کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
نزول وحی کے بارے میں اعتراض کا جواب در کار ہے
=======
تحریر: عادل سہیل ظفر
صحیح بخاری میں روایت شدہ، ابتدائے وحی کے بیان میں ورقہ بن نوفل کے پاس جانے والے واقعہ پر اعتراض کا جائزہ
چند ہی روز پہلے میں نے صحیح بخاری کی وہ روایت جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر وحی کے نزول کی ابتداء کا واقعہ بیان ہوا ہے، وحی کے نزول کی ابتداء کے واقعہ کی روایات صحیح بخاری میں تین مختلف کتب کے ابواب میں مروی ہے ، جن میں سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ، کتاب التعبیر کے پہلے بات والی روایت کے ایک اضافی حصے کی بنا پر اس واقعے کو مشکوک بنایا جاتا ہے اور اس پر اور پھر اسے بنیاد بنا کر صحیح بخاری اور دیگر کتب احادیث پر اعتراضات کیے جاتے ہیں ،اُس روایت کے بارے میں پائے جانے والے شک ، اور اس شک کی بنا پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب بعنوان
’’صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافی حصے کی تحقیق ‘‘
پیش کیا تھا ،اُس کی تفصیل وہاں پڑھی جا سکتی ہے ، اس جواب کے بعد بھتیجے عبداللہ حیدر کی طرف سے یہ خبر کی گئی کہ کچھ لوگ اِس روایت پر اس لیے بھی اعتراض کرتے ہیں ، اور اس لیے بھی اس کا انکار کرتے ہیں کہ اس روایت میں نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ورقہ بن نوفل کے پاس جا کر اس سے کچھ دریافت کرنا سُورت یونس کی آیت رقم 94 کے خلاف ہے ، لہذا یہ واقعہ سچا نہیں ،
میں اس خلافء قران ، قران فہمی پر مبنی اعتراض کے جواب میں یہ کہتا ہوں کہ ،،
صحیح بخاری شریف میں وحی کی ابتداء کے بارے میں بیان کردہ واقعہ بالکل درست ہے ، اور اس میں کچھ بھی خلاف قران نہیں ہے ،
اس واقعہ میں بیان کردہ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے فوراً بعد اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں ،
اور اللہ تبارک و تعالی پر توکل کرتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں یا اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ،
وہ لوگ سورت یُونس کی آیت رقم 94 کو اپنی نا سمجھی کی دلیل بناتے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ ،،،
سورت یُونس (10) کی یہ آیت رقم 94
اُن لوگوں کے اعتراض کے لیے کوئی دلیل نہیں بنتی،
سب سے پہلی بات تو یہ جو کہ اِن شاء اللہ اعتراض کرنے والوں کے اعتراض کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُس عجیب اور اجنبی واقعہ کے بارے میں جاننے کے لیے ، ورقہ بن نوفل کے پاس لے جایا جانا سورت یونس کی اس آیت مبارکہ سے بہت پہلے کا واقعہ ہے ، جو کسی بھی طور اس آیت مبارکہ کے منافی نہیں سمجھا جا سکتا ہے ،
کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اُس وقت انہیں وحی کے نزول کے بارے میں علم نہ تھا ، وہ معاملہ ان کے لیے بالکل نیا اور نا معلوم تھا ، اس لیے عام معمول کے مطابق ان کی بیگم محترمہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا انہیں ایسے شخص کے پاس لے کر گئیں جو اس قسم کے معاملات کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا ،
پس اس واقعہ میں سورت یونس کی آیت مبارکہ کی کوئی مخالفت نہیں ، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد ، یا اس سے پہلے ہی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ان کے رسول ہونے کا ، اور اللہ کی طرف سے ان پر وحی نازل ہونے کا علم ہو گیا ، تو کیا اُس کے بعد وہ کسی وحی کی تصدیق کے لیے کسی کافر یا کسی بھی اور شخص کے پاس گئے؟؟؟
یا کسی شخص سے اس کی تصدیق کروانے کی کوئی کوشش فرمائی؟؟؟
ہر گز نہیں ، پس سورت یونس کی اس آیت مبارکہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے جائے جانے اور وحی کے نزول کے واقعے کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش والے واقعہ سے کچھ اختلاف نہیں،
سُورت یونس کی آیت رقم 94 کی علماء کرام نے تین تفاسیر پیش کی ہیں ، جن میں سے سب سے پہلی اور درست یہ ہے کہ :
