اس کی تلخیص میں متعدد سقطات اور اغلاط موجود ہیں:

(①) المستدرک (۳/ ۳۵۳۔ ۳۵٤) کی پانچ احادیث تلخیص میں نہیں۔
(②) تلخیص المستدرک (۱/ ۲۰٤) میں ’’شعبۃ عن أبي بشر، سمعت أبا الملیح، عن عبد اللّٰہ بن عتبۃ، عن أم حبیبۃ أن رسول اللّه کان إذا سمع المؤذن قال: وأنا وأنا‘‘ ہے۔

گویا یہ سند اس متن کی نہیں۔ ملاحظہ ہو: المستدرک

(③) تلخیص المستدرک (۲/ ۱٦٦) میں ہے:

’’معتمر ثنا محمد بن عمرو، عن أبي سلمۃ، عن أبي هریرۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’تستأمر الیتیمۃ في نفسھا، فإن أبت فلاجواز علیھا‘‘

مگر یہ سند اور متن المستدرک میں نہیں ہے۔

(④) مستدرکِ حاکم (۳/ ۱۸۵۔ ۱۸٦) میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی مرفوع حدیث: ’’سیدات نساء أھل الجنۃ‘‘ پر کوئی حکم مذکور نہیں مگر تلخیص میں (خ۔م) موجود ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطبعی غلطی ہے۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top