اس آیت مبارکہ میں
میں مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہیں ہیں ، بلکہ اُن کی اُمت اور قران کریم کا ہر قاری اور سامع ہے،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے
اور فرمایا ہے
کیا اِن دو آیات مبارکہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ معاذ اللہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کافروں اور منافقوں کی اطاعت کرتے تھے؟؟؟
یا معاذ اللہ اُن کی طرف سے یہ اندیشہ تھا کہ وہ کافروں اور منافقوں کی تابع فرمانی کرتے؟؟؟
قطعا نہیں ، اس آیت مبارکہ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خطاب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کیا گیا ہے اور مُراد دیگر لوگ ہیں،
کیا اِس آیت مبارکہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ معاذ اللہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ وہ شرک کریں گے؟؟؟
قطعا نہیں ، پس اس آیت مبارکہ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خطاب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کیا گیا ہے اور مُراد دیگر لوگ ہیں،
اور یہی معاملہ ہے سُورت یونس کی آیت رقم 94 کا،
اسی سُورت یونس میں ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ حکم دِیا ہے کہ
اس آیت مبارکہ میں خود اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے ہی یہ واضح فرما دیا گیا ہے نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُن کی طرف نازل ہونے والی وحی کے بارے میں کوئی ادنیٰ سا بھی شک نہیں رکھتے تھے ، پس یہ بھی ثابت ہوا کہ سورت یونس کی آیت رقم 94 میں
میں مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہیں ہیں ، بلکہ اُن کی اُمت اور قران کریم کا ہر قاری اور سامع ہے ،
اِن شاء اللہ یہ معلومات آپ کے سامنے لائے جانے والے شک کو دُور کرنے کے لیے کافی و شافی ہوں گی،
و الحمد للہ الذی لا تتم الصالحات الا بعونہ ،
والسلام علیکم۔
تحریر: عادل سہیل ظفر (جدہ)
=======
تحریر: عادل سہیل ظفر
صحیح بخاری میں، ابتدائے وحی کے بیان میں ورقہ بن نوفل والے واقعہ پر اعتراض کا جائزہ
صحیح بخاری میں روایت شدہ، ابتدائے وحی کے بیان میں ورقہ بن نوفل کے پاس جانے والے واقعہ پر اعتراض کا جائزہ
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی
بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی
چند ہی روز پہلے میں نے صحیح بخاری کی وہ روایت جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر وحی کے نزول کی ابتداء کا واقعہ بیان ہوا ہے، وحی کے نزول کی ابتداء کے واقعہ کی روایات صحیح بخاری میں تین مختلف کتب کے ابواب میں مروی ہے ، جن میں سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ، کتاب التعبیر کے پہلے بات والی روایت کے ایک اضافی حصے کی بنا پر اس واقعے کو مشکوک بنایا جاتا ہے اور اس پر اور پھر اسے بنیاد بنا کر صحیح بخاری اور دیگر کتب احادیث پر اعتراضات کیے جاتے ہیں ،اُس روایت کے بارے میں پائے جانے والے شک ، اور اس شک کی بنا پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب بعنوان
’’صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافی حصے کی تحقیق ‘‘
پیش کیا تھا ،اُس کی تفصیل وہاں پڑھی جا سکتی ہے ، اس جواب کے بعد بھتیجے عبداللہ حیدر کی طرف سے یہ خبر کی گئی کہ کچھ لوگ اِس روایت پر اس لیے بھی اعتراض کرتے ہیں ، اور اس لیے بھی اس کا انکار کرتے ہیں کہ اس روایت میں نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ورقہ بن نوفل کے پاس جا کر اس سے کچھ دریافت کرنا سُورت یونس کی آیت رقم 94 کے خلاف ہے ، لہذا یہ واقعہ سچا نہیں ،
میں اس خلافء قران ، قران فہمی پر مبنی اعتراض کے جواب میں یہ کہتا ہوں کہ ،،
صحیح بخاری شریف میں وحی کی ابتداء کے بارے میں بیان کردہ واقعہ بالکل درست ہے ، اور اس میں کچھ بھی خلاف قران نہیں ہے ،
اس واقعہ میں بیان کردہ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے فوراً بعد اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں ،
اور اللہ تبارک و تعالی پر توکل کرتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں یا اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ،
وہ لوگ سورت یُونس کی آیت رقم 94 کو اپنی نا سمجھی کی دلیل بناتے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ ،،،
سورت یُونس (10) کی یہ آیت رقم 94
فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
اور اگر تُم اُس کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے تُمہاری طرف اتاری ، تو تُم اُن لوگوں سے پوچھ لو جو تُم سے پہلے (والی آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں ، یقیناً تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے حق آیا ہے لہذا تُم شک کرنے والوں میں سے مت بنو
اور اگر تُم اُس کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے تُمہاری طرف اتاری ، تو تُم اُن لوگوں سے پوچھ لو جو تُم سے پہلے (والی آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں ، یقیناً تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے حق آیا ہے لہذا تُم شک کرنے والوں میں سے مت بنو
اُن لوگوں کے اعتراض کے لیے کوئی دلیل نہیں بنتی،
سب سے پہلی بات تو یہ جو کہ اِن شاء اللہ اعتراض کرنے والوں کے اعتراض کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُس عجیب اور اجنبی واقعہ کے بارے میں جاننے کے لیے ، ورقہ بن نوفل کے پاس لے جایا جانا سورت یونس کی اس آیت مبارکہ سے بہت پہلے کا واقعہ ہے ، جو کسی بھی طور اس آیت مبارکہ کے منافی نہیں سمجھا جا سکتا ہے ،
کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اُس وقت انہیں وحی کے نزول کے بارے میں علم نہ تھا ، وہ معاملہ ان کے لیے بالکل نیا اور نا معلوم تھا ، اس لیے عام معمول کے مطابق ان کی بیگم محترمہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا انہیں ایسے شخص کے پاس لے کر گئیں جو اس قسم کے معاملات کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا ،
پس اس واقعہ میں سورت یونس کی آیت مبارکہ کی کوئی مخالفت نہیں ، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد ، یا اس سے پہلے ہی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ان کے رسول ہونے کا ، اور اللہ کی طرف سے ان پر وحی نازل ہونے کا علم ہو گیا ، تو کیا اُس کے بعد وہ کسی وحی کی تصدیق کے لیے کسی کافر یا کسی بھی اور شخص کے پاس گئے؟؟؟
یا کسی شخص سے اس کی تصدیق کروانے کی کوئی کوشش فرمائی؟؟؟
ہر گز نہیں ، پس سورت یونس کی اس آیت مبارکہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے جائے جانے اور وحی کے نزول کے واقعے کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش والے واقعہ سے کچھ اختلاف نہیں،
سُورت یونس کی آیت رقم 94 کی علماء کرام نے تین تفاسیر پیش کی ہیں ، جن میں سے سب سے پہلی اور درست یہ ہے کہ :
اس آیت مبارکہ میں
فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ
اور اگر تُم اُس کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے تُمہاری طرف اتاری ،
اور اگر تُم اُس کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے تُمہاری طرف اتاری ،
میں مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہیں ہیں ، بلکہ اُن کی اُمت اور قران کریم کا ہر قاری اور سامع ہے،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اے نبی ، اللہ (کی ناراضگی اور عذاب) سے بچییے ، اور کافروں اور منافقوں کی تابع فرمانی مت کیجیے (گا) ، بے شک اللہ بہت زیادہ علم رکھتا ہے اور حِکمت والا ہے
سُورت الاحزاب 33 / آیت 1
اے نبی ، اللہ (کی ناراضگی اور عذاب) سے بچییے ، اور کافروں اور منافقوں کی تابع فرمانی مت کیجیے (گا) ، بے شک اللہ بہت زیادہ علم رکھتا ہے اور حِکمت والا ہے
سُورت الاحزاب 33 / آیت 1
اور فرمایا ہے
وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا
اور (اے نبی) آپ کافروں اور منافقوں کی تابع فرمانی مت کیجیے (گا)، اور ان لوگوں کی طرف سے تکلیف دینے کی کوئی پرواہ مت کیجیے اور اللہ پر توکل کیجیے اور اللہ کا (ہی) کارساز ہونا کافی ہے
سُورت الاحزاب33/ آیت 48
اور (اے نبی) آپ کافروں اور منافقوں کی تابع فرمانی مت کیجیے (گا)، اور ان لوگوں کی طرف سے تکلیف دینے کی کوئی پرواہ مت کیجیے اور اللہ پر توکل کیجیے اور اللہ کا (ہی) کارساز ہونا کافی ہے
سُورت الاحزاب33/ آیت 48
کیا اِن دو آیات مبارکہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ معاذ اللہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کافروں اور منافقوں کی اطاعت کرتے تھے؟؟؟
یا معاذ اللہ اُن کی طرف سے یہ اندیشہ تھا کہ وہ کافروں اور منافقوں کی تابع فرمانی کرتے؟؟؟
قطعا نہیں ، اس آیت مبارکہ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خطاب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کیا گیا ہے اور مُراد دیگر لوگ ہیں،
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
یقیناً (اے نبی) آپ کی طرف اور جو (نبی اور رسول) آپ سے پہلے ہو گذرے اُن کی طرف یہ وحی کیا گیا کہ اگر تُم نے شرک کیا تو تُمہارے سارے ہی عمل غارت ہو جائیں گے اور تُم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤ گے
سُورت الزُمر39/ آیت 65
یقیناً (اے نبی) آپ کی طرف اور جو (نبی اور رسول) آپ سے پہلے ہو گذرے اُن کی طرف یہ وحی کیا گیا کہ اگر تُم نے شرک کیا تو تُمہارے سارے ہی عمل غارت ہو جائیں گے اور تُم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤ گے
سُورت الزُمر39/ آیت 65
کیا اِس آیت مبارکہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ معاذ اللہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ وہ شرک کریں گے؟؟؟
قطعا نہیں ، پس اس آیت مبارکہ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خطاب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کیا گیا ہے اور مُراد دیگر لوگ ہیں،
اور یہی معاملہ ہے سُورت یونس کی آیت رقم 94 کا،
اسی سُورت یونس میں ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ حکم دِیا ہے کہ
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اے (نبی) فرما دیجیے کہ اے لوگو اگر تُم میرے دِین کے بارے میں شک کرتے ہو تو (مجھے اِس میں کوئی شک نہیں لہذا) میں اُن کی عبادت نہیں کرتا (اور نہ ہی کروں گا) جن کی اللہ کے علاوہ تُم لوگ عبادت کرتے ہو،لیکن میں تو اللہ کی عبادت کرتا ہوں (اور کروں گا) جو تُم لوگوں کو موت دیتا ہے اور مجھے (یہی) حکم دیا گیا ہے کہ میں اِیمان والوں میں سے ہو رہوں
سُورت یُونس10 آیت 104
اے (نبی) فرما دیجیے کہ اے لوگو اگر تُم میرے دِین کے بارے میں شک کرتے ہو تو (مجھے اِس میں کوئی شک نہیں لہذا) میں اُن کی عبادت نہیں کرتا (اور نہ ہی کروں گا) جن کی اللہ کے علاوہ تُم لوگ عبادت کرتے ہو،لیکن میں تو اللہ کی عبادت کرتا ہوں (اور کروں گا) جو تُم لوگوں کو موت دیتا ہے اور مجھے (یہی) حکم دیا گیا ہے کہ میں اِیمان والوں میں سے ہو رہوں
سُورت یُونس10 آیت 104
اس آیت مبارکہ میں خود اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے ہی یہ واضح فرما دیا گیا ہے نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُن کی طرف نازل ہونے والی وحی کے بارے میں کوئی ادنیٰ سا بھی شک نہیں رکھتے تھے ، پس یہ بھی ثابت ہوا کہ سورت یونس کی آیت رقم 94 میں
فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ
اور اگر تُم اُس کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے تُمہاری طرف اتاری
اور اگر تُم اُس کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے تُمہاری طرف اتاری
میں مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہیں ہیں ، بلکہ اُن کی اُمت اور قران کریم کا ہر قاری اور سامع ہے ،
اِن شاء اللہ یہ معلومات آپ کے سامنے لائے جانے والے شک کو دُور کرنے کے لیے کافی و شافی ہوں گی،
و الحمد للہ الذی لا تتم الصالحات الا بعونہ ،
والسلام علیکم۔
تحریر: عادل سہیل ظفر (جدہ